مغالطہ آفرینی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مغالطہ آفرینی
مولانا محمد اشفاق ندیم
قیاس کو نہ ماننے والے اور اس کا شدو مد سے انکار کرنے والے؛ عام لوگوں کے ذہنوں میں ایک شبہ ڈالتے رہتے ہیں کہ فقہاء کرام بالخصوص امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ احادیث شریفہ کے مقابلہ میں اپنے عقل اور قیاس کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ سبحانک ھذا بہتان عظیم۔ درجہ اجتہاد و فقاہت پر فائز شخصیت کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حدیث پر عقل کو ترجیح دیتا ہے؛ ایسا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ دسویں صدی ہجری کے مشہور اصولی حضرت امام عبدالوہاب بن احمد بن علی بن احمد الشافعی المتوفی 973ھ نے اس پر بڑی تفصیل سے حضرات فقہاء کرام کے اقوال سے اس شبہہ کی تردید کی ہے۔
خصوصاً امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا طرز استدلال بڑی وضاحت کے ساتھ نقل کیا ہے اور ساتھ ساتھ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف اس نسبت کو کہ وہ قیاس کو حدیث پر ترجیح دیتے ہیں، تعصب قرار دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے امام صاحب کا اپنا قول اس بارے میں نقل کیا ہے:
کذب واللہ وافتری علینا من یقول عنا اننا نقدم القیاس علی النص وہل یحتاج بعد النص الی قیاس وکان رضی اللہ عنہ یقول نحن لا نقیس الا عند الضرورۃ الشدیدۃ وذالک اننا ننظر اولا فی دلیل تلک المسئلۃ من الکتاب والسنۃ او اقضیۃ الصحابۃ فان لم نجد دلیلا قسنا حینئذ مسکوتا عنہ علی منطوق بہ بجامع اتحاد العلۃ بینہما وفی روایۃ اخری عن الامام انا ناخذ اولا بالکتاب ثم بالسنۃ ثم باقضیۃ الصحابۃ ونعمل بما یتفقون علیہ فان اختلفوا قسنا حکما علی حکم بجامع العلۃ بین المسئلتین حتی یتضح المعنی وفی روایۃ اخری انا نعمل اولا بکتاب اللہ ثم بسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم باحادیث ابی بکر وعمر وعثمان وعلی رضی اللہ عنہم وفی روایۃ اخری انہ کان یقول ما جاء عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعلی الراس والعین بابی ھو وامی ولیس لنا مخالفتہ وما جاءنا عن اصحابہ تخیرنا وما جاء عن غیرہم فہم رجال ونحن رجال۔
)المیزان الکبری للشعرانی ج1 ص79 (
”اللہ کی قسم اس نے جھوٹ بولا ہے اور ہم پر بہتان باندھا ہے کہ ہم نص پر قیاس کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے نص کے بعد قیاس کی ؟حضرت امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم صرف سخت ضرورت کے وقت قیاس کرتے ہیں اور ہم سب سے پہلے مسئلہ کی دلیل کتاب اللہ میں دیکھتے ہیں پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فیصلوں میں۔ اگر وہاں دلیل نہ ملے تو پھر ہم قیاس کرتے ہیں جب نص خاموش ہو کہ ان دونوں کے درمیان علت کیا ہے ؟ دوسری روایت میں ہے امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم سب سے پہلے کتاب اللہ دیکھتے ہیں پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فیصلے اگر متفق ہوں تو اس پر عمل کرتے ہیں اگر اختلاف ہو تو ہم قیاس کرتے ہیں کہ ان دو مسئلوں کے درمیان علت مشترکہ کیا ہے یہاں تک کہ معنی واضح ہوجاتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے بے شک ہم سب سے پہلے کتاب اللہ پر عمل کرتے ہیں پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال پر۔ ایک اور روایت میں ہے انہوں نے فرمایا جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ہمارے سر آنکھوں پر؛ میرے ماں باپ ان پر قربان ہم ان کی مخالفت نہیں کرتے جو کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا ہم اس کو اختیار کرتے ہیں اور جو ان کے علاوہ کہیں گے وہ بھی آدمی ہیں اور ہم بھی اس میدان کے آدمی ہیں۔ “
امام صاحب کی اس خوبصورت وضاحت کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت تو نہیں تاہم اتمام حجت کے لیے چند مسائل ایسے ذکر کردیتے ہیں جن میں قیاس کا تقاضا اور ہے اور حدیث کا تقاضا کچھ اور ہے۔
یعنی قیاس اور حدیث میں تعارض ہے احناف نے ان مسائل میں قیاس کو چھوڑ کر احادیث پر عمل کیا ہے، چند مسائل درج ذیل ہیں۔
مسئلہ نمبر1:
بے ہوشی ہر حال میں وضو کو توڑ دیتی ہے قیاس کا تقاضا یہ تھا کہ نیند بھی ہر حال میں وضوکو توڑ دے مگر حدیث میں آتا ہے:
انما الوضوء علی من نام مضطجعا۔
)سنن ابی داود ص30 (
ایک روایت میں ہے :
لا یجب الوضوء علی من نام جالسا او قائما او ساجدا .
