اسلامی احکامات میں ” قیاس“ کا کردار

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اسلامی احکامات میں ” قیاس“ کا کردار!!
مولانا عبدالوہاب ، ازبکستان
اسلام ایک جامع اور مکمل ضابطۂِ حیات ہے، تمام مسائل زندگی اس کی تعلیمات کے احاطے میں ہیں۔زندگی کے کسی موڑ پر اسلام انسان کو تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ اس کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔
البتہ احکام اسلام دو طرح کے ہیں:
1: منصوص ) جن کا صریح حل قرآن وسنت میں موجود ہے۔(
2 : غیر منصوص)جن کا صریح حل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔(
اس دوسری قسم کے مسائل کاحل معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کا اصول دیا گیاہے۔ قیاس ان مصادر میں سے ایک ہے جن کے ذریعے غیر منصوص مسائل کاحل نکالاجاتاہے۔
قیاس کی تعریف:
قیاس لغت میں ”تقدیر“ یعنی اندازہ لگانے کوکہتے ہیں۔ عربی زبان میں کہاجاتاہے:قست الثوب بالزراع، یعنی میں نےکپڑے کومیٹر سے ناپا۔
اصطلاح میں قیاس سے مراد ہےاشتراک علت کی بناء پرحکم منصوص کوغیر منصوص میں جاری کرنا۔ یاقرآن وسنت میں صراحت سے بیان کیے ہوئے حکم کوایسی چیز میں جاری کرنا جس کاحکم صراحتاً مذکور نہیں۔ اس بناء پر کہ قرآن وسنت میں بیان کیے ہوئے حکم کی علت اس چیز میں بھی پائی جاتی ہے۔
مزید وضاحت کیلیے قرآن وحدیث میں سے چند مثالوں کامطالعہ کیاجائے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
(سورۃ المائدہ آیت نمبر90)
ترجمہ: اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بتوں کے تھان اورجوئے کے تیر (یہ سب )ناپاک کام شیطانی اعمال ہیں پس ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔
اس آیت کی رو سے شراب حرام ہے۔ اس کی حرمت کی علت نشہ پیدا کرناہے۔لہٰذایہ علت جس میں بھی پائی جائےگی اس پرشراب کاحکم نافذہوگا اور وہ حرام ہے۔
حدیث مبارک: جامع ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک حدیث شریف میں ہے:
من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه۔
(جامع الترمذی رقم حدیث 1291)
ترجمہ : جو شخص خوراک خریدے اور وہ اس کواس وقت تک نہ بیچے، جب تک کہ وصول نہ کرلے۔
اس حدیث معلوم ہوا کہ غلہ خرید کرقبضہ سے پہلے اس کو آگے بیچنا جائز نہیں ہے۔ اس کی علت یہ ہے کہ خریدا ہوا غلہ بھی قبضہ کے ذریعے خریدار کے قبضہ اور تصرف میں نہیں آیا۔ اگر غلہ کے علاوہ کوئی اور چیز خریدی گئی ہو اوراس پر خریدار کا قبضہ نہ ہواہو تو خریدار کے قبضہ میں داخل نہ ہونے والی علت اس میں بھی موجود ہے۔ لہذاغلہ کے علاوہ دیگر اشیاء کاحکم بھی یہی ہوناچاہیے کہ خریدنے کے بعد جب تک ان کو وصول نہ کیاجائے، آگے بیچناجائزنہیں ہے۔ چنانچہ کہاجائےگا کہ غلہ کے علاوہ دیگر اشیاء کا یہ حکم حدیث میں مذکورہ طعام کے حکم پرقیاس فرمانے کے بعد یہ جملہ ارشاد فرمایا کرتےتھے،
وأحسب كل شيء مثله۔
(جامع الترمذی رقم حدیث 1291)
میری رائے میں ہرچیز کا حکم طعام کی طرح ہے۔
”قیاس“ قرآن کریم کی روشنی میں :
قرآن کریم میں ہے: فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ۔ تواے دانشمندوا! عبرت حاصل کرو۔اس آیت میں ”اعتبار“ کاحکم ہے مفسرین نے ”اعتبار“ کی تفسیر اس طرح کی ہے:
رد الشيء إلى نظيره بأن يحكم عليه بحكمه۔
(روح المعانی ج 28 ص 42، اصول السرخسی ج 2 ص 125)
یعنی چیز کو اس کی نظیر (مثال) کی طرف لوٹانا تاکہ نظیر کاحکم اس چیز پربھی جاری کیاجاسکے۔ قیاس کی حقیقت بھی یہی ہے ، لہٰذا قرآن کریم کے اس ”اعتبار“ کے حکم میں قیاس بھی شامل ہے۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں قیاس کےبل بوتے احکام کو ظاہر کیا گیاہے۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (المتوفیٰ 751ھ) لکھتے ہیں: اس قسم کی آیات جن میں قرآن کریم قیاس کے طریقے سے دلیل پیش کررہاہے، چالیس سے زیادہ ہیں۔
