فقہ اسلامی کی بہاریں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
فقہ اسلامی کی بہاریں
مولانا محمد اسحاق
تاریخ میں وہ سنہری دور بھی گزرا ہے جب مسلمانوں کے عدل و انصاف ، شان و شوکت اور سطوت سے پوری دنیا امن و سکون اور راحت چین پاتی تھی۔ وہ دیکھیے کہ حدود ِفرانس سے تین بادشاہ فریادی بن کر دربار خلافت کی طرف آرہے ہیں جہاں کہیں قیام کرتے ہیں ان کو دیکھنے کےلیے جمع ہو جاتےکہ بادشاہوں نے درخواستیں ہاتھوں میں پکڑی ہوئی ہیں اور اپنی اپنی حکومت کو امیرالمومنین سے منظور کرانے کےلیے دربار خلافت کی طرف جا رہے ہیں۔ جب دوسرے عیسائی بادشاہ کو علم ہوا کہ فلاں فلاں بادشاہ نے امیرالمومنین سے اپنی حکومت کو تسلیم کرا لیا ہے۔ تو یکے بعد دیگرے دوسرے عیسائی بادشاہوں نے خود حاضر ہو کر یا اپنے سفیروں کو دربارِ خلافت بھیج کر یوں درخواست والتجا کی کہ ہم دربارِ خلافت کے غلام ہیں۔ اپنی اپنی ریاست کو عطیہ سلطانی سمجھتے ہیں۔ اطاعت وفرمانبرداری کی شرائط بجا لانے میں مطلق تاویل وانکار نہیں ہے لہٰذا ہم کو ہماری ریاستوں کی سندیں پھر عطا ہوں اور ہمارے اظہارِ اطاعت کو شرفِ قبولیت عطا فرمایا جائے۔
ممکن ہے کہ کوئی پڑھنے والا یہ سوال کر بیٹھے کہ جناب آپ نے یہ خواب کب دیکھا تھا۔ تو عرض ہے کہ یہ خواب نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے اور ایسی حقیقت ہے کہ چھپائے بھی نہیں چھپ سکتی۔ تاریخ اسلام کو پڑھ کر دیکھیے ایسا بارہا ہو چکا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اس وقت کے حکمران قانون اسلامی پر عمل پیرا تھے اس سے بھاگتے نہیں تھے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ مسلمان حکمران جب تک اسلامی قانون پر عمل پیرا رہے ہیں اس وقت تک انہوں نے دنیا پر شاہی کی ہے۔ اسلامی قانون پر عمل چھوڑا ہے تو دوسروں کو شاہی کرنے کا حق دینے والے خود غیروں کے رحم وکرم پر حکومتیں حاصل کرنے لگے۔ مسلمانوں میں لائق حکمرانوں کی کمی نہیں ہے اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ اسلامی قانون کو نافذ کرنے کی کمی ہے۔ اگر مسلمان حکمران آج بھی احکامات الٰہیہ کو وطن عزیز میں عملاً نافذ کردیں تو دنیا کی ساری طاغوتی قوتیں مسلمانوں کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہو جائیں گی۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب کبھی اسلامی قانون کو نافذ کرنے کی بات ہوتی ہے تو یہاں آکر ختم ہو جاتی ہے کہ کون سا قانون نافذ کیا جائے۔ ؟ بریلوی قانون ، دیوبندی قانون ،سنی قانون یا شیعہ قانون۔ حالانکہ وطن عزیز کی 95 فیصد آبادی اسلامی قانون یعنی فقہ حنفی پر متفق ہے اور خود کو حنفی کہلانے کو باعثِ ناز و افتخار سمجھتی ہے 5 فیصد اقلیتیں ہیں اور اقلیتوں کے حقوق کا اسلامی فقہ میں مکمل طور پر لحاظ کیا گیا ہے۔
فقہ اسلامی جس کا دوسرا نام اسلامی قانون ہے یہ ایک ایسا نظام ِحیات ہے جس کی اساس اور جڑ یں شریعت الٰہیہ میں ہیں جن کے ثمرات اور برکات سے انسانی زندگی کا ہر پہلو مستفید اور متمتع ہوتا ہے جس نے کم وبیش بارہ سو سال تک دنیا کے انتہائی متمدن اور مہذب ممالک اور سلطنتوں کو قانونی ،انتظامی اور ادارتی راہنمائی فراہم کی ہے اور اس نے ماضی میں نہ صرف کروڑوں بلکہ اربوں انسانی زندگیوں کو منظم کیا ہے۔
یہ ہماری دانستہ یا نا دانستہ ،خود اختیاری یا جبری کوتاہی کا نتیجہ ہے کہ ہم نت نئے نئے مسائل کا شکار ہو کر نئےنئے تجربے تو کرتے ہیں لیکن اس زندہ جاوید قانون کو لاگو نہیں کرتے جس کے نفاذ میں ہماری تمام پریشانیوں اور مسائل کا حل موجود ہے۔
فقہ اسلامی میں آج بھی اتنی قوت موجود ہے کہ اس پر عمل کرنے سے آدمی مکمل آزادی کے ساتھ اپنے تمام حقوق آسانی کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے۔ ایک مسلمان اس بات کو بڑے دعوے کے ساتھ نوٹ کرتا ہے کہ اسلامی شریعت یا اسلامی فقہ جس پر آج مسلمان یا تو عمل نہیں کر پا رہے یا ان کو ایسا کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا لیکن ہمیں امید ہے اور بطور ایک مسلمان کے اس بات کا یقین ہے کہ ضرور ایک دن ہماری زندگی کے تمام پہلو اور زندگی کے تمام گوشے اسلامی شریعت کی راہنمائی سے مستفید ہونگے۔ ان شاء اللہ۔