گداگری۔۔۔۔ مجبوری یا پیشہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
گداگری۔۔۔۔ مجبوری یا پیشہ
عابد محمود عزام
پیٹ کی جہنم بھرنے کی خاطر تو انسان کچھ بھی کر گزرتا ہے۔اسی پیٹ کے لیے لوگ مختلف قسم کے پیشے اپناتے ہیں۔بھیک مانگنا بھی پیشے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ بس اسٹاپ پر کھڑے ہوں یا ٹریفک سگنل پر، شہر میں ہوں یا دیہات میں، پیدل ہوں یا سوار، ”اللہ کے نام پر کچھ دے دیں، دو دن سے بھوکا ہوں گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، اللہ کے لیے میری مدد کریں“ اس قسم کے الفاظ آپ کی سماعت سے ضرور ٹکرائے ہوں گے۔ یہ الفاظ بھکاریوں کے ادا کردہ ہوتے ہیں۔
اسے حقیقت کہیے یا اتفاق ،کہ بھکاری انسانی نفسیات کے چنگے بھلے ماہر ہوتے ہیں۔ ان کوسب معلوم ہوتا ہے کہ کیسے انسانی جذبات پر حاوی ہوکر لوگوں سے پیسے نکلوائے جاتے ہیں۔ یہ صرف ماہر نفسیات ہی نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک اداکار بھی ہوتے ہیں۔ لوگوں کی توجہ اور ہمدردیاں اپنی طرف مبذول کرنے کے یہ سارے ہنر و گر بخوبی جانتے ہیں۔
بڑے شہروں میں بھکاریوں کی یونین ہوتی ہے۔بھکاری اپنے تمام کام اپنی یونین کے سربراہ کی مرضی سے سرانجام دیتے ہیں۔ پورے شہر میں ان کے کارندے ہر بھکاری پر نظر رکھے ہوتے ہیں۔ کسی بھی شاہراہ، چوک یا چوراہے پر بھیک مانگنے سے پہلے بھکاری مافیا کے سربراہ سے اجازت لینا ضروری ہوتا ہے، ان سے اجازت لیے بغیر وہ کسی کو بھیک مانگنے کی اجازت نہیں دیتے، بلکہ ہر بھکاری سربراہ یونین کو بھتہ یا کمیشن بھی دیتا ہے۔ اگر نہ دے تو اسے بھیک مانگنے کی کہیں اجازت نہیں دی جاتی، زبردستی اسے بھگا دیا جاتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً تین لاکھ سے زاید پیشہ وربھکاری مختلف شہروں میں باقاعدہ ایک منظم نیٹ ورک کے تحت صبح و شام ”محنت مزدوری“ کررہے ہیں جو مختلف گروپوں اور گروہوں میں تقسیم ہیں اور ہر گروپ اورگروہ باقاعدہ ایک سرغنہ یا سردار کی زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ بھکاریوں کی یونین نے بھکاریوں کے لیے گاڑیوں کا انتظام بھی کیا ہوتا ہے، جو انہیں کسی مخصوص مقام پر چھوڑ جاتے ہیں اور پھر رات کے وقت وہاں سے واپس لے جاتے ہیں۔
گداگروں کی گداگری کی سب سے محبوب جگہیں ٹریفک سگنلز ہوتی ہیں۔ یہاں انہیں زیادہ مشقت نہیں اٹھانا پڑتی، بڑی بڑی گاڑیوں والے امیر لوگ خود ہی ٹریفک سگنل پر آجاتے ہیں۔ ان سے پیسے نکلوانا قدرے آسان ہوتا ہے۔ سگنلز پر عام طور پر پانچ قسم کے بھکاریوں سے پالا پڑتا ہے۔ پہلی قسم کے بھکاری تو وہ ہوتے ہیں جو واقعی معذور ہوں، پیدائشی معذور ہوں یا کسی حادثے کی وجہ سے معذور ہوگئے ہوں، یہ فٹ پاتھ پر ایک جگہ بیٹھے رہتے ہیں،اسی جگہ پر لوگ ان کو بھیک دیتے ہیں۔ دوسری قسم کے بھکاری وہ ہوتے ہیں جو جان بوجھ کر جھوٹ موٹ میں معذور بنے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نابینا اور کچھ نے جسم پر مصنوعی طور پر زخم لگائے ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے واقعی گہرے زخم ہیں۔ حالانکہ یہ زخم اصلی نہیں ہوتے بلکہ مصنوعی ہوتے ہےں۔ بعض بھکاریوں نے بازو یا ٹانگ پر پٹی باندھی ہوتی ہے، جسے دیکھنے والوں کا دل یقیناً پسیج جاتا ہے۔
تیسری قسم کے بھکاری سگنلز پر کھڑے وہ بچے ہوتے ہیں جو بھیک مانگنے کے فن سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں۔ بھکاریوں کی چوتھی قسم ان خواتین و حضرات پر مشتمل ہوتی ہے، جنہوں نے اپنی گود میں اکثر و بیشتر نوزائیدہ بچہ اٹھایا ہوتا ہے۔ وہ معصوم بچوں کو اس وجہ سے گود میں اٹھا کر بھیک مانگتے ہیں کیوں کہ لوگ ان بچوں کو دیکھ کر پیسے زیادہ دیتے ہیں۔گود میں لیے ہوئے بچوں کے بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ بعض اوقات یہ بھکاری دوسرے لوگوں سے گود میں لینے کے لیے بچے کرائے پر بھی لے کر آتے ہیں۔ پانچویں قسم کے بھکاری وہ مرد و خواتین ہوتے ہےں جن کی گود میں کوئی بچہ نہیں ہوتا لیکن یہ اس قدر ڈرامائی انداز سے بھیک مانگتے ہیں کہ پتھر دل بھی موم ہوجاتا ہے اور لوگ انہیں بھیک دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
