غامدی صاحب کا نیا شوشہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
غامدی صاحب کا نیا شوشہ )2(
مولانا محمد اشفاق ندیم حنفی
تیسری بات : اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں بے مقصد نہیں بھیجا کہ وہ صرف حیوانوں کی طرح کھائے پیئے مزے اڑائے اور پھر مر جائے۔ بلکہ انسان کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام پہلو اللہ تعالی کی مرضی کے تابع کر کے گزارے اس مقصد کے لیے اللہ تعالی نے ہر انسان میں حق کو قبول کرنے کی فطری استعداد رکھی ہے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں چند یہودی مسلمان ہوئے، وہ احکام اسلام کے ساتھ تورات کے احکام کی رعایت بھی رکھنا چاہتے تھے ،مثلاً ہفتہ کے دن کو بڑا عظمت والا سمجھنا ،اونٹ کے گوشت اور )اونٹنی کے (دودھ کو حرام خیال کرنا اور تورات کی تلاوت کرناوغیرہ۔تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔
یا ایھا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ، ولا تتبعوا خطوات الشیطٰن انہ لکم عدو مبین۔
)سورۃ البقرہ آیت 208 (
ترجمہ: اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔
یہ آیت مبارکہ اپنے شان نزول کے اعتبار سے اگر چہ خاص ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے ،اس آیت میں ان مسلمانوں کو تنبیہہ کی جا رہی ہے جو اسلام کو صرف عبادات کے لیے اختیار کرتے ہیں اور معاشی اور معاشرتی نظام کے لیے کافروں کے نظام کو پسند کرتے ہیں اسی طرح یہ آیت ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں اللہ تعالی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت کا دم بھرتے ہیں لیکن دوسری طرف کافروں کے طور طریقے بھی اپناتے ہیں ، ان سے رشتے ناتے جوڑتے ہیں اپنی عملی زندگی میں ان جیسی بود باش اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔آپ علیہ السلام سے محبت کا مطلب آپ علیہ السلام کے دشمنوں سےنفرت ہے جیسے یہ ناممکن ہے کہ آدمی اپنے باپ سے محبت بھی کرے اور اس کے جانی دشمنوں کو بھی عزیز سمجھے تو اسی طرح ایک مسلمان ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ نبی کریم علیہ السلام {جو پوری امت کے روحانی باپ ہیں} سے بھی محبت کرے اور ان کے دشمنوں سے بھی۔ اگر کوئی شخص ایسا طرز عمل اختیار کرتا ہے تو وہ نبی کریم علیہ السلام اور اسلام کا خیر خواہ نہیں بلکہ ان کے دشمن گروہ میں شامل ہے۔
یا ایھا الذین آمنوا لا تتخذوا الیہود والنصاری اولیاء بعضہم اولیاء بعض ومن یتولہم منکم فانہ منہم ان اللہ لا یہدی القوم الظالمین۔
)سورۃ المائدہ آیت 51 (
ترجمہ: اے ایمان والو! یہودو نصاریٰ کو دوست مت بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہی میں سے ہوگا بے شک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:” کافروں کا حال یہ ہے کہ مذہبی فرقہ بندی اور اندرونی بغض و عداوت کے باوجود باہم ایک دوسرے سے دوستانہ تعلق رکھتے ہیں۔ یہودی یہودی کا، نصرانی نصرانی کا، دوست تو بن سکتا ہے اور مسلمانوں کے مقابلہ میں سب کفار ایک دوسرے کے دوست اور معاون بن جاتے ہیں الکفر ملۃ واحدۃ، مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ “
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ سے موالات {گہری دوستی} نہ کریں جیسا کہ عام غیر مسلموں کا اور یہود و نصاری کا خود یہی دستور ہے کہ وہ گہری دوستی کو صرف اپنی قوم کے لیے مخصوص کرتے ہیں مسلمانوں سے یہ معاملہ نہیں کرتے پھر اگر کسی مسلمان نےاس کی خلاف ورزی کرکے کسی یہودی یا نصرانی سے گہری دوستی کرلی تو اسلام کی نظر میں بجائے مسلمان کے وہ اسی قوم کا فرد شمار ہونے کے قابل ہے۔ “
