درود شریف؛ اہمیت اور مسائل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مجلس الشیخ:
درود شریف؛ اہمیت اور مسائل
ترتیب و عنوانات: مفتی شبیر احمد حنفی حفظہ اللہ
یکم مئی2015ء بروز جمعرات حضرت الشیخ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے خانقاہ اشرفیہ اختریہ مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا میں منعقدہ ماہانہ مجلسِ ذکر سے خطاب فرمایا، جس میں ’’درود شریف؛ اہمیت اور مسائل‘‘ کے عنوان پر پُر اثرگفتگو فرمائی۔افادہ عام کے لیے پیش خدمت ہے۔
الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سئیات اعمالنا من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلاہادی لہ ونشہد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ ونشہد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ،امابعد فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
(سورۃ الاحزاب:56)
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم:
اللہ رب العزت کا بہت بڑا احسان یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاامتی ہونے کا شرف بخشا۔ ہم مسلمانوں کا نظریہ اورعقیدہ یہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ رب العزت کی ذات کے بعد سب سے بلند مقام اورمرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاہے۔ دنیا میں کوئی ذات جس قدر بڑی ہو اسی قدر اس کے حقوق بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ دوبھائی ہوں، ایک چھوٹا ایک بڑا تو عزت اور احترام کی وجہ سے چھوٹے بھائی پر بڑے کے حق ہوتے ہیں، ایک والد اور ایک بیٹا ہے تو اولاد پہ حق ہے اپنے والد کایااپنی ماں کا ان کی عزت اور احترام کسی وجہ سے، ایک شاگرد اورایک استادہے؛ استاد کےشاگرد کے ذمہ حقوق ہیں استاد کے ادب واحترام اور عزت کی وجہ سے۔ اسی طرح دنیا میں ہمارے جس قدر رشتے ہیں ان تمام رشتوں کی بنیاد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔
صلہ رحمی کو فروغ دیجیے!
ہمارے دنیا میں کچھ رشتے ایسے ہیں جو خون کے ہیں اور کچھ رشتے ایسے ہیں جو ایمان کے ہیں، خون کے رشتوں کی قیمت بھی انسان کو ذہن میں رکھنی چاہیے لیکن ایمان کے رشتوں کو قطعاً نہیں بھولنا چاہیے۔ ہمارے جو خونی رشتے ہیں ان کی قدر بھی کریں، احترام بھی کریں۔ خونی رشتوں کے باہمی احترام کانام ”صلہ رحمی“ ہے۔ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا، اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھنا اور صرف یہ نہیں کہ اگر رشتہ دارخیال رکھے توان کا خیال رکھنا بلکہ اگر رشتہ دار خیال نہ رکھے تو پھر بھی ان کا خیال رکھا جائے اسے کہتے ہیں ”صلہ رحمی“۔ ہمارےہاں عموماً ”صلہ رحمی“ کامطلب یہ سمجھا جاتاہے کہ جورشتہ دارہمارا خیال کرے ہم ان کا خیال کریں، اس کوشریعت کی زبان میں صلہ رحمی نہیں کہتے، اسے ”مکافات“ کہتے ہیں یعنی ”بدلہ“۔ کوئی ہمیں کھانابھیجےہم اسے بھیجیں، جوہمارےجانےپر کھڑاہوہم بھی اس کے آ نے پرکھڑے ہوجائیں، وہ ہمیں سلام کرے ہم اسے سلام کریں، یہ صلہ رحمی نہیں ہے۔ انسان تو اجنبیوں کے ساتھ بھی ایسے کرتاہے۔ ہمارا عموماً مزاج یہ ہے کہ اگربرابری کاکوئی بندہ ہماری عزت نہ کرے تو ہم اس کی عزت نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ جب وہ میری عزت نہیں کرتا تو میں کیوں کروں؟ اس نے مجھے نہیں بلایا تو میں کیوں بلاؤں؟ اس نے مجھے نہیں پوچھا تومیں کیوں پوچھوں؟ یہ صلہ رحمی اور انسانیت نہیں ہے۔ صلہ رحمی اورانسانیت کاتقاضا کیاہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:صِلْ مَنْ قَطَعَكِ
(مسند احمد: رقم الحدیث 17334)
جوتم سے تعلقات توڑے تم ان سے تعلقات جوڑو۔
یہ ہے صلہ رحمی۔ اگرایک بھائی نے دوسرے بھائی سے اچھا سلوک نہیں کیا تودوسرا اچھاسلوک کرے یہ ہے صلہ رحمی۔ اگر چچا بھتیجے سے اچھاتعلق قائم نہیں کرتا تو بھتیجا اس سے اچھاتعلق قائم کرے اس کانام ہے صلہ رحمی، ایک آدمی بیمارہے رشتہ دار اس کوپوچھنے کے لیے نہیں آتا، اگروہ بیمارہوجائے تویہ پوچھنے کےلیے جائے اس کانام ہے صلہ رحمی۔ اس لیے میں بتارہاتھا کہ ہمیں خونی رشتوں کی قدر کرنی چاہیے اورخونی رشتوں کااحترام بھی کرناچاہیے۔
خون سفید ہونے کا مطلب:
ہمارے ہاں عموماً لوگ ایک جملہ استعمال کرتے ہیں ”اوجی! اس دور میں لوگوں کاخون سفید ہوگیاہے“، خون کے سفید ہونے کامطلب یہ نہیں ہے کہ خون درحقیقت سفید ہوتا ہے بلکہ خون سرخ ہی رہتاہے لیکن وہ خون سرخی کے باوجود کام ایسے کرتاہے جیسے خون سفید ہوگیاہے۔آدمی کے جسم کاخون اگرسفید ہوجائے توپھر انسان زیادہ دیرتک زندہ نہیں رہتا۔ اس جملے کامطلب یہ ہےکہ ہمارے لیے اس کا خون سفید ہوگیاہے،جوا س کو ہمارے ساتھ تعلق رکھنا چاہیے تھا وہ نہیں رکھتا۔ دعا کریں اللہ ہمیں زیادہ سے زیادہ اپنے خونی رشتوں کونبھانے کی توفیق عطافرمائے۔
خونی رشتوں کی اہمیت زبانِ نبوت سے:
خونی رشتوں کی قدر اورعظمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے بلکہ اللہ کے نبی نے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگرکوئی آدمی اپنے رشتہ دار پر پیسہ خرچ کرتاہے تو اللہ اس کو دہرا اجر عطافرمائیں گے، ایک اجر اس کو صلہ رحمی اور رشتہ داری نبھانے کا ملے گا اور دوسرا اجر صدقہ اورخیرات کا ملےگا۔
یہ مسئلہ ذہن نشین فرمالیں کہ اگر ہمارے اپنے خاندان میں کوئی مستحق اورغریب موجودہے تو اس کاحق ہمارے ذمہ پہلے ہے اور دورو الے غریب کا حق بعد میں ہے۔ ہم عموماًاپنے غریب رشتہ دار کاخیال نہیں کرتے بلکہ باہر والےلوگوں کا خیال کرتے ہیں، باہر والےمدارس کاخیال بھی کرتے ہیں، مساجد میں چندے بھی دیتے ہیں۔ یاد رکھیں! اپنے رشتہ دار کاحق پہلےہےاوردوسرے رشتہ داروں کاحق بعد میں ہے، اپنوں کا حق پہلے ہے اور اجنبیوں کا حق بعدمیں ہے۔
جسمانی و ایمانی رشتے:
