تعارف کتب فقہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تعارف کتب فقہ
مفتی محمد یوسف ﷾
کتاب الحجۃ علی اہل المدینۃ :
امام دار الہجرۃ امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے نام سے کون واقف نہیں، اگر ان کے شاگردوں کی فہرست پر نگاہ دوڑائیں تو ان میں امام ربانی محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ کا نام ضرور دکھائی دے گا امام محمد رحمہ اللہ؛ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مایہ ناز شاگرد ہیں۔ کوفہ میں جلیل القدر مشائخ سے علم و حکمت کے موتی سمیٹنے کے بعد مدینۃ الرسول علی صاحبہا التسلیم تشریف لے گئے اور وہاں کے ائمہ و شیوخ خصوصا ًامام مالک رحمہ اللہ کی خدمت میں رہ کے خوب خوب علمی پیاس بجھائی۔ لگ بھگ تین سال تک آپ کو امام مالک رحمہ اللہ کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا، اس دوران آپ نے ان سے موطا امام مالک اور دیگر احادیث کا سماع کیا۔
امام محمد رحمہ اللہ چونکہ بذات خود فقہ حنفی پر کاربند تھے اور مسلک حنفی کے نامور امام تھے اس لیے فروعی مسائل میں امام مالک اور ان کے ہم فکر علمائے مدینہ سے علمی اختلاف کا ہونا بعید از عقل نہ تھا۔ بہت سارے مسائل میں امام محمد رحمہ اللہ نے ان سے اختلاف رائے کیا یہ اختلاف بے بنیاد نہ تھا بلکہ دلائل و براہین کی بنیاد پر استوار تھا۔ یہ بات یاد رہے کہ علمی میدان میں اپنے موقف کو دلائل سے ثابت کر کے ادب و احترام کے ساتھ پیش کرنا قطعاً معیوب نہیں، اس میں استاذ شاگرد، پیر مرید اور بڑے چھوٹے کی کوئی تخصیص نہیں۔
چنانچہ وہ مسائل جن کے بارے میں فقہ حنفی اور فقہ مالکی کا نظریہ جدا جدا تھا امام محمد رحمہ اللہ نے ان کو یکجا کیا، اپنے موقف کو بھر پور اور بڑے علمی انداز سے ثابت کیا، اپنے نظریے کی تائید اور اُن کے نظریے کی علمی تردید پر ایسے دلائل پیش کیے جو ان پر حجت بن سکیں اسی لیے آپ نے اس کا نام الحجۃ علی اہل المدینۃ تجویز فرمایا۔
زیر بحث کتاب کا جو نسخہ اس وقت ہمارے پیش نظر ہے اس کی ترتیب وتعلیق کی سعادت دارالعلوم دیوبند کے سابق صدر مفتی سید مہدی حسن رحمہ اللہ کے حصہ میں آئی ، مفتی صاحب رحمہ اللہ نے نہایت محنت اور عرق ریزی سے یہ ذمہ داری نبھائی ہے (اللہ تعالی ان کو اپنی شایان شان جزا عطاء فرمائے) یہ نسخہ دو جلدوں پر مشتمل ہے ادارہ عالم الکتب بیروت نے اسے شائع کیا ہے۔
کتاب الحجۃ علی اہل المدینہ کا اسلوب تحریر بہت سادہ اور عام فہم ہے عبارت میں پیچیدگی اور الجھاؤ بالکل نہیں،مجموعی ترتیب یوں ہے کہ فاضل مصنف رحمہ اللہ نے ہر باب میں مسئلہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: سب سے پہلے قال ابو حنیفۃ رحمہ اللہ کہہ کر زیر بحث مسئلہ میں فقہ حنفی کا موقف سامنے لائے ہیں پھر قال اہل المدینۃ لکھ کر اس مسئلہ میں فقہائے مدینہ کا نظریہ تحریر کرتے ہیں آخر میں وقال محمد بن حسن کہہ کر فقہ حنفی کی ترجمانی کرتے ہوئے اس پر دلائل پیش کیے ہیں، بسا اوقات پہلے فقہاء مدینہ کے موقف کی بڑے دلچسپ طریقے سے تردید کرتے ہیں پھر اپنے دلائل نقل کرتے ہیں۔
بعض مقامات میں امام محمد رحمہ اللہ نے اپنے اور فقہائے مدینہ کے موقف میں تقابل کیا ہے اور پھر اپنے موقف کی اضافی خوبی کو بیان کیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ ایام تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد کون سے کلمات پڑھے جائیں؟ اس بارے میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور فقہائے مدینہ کا موقف یکساں نہیں، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایام تشریق میں امام و مقتدی ہر فرض نماز کے بعد یہ کلمات پڑھیں، اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد، جب کہ فقہائے مدینہ کا کہنا یہ ہے کہ صرف کلمہ تکبیر یعنی اللہ اکبر، تین مرتبہ کہا جائے گا بس اس موقع پر امام محمد رحمہ اللہ نے حسب معمول اپنے موقف کی تائید میں چند احادیث مبارکہ پیش فرمائی ہیں مگر بطور خاص یہ جملہ بھی تحریر کیا:
وھذا احسن من قول اہل المدینۃ لان فیہ التہلیل والتحمید وقد اتی علی ما قالہ اہل المدینۃ ایضا۔
)الحجۃ علی اہل المدینۃ ج1ص202 (
اور ہمارا یہ موقف اہل مدینہ کی بات سے زیادہ بہتر ہے ایک تو اس لیے کہ اس میں تہلیل (لا الہ الا اللہ) بھی ہے اور تحمید (الحمد للہ) بھی اور دوسرا اس لیے کہ یہ کلمات جو ہم نے بتائے ہیں وہ اہل مدینہ کے بتائے ہوئے کلمات کو بھی شامل ہیں۔
بنیادی طور پر یہ کتاب ان فروعی مسائل پر مشتمل ہے جو فقہ حنفی اور فقہ مالکی کے مابین اختلافی ہیں مگر ضمناًکئی مسائل ایسے بھی امام محمد رحمہ اللہ نے درج کیے ہیں جن میں امام مالک اورفقہائے مدینہ نے وہی موقف اختیار کیا ہے جو امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے، مثلا کتاب الطہارۃ میں اس مسئلے پر بحث کی کہ اگر کوئی آدمی دوران وضو سر کا مسح کرنا بھول جائے اوراسی طرح نماز پڑھ لے، نماز کے بعد یاد آئے کہ سر کا مسح نہیں کیا تھا اب اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اب یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ نماز دوبارہ پڑھے گا مگر سوال یہ ہے کہ اس کو از سر نو وضو کرنا پڑے گا یا صرف سر کا مسح کرلے تو وہی کافی ہوگا؟ اس بارے میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی کے لیے از سر نو وضو کرنا ضروی نہیں صرف سر کا مسح کرلے تو کافی ہوگا۔
جبکہ اس مسئلے میں فقہاء مدینہ چونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے موقف سے متفق ہیں اس لیے امام محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وقال اہل المدینۃ ایضا کما قال ابو حنیفۃ رضی اللہ عنہ۔ اس مسئلے میں جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے اہل مدینہ بھی وہی کہتے ہیں۔
)الحجۃ علی اہل المدینۃ ج1 ص30 (
اسی طرح باب رفع الیدین فی صلوۃ الجنازۃ کے تحت یہ مسئلہ لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نماز جنازہ میں ہر تکبیر کے ساتھ ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے بلکہ فقط پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کیا جائے گا۔ پھر لکھتے ہیں: اس مسئلہ میں امام مالک بن انس کا بھی یہی موقف ہے۔
)ایضا ج1 ص233 (
امام محمد رحمہ اللہ کی یہ کتاب علمی دنیا میں بہت اہمیت کی حامل ہے دور جانے کی ضرورت نہیں ماضی قریب کے مشہور محقق شیخ ابو زہرہ مصری رحمہ اللہ نے بڑے واضح الفاظ میں اس کی قدرو منزلت کا اعتراف کیا ہے، لکھتے ہیں: امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ کتاب اپنی کتاب الام میں نقل کی ہے اور اس پر بیش قیمت حواشی لکھے، آپ نے کبھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کا خلاف کیا اور کہیں اہل مدینہ کا، اور ہر مسئلہ کے خاتمہ پر کہیں حنفی فقہ سے اظہار موافقت کیا اور کہیں اہل مدینہ سے۔ یہ کتاب دو لحاظ سے بڑی قیمتی ہے اول یہ کہ سندا ثابت اور روایۃ صادق ہے اس کے مستند ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں اسے روایت کیا اور اس کی تدوین فرمائی، دوسرا یہ کہ یہ کتاب مدلل ہے اور اس میں قیاس سنت اور آثار پر مشتمل دلائل ذکر کیے گئے ہیں، اس حیثیت سے یہ فقہ کے تقابلی مطالعہ کی کتاب ہے جب اس پر امام شافعی رحمہ اللہ کی تعلیقات اور مختلف آراء و افکار کے مابین ان کے فاضلانہ موازنہ کا اضافہ بھی کر لیا جائے تو یہ کتاب نہایت موزوں پاکیزہ فقہی نظریات کا مجموعہ نظر آتی ہے۔
)حیات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مترجم ص380، 381(