ان کے علاوہ بھی قران کریم کی بہت ساری آیات مبارکہ ایسی ہیں جس میں یہود و نصاری اور کافروں سے بچنے اور ان سے دوستی قائم کرنے سے منع فرمایا گیا ہے جب عام کافروں کے بارے میں یہ حکم ہے تو ”قادیانی“ جن کو متفقہ طور پر تمام مسالک کے علماءکرام صرف عام کافر نہیں بلکہ مرتد اور زندیق سمجھتے ہیں تو ان کا حکم کیا ہوگا ؟ قرآنی اسلوب کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو بخوبی اس کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
اس کے بر عکس نام نہاد روشن خیالی کے علمبردار غامدی صاحب ان سے میل جول اور تعلقات قائم کرنے کی اجازت دے رہے ہیں اس سے آپ ان کے مشن اور کاز کو سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ سارا کچھ کیوں اور کس کے ایماء پر کیا جارہا ہے۔
قرآن مجید کی طرح احادیث مبارکہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کافروں سے دلی محبت قائم کرنے سے منع فرمایا ہے۔
المرء مع من احب۔
آدمی کا انجام ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن کے ساتھ وہ محبت کرتا تھا اگر محبت نیک لوگوں کے ساتھ ہوگی تو آخرت میں بھی انہی کے ساتھ ہوگا اور جنت میں جائے گا اور اگر محبت کا فروں اور مرتدوں کے ساتھ ہوگی تو آخرت میں بھی انہی کے ساتھ کھڑا ہوگااور دونوں کا ٹھکانہ ایک ہو گا۔
من احب للہ و ابغض للہ فقد اسکتمل الایمان۔
جس نے اپنی دوستی اور دشمنی کو صرف اللہ کے لیے وقف کردیا اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان اسی وقت پورا مومن بنتا ہے جب اس کی محبت ومودت اور نفرت وعداوت کے جذبات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہوں اس لیےمومن اس شخص سے دوستی محبت رکھ سکتا ہے جو اسلامی اغراض و مقاصد میں اس کا ساتھی ہو جب کہ قادیانی مرتد اور زندیق ہیں۔
اگر ہماری دوستی اور محبت ان کے ساتھ ہوگی تو حدیث کی رو سے قیامت کے دن ہمارا حشر بھی انہی کے ساتھ ہوگا کون عقل مند ایسا ہے جس کو ان کے انجام کا پتہ بھی ہے اور پھر بھی ان سے دوستی کا دعویدار ہے؟ اعاذنا اللہ منہم
تصویر کا دوسرا رخ:
زیر بحث مسئلہ کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ خود قادیانی؛ مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں، کافر یا مسلمان؟ اور کیا قادیانی مسلمانوں سے رشتہ ناتا اور ان کے جنازہ میں شرکت کو جائز سمجھتے ہیں یا نہیں؟
اس بارے میں مرزا قادیانی اور اس کے ماننے والے کیا کہتے ہیں ؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
1: جو میرے خلاف تھے ان کا نام عیسائی، یہودی، اور مشرک رکھا گیا۔
)نزول المسیح ص4 بر حاشیہ روحانی خزائن ج18ص382 (
2: اور اللہ تعالی نے مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے تجھے شناخت کرنے کے بعد تیری دشمنی اور تیری مخالفت اختیار کی وہ جہنمی ہے۔
)تذکرہ ص168 طبع دوم (
3: کفر دو قسم پر ہے :ایک یہ کفر کہ اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا دوسرا کفر یہ ہے کہ مثلاً وہ مسیح موعود )بقول قادیانیوں کےمرزا غلام قادیانی(کو نہیں مانتا اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔
)حقیقت الوحی ص175، روحانی خزائن ج22ص185(
اس کے بعد اس مسئلے کو بھی ذرا غور سے دیکھیے کہ کیا مرزائی لوگ مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنےکو صحیح سمجھتے ہیں یا نہیں ؟آئیے دیکھتے ہیں۔
1: پس یاد رکھو! جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ تم پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر مکذب اور متردد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہیے کہ تمہارا امام وہی ہے جو تم میں سے ہو۔
)اربعین ج3ص28، روحانی خزائن ج17 ص417(
2: مسئلہ: حج بیت اللہ کے لیے کوئی احمدی جائے تو مکہ معظمہ میں احمدی کسی طرح نماز ادا کرے؟
جواب: حج میں بھی آدمی التزام کرسکتا ہے کہ اپنی جائے قیام پر نماز پڑھ لیوے اور کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھے۔
3: مسئلہ:جو احمدی غیر احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھ آیا وہ احمدیوں کا امام ہو سکتا ہے؟