تو ایک رشتہ وہ ہے جوہمارے خون کی وجہ سے ہےاوردوسرا رشتہ ہمارا وہ ہے جوایمان کی وجہ سےہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المسلمون كرجل واحد إن اشتكى عينه اشتكى كله وإن اشتكى رأسه اشتكى كله۔
(صحیح مسلم: رقم الحدیث 2586)
تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، اگرآدمی کی آنکھ میں درد ہو توپورا جسم اس درد کومحسوس کرتاہے اور اگر آدمی کے سر میں درد ہو تو پورا جسم اس درد کومحسوس کرتاہے۔
درد آنکھ میں ہوتا ہے اور چلتاپاؤں ہے، درد آنکھ میں ہوتا ہے اوربولتی زبان ہے، درد آنکھ میں ہوتا ہے اورانجکشن اور ٹیکے کے درد کوبرداشت بازو کرتاہے، ایک آنکھ کے لیے سارے جسم کے اعضاء پریشان ہیں۔ تواگر انسان میں ایمان موجود ہو تودنیا کے کسی کونے میں ایک مسلمان کوتکلیف ہوتودوسرے کونے میں بسنے والے مسلمان کاتڑپنا یہ ایمان کی نشانی ہے۔ اللہ ہم سب کو یہ ایمانی رشتے عطافرمائے۔ ہم یہ ذہن نہ بنایاکریں کہ اگر طوفان فلاں شہر میں آیاہے توہم بچ گئے ہیں، ان کی گندم خراب ہوگی ہماری توٹھیک ہے، فلاں جگہ پر سیلاب آیا ہم تومحفوظ ہیں، یہ انسانیت اور ایمانی تقاضوں کے خلاف ہے۔
رشتوں کی بنیاد؛ ذات پیغمبر:
توہمارے ایمانی رشتے بھی ہیں اورجسمانی بھی ہیں اور ان سارے رشتوں کی بنیاد کون ہے؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ ہمیں سب کچھ اللہ کی ذات نے عطا کیا لیکن اس عطا کاسبب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بنی ہے۔ اللہ کی ذات کو ”رب العالمین“ کہتے ہیں جوپوری کائنات کی تربیت کرنےوالے ہیں اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو ”رحمۃ للعالمین“ کہتے ہیں، حضور پوری کائنات کے لیے رحمت ہیں۔ اب دیکھو لفظ ایک جیسے ہیں، ادھر بھی ”العالمین“ ہے ادھر بھی ”العالمین“ ہے، ادھر شروع میں ”رب“ ہے اورادھر شروع میں ”رحمۃ“ ہے، توپوری کائنات کے رب اللہ کی ذات ہے اورپوری کائنات کی رحمت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔
غیر مقلد کا حاجی صاحب پر اعتراض:
اس سے آپ ایک سوال کاجواب سمجھیں۔ آپ کے علم میں ہے کہ ہم اپنی اصلاحی اورذکر والی مجالس میں عقائد ونظریات کی طرف بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اس لیے کہ اگرعقیدے میں خلل آئے تو اعمال اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتےاور اگر عقیدہ ٹھیک ہوتوپھراعمال قبول ہوتے ہیں۔ مجھے ایک آدمی نے ریاض (سعودی عرب) سے فون کیا اور کہنےلگا: مولانا صاحب! میں تین ماہ سے سخت ٹینشن میں ہوں اوربڑی مشکل سے مجھے آپ کانمبر ملا ہے، ایک غیر مقلد نے میرے اوپر سوال کیاکہ تمہارے دیوبند کے سب سےبڑے پیر حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ ہیں اور حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ایک کتاب میں لکھاہے اور اللہ کے نبی سے درخواست کی ہے کہ”اے اللہ کے نبی! میرے اوپر رحم فرمائیے، یارسول اللہ! رحم کریں“ تودیکھو حاجی امداداللہ مہاجرمکی رحمۃ اللہ علیہ نے شرک والاجملہ لکھاہے،”رحم“ اللہ سے مانگتے ہیں اور تمہارے پیروں کے پیر سیدالطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے اللہ کے نبی سے رحمت مانگی ہے، توانہوں نے یہ جملہ لکھ کر شرک کیاہے۔ میں نے اسےجواب دیا،میں نےکہا کہ آپ خود جواب اچھی طرح سمجھیں اورپھر اس غیرمقلدکے سامنے اس جواب کوپیش کریں۔ غیرمقلد توسمجھتے ہیں نا، یہ اہل حدیث، جماعۃ الدعوہ، لشکر طیبہ،وغیرہ یہ سارا غیر مقلدین کا گروہ ہے۔
باطل سے بیزار رہیں!:
میں وضاحت اس لیے کرتاہوں کہ بات کھلی کھلی ہونی چاہیے اورمیں بارہاکہہ چکاہوں کہ ہم سےوہی تعلق رکھے جوباطل سے بیزارہو، جوباطل سے بیزار نہیں ہے وہ ہم سے تعلق نہ رکھے، وہ اورکسی جگہ جاکر ٹھکانہ لگائے، ہم باطل سے بیزارہیں دنیا میں بھی اورآخرت میں بھی۔ جب آخرت میں جداہونا ہے تودنیا میں جداکیوں نہ ہوں! ہم خالص دین کاکام کریں اورخالص اللہ کے لیے کریں اورباطل کے بالکل قریب نہ جائیں۔ ہم دوررہیں گے تو ہماری نسلیں بچ جائیں گے اور ہم قرب کی پینگیں بڑھائیں گے تو ہماری آئندہ نسلوں کاایمان بربادہوگا۔عموماً ہمارے ہاں مزاج یہ ہے کہ ہم شیخ اور پیراسے سمجھتے ہیں جوبرے کوبھی برا نہ کہے، غلط کوبھی غلط نہ کہے… یہ کون سا پیرہے جوغلط کوبھی غلط نہ کہے؟! پیرتووہی ہوگا جوغلط کوغلط کہے اورٹھیک کو ٹھیک کہے۔ جس نے غلط کوٹھیک کہناہےوہ پیرنہیں ہے بلکہ پیرکے روپ میں شیطان ہے۔ خانقاہیں اس لیے نہیں ہیں کہ نظریات بگڑیں بلکہ خانقاہیں اس لیے ہیں کہ امت کے نظریات سنوریں۔
مرکز و خانقاہ؛ علمی و عملی اصلاح:
اس لیے ہمارے ہاں مرکز بھی ہے اورخانقاہ بھی ہے۔ ہم علمی اصلاح بھی کرتے ہیں اورعملی اصلاح بھی کرتےہیں۔ اللہ پاک ہمارے نظریات کی بھی اصلاح کرے، اللہ پاک ہمارے اعمال کی بھی اصلاح فرمائے اور یہ بات آپ دل کی کھڑکیاں اوردل کےکان کھول کر سنیں کہ عمل کی کوتاہی کاتدارک بہت آسان ہے، علم کی کوتاہی کاتدارک بڑامشکل ہے۔علم توبنیاد ہے، بنیاد ٹیڑھی ہوجائے توساری عمارت خراب ہوجاتی ہے، عمل کی مثال اوپر کی تعمیر کی ہے اورعلم کی مثال اس بنیاد کی ہے۔ جس آدمی کاعلم ہی غلط ہے مجھے بتاؤ اس کے اعمال کیسے ٹھیک ہوں گے؟ علم ٹھیک ہو توآدمی کے اعمال ٹھیک ہونے کی توقع ہوتی ہے۔ اس لیے علم کاٹھیک ہونا اور نظریات کاٹھیک ہونا بہت ضروری ہے۔
مذکورہ اعتراض کا جواب:
خیر میں نے اسے کہا: ایک بات سمجھو! اللہ رب العزت نےقرآن کریم میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ”رحیم“ کالفظ استعمال کیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾
(سورۃ التوبۃ: 128)
[تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے جو تمہی میں سے ہے، جس کو تمہاری ہر تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے، جسے تمہاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے، جو مؤمنوں کے لیے انتہائی شفیق مہربان ہے!]
