تحقیق و ریسرچ میں فکری گمرا ہی کا تیسرا سبب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تحقیق و ریسرچ میں فکری گمرا ہی کا تیسرا سبب
مولانا محب اللہ جان
تحقیق و ریسرچ میں نا اہلی:
تحقیق و ریسرچ میں فکری گمرا ہی کے اہم اسباب میں سے ایک سبب نا اہلی ہے اور یہ نا اہلی جس کا م میں بھی پا ئی جا ئے اس کا م کو بگاڑ کر کے رکھ دیتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اذا وسد الامر الیٰ غیر اہلہ فا نتظر السا عۃ(بخاری کتاب العلم)کہ جب بھی کوئی معا ملہ اس کے غیر اہل کے سپرد کیا جائے تو قیا مت کا انتظا ر کرو۔ مطلب یہ بھی قیا مت کی نشا نیوں میں سے ایک نشا نی ہے کہ تحقیق کی اہلیت رکھے بغیر لو گ محقق ہو نے کا دعویٰ کریں گے اور ایک شخص اہلیت رکھے بغیر اپنی نا قص تحقیق کی بنا پر مجمع علیہ( متفقہ مسا ئل )کی مخا لفت کرتانظر آئے گا۔
تحقیق و ریسر چ کے اس میدان میں آج تک جتنے لوگ بھی بھٹک چکے ہیں اور ضلا لت کے عمیق گڑھے میں جا پہنچے ہیں تو انکی اس ضلا لت اور ان کی اس فکری گمرا ہی میں نا اہلی کا یہ سبب سب سے نما یاں ہے۔ یہ ایک عا م متفقہ مسلمہ اصول ہے کہ لکل فن رجال کہ ہر فن کے اپنے ما ہرین ہو تے ہیں اور ہر فن میں اس کے ما ہرین ہی کی آراء و تجا ویز کو قبو ل کیا جاتا ہے، چا ہے ان فنون کا تعلق دنیا وی امو ر کیسا تھ ہو یا ان فنون کا تعلق علوم شریعت کےسا تھ ہو۔اگر کسی کو تحقیق کا ذوق ہے تو اسلام نے تحقیق سے ہر گز نہیں رو کا بلکہ ادیان عالم میں اسلا م ہی کو وہ خصوصیت حا صل ہے کہ اس نے تحقیق کی کما ل حوصلہ افزا ئی کی ہے۔ مگر اصل با ت یہ ہے کہ اگر اسلا م نے تحقیق و اجتھا د کے اس شعبہ کو جا ری و برقرار اور قا بل عمل رکھا ہے تو پھر اسے شتر بے مہا ر بھی نہیں چھو ڑا کہ جو جہاں چا ہے ،جب چا ہے تحقیق جیسے لطیف اور نا زک کا م کے لئے کمر بستہ ہو جا ئے اور پھر وہ اپنی ہر قسم کی تحریفا ت ،تلبیسات، نا قصات اور اپنی کج فہمیوں کو تحقیق کا نام دیکر امت مسلمہ میں گمرا ہی کو فروغ دینے کی کو شش کرے اور تحقیق کے نام پر ہر غیر اسلا می اور غیر شرعی نظریہ ،مسئلہ کو اسلا می با ور کرا نےکی کو شش کرے یا پھر وہ تحقیق کے نام اسلا می تعلیمات اور اس کے مسلمہ و متفقہ عقا ئد و نظریات پر ہاتھ صا ف کرتا رہے اور جب چاہے اپنی تحقیق سے ایک مسلمہ اجما عی عقیدہ کا انکا ر کر دے اور غیر اسلا می نظریہ کو اسلا می بنا نے کے لئے قرآن و سنت میں تاویلات فاسدہ کا ارتکا ب کرکے یہودیوں کی پیرو کا ری کر لے اور یکتبو ن ا لکتا ب با یدیھم ثم یقولو ن ھٰذا من عند اللہ کا مصدا ق حقیقی بن جا ئے۔ یہاں تک تو فکری گمرا ہی کے اس اصل سبب کی با ت ہو گئی۔ اب دیکھتے ہیں کہ اسلام تحقیق کے با رہ میں کیا نظریہ اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے۔
اسلام اور تحقیق :