)سنن الکبری للبیہقی ج1 ص121 باب ما ورد فی نوم الساجد (
ترجمہ: اگر کوئی آدمی بیٹھے ہوئے سوگیا یا کھڑے کھڑے سوگیا یا سجدہ کی حالت میں سوگیا اس پر وضو کرنا واجب نہیں ہے۔
ان احادیث مبارکہ کی وجہ سے احناف کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ قیام کی حالت میں ، سجدہ کی حالت میں یا تشہد کی حالت میں سوجائے تو اس کا وضو نہیں ٹوٹتا۔
مسئلہ نمبر2:
اگر کوئی بندہ نماز کی حالت میں قہقہہ لگائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے قیاس کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس آدمی کا وضو نہیں ٹوٹنا چاہیے کیونکہ وضو توڑنے والی چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں پائی گئی۔ جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
عن ابی موسیٰ قال بینما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی بالناس اذ دخل رجل فتردیٰ فی حفرۃ کانت فی المسجد وکان فی بصرہ ضرر فضحک کثیر من القوم وھم فی الصلاۃ فامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ضحک ان یعید الوضوء و یعید الصلاۃ۔
معجم کبیر طبرانی
ترجمہ : حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اسی دوران ایک آدمی جس کی بینائی کمزور تھی وہ آیا اور مسجد کے گڑھے میں گر گیا )جو صحن میں واقع تھا (۔ اس کو دیکھ کر بہت سارے لوگ نماز ہی میں ہنس پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنسنے والوں کو وضو اور نماز لوٹانے کا حکم صادر فرمایا۔
مسئلہ نمبر3:
اگر امام عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے اور مقتدی کھڑے ہو کر پڑھیں تو کیا مقتدیوں کی نماز ہوجائے گی؟ قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ مقتدیوں کی نماز چونکہ امام کی نماز سے قوی ہے اس لیے نہیں ہونی چاہیے لیکن حدیث کہتی ہے کہ ہوجائے گی چنانچہ حدیث مبارک میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے مرض الوفات میں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور
فجعل ابوبکر یصلی وھو یاتم لصلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم والناس بصلاۃ ابی بکر والنبی قاعدا۔
)صحیح بخاری ج 1 ص95 (
اور دوسری روایت میں ہے:
یصلی قاعدا وابوبکر یصلی بصلاتہ قائما والناس یصلون بصلاۃ ابی بکر جبکہ ایک اور روایت میں ہے: قال ابو عبداللہ قال الحمیدی قولہ اذا صلی جالسا فصلوا جلوسا ھو فی مرض القدیم ثم صلی بعد ذالک النبی صلی اللہ علیہ وسلم جالسا والناس خلفہ قیام لم یامرہم بالقعود وانما یوخذ بالاخر فالاخر من فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
)صحیح بخاری ج 1 ص96، 415 (
ان احادیث مبارکہ کی وجہ سے احناف کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی امام عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے مقتدی کھڑے ہوکر نماز پڑھیں اور ان کی نماز ہوجائے گی۔ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے ہم نے عقل و قیاس کو چھوڑدیا ہے۔
مسئلہ نمبر4:
اگر نماز کے دوران نمازی کی طہارت ختم ہوجاتی ہے یعنی وضو ٹوٹ جاتا ہے تو نمازی کو چاہیے اپنی جگہ سے چلا جائے دوبارہ وضو کرے اس کے بعد آکر اپنی نماز کی بناء کرے، (یعنی جہاں یہ نماز چھوڑی تھی وہیں سے شروع کرے) اب قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ نماز کی بناء نہ ہو بلکہ نئے سرے سے دوبارہ نماز شروع کی جائے کیونکہ ایک تو وضو کا ٹوٹنا ہی نماز کے منافی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ نمازی کا اپنی جگہ سے جانا وضو کرنا اور پھر اپنی جگہ واپس آنا یہ بھی نماز کے منافی ہے۔
مگر حدیث میں آتا ہے کہ وہ اپنی نماز کی بناء کرے (جہاں سے یہ چھوڑ کر گیا وہیں سے شروع کرے)
عن عائشۃرضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "من أصابه قيء أو رعاف أو قلس أو مذي فلينصرف ، فليتوضأ. ثم ليبن على صلاته، وهو في ذلك لا يتكلم"
)سنن ابن ماجہ ص85 باب ماجاء فی البناء علی الصلاۃ (