تو فرمایا کہ میرا پیغمبر تمہارے لیے رؤوف بھی ہے، میرا پیغمبر تمہارے لیے رحیم بھی ہے۔ جب اللہ نے اپنے نبی کو”رحیم“ فرمایاہے توبتائیں وہ اگررحم نہیں کریں گے تورحیم کس بات کے ہیں؟ آپ کسی بندے کو کہیں: ”میں آپ کوقاری تومانتاہوں لیکن آپ سے قرآن نہیں سنتا،آپ کو امام صاحب تومانتاہوں آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا، میں آپ کو مفتی صاحب تومانتاہوں لیکن فتویٰ قبول نہیں کرتا، میں آپ کوپیر تو مانتاہوں آپ کی بیعت نہیں مانتا، خطیب صاحب تو مانتاہوں تقریر آپ کی نہیں مانتا“۔ یہ عجیب بات ہے، اس نے کیسا مفتی ماناہے کہ مفتی تو مانتا ہے اس کا فتویٰ نہیں مانتا، قاری صاحب مانتا ہے لیکن اس کی قرات نہیں مانتا، تو تونے پھرمانا کیاہے؟!! اب کوئی اللہ کے نبی کوکہے کہ میں آپ کو ”رحیم“ مانتاہوں لیکن آپ سے رحم کی درخواست نہیں کرتا۔میں نے کہا: یہ آدمی کیسا عقل کا اندھاہے! جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم رحیم ہیں تورحم تو فرمائیں گے، اگر رحم نہیں فرمائیں گے توپھررحیم کیسے ہوئے؟!! حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت کاجواب اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں کئی سو سال قبل اپنے پیغمبر پراتارکر ارشاد فرمادیا ہے، اللہ رب العزت کی ذات رب العالمین ہے اورحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات رحمۃ للعالمین ہے۔
جتنا بڑا مالک اتنا بڑا سفارشی:
آپ ایک نکتہ سمجھ لیں۔ قیامت کے دن میدان محشر میں اللہ رب العزت عدالت قائم فرمائیں گے امت کے اعمال کے حساب کے لیے، بلکہ امتوں کے اعمال کے حساب کے لیے۔ اللہ عدالت لگائیں گے، جج اورقاضی بن کے نہیں لگائیں گے بلکہ وہ مالک بن کے لگائیں گے، اگر جج کی عدالت ہو اس میں ملزم کےلیے وکیل آتاہے اورجب مالک کی عدالت ہو توپھر ملزم کے لیے وکیل نہیں آتابلکہ اس کے لیے سفارشی آتاہے۔ پھریہ دیکھتے ہیں کہ مالک کتنا بڑاہے؟ جتنا بڑامالک ہو اس کے لیے سفارشی اتنا بڑا تلاش کیاجاتاہے، جتنا بڑا مالک ہو اور جتنے اس کے اختیارات ہوں تو سفارشی بھی اس کے حساب سے تلاش کرتےہیں۔ اب اگرآپ نے سفارش کروانی ہے کسی وزیر سے تو عام بندے کولےکر نہیں جائیں گے بلکہ قدکاٹھ اور حیثیت والے بندے کو لےکر جائیں گے، اس وزیر کاقریبی لے کر جائیں گے، تعلق والا لے کر جائیں گے۔
رب العالمین ، رحمۃ للعلمین:
توقیامت کے دن جس مالک کی عدالت ہے وہ مالک ”رب العالمین“ ہے اس مالک کی عدالت میں ملزمین کی سفارشوں کے لیے جوذات پیش ہونی ہے اس ذات کانام”رحمۃ للعالمین“ ہے، جس طرح کائنات کے ذرےذرے کا اللہ ”رب“ ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کائنات کے ذرےذرے کے لیے رحمت ہیں، توجتنا بڑا رب ہے اورمالک ہےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے بڑے تو نہیں ہیں لیکن اللہ کے نبی کی رحمت ایک ایک ذرے کو شامل ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن خداکی عدالت میں ہم سب کی شفاعت کریں گے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کس کی کریں گے؟ اس کے لیے اللہ کے نبی نے خودفرمایاہے کہ میں فلاں کی سفارش کروں گا، فلاں کی کروں گا، فلاں کی کروں گا، اللہ کے نبی خود فرمارہے ہیں کہ میں کس کس کی سفارش کروں گا۔
پیغمبر علیہ السلام کے حقوق:
اس پر میں نے مسئلہ سمجھانے کےلیے قرآن کریم کی آیت تلاوت کی ہے۔ اللہ کی ذات کے بعد سب سےبڑی ذات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ اللہ رب العزت نے ہمارے پیغمبر کے ہمارے ذمے حقوق رکھے ہیں اوراس سے بڑی بات کیاہے؟ فرمایا:
﴿اَلنَّبِيُّ أَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ﴾
(سورۃ الاحزاب: 6)
[ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں اور اِن کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں]
فرمایا دیکھو! تمہیں پتہ ہے کہ میرے محمد کاتمہارے اوپر کتنا حق ہے، ﴿اَلنَّبِيُّ أَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ﴾ جتناتمہارےاوپر تمہاری جان کاحق ہے اس سے زیادہ میرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاتمہارے اوپر حق ہے۔ کیا مطلب؟ جس طرح آدمی اپنی ذات کے لیے کماتاہے،اپنی ذات کوزندہ رکھنے کےلیے کھاتاہے، اپنی ذات کوبرقراررکھنے کے لیے پہنتاہے، اپنی ذات کی حفاظت کےلیے بندہ جو سارا کچھ کرتاہے تواللہ رب العزت نے بات سمجھائی کہ﴿اَلنَّبِيُّ أَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ﴾ دیکھو! میرے پیغمبر کاحق تمہاری ذات سے زیادہ تمہارے اوپرہےاور میرے پیغمبر کی بیویاں یہ سارے ایمان والے انسانوں کی مائیں ہیں۔ اللہ رب العزت نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کوتمہاری مائیں فرمایا اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کاحق بیان فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے:
﴿إِنَّ اللّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