(اعلام الموقعین ج 1 ص 130)
مثال کے طورپر إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ یقیناً اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی طرح ہے۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیداہونے کو حضرت آدم علیہ السلام کے بغیر ماں باپ پیداہونے پر قیاس کیاگیاہے اور بھی کئی مثالیں موجودہیں۔
”قیاس“ احادیث کی روشنی میں:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ فَمَاتَتْ قَبْلَ أَنْ تَحُجَّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا کہ میری والدہ نے حج کی نذر (منت) مانی تھی اور اب ان کا انتقال ہوگیاہے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ قَالَآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ قَاضِيَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ فَقَالَ اقْضُوا اللّهَ الَّذِي لَهُ فَإِنَّ اللّهَ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ۔
(بخاری شریف رقم حدیث 7315)
ہاں! تم والدہ کی طرف سے حج کرسکتی ہو۔ بھلایہ بتاؤ کہ اگرتمہاری والدہ پرقرض ہوتاتو کیاتم اداکرتی؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: توپھر اللہ کا قرض بھی اداکرو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ادائیگی کے زیادہ حقدارہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیاکہ اس کی بیوی نےایک سیاہ رنگ کے بچےکو جنم دیاہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ان کےرنگ کون کون سے ہیں؟ عرض کیا: سرخ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ان اونٹوں میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے وہ کہاں سے آ گیا؟اس نے جواب دیا کہ ممکن ہے وہ کسی رگ کے فساد کی وجہ سے ایساہوگیاہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: وہی رگ کافساد یہاں بھی پایاجاسکتاہے۔
(عمدۃ الاحکام ج 1 ص 118)
اس روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوزائیدہ بچے کے سیاہ رنگ کو اونٹ کے خاکستری ہونے پرقیاس فرمایا اور یوں صحابی کو سمجھادیا کہ وہ اپنی بیوی پر بدگمانی مت کرے۔
مندرجہ بالا روایات اس بات کی طرف واضح طورپر نشاندہی کررہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی مبارک میں خود قیاس فرماکر امت کے مجتہدین کے لیے قیاس سے کام لینے کی اجازت عطافرمائی ہے۔
”قیاس “اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں:
یہ بات محتاج ثبوت نہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسائل میں قیاس فرماتےتھے اور ان کا قیاس کرنا انتہائی مشہورہے۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بے شمار مسائل میں قیاس کیا۔ کسی صحابی سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے قیاس کرنے پر اعتراض کیاہویااس کی تردید کی ہو۔ اس سے ثابت ہواکہ قیاس کے شرعی دلیل ہونے پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کااجماع ہے۔
قیاس اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ :
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے سورہ نساء کی آیت میں جو کلالہ کا ذکر ہے اس کے بارے میں سوال کیاگیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: میں اپنے قیاس سے اس کے بارے میں بتاتا ہوں کہ کلالہ سے اولاد، باپ اور دادے کے علاوہ رشتہ دار مرادہیں۔