یہاں چند با تیں ضرو ری ہے تمام مسلما نوں کا یہ متفقہ ،مسلمہ اجما عی عقیدہ ہے کہ اسلام ایک عا لمگیر اور ایک ابدی مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیمات کسی قبیلہ ، علاقہ، قوم تک کے لئے خاص نہیں بلکہ اسلام کی مکمل تعلیمات تمام انسا نیت کے لئے یکسا ں قابل عمل ہیں۔ نماز جیسے حرمین شر یفین وا لو ں پر فرض ہے ایسے ہی با قی مسلمانوں پر بھی ، زکو ۃجیسے ہندو ستان وا لوں پر فرض ہے اسی طر ح برطا نیہ وا لو ں پربھی۔ تو اسلام کی اس عا لمگیریت و ابدیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ اس کو تمام عالم وا لوں کے لئے بھی یکسا ں قا بل عمل ماناجائے اور ظا ہر با ت ہے کہ تمام انسانوں کے حالات ایک جیسے نہیں ہیں تومختلف احوال کے متعلق شرعی اصولوں کومعلوم کرنے کیلئے تحقیق کی ضرورت پڑتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تحقیق ریسر چ کے شعبہ کوبھی بر قرار، جا ری و ساری رکھ کر دا ئمی طور پرقا بل عمل سمجھا جا ئے۔
۲: دو سری با ت یہ ہے کہ اسلام جس طرح تمام انسانوں کے لئے یکساں قابل عمل ہے اسی طرح وہ تمام زمانوں کے لئے بھی یکساں قابل عمل ہے۔ اور زمانہ تغیر پذیر ہے ،لہٰذا تغیر پذیرحالات کے پیش نظر نت نئے مسائل کا ابھرنا ایک فطری عمل ہے ،جس کے لئے تحقیق کی ضرورت اور اہمیت کا کوئی صاحب بصیرت انکار نہیں کرسکتا۔ با ت صرف تحقیق کی اہلیت اور اس کے حدود کی ہے اسلام کا مزاج ہے کہ وہ ہر چیز کی تحدید کرتا ہے اور حدود سے تجاوز کی شدید مخالفت کر تا ہے بلکہ اگر یو ں کہا جائے کہ اسلام دنیا میں ہر چیز کواعتدال اور اس کے حدود میں رکھنے کی تعلیم کے لئے ہی آیا ہے تو با لکل بجا ہو گا۔
۳:تیسری با ت یہ ہے کہ تحقیق بھی اسلام کی اہم خصوصیات میں سے ہیں جتنی تحقیق بڑھتی جا ئے گی اسلام کی حقانیت ظاہر ہو تی چلی جا ئے گی کیو نکہ قرآن کے با رے میں فرما گیا کہ :لا تنقضٰی عجا ئبہ :کہ اس کے عجائب و غرا ئب کبھی بھی ختم نہیں ہو ں گے پھر مزید آج تک جتنی تحقیقات اسلام میں ہو ئی جتنی کتا بیں اسلام کے متعلق اسلامی تا ریخ میں لکھی گئی ہے اورلکھی جارہی ہیں دوسرے مذا ہب وا لے اس کے عشر و عشیر کو بھی نہیں پہنچتے اور یہ سب تحقیق و ریسر چ کی حو صلہ افزا ئی ہی کی بدولت ہے جب تحقیق میں بھی اسلام کو ادیان عا لم پر خصوصی امتیا زی حیثیت حاصل ہے تو اس بنا پر کوئی بھی مسلمان اس چیز کا انکار نہیں کر سکتا ،ہاں البتہ تحقیق کی لگام کو نااہلوں کے حوالہ کرنا اسلامی تعلیمات کےساتھ تو بہت بڑی خیا نت اور بد یا نتی ہے لہٰذا ایسی صورت حال قطعًا قا بل بردا شت نہیں کیو نکہ نااہلوں کواسلام میں تحقیق کی اجازت دینا یہ دین کے سا تھ تمسخر اور تلا عب تصور ہو گا۔ یہاں تک تو تحقیق کی ضرورت اہمیت اوراسلام میں اس کی حقیقی حیثیت پر با ت ہو گئی اب مزید تحقیق کے متعلق چند گزار شات پیش کر دی جا تی ہے تا کہ اس میں کوئی تشنگی با قی رہ نہ جا ئے شا ئد کہ را ہ حق کا متلا شی ،ام مسلمہ کا غم خوار ان گزا ر شات کی رو شنی میں تحقیق کے سلسلہ میں اپنا صحیح رخ متعین کر سکے اور تحقیق ،ریسرچ کا ذوق شوق رکھنے وا لے احباب سوچ سمجھ کر اس لطیف و نازک میدان میں اپنا قدم رکھیں۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز۔