میں حکم دیاہےکہ میرے پیغمبر پہ درود پڑھاکرو، میرے پیغمبرپر سلام پیش کیاکرو۔ یہ ایساعمل ہے جواللہ خودبھی کرتاہے، اللہ کے فرشتے بھی کرتےہیں اوراللہ تمہیں بھی حکم دیتاہے کہ یہ کام تم بھی کرو۔ہمارے علماء نے لکھاہے اگرکوئی بندہ آپ سےپوچھے کہ دنیا میں ایسا کونسا کام ہے جو اللہ خودبھی کرتےہیں اوربندوں کوکہتے بھی ہیں کہ یہ کام تم بھی کرو،تو اس سائل کو جواب دیں کہ وہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہ درود پڑھنا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نبی پہ درود پڑھتے ہیں اور ہمیں بھی حکم دیا کہ تم بھی درود پڑھو۔ ایک بار محبت کےساتھ سارے حضرات درود پاک پڑھ لیں۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
درود شریف کے متعلق چندمسائل:
اب میں چند مسئلے پیش کروں گا،ذرا ان کو ذہن میں رکھ لیں۔
[1] درود بھیجنے کا مطلب:
اس آیت کوحوالے سے پہلی بات یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھے اس کا معنیٰ الگ ہے، فرشتے پیغمبر پردرود بھیجیں اس کا معنیٰ الگ ہے، امتی نبی پردرود بھیجے اس کا معنیٰ الگ ہے۔ جب ہم کہتےہیں ”اللہ اپنے نبی پہ درود بھیجتاہے“ تواس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے پیغمبر پہ رحمتیں نازل کرتاہے اورجب یہ کہتے ہیں ”فرشتے اللہ کے نبی پردرود بھیجتے ہیں“ تو اس کامعنیٰ یہ ہے کہ فرشتے پیغمبر کے لیے استغفار کرتے ہیں اور جب ہم کہتےہیں ”بندہ اورانسان نبی پہ درودبھیجتاہے“ اس کامعنیٰ یہ ہےکہ بندہ اللہ سے اپنے نبی کےلیے دعامانگتاہے کہ اللہ ہمارے محبوب پیغمبر کےدرجات کوبلندفرما۔
(تفسیر البغوی:ج1 ص63 ملخصاً)
تواللہ کے درود پڑھنے کامعنیٰ اورہے، فرشتوں کے درود پڑھنے کامعنیٰ اورہے اورانسانوں کے درود پڑھنے کامطلب اورہے۔
[2] اللہ سلام بھیجے اور امت صلوٰۃ و سلام:
دوسری بات سمجھیں۔ اللہ نے ہمیں دوباتوں کاحکم دیاہے اورخود ایک بات فرمائی ہے- ذراتوجہ سے بات سمجھنا- اپنے لیے فرمایا:
﴿إنَّ اللّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ﴾
اور ہمیں فرمایا:
﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
ہمیں کہا کہ صلوٰۃ بھی بھیجو اورسلام بھی بھیجو اور جب اللہ کی اپنی ذات کی باری آئی تویہ نہیں کہا کہ اللہ پاک نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہ سلام بھیجتے ہیں، بلکہ فرمایا:
﴿إنَّ اللّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ﴾
ساتھ ”یُسَلِّمُ“نہیں ہے۔ آخر اس کی وجہ کیاہے کہ اللہ نے اپنی ذات کے لیے صرف ”صلوٰۃ“ کاذکر کیاہے اورانسانوں کو”صلوٰۃ“ اور ”سلام“ دونوں باتوں کا حکم دیاہے۔ اس کی وجہ مفسرین نے یہ بیان فرمائی ہے کہ سلام کے اندر دوچیزیں ہیں: سلام کبھی بمعنیٰ ”سلامتی“ ہے اورکبھی بمعنیٰ ”اطاعت“ ہے۔ اللہ اپنے نبی کی اطاعت نہیں کرتاہے،امت اپنے نبی کی اطاعت کرتی ہے۔ تویوں نہیں فرمایاکہ ”اللہ نبی پہ سلام بھیجتا یعنی اپنے نبی کی اطاعت کرتاہے“بلکہ فرمایا: اللہ نبی پہ درود بھیجتاہے اور امتیو!تم نے یہ درود بھی بھیجناہے اور نبی کےلیے سلامتی کی دعا بھی کرنی ہے اوران کی اطاعت بھی کرنی ہے۔ اس لیے اپنی ذات کےلیے ”سلام“ کالفظ ذکر نہیں کیا اورامت کوفرمایا کہ تم ”صلوٰۃ“ بھی بھیجو اور”سلام“ بھی بھیجو۔
[3] صلوٰۃ کیسے بھیجیں؟
تیسری بات سمجھیں۔ ایک ہے ”صلوٰۃ“ اور ایک ہے ”سلام“۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یارسول اللہ! ہم آپ پرصلوٰۃ کیسے بھیجیں؟ ہم سلام کیسے بھیجیں یہ تو ہمیں معلوم ہے(کہ آپ نے ہمیں بتایا ہے
کہ ”اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطِّیِّبَاتُ“
آخر تک پڑھتے ہیں) اے اللہ کے نبی! آپ پرصلوٰۃ کیسے بھیجیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
)صحیح البخاری: باب یزفون النسلان فی المشی)
توپتہ یہ چلا اللہ کے نبی نے ہمیں ”صلوٰۃ“ کاطریقہ بھی بتایاہے اور”سلام“ کاطریقہ بھی بتایاہے۔ صلوٰۃ کاطریقہ یہ ہے کہ درود ابراہیمی پڑھیں:
”اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ“
اورسلام کاطریقہ یہ ہے کہ ہم نماز میں پڑھتے ہیں: ”
اَلسَّلَاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ“۔
ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم پرصلوٰۃ بھی وہ پڑھیں جونبی پاک نے ہمیں سکھائی ہے، ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام بھی وہ پڑھیں جواللہ کے نبی نے سکھایاہے- توجہ رکھنا ذرا یہ مسائل اچھی طرح سمجھنا- ہم صلوٰۃ وسلام کے قائل ہیں۔
حضور کا بتایا ہوا درود چاہیے یا مولوی کا بنایا ہوا؟
مجھے درمیان میں ایک واقعہ یادآیا، پہلے ذرا وہ سن لیں۔ حضرت مولانا عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ حکیم الامت مجددالملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اجل اورہمارے شیخ عارف باللہ مولانا شاہ حکیم محمداختر رحمۃ اللہ علیہ کے پیرومرشد ہیں، میرے وہ داداپیر بنتے ہیں اورجومجھ سے بیعت ہیں ان کے وہ پڑدادا پیربنتے ہیں۔ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک بندہ بیعت ہونے کے لیے آیا، بیعت ہوا توبیعت ہونے کے بعد اس نے ایک مسئلہ پوچھا، اس نے کہا: حضرت! مجھے ایک مسئلہ بتائیں، فرمایا: پوچھو۔ اس نے کہا میں درود تاج اوردرود ماہی پڑھ سکتاہوں؟ حضرت مولانا عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے بڑا پیارا جواب دیا، حضرت فرمانے لگے: ایک درود وہ ہے جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیاہے اورایک درود وہ ہے جوبعد کےمولوی صاحب نےدیاہے، اب بتاؤ نبی والادرود بہترہے یابعدکے مولوی والا؟ اس نے کہا: حضور پاک والا، حضرت فرمانے لگے: درود تاج بعد کے مولویوں نے بنایاہے اور ”