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس آدمی کو نماز میں الٹی آجائے یا نکسیر پھوٹ پڑے یا منہ بھر کر قے آجائے یا مذی آجائے اس کو چاہیے کہ اپنی جگہ سے چلا جائے وضو کرے پھر اپنی نماز کی بناء کرے (جہاں سے یہ چھوڑی تھی وہیں سے شروع کرے) بشرطیکہ درمیان میں کسی سے کلام نہ کیا ہو۔
اس حدیث مبارک کی وجہ سے احناف کا مسلک یہ ہے کہ وہ آدمی دوبارہ نئے سرے سے نماز نہ پڑھے بلکہ اپنی نماز کی بناء کرے (جہاں پر چھوڑی تھی وہیں سے شروع کرے) ہم نے حدیث کی وجہ سے عقل و قیاس کو چھوڑ دیا ہے۔
مسئلہ نمبر5:
اگر کوئی آدمی نماز کی حالت میں بھول کر بات کرلے تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے اگر کوئی روزہ کی حالت میں بھول کر کھا پی لے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا اب قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا روزہ بھی ٹوٹ جانا چاہیے جس طرح بھول کر بولنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، مگر حدیث مبارک میں ہے:
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال اذا نسی فاکل او شرب فلیتم صومہ۔۔۔۔۔۔الحدیث۔
)صحیح بخاری ج 1ص259 باب الصائم اذا اکل او شرب ناسیا (
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آدمی روزہ کی حالت میں بھول کر کھا اور پی لے تو اس کو چاہیے اپنے روزے کو پورا کرے۔
اس حدیث مبارک کی وجہ سے احناف کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی روزہ کی حالت میں بھول کر کھا اور پی لے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا ہم نے حدیث مبارک کی وجہ سے عقل و قیاس کو چھوڑ دیا ہے۔
مسئلہ نمبر6:
اگر کوئی بندہ روزے کی حالت میں جان بوجھ کر قے کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے اب قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا روزہ نہیں ٹوٹنا چاہیے اس لیے کہ اس نے اندر سے باہر چیز نکالی ہے اندر کوئی چیز داخل تو نہیں کی اور روزہ نام ہے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رکنے کا (یعنی اس وقت میں کوئی چیز اندر داخل نہیں کرسکتا) اس لیے اس کا روزہ برقرار رہنا چاہیے، حدیث میں آتا ہے کہ اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے:
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ذرعہ قیئ وھو صائم فلیس علیہ قضاء وان استقاء فلیقض۔
)سنن ابی داود ص324 باب الصائم یستقیئ عامدا (
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کا روزہ نہیں ٹوٹتا جس پر روزہ کی حالت میں الٹی غالب آجائے اور اس پر قضاء بھی نہیں ہے اور اگر جان بوجھ کر الٹی کرتا ہے تو اس پر قضاء ہے یعنی اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
اس حدیث کی وجہ سے احناف کا مسلک یہ ہے کہ اگر جان بوجھ کر کوئی آدمی الٹی کرتا ہے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس پر اس کی قضاء لازم ہوگی ہم نے عقل و قیاس کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کیا ہے۔
مسئلہ نمبر7:
اعتکاف واجب کے لیے روزہ رکھنا شرط ہے اب قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ روزہ شرط نہیں ہونا چاہیے کیونکہ روزہ ایک مستقل عبادت ہے اعتکاف ایک مستقل عبادت ہے اگر اس کو دوسری عبادت کے لیے شرط قرار دیں تو یہ مستقل عبادت نہیں رہے گی، مگر حدیث میں آتا ہے:
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا انہا قالت لا اعتکاف الا بصوم۔۔۔ ایک اور روایت میں ہے: عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ان نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لا اعتکاف الا بصیام، ایک اور روایت میں ہے: عن ابن عمر عن عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما انہ قال للنبی صلی اللہ علیہ وسلم اذہب فاعتکفہ وصمہ۔
)سنن الکبری للبیہقی ج4 ص17، 316 باب المعتکف یصوم (
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات میں ہے بغیر روزے کے اعتکاف نہیں ہوتا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے میں نے جعرانہ والے دن آپ علیہ السلام کو بتایا کہ آج حضرت علی رضی اللہ عنہ اعتکاف کررہے ہیں آپ علیہ السلام نے فرمایا جاؤ اور اس سے کہو اعتکاف بھی کرے اور روزہ بھی رکھے۔