جواب: سیدنا مسیح موعود [مرزا قادیانی علیہ ما علیہ ] نے فرمایا کہ جو احمدی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے جب تک تو بہ نہ کرے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔
)فقہ احمدیہ ج1ص130 حافظ روشن علی قادیانی (
4: خود مرزا قادیانی نے اپنے مسلمان بیٹے مرزا فضل احمد کا جنازہ نہ پڑھا اور اپنے ماننے والوں کو بھی جنازہ میں شامل نہ ہونے دیا۔
)روزنامہ الفضل قادیان 7جولائی 1943ء (
5: ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضور! مخالفوں سے جو ہمیں اور حضور کو گالیاں نکالتے ہیں اور سخت سست کہتے ہیں” السلام علیکم“ جائز ہے یا نہیں؟
جواب: فرمایا کہ مومن بڑا غیرت مند ہوتا ہے کیا غیرت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ تو گالیاں دے اور تم ان سے السلام علیکم کہو؟
)ملفوظات ج5ص281 طبع لندن (
میری گزارش غامدی صاحب اور ان کے ہم نوا لوگوں سےہے کہ جو قادیانیوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان سےہر قسمی تعلقات کو جائز سمجھتے ہیں مرزا قادیانی تو مسلمانوں سے اتنی نفرت رکھتا تھا کہ اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ مسلمانوں کو سلام نہ کرو اور دوسری طرف ہمارے سیدھے سادے وہ مسلمان ہیں جن کے حصے میں غامدی صاحب جیسے لا علم اور جاہل اسکالر آئے ہیں جو مرزائیوں سے سلام علیک کرنے ، تعلقات قائم کرنے اور رواداری بڑھانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
لمحہ فکریہ !!
ہمارے ان مسلمان بھائیوں کے لیے مذکورہ احادیث خاص طور پرتوجہ طلب ہیں جو کہ قادیانیوں کے ساتھ مل جل کر کھانا پینا اور ان سے معاشی و معاشرتی روابط کو ہر طرح سے جائز سمجھتے ہیں۔کوئی قادیانی مرجائے تو اس کے جنازہ میں چل پڑتے ہیں ،ان کے حسن اخلاق کا بڑا چرچا کرتے ہیں۔ قادیانیوں کے خلاف علماء کرام کی تحریر و تقریر کو مسلمانوں کی باہمی فرقہ بندی گردانتے ہیں۔
حاصل بحث:
آپ نے قادیانی حوالہ جات ملاحظہ فرمالیے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ
1: قادیانیوں کے نزدیک مرزا قادیانی ملعون کو نہ ماننے والے عیسائی یہودی مشرک اور اللہ اور اس کے رسول کے مخالف جہنمی اور کافر ہیں۔
2: مرزا قادیانی کے نزدیک تمام مسلمان کنجریوں کی اولاد بیابانوں کے خنزیر اور ا ن کی عورتیں کتیوں سے بڑھ کر ہیں۔
3: مرزا قادیانی کے نزدیک اس کے منکرین کے پیچھے نماز پڑھنا حرام ہے حتی کہ حج میں بھی قادیانیوں کو علیحدہ نماز پڑھنی چاہیے۔
4: مرزا قادیانی کے نزدیک مسلمانوں کو سلام کرنا حرام ہے۔
اے مسلمان! کبھی تو نے یہ سوچا ہے کہ کوئی تمہارے باپ کو، تمہارے خاندان کو فحش گالیاں دے تو کیا تم اس کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنا پسند کروگے؟ کوئی شخص تمہارے مال و دولت پر ڈاکہ ڈالے سب کچھ چھین کر لے جائے تو اس کے متعلق کیا رویہ اختیار کرو گے ؟ اگر کوئی شخص منافقانہ طور پر میٹھی زبان رکھتا ہو بظاہر حسن اخلاق کا مالک ہو لیکن کاروبار میں تمہارے ساتھ دھوکہ کرتا ہے تمہیں دیوالیہ کردیتا ہے لاکھ سے راکھ تک پہنچادیتا ہے تو کیا پھر بھی اس کی ”میٹھی زبان اور حسن اخلاق “کے گرویدہ رہو گے؟
ان سب امور کا جواب اگر نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے، تو قادیانیوں سے تعلقات قائم کرکے دین اسلام کو کیوں پس پشت ڈال رہے ہو؟ ایمان اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے چور اور ڈاکو اس لائق نہیں ہوسکتے کہ ان سے مراسم قائم کیے جائیں۔ زن زر اور زمین کی لالچ میں چند ٹکوں کے معاشی اور معاشرتی فائدہ کے لیے اپنی آخرت تباہ نہ کرو جو شخص مذکورہ تمام امور کوجاننے کے باوجود قادیانیوں سے رشتے ناتے، سماجی ومعاشرتی تعلقات میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتا، وہ سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو کل قیامت کے دن کیا منہ دکھائےگا ؟؟