تحقیق پر تحقیق
یہ پہلی وہ جگہ ہیکہ جہا ں علما ئے امت نے تحقیق سے منع کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ جب ایک مسئلہ کی تحقیق ہو چکی ہے اور امت مسلمہ کا اس پراجماع ہوچکاہے تواب مزیداس پر تحقیق کی گنجا ئش با قی نہیں رہتی ،ایسی صورت میں ایسی تحقیق پر اعتما د کر نا ہے شیوۂ مسلما نی ہے ،اس لئے کے تحقیق کا مطلب ہے کسی مخفی چیز کو ظاہر کرنا غیر وا ضح کو و اشگاف کرنا ،مختلف فیہ مسا ئل میں کسی ایک را ئے کو با دلیل تر جیح دینا ،لیکن اب جس مسئلہ کے متعلق یہ سب کا م ہو چکے ہو یا فقہا ئے امت، محدثین ،متکلمین ،علما ئے امت نے تحقیق کر کے اس کا ایک رخ متعین کر لیا ہو اور اس کی ایک جہت پر اتفاق کر لیا ہو تو اب ا س پر مزید تحقیق کر نا تحصیل حاصل ہوگااور ایک فضول اور لغو عمل ہی متصور ہو گا ،اس لئے کہ مقصود حقیقت کو وا ضح کر نا تھا سو وہ تو ہو چکی ہے اب ثابت شدہ چیز کو ثابت کر نے اور تحقیق شدہ چیز پر تحقیق کر نے یہی مطلب نکلتا ہے کہ اس محقق کو اس تحقیق شدہ مسئلہ پر اعتماد و یقین نہیں ہے اور جن لو گو ں نے یہ تحقیق کی ہے اس کی نظر میں غیر معتبر ہے اب اسکی دوہی صورتیں ہو سکتی ہے پہلی صورت یہ ہے کہ علما ء اور فقہائے امت پر یہ عدم اعتماد کس بنیا د پر ہے اگر محض بغض اور دلی عدا وت و تنفر کی بنیاد پر ہے تو پھر فقہا ء اور علمائے امت سے بغض ہی انسان کی فکری گمرا ہی کے لئے کافی و شا فی ہے اس لئے کہ اہل حق کی مخا لفت سے انسان پر کبھی حق نہیں کھلتا وہ گمرا ہی پر ہی اڑا رہتا ہے اس لئے کہ حق تو اہل حق کے پا س ہو تا ہے اور حق کے مقا بلہ میں باطل اور گمراہی ،ہی ہے جو ایسی لو گو ں کی قسمت میں آتی ہے ،جو اہل حق سے دلی بغض رکھتے ہیں یہ ایک سنگین اور خطر نا ک ترین مرض ہے اللہ کریم ہم سب کی حفا ظت فرمائے اور فکری گمرا ہی کے اس اہم سبب یعنی اہل حق سے عداوت وتنفرسے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین
دوسری صورت :
یہ ہےکہ انسان کسی ثا بت یا تحقیق شدہ مسئلہ پرعدم اعتماد اپنے علم یادلیل کی بنیاد پر کر تا ہے تو ایسی صورت میں یہ ضروری ہے کہ جن لوگوں نے یہ تحقیق کی ہے ان سے اس درجہ کے علو م و فنو ن میں رسوخ اور تقوٰی و صلاح میں کا ملیت ،فطری ذکاوت حس کی تیزی میں ان سے افضلیت یا کم از کم مطا بقت پا ئی جا تی ہو۔ اس چوٹی کا علم اس کے پاس بھی ہو جن کی تحقیقات پر یہ کو ئی رائے قائم کر نا چا ہتا ہے وگر نہ جو علم و عمل سے کو را ہو ،اسلامی علوم و فنون پر جس کی نظر نہ ہو نے برابر ہو ،یا پھر وہ زما نہ کے مروج افکا ر ونظر یا ت سے حددرجہ مر عو ب و متا ثر ہو اور اس کو بنیاد بنا کرایک نئی تحقیق کی راہ ہموا ر کر نا چا ہتا ہو ،تو شا ید کے اس بڑھ کر اور کوئی گمرا ہی ہو اس لئے کہ شرعاً ،عقلاً غیر عا لم کے لئے عا لم کی اتبا ع ،نا قص کے لئے کا مل کی اتباع فرض اور لا زم ہے اور جو مریض طبیب پر اعتماد یا بھرو سہ نہ کرے اس کا انجام ہلا کت کے علا وہ اور کیا ہوسکتاہے ؟