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ“
اللہ کے نبی نے خود بتایاہے، اب بتاؤ آپ کو کونسا درود پسندہے؟ حضور پاک والا یابعد والا۔ [حضور پاک والا۔ سامعین] بس آج جھگڑا یہ چل رہاہے، ہم کہتے ہیں حضورپاک والا درود مان لو، لوگ کہتے ہیں نہیں، ہم پیرو الا درود پڑھیں گے، ہم اس کو چھوڑ نہیں سکتے۔ میں نے کہا جب اللہ کے نبی کادرود موجودہے توپھر آپ کو دائیں بائیں جانے کی ضرورت کیاہے؟! -یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں- جودرود اس کے علاوہ ہیں ہم اس کےبھی قائل ہیں اورمانتے ہیں، انکار نہیں کرتے لیکن بہترین درود وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلاہے، یہ درودِپاک بھی ہے اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مبارک زبان سے آیاہے۔ اگرآپ درود کی پوری برکات لیناچاہتےہیں توپھر وہ درود پڑھاکریں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلاہے۔
[4] کون سا درود کہاں پڑھیں؟
چوتھی بات سمجھیں۔ جب ہم یہاں سرگودھا سے درود پاک پڑھیں تو یہ پڑھیں:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ•
اورجب اللہ کے نبی کے روضے پہ جاکر درود پڑھیں تو پھر پڑھیں:
الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ
یہاں کون سا پڑھناہے؟ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ، اور وہاں پہ کون سا پڑھنا ہے: الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ۔ایک شخص مجھے کہنے لگا: یہ آپ فرق کیوں کرتے ہیں ؟یہاں
”اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ“
پڑھتے ہیں اورنبی کے روضہ مبارکہ پہ جاکر ”الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ“ پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا : ہمارا دیوبند والوں کانظریہ؛یہ ہے کہ درودپاک حضور کی خدمت میں ہدیہ ہے، درود پاک حضور کی خدمت میں تحفہ ہے اورہدیے اورتحفے کاطریقہ یہ ہے کہ آدمی دورسے ہدیہ بھیجتاہے اورقریب جائے تو ہدیہ پیش کرتاہے۔ اگربیٹاجدہ میں ہے اورماں اورباپ سرگودھا میں ہیں توجدہ سے بیٹا کسی کے ہاتھ کمبل ابوجان کے لیے ”بھیجتا“ہے، کسی کے ہاتھ امی جان کے لیے چادر ”بھیجتا“ہے اور جب سرگودھا آئے توابوجان کی خدمت میں کمبل ”پیش“ کرتاہے، امی جان کی خدمت میں چادر ”پیش“ کرتاہے۔ تحفے اور ہدیے کاضابطہ یہ ہے کہ دور سے بھیجاجاتاہے اورقریب جاکرپیش کیاجاتاہے۔ جب ہم یہاں سے درود کا ہدیہ دیں تو کہتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ؛
اے اللہ! ہم یہاں زندہ ہیں، وہ مدینہ میں زندہ ہیں ہم اپنے گھر زندہ ہیں وہ اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں، اے اللہ! ہمارے اس درود کوحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچادے اورجب روضے پہ جائیں تو کہتے ہیں:
الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ،
حضور! ہمارے درود کوقبول فرمالیں۔ ہم دور سے ہدیہ بھیجتے ہیں اورقریب جاکر ہدیہ پیش کرتے ہیں۔ ہدیہ کاطریقہ یہی ہے نا! دورسے بھیجتے ہیں اورقریب سے پیش کرتے ہیں۔ آپ کسی کوہدیہ دیں…… اپنے استاد کو،اپنی ماں کو، اپنے دوست کو اور دور سے دیں توبھیجتے ہیں یا پھینک دیتے ہیں؟ [بھیجتے ہیں۔ سامعین] اورجب قریب جائیں توپھر پیش کرتے ہیں۔
ہدیہ کی ترتیب:
ہدیہ کی ترتیب ہمارے دیوبندیوں میں بہت کم چلتی ہے۔ میں نے ایک دوست سے مذاح کےطورپر کہا کہ ہمارے اوران کے مریدوں میں فرق ہے، ابھی پچھلے مہینے میرے ایک مرید ملنے کے لیے آئے، اٹلی رہتےہیں اور ان کے دوسرے بھائی ناروے رہتے ہیں، دونوں اصل ہیں گجرات کے۔ پاکستان آئے تومیرا مرید ملنے کےلیے آیا تو اپنے بھائی کوبھی ساتھ لایا۔ یہاں آ کرکھانا کھایا ، جب جانے لگے توجومیرا مرید نہیں تھا اس نے مجھے ہدیہ دیا اور جومیرا مرید تھا اس نے نہیں دیا۔ بات سمجھ میں آئی کہ جومیرا مرید نہیں تھااس نے ہدیہ دیا۔ پھرمجھے کہنے لگا: ”مجھےپتہ نہیں تھاکہ آپ کامدرسہ بھی ہے۔ بچے بھی پڑھتے ہیں ورنہ میں آپ کے بچوں کے لیے بھی چندہ دیتا، بھائی نے بتایا نہیں۔“ دونوں میں فرق دیکھیں، یہ اہل بدعت ہے اس کواحساس ہے کہ یہ پیر ہے، اس کی خدمت کرنی چاہیے- حاشاوکلاَّ میں آپ کو اس لیے یہ بات نہیں کہہ رہا کہ آپ حضرات ہدیہ دینا شروع کردیں، یہ درمیان میں وضاحت میں اس لیے کرتاہوں کوئی نیابندہ آنے والا یہ نہ سوچے کہ ہم تو آئے تھے ذکرکرنے اور مولوی صاحب نے کہا کہ میرے لیے ہدیہ کیوں نہیں لائے؟ یہ ہماری ترتیب نہیں ہے- میں عرض یہ کررہاہوں ہدیہ دیں اپنے بڑے کو۔ ہدیہ اپنے بڑے کو بھی دے سکتے ہیں اوربڑاچھوٹا کو بھی دےسکتاہے، ہدیہ ہمیشہ مرید پیر کونہیں دیتا بلکہ پیربھی مریدکوہدیہ دےسکتاہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہدیہ ہمیشہ مریدنے ہی دیناہے بلکہ مرید بھی دے سکتاہے پیربھی دے سکتاہے، بیٹابھی ہدیہ دےسکتاہے باپ بھی ہدیہ دےسکتاہے، بیوی شوہر کودےسکتی ہے شوہر بیوی کودے سکتاہے، یہ تودونوں طرح کام چلتاہے۔ میں بتایہ رہاتھا کہ ہدیہ دورسے بھیجتے ہیں اورقریب جائیں تو پیش کرتے ہیں۔ تودورسے پڑھیں