(اعلام الموقعین ج 1 ص 204)
قیاس اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ قاضی شریح کوہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: تم اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلےکرو۔ اگر اللہ کی کتاب کاہرپہلو تمہارے علم میں نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق فیصلے کرو۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فیصلے تمہارے علم میں نہ ہوں توہدایت یافتہ ائمہ کے جو فیصلے تمہارے علم میں ہوں ان کےمطابق فیصلے کرو اور اگر ائمہ کرام کےتمام فیصلے بھی تمہارے علم میں نہ ہوں تومسئلہ کےنظائر ڈھونڈو اور قیاس کرو۔
(اعلام الموقعین ج 1 ص 204)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں شراب پینے کی سزا کے بارے میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ قیاس کی روشنی میں یہ مشورہ دیاکہ شراب پینے کی سزا 80 دُرِّے )کوڑے (مقرر کیے جائیں۔
ان چندمثالوں کے علاوہ بے شمارمسائل ایسے ہیں جن میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قیاس کرکے مسئلہ بتایا۔ مثلاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کونماز کی امامت پرقیاس کی اور کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوہمارے دین یعنی ہماری نماز کی امامت کے لیے پسند فرمایا توکیا ہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پانی دنیا کےلیے پسند نہ کریں۔ اسی طرح ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف قتال کرتےوقت زکوٰۃ کو صلوٰۃ پر قیاس کیا۔
”قیاس“ عقلی دلائل کی روشنی میں:
قیاس انسان کی ایک فطرت ہے۔ کوئی فطرت سلیمہ رکھنے والا عقلمند شخص قیاس کاانکار نہیں کرسکتاہے۔ روزمرہ کے بے شمار واقعات ہیں ہرانسان ایک واقعہ کودیکھ کر اس سے ملتے جلتے واقعات کاحکم سیکھتاہے۔ حتی کہ بچے تک قیاس سے واقف ہیں۔ مثلاً کلاس میں استاد صاحب ایک بچے کوکسی غلطی پر ڈانٹتے ہیں تو اس کودیکھ کر دوسرے بچے بھی سنبھل جاتے ہیں کہ یہی غلطی ہم سے ہوئی تو ہمیں بھی ڈانٹ پڑےگی۔ یہ قیاس نہیں تو اورکیاہے؟
اس سے معلوم ہواکہ قیاس ایک فطری چیزہے۔ زندگی میں پیش آنے والے بے شمار مسائل ایسے ہیں جن کا حکم فقہائے امت نے قیاس کے ذریعے معلوم کیا ہے اور ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔ اگرقیاس کوبطور دلیل شرعی تسلیم نہ کیاجائے توان مسائل میں عمل کرنے کی کوئی صورت نہیں۔ کیونکہ ان مسائل کاحکم قرآن وسنت میں مذکور نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہواکہ قیاس کاانکار کرنے سےدین میں تعطل پیدا ہوتاہے۔ یہ مسلمہ بات ہے کہ دین ایک کامل ضابطہ حیات ہے۔
یہ بھی معلوم ہے کہ تمام مسائل کا حکم صراحتاً قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے۔ اب یہ بات کہ دین کامل ضابطۂ حیات ہے۔ اسی وقت درست ہوسکتی ہے جبکہ قیاس سے مسائل کاحکم معلوم کرنے کوتسلیم کرلیاجائے۔ ورنہ جن مسائل کاحکم قرآن وسنت میں صراحتاً مذکورنہیں اورقیاس کے ذریعے ان کا حکم معلوم کرنابھی درست نہ ہو توان مسائل کے سلسلے میں دین کی کوئی رہمنائی نہ رہے گی اور پھر اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات کیونکر رہ سکےگا۔
ضروری بات :
دین کے مسائل میں قیاس کرنے کی ہرشخص کو اجازت نہیں دی جاسکتی ، اس کے لیے بھی اہلیت کا ہونا ضروری ہے۔ اور وہ اہلیت قرآن و سنت اور تاریخ اسلامی پر مضبوط دسترس کا نام ہے۔ ورنہ ہر ایرا غیرا اگر دین کے مسائل میں قیاس شروع کردے تو دین کا حلیہ ہی بگڑ کر رہ جائے۔ اس اہلیت کے اہل درحقیقت حضرات مجتہدین ہیں۔ یعنی مجتہد کا قیاس دلیل شرعی ہے۔ ہر عام آدمی کا نہیں۔