بسوں میں بعض ایسے حضرات بھی چڑھتے ہیں جن کے ہاتھ میں کسی مدرسے یامسجد کی رسید بک، سر پر ٹوپی یا رومال ہوتا ہے،بس میں چڑھتے ہی بتانا شروع کرتے ہیں کہ فلاں مدرسہ زیر تعمیر ہے، مسجد کو اتنے پیسوں کی ضرورت ہے، اتنے لاکھ کا سریا، اتنے لاکھ کا سیمنٹ اور اتنے کی فلاں اور اتنے کی فلاں چیز چاہیے، آپ حضرات حسب توفیق دے کر صدقہ جاریہ میں شریک ہوجائیں۔ ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے اکثر حضرات پیسے لے کر بہت ہی کم پیسے مسجد و مدرسے کو دیتے ہیں، باقی اپنے پاس رکھتے ہیں، انہوں نے مدرسہ اور مسجد انتظامیہ کے ساتھ کمیشن طے کیا ہوتا ہے، مسجد ، مدرسے کے نام پر مانگنے والوں کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ جتنے بھی پیسے ملے ہیں یہ ہماری کاوش سے ملے ہیں، اگر ہم نہ مانگتے تو یہ بھی نہ ملتے۔
حقیقت یہ ہے کہ جہاں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لیے بھکاریوں نے بھیک مانگنے کے اور بہت سے طریقے اختیار کیے ہوئے ہیں وہیں آج کل انہوں نے شرعی حلیے میں بھیک مانگنا بھی شروع کردیا ہے۔اطلاعات کے مطابق پچھلے دو برسوں میں باریش اور باشرع گداگروں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ان گداگروں میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اس لیے دینی حلیہ اختیار کرتے ہیں تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کو بیوقوف بناکر زیادہ سے زیادہ بھیک حاصل کریں یا پھر وہ کسی جرائم پیشہ گروہ کے لیے مخبری اور خبررسانی کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی اور سازش کے تحت دینی حلیہ میں سینکڑوں بہروپیوں کو مختلف چوراہوں، مساجد، بسوں اور دیگر عوامی مقامات پرپھلایا گیا ہے جس کا مقصد دینی شعائرکو بدنام کرنا اور عوام الناس میں مذہبی لوگوں اور دینی مدارس کے طلبہ کا IMAGE خراب کرنااور ان پرسے لوگوں کا اعتماد ختم کرنا ہے۔ اگر ان بھکاریوں سے بات کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ آئے بائے شائیں کرتے بھاگ نکلتے ہیں، ان کا ایک پورا نیٹ ورک ہے جوبڑے ہی منظم اندازمیں اپناکام کر رہا ہے۔ مردگداگروں کی طرح بہت سی خواتین بھی زیادہ سے زیادہ بھیک اکھٹی کرنے کے لیے دینی شعائر کو استعمال کررہی ہیں یا پھربرقعہ پوش خواتین کا IMAGE خراب کرنے اور ان پرسے لوگوں کا اعتماد ختم کرنے کی مذموم سازش میں مصروف عمل ہیں۔
بہت سے بھکاری اور بھکارنیں بڑی مساجد کے دروازں پر ہر نماز کے بعد یا جمعہ کی نماز کے بعد چپ چاپ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ نماز مساجد کے اندر پڑھتے ہیں اور جماعت کی نماز کا سلام پھیرنے کے فوری بعد کھڑے ہوکر بھیک مانگنا شروع کردیتے ہیں اور مجبوریاں بتاتے ہوئے اکثر رو پڑتے ہیں۔ بعض بھکاری گداگری کے لیے دور دراز کے علاقوں کا سفر کرتے ہیں اور سارا سال کسی نہ کسی شہر میں اسی مقصد کے لیے گردش کرتے رہتے ہیں۔ یہ کسی بھی علاقے میں چھ مہینے یا سال کے بعد جاتے ہیں۔ اتنی دیر میں وہاں کے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ شخص پہلے بھی آیا تھا۔ گاؤں دیہات میں جا کر اکثر و بیشتر اسپیکر میں بھیک مانگتے ہیں۔
ایک مشہور و معروف قسم ان بھکاری خواتین و حضرات کی ہوتی ہے جو عرصہ دراز سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے کرایہ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ ان کو اگر یہ کہا جائے کہ میں خود کنڈیکٹر کو کرایہ دے دیتا ہوں تو اس پر یہ راضی نہیں ہوتے بلکہ اپنے ہاتھ میں پیسے لینے کا مطالبہ کرتے ہیں،اس لیے کہ اگر آپ خود بس ڈرائیور کو پیسے دیں گے تو یقیناً یہ اس کے ساتھ جانے کو تیار نہیں ہوں گے اور آپ کو اس کی حقیقت کا پتہ چل جائے گا کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
بس اسٹاپ پر بھکاریوں کی اقسام میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ میری جیب کٹ گئی ہے۔ لہٰذا گھر کال کرنے کے لیے اپنا موبائل فون کچھ دیر کے لیے عنایت کردیں یا اتنے پیسے دے دیں جس سے میں اپنے گھر فون کرسکوں۔ جب موبائل مل جاتا ہے تو چکما دے کر رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کے بھکاری صاف ستھرے لباس میں ہوتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں پر ایسے بھکاری بھی ہوتے ہیں جو ریل کے ڈبوں میں بھیک کے بہانے چڑھتے ہیں اور اگر انہیں موقع ملے تو مسافروں کی عدم موجودگی میں ان کا سامان بھی چرا لیتے ہیں۔
بھکاریوں کی ایک قسم سوٹڈ بوٹڈ