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ
اورقریب جائیں تو پڑھیں:
الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ۔div>
حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ کا واقعہ:
اس پر میں آپ کوایک واقعہ سنانے لگاتھا حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی نوراللہ مرقدہ کا، حضرت رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے عالم تھے اور اوکاڑہ کے سکول میں ٹیچر بھی تھے۔ وہاں ایک بدعتی بھی ٹیچرتھا۔ اس نے حضرت اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ کی شکایت لگائی اپنے ہیڈماسٹر کو، اس نے کہا: سرہمارے سکول میں ایک ٹیچر آیاہے جو وہابی ہے ہمارے ماحول کوخراب کررہاہے۔ ہیڈماسٹرنے بلالیا۔ اس نے بلاکے پوچھا: ماسٹر امین صاحب! آپ وہابی ہو؟ حضرت نے فرمایا:نہیں میں توپکاسنی ہوں۔ ہیڈ ماسٹر نے کہا: یہ کہہ رہاہے کہ آپ وہابی ہیں۔ حضرت اوکاڑوی نے فرمایا: اس سے پوچھیں تو سہی کہ مجھے وہابی کہتاکیوں ہے؟ ہیڈ ماسٹر نے کہا : اسےکیوں وہابی کہتاہے۔ اس نے کہا:سر! یہ حضورپاک کے درود کونہیں مانتے۔ حضرت اوکاڑوی نے درود پڑھ دیا:
”اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ“
حضرت نے فرمایا: میں مانتابھی ہوں پڑھتابھی ہوں۔ ہیڈماسٹر نے کہا:توکہتاہے یہ درود نہیں مانتے، یہ تو درود مانتے بھی ہیں پڑھتے بھی ہیں۔ اس نے کہا: نہیں سرجی! یہ بیٹھ کے پڑھتے ہیں کھڑے ہوکرنہیں پڑھتے۔ حضرت اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ فرمانےلگے: یہ جھوٹ بولتاہے، میں جب عام نماز پڑھتاہوں تو التحیات میں درود بیٹھ کے پڑھتاہوں اور جب نمازجنازہ پڑھتا ہوں تودرود کھڑے ہوکر پڑھتاہوں۔ اس نےکہا: ہاں بھائی! اب بتا۔ اس ماسٹر نے کہا: نہیں سرجی!
یہ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ
پڑھتے ہیں
الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ
نہیں پڑھتے۔ مولانا اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے: سر یہ جھوٹ بولتاہے،میں جب اوکاڑہ میں ہوں
تو اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ
پڑھتاہوں اور جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جاتاہوں تو
الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ
پڑھتاہوں۔ ہیڈ ماسٹر نے کہا: یہ تویہ درود شریف بھی مانتےہیں، اب توبتا۔ اب اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ حضرت اوکاڑوی نے فرمایا: اب یہ نہیں بتائےگا اب میں بتاؤں گا۔ ہیڈ ماسٹر نے کہا: چلیں آپ بتائیں۔ حضرت نےفرمایا: یہ کہتاہے وہاں والا درود یہاں پڑھو اور میں کہتا ہوں: نہیں یہاں والایہاں پڑھیں گے اور وہاں والا وہاں پڑھیں گے۔
[5] ”صَلُّوا عَلَيْهِ“ کی تعمیل کیسے ہو؟
پانچویں بات سمجھیں۔ اللہ نے قرآن کریم میں ہمیں
”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ“
فرمایا کہ اے ایمان والو !درود پڑھو۔ ہم نے درود پڑھنے کے بجائے یہ کہہ دیا: ”اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ“ اللہ نے ہمیں فرمایا کہ تم پڑھو ،ہم نے پڑھنے کے بجائے یہ بات کہہ دی: ”
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ“
، کوئی بندہ کہہ سکتا ہے کہ یہ بات توٹھیک نہیں ہے، اللہ فرماتاہے تم پڑھو اورہم نے خود پڑھنے کےبجائے اللہ سے کہہ دیا”
اللَّهُمَّ صَلِّ
“اللہ آپ ہی پڑھیں، جوکام ہمارے ذمے تھا ہم نے اللہ کے ذمے لگادیا۔ سوال سمجھ میں آگیا؟ میں وہ سوالات بتارہاہوں جولوگوں نے آپ سے کرنے ہیں، آپ کورس کرنے کے لیے مرکز نہیں آتے تو پھر آپ کو ان کا جواب بھی سمجھ میں نہیں آتا۔
تین روزہ تحقیق المسائل کورس:
یہ میں سرگودھا والوں سے کہتاہوں کہ باقی دنیا کے لوگ کورس کریں یا نہ کریں آپ میں سے کوئی ایک ایسا بندہ بھی نہ بچے جس نے یہاں تین دن کورس نہ کیاہو۔ آپ سب ارادہ کرو کہ ہم سب کم ازکم تین دن کورس کریں گے، نیت کرتے ہیں سب؟ [جی ہاں ان شاء اللہ۔ سامعین] آپ کے علم میں ہےکہ انگریزی ماہ کی پہلی جمعرات یہ کورس مغرب سے شروع ہوتاہے اور اتوار صبح10 بجے دعاہوجاتی ہے، خودبھی کریں اور دوسروں کوبھی ترغیب دیں اور ان شاء اللہ 31 مئی 2014 بروز ہفتہ صبح 07:30 بجے دورہ تحقیق المسائل شروع ہوگااور 12جون 2014 تک یہ دورہ ہوگا۔ اصل میں یہ دورہ علماءاور طلباء کے لیے ہے لیکن آپ میں سے بھی کوئی شرکت کرنے کا شوق رکھتاہوتو اس میں ضرور شرکت کرے۔ ان دنوں میں میرے خیال میں کالج میں بھی چھٹیاں ہوں گی، یونیورسٹی اورکالج کے لڑکے بھی آسکتے ہیں۔
”مرکز“ کے ساتھ رابطہ استوار رکھ!