ایسے وہ لوگ بھی جوتحقیق میں محققین کا ملین فقہائے ا مت پر اعتماد و بھروسہ نہ کریں ان کا انجام بھی سوائے فکری گمرا ہی کے علا وہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ لہٰذا ایسے نا قص اور نا مکمل کی تحقیقات کو فقہاء امت کے سا منے رکھ کر یہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
چہ نسبت خاک را باعالم پاک ؟
الغرض کہ جب ایک مسئلہ کی تحقیق ہو چکی ہو یا وہ قرآن و سنت ،اجما ع امت سے وا ضح ہو چکا ہو، ایسے تحقیق شدہ مسا ئل پر تحقیق انسا ن کی فکری گمرا ہی کا سبب بن سکتاہے لہٰذا ایسی تحقیقات میں اعتما د کر نا ہی انسان کی فکری گمرا ہی سے بچنے کا واحد حل ہے۔
مہا رت و قا بلیت:
دوسری اہم بات یہ ہے کہ انسان جس مسئلہ کی تحقیق کر نا چا ہتا ہے وہ سب سے پہلے یہ دیکھے کہ وہ تحقیق طلب مسئلہ کس فن کے متعلق ہے ،پھراس فن میں مطلوب وہ مہا رت ضروری ہے جس کے ذریعہ وہ تحقیق کی جاسکے اگر وہ مسئلہ تفسیر کے متعلق ہو تو پھر علوم قرآن میں مہا رت شرط ہو گی ،اگر تحقیقات حدیث کے متعلق ہے تو پھر علوم حدیث میں مہا رت شرط ہو گی اگر اس مسئلہ کا تعلق فقہ سے ہے تو پھر فقہ اور اصول فقہ میں مہارت شرط ہو گی۔ بعض لو گ اعتراض کر تے ہیں کہ اللہ کریم نے تو دین کو بہت آسان بنا یا ہے پھر اس کو سمجھنے کے لئے اور تحقیق کر نے کے لئے اتنی سخت شرا ئط کیوں بتائی جا ر ہی ہے ؟در اصل شریعت کے مسا ئل تین طرح کے ہیں ، ایک تو وہ ہیں کہ جو قرآن و سنت یااجما ع امت کے عملی و نقلی توا تر سے صرا حت کے ساتھ ثا بت ہیں، اب ایسے مسا ئل پر تحقیق کی کیا ضرورت ہے ؟بلکہ ایسے مسا ئل جن کتابو ں میں مو جو د ہیں ان کے مطا لعہ سے معلوم کیے جا سکتے ہیں مثلًا نما ز کے مسا ئل ، رکعا ت کی تعداد اور اوقات کی تعیین یا طلا ق،نکا ح کے مسا ئل ہیں ،دوسرے نمبر پر بہت سے ایسے مسا ئل بھی ہیں جو مسلمانوں کے عملی تعامل سے ہما رے سا منے مو جو د ہیں،جیسے نما ز کا طریقہ۔
تیسرے نمبر پر وہ مسا ئل ہیں کہ جن کا حکم صرا حتًہ قرآن میں مو جود نہیں اور نہ ہی ان پر کو ئی اجما ع منعقد ہو چکا ہے اور اس کا حل بھی ہمیں معلو م نہیں ایسے نئے مسائل کے حل کے لئے تحقیق کی ضرورت پڑتی ہے اب ثا بت اور تحقیق شدہ مسائل کی تحقیق کی ضرورت نہیں پڑتی ،بلکہ مطا لعہ کتب یا تھوڑی بہت جدو جہد سے ایسے مسا ئل معلوم کیے جا سکتے ہیں ھاں البتہ جن مسا ئل کا حل قرآن و سنت اور اجما ع میں صرا حتًہ موجود نہیں ہے تو ایسے مسا ئل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کرنا اور ان کی اصل حقیقت کو معلوم کرنا اور کسی مشترک علت کی بنا پر حلال یا حرام کا فتویٰ لگانا، ظاہر با ت ہے کہ یہ ایک نا زک کا م ہے جو ہر کسی بس کا رو گ نہیں۔ تو ایسے مسائل کے حل کیلئے علوم و فنون میں مہا رت کی ضرو رت پڑتی ہے ،جس کے ذریعہ ان مسا ئل کو حل کیا جا سکے۔ واللہ اعلم با الصواب