ان روایات کی وجہ سے احناف کا مسلک یہ ہے کہ واجب اعتکاف میں روزہ رکھنا ضروری ہے۔ اس حدیث کی وجہ سے ہم نے عقل و قیاس کو چھوڑ دیا ہے۔
نوٹ: واجب اعتکاف کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ سنت اعتکاف تو ویسے رمضان المبارک میں ہی ہوتا ہے اس لیے وہاں تو روزہ رکھنا ویسے ہی انسان پر فرض ہے اور نفلی اعتکاف تو ہوتا ہی نفل ہے اور وہ تھوڑی دیر کا بھی ہوسکتا ہے اس لیے اس میں روزہ رکھنا کوئی ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ نمبر8:
عورت جب ماہواری کی دنوں میں ہوتی ہے تو اس کے لیے نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا یہ جائز نہیں ہوتا۔ اب قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ پاکی کے ایام میں نماز اور روزہ دونوں کی قضاء کرے یا پھر نماز کی قضاء تو ضرور کرے کیونکہ نماز باقی تمام عبادات کے مقابلہ میں اہم عبادت ہے لیکن حدیث پاک میں آتا ہے کہ وہ پاکی کے ایام میں روزوں کی قضا کرے گی نماز کی قضاء نہیں کرے گی۔
عن معاذہ قالت سالت عائشۃ فقلت ما بال الحائض تقضی الصوم و لا تقضی الصلاۃ فقالت احروریۃ انت قلت لست بحروریۃ ولکنی اسال قالت کان یصیبنا ذالک۔ فنؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضائ الصلاۃ۔
)صحیح مسلم ج 1 ص 153 (
ترجمہ : حضرت معاذہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت روزہ کی قضا تو کرتی ہے لیکن نماز کی نہیں ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم اس میں مبتلا ہو؟ میں نے عرض کی نہیں میں مسئلے کی وضاحت چاہتی ہوں آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جب ہماری یہ حالت ہوتی تھی تو بس ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا نماز کی قضا کا نہیں۔
اس حدیث کی وجہ سے احناف کا مسلک یہ ہے کہ حیض والی عورت صرف روزوں کی قضا کرے نمازوں کی قضا نہ کرے۔ ہم نے اس حدیث مبارک پر عمل کرتے ہوئے عقل و قیاس کو چھوڑ دیا ہے۔
مسئلہ نمبر9:
جب کوئی آدمی فوت ہو جاتا ہے تو اس کی وراثت اس کی اولاد میں ایسے تقسیم ہوتی ہے کہ لڑکے کو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ ملتا ہے اب قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ لڑکی کمزور ہے اس کو دو حصے ملنے چاہییں جبکہ لڑکا طاقت ور اور جوان ہے اس کو ایک حصہ ملنا چاہیے لیکن قرآن و حدیث میں ہے کہ لڑکے کو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ دیا جائے۔ ہم نے قرآن و حدیث پر عمل کرتے ہوئے عقل و قیاس کو چھوڑ دیا ہے۔
مسئلہ نمبر10:
شریعت میں اہل تفسیر اس کو کہتے ہیں جو تفسیر کا ماہر ہو اہل حدیث اسے کہتے ہیں جو حدیث کا ماہر ہو اور اہل تاریخ اسے کہتے ہیں جو تاریخ کا ماہر ہو اب قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ اہل السنۃ بھی اس کو کہا جائے جو سنت کا ماہر ہو جس طرح دو حدیثوں پر عمل کرنے کی وجہ سے بندہ اہل حدیث نہیں بنتا دو آیتوں کی تفسیر جاننے کی وجہ سے مفسر اور اہل تفسیر نہیں بنتا اسی طرح صرف سنت پر چلنے کی وجہ سے اہل السنۃ بھی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے لیے سنت میں مہارت شرط ہو لیکن سنت پر عمل کرنے والے کو چونکہ حدیث میں اہل السنۃ کہا گیا ہے اس لیے احناف بھی اس کو اہل السنۃ کہتے ہیں:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما فی ھذہ الآیۃ قال تیبض الوجوہ وتسودہ وجوہ قال تیبض وجوہ اھل السنۃ والجماعۃ۔
)تفسیر در منثور ج2 ص111 (
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ یوم تبیض وجوہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ اہل السنت والجماعت ہوں گے۔
اصحاب پیغمبر کی اس تفسیر کی وجہ سے ہم نے عقل و قیاس کو چھوڑ دیا ہے اور سنت پر عمل کرنے والے کو اہل السنۃ کہا ہے۔ اللہ تعالی معاندین اور مخالفین کو عقل سلیم عطا فرمائے۔