میں ابھی میانوالی میں تھادودن پہلے کی بات ہے، میں نے وہاں ان کو ترغیب دی، میانوالی کے کچھ علماء تھے، مفتی حضرات بھی تھے۔ میں نے کہا:بھائی آپ سرگودھا کچھ دن کے لیے تشریف لائیں ہمارے پاس کورس کریں۔ مجھے ایک ساتھی کہنے لگا: مولانا صاحب! کتھے میانوالی تےکتھے سرگودھا [کہاں میانوالی اور کہاں سرگودھا] میں نے کہا: رائیونڈ جاتےہو؟ کہتاہے جی ہاں، میں نے کہا:کتھے میانوالی تےکتھے رائیونڈ [کہاں میانوالی اور کہاں رائیونڈ] رائیونڈ جاسکتےہو درمیان میں سرگودھا ہےتم سٹاپ نہیں کر سکتے؟ بس وجہ یہ ہے کہ دل میں اہمیت نہیں، کام کی عظمت نہیں ہے اور میں ان علماء کی بات کرتاہوں کہ جب بھی پھنستے ہیں تو پھر بندہ رائیونڈسے نہیں بلاتے بندہ یہاں سے لیتےہیں، مولاناصاحب! کوئی ساتھی بھیج دو،چِھدْرو(جگہ کا نام ہے) پھنس گئے ہیں کوئی ساتھی دےدو ،فلاں شہر پھنس گئےہیں، تو کبھی یہاں سے مولانا عاطف صاحب جارہےہیں ،کبھی کوئی جارہاہے،کبھی کوئی جارہاہے، یہاں سے ساتھی جا رہے ہیں۔ میں نےکہا: جب پھنس جاؤ تو ہمیں بلانا تو جب خوش ہو تو پھربھی ہمارے پاس آجایاکرو اس سے کیافرق پڑتاہے۔
رائیونڈ مرکز بھی ہمارا سرگودھا مرکز بھی ہمارا:
اور یہ بات کان کھول کر سن لیں رائیونڈ مرکز بھی ہماراہے اور یہ ”مرکز اہل السنت والجماعت“ سرگودھا والا مرکزبھی ہماراہے، یہ دونوں ہمارے ہیں یانہیں؟ [ہمارے ہیں۔ سامعین] آپ لوگوں نے توڑ کیوں پیدا کررکھاہے۔ ایک ساتھی اسی مجلس میں موجود ہے، انہوں نے آج مجھے فون کیا کہ استادجی میں نے آناہے، میں نے کہا: آجاؤ اور مغرب یہاں پڑھو۔ پتا ہے کیا جواب دے رہے ہیں: ”آج شب جمعہ ہے۔“ میں نے کہا کہ میں شب جمعہ ہی پربلارہاہوں، میں کونسا شبِ ہفتہ پر بلارہاہوں۔ میں نےکہا: شبِ جمعہ کے اجتماع میں شرکت ضروری ہے تو سرگودھا مرکز میں بھی شب جمعہ ہے آپ یہاں آئیں یہاں بھی شب جمعہ ہے، مدنی مسجد (سرگودھا) کا نام بھی ”مرکز“ ہے اور اِس جگہ(87 جنوبی) کا نام کیاہے؟ [مرکز۔ سامعین] وہاں بھی مغرب کے بعد بیان ہے اور یہاں بھی مغرب کے بعد بیان ہے، تویہ دونوں ہمارے مرکز ہیں، وہاں جائیں توٹھیک ہے یہاں آئیں توٹھیک ہے، میں نے کہا: مہینے میں چارجمعراتیں ہیں، آپ تین جمعرات وہاں جائیں اور ایک جمعرات یہاں آئیں، امت کو توڑنا ہے کہ جوڑناہے۔[ توڑنا ہے۔ سامعین] میں کہتاہوں تین جمعرات وہاں لگائیں۔ تو میں توڑنے کی بات کرتاہوں یا جوڑنے کی؟ [جوڑنے کی۔ سامعین] ہم امت کو توڑتے نہیں ہیں ہم امت کوجوڑتے ہیں، ہم نے دونوں مراکز کو آباد کرنا ہے ان شاء اللہ۔ ہم رائیونڈ کے مرکز کو اپنا سمجھتے ہیں۔ بس میں جماعت کے ساتھیوں سے کہتاہوں کہ آپ اس مرکز کوبھی اپناسمجھیں، اس سے امت میں جوڑ ہوگا اور امت توڑ سے بچ جائیگی۔ ہم نے امت کو توڑسے بچاناہے ان شاء اللہ۔
سوال کا جواب:
میں جوبات سمجھارہاتھا کہ اللہ نے فرمایا”صَلُّوا عَلَيْهِ“ تم درود پڑھو، ہم نے کہہ دیا
”اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ“
اللہ! آپ خود ہی پڑھیں۔ کوئی بندہ آپ سے سوال کرے تو آپ نے پھنس جانا ہے اس لیے اس سوال کاجواب ذہن نشین فرمائیں۔ اصل یہ ہےکہ اللہ پاک نے ہمیں فرمایا ہے ”صَلُّوا عَلَيْهِ“ میرے پیغمبر پہ درود پڑھو، ہم اللہ سے عرض کرتے ہیں: اے اللہ! ہم ناپاک ہیں، تیرا نبی پاک ہے، اللہ! ہم ہیں غیر معصوم اورنبی ہے معصوم، ہم ہیں کم درجہ اور نبوت کاہے بہت بڑا درجہ، کہاں ہم کہاں نبی!!! آپ نے حکم دیاہے لیکن ہم خود کو اس قابل نہیں سمجھتے اس لیے اپنے پیغمبر پہ خود درود پڑھیں، ہم کہتے ہیں اللہ بھی پاک ہیں نبی بھی پاک ہے،
”اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ“ اللہ
! ہم آپ کاحکم مان کر درود پڑھنے کے لیے تیار ہیں، پڑھ ہم دیتے ہیں پہنچاآپ دیں۔ اللہ! ہم آپ سے گزارش کرتےہیں کہ ہم اس قابل نہیں آپ ہی احسان فرمائیں حضور پاک کوان کی شان کےلائق درود پہنچادیں۔
[6] درود بارگاہِ نبوی میں:
جب ہم یہاں درود پڑھتےہیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیسےجاتاہے؟ اس پر کئی روایات موجودہیں ایک روایت صرف اتنی ہے:
مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا أُبْلِغْتُهُ.
(مشکوٰۃالمصابیح: ص87)
جو بندہ میری قبر کے قریب مجھ پر درود پڑھے تو میں خود سنتا ہوں اور اگر کوئی دورسے درود پڑھے تو وہ مجھ تک پہنچادیاجاتاہے۔
اورایک حدیث مبارک میں ہے:
اِنَّ لِلّٰہِ مَلآئِکَةً سَیَّاحِیْنَ فِی الاَرْضِ یُبَلِّغُٓوْنِیْ مِن
ْ اُمَّتِی السَّلاَم۔
(سنن النسائی: ج1ص189 باب التسلیم علی النبی ﷺ)
اللہ کے نبی نے فرمایاکہ اللہ کی طرف سےکچھ فرشتے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں، (وہ گھوم رہےہوتے ہیں)جب کوئی بندہ مجھ پر سلام پڑھتاہے تو وہ سلام کولےکر حضور کی خدمت میں پہنچاتے ہیں۔
اورجب بندہ سلام پڑھتاہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوحِى حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ
(سنن ابی داؤد: ج1ص286 کتاب المناسک باب زیارۃ القبور)
جب بھی کوئی بندہ مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر لوٹا دیتا ہےیہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔
حدیث پر اشکال کا جواب:
بتاؤ! کتنی خوش قسمتی ہےکہ ہماری طرف سے سلام پہنچے اورنبی صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے لیے جواب عنایت فرمادیں۔ایک سوال ذہن میں رکھ لیں۔ کوئی بندہ آپ سے سوال کرےگا کہ یہ حدیث مبارک توٹھیک نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی بندہ مجھ پرسلام بھیجے اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر لوٹادیتے ہیں اورمیں جواب دیتاہوں۔ چوبیس گھنٹےمیں ایک سیکنڈ بھی ایسانہیں جس میں اللہ کے نبی پر کوئی بندہ سلام نہ بھیجتاہو تو اس کامعنیٰ یہ ہوگا کہ ہر وقت حضور کی روح نکلتی ہے پھرآتی ہے پھرنکلتی ہے پھرآتی ہے پھر نکلتی ہے پھر آتی ہے ،اس سے اللہ کے نبی کو راحت نہیں پہنچے گی اس سے اللہ کے نبی کو تکلیف پہنچے گی۔آپ اس کاجواب ذہن میں رکھیں۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے جواب دیاہے۔ پہلے میں علماء کے لفظ استعمال کرتاہوں پھر اس کا عوامی مطلب سمجھاتا ہوں۔ حضرت مدنی فرماتے ہیں- توجہ رکھنا- کبھی”رَدٌّ“ کا صلہ ”علَیٰ“ آتاہے اورکبھی ”رَدٌّ“ کا صلہ ”اِلیٰ“آتاہے۔ جب ”رَدٌّ“ کا صلہ ”اِلیٰ“ ہو تو پھر معنی ”اعادہ“ ہوتاہے اور جب ”رَدٌّ“ کا صلہ ”علَیٰ“ ہو توپھر اس کامعنیٰ ”توجہ“ ہوتا ہے۔عوام اس کامطلب یوں سمجھے کہ عربی زبان میں ”رَدٌّ“ کالفظ استعمال ہو توکبھی اس کے بعدلفظ ”عَلیٰ“ ہوتاہے،کبھی لفظ ”اِلیٰ“ ہوتاہے۔ اگر”رَدٌّ“ کا لفظ ہو اور اس کے بعد ”اِلیٰ“ لکھا ہوتو اس کامعنیٰ ہوتاہے”روح کولوٹادینا“ اوراگر”رَدٌّ“ کا لفظ ہو اور اس کے بعد ”عَلیٰ“ لکھاہو تو اس کامعنیٰ لوٹانانہیں ہے بلکہ اب اس کامعنیٰ ”متوجہ کرنا“ ہے۔اب حدیث میں دیکھیں اس میں لفظ ”علیٰ“ ہے
”مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوحِى حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ
“ مطلب یہ ہے کہ جو بندہ مجھ پر سلام پڑھتاہے چونکہ میری روح مشاہداتِ الہیہ کے اندر، تجلیات الہیہ کے اندر سیر کررہی ہوتی ہے اللہ میری روح کو متوجہ فرماتے ہیں اور میں اپنے امتی کے سلام کاجواب دے دیتاہوں۔ (مکتوبات شیخ الاسلام : حصہ اول ص248)
اس کا معنیٰ یہ نہیں ہے کہ جب سلام جاتاہے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم فوراً جواب دے دیتے ہیں، اس کامطلب یہ ہے کہ اکٹھا سلام ہواپھر اس کے دفترکولیا، حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا آپ نے سب کاجواب دیا، پھر حضور اپنےکام میں مشغول ہو گئے، اس کےبعد پھردفتر لیا، سلام کیا، حضور نے جواب دیا پھرمشغول ہیں۔ یہ بات آپ کوسمجھ کیوں نہیں آتی؟ سمجھ اس لیے نہیں آتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں دن رات چوبیس گھنٹے کاہوتاہے توبار بار ایسا ہوا کرتاہے، دن اور رات چوبیس گھنٹے کا دنیا کاہوتاہے اورموت کے بعد
”وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ“
یہاں کاایک ہزارسال ہوتو وہاں کا ایک دن بنتاہے۔تو وہاں کے معاملات اور طرح کے ہیں۔ ایک اورحدیث مبارک اس سے بھی عجیب ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَكَّلَ بِقَبْرِي مَلَكًا ، أَعْطَاهُ أَسْمَاعَ الْخَلاَئِقِ فَلاَ يُصَلِّي عَلَيَّ أَحَدٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ، إِلاَّ أَبْلَغَنِي بِاسْمِهِ وَاسْمِ أَبِيه هَذَا فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ قَدْ صَلَّى عَلَيْك۔
(مسند البزار: رقم الحدیث1425)
کہ اللہ نے میری قبر پہ ایک فرشتہ ایسامقرر کیاہے جوساری مخلوق کی آواز کوسنتاہے، جو بندہ مجھ پہ سلام پڑھتاہے (اللہ نے اس کو اتنی طاقت دی ہے بندے کی آواز سنتاہے) پھرمجھے اس بندے کا اور اس کے والد کانام لےکر درود پہنچا دیتا ہے، کہتاہے کہ فلاں نے سلام بھیجاہے۔
ہمارا نظریہ:
توہمارا نظریہ ہے کہ جب یہاں سے درود پڑھاجائے اللہ کےنبی کی خدمت میں اللہ پہنچادیتے ہیں اورجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس پڑھاجائے اللہ پاک اپنے نبی کو سنادیتے ہیں۔ آج کی مجلس ذکر میں اتنا یادرکھیں۔ آئندہ مجلس میں دو باتیں عرض کروں گا۔ [۱] ایک بات ذہن میں یہ رکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں زندہ ہیں اور [۲] دوسری بات کہ جب ہم سرگودھا سے درود پڑھیں اللہ پہنچادیتے ہیں اور جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پہ پڑھیں تواللہ سنادیتے ہیں۔ بس وہ جو سنانے اور زندگی پر اعتراضات ہیں نا میں ان اعتراضات کا ازالہ کروں گا ان شاء اللہ۔ میں ساتھیوں سے کہتاہوں کہ اور لوگوں کوبھی متوجہ کریں، عقائد کی اصلاح کے لیے امت کولائیں تاکہ ان کی اصلاح ہو اور ہمارا عقیدہ کھل کر ان کے سامنے آئے۔ اللہ ہم سب کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرومنزلت سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اطہر پہ اللہ ہم سب کو سب کچھ لٹانے کی توفیق عطاء فرمائے اورکثرت سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک پڑھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
درود کی کثرت کیجیے:
درود پاک بہت کثرت سے پڑھنا چاہیے خصوصاً آج جمعرات ہے اور کل جمعہ کادن ہے۔ درود پاک کے بہت زیادہ فضائل آئے ہیں۔ اگرزیادہ نہ بھی ہو سکے تو یہ سامنے جودرود پاک لکھاہواہے ”
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمِّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلٰی آلِہٖ وَسَلِّمْ تَسْلِیْماً
“ جس کو زبانی یادہے بہت اچھا، جن کو یاد نہیں وہ نماز سے پہلے یا نماز کےبعد اسے لکھیں اورلکھ کر لےجائیں۔ جوشخص جمعہ کے دن عصر کی نماز کےبعد اپنےجگہ پربیٹھے اور اٹھنے سے پہلے یہ درود پاک 80 بارپڑھے اللہ کے نبی کاوعدہ ہے کہ اللہ اس کے 80سال کے گناہ معاف فرمادیں گے اور 80 سال کی عبادت کاثواب دیں گے۔
(فضائل درود شریف از مولانا زکریا کاندھلوی: ص70)
اب بتاؤ ہرجمعہ 80 سال کے گناہ معاف ہوجائیں اور 80سال کی عبادت کااجر مل جائے تو اورکیا چاہیے۔تو آپ اس کویاد کرلیں یا اس کو لکھ کرلےجائیں، اس کو اچھی طرح محفوظ رکھیں۔ اللہ ہم سب کوتوفیق عطاء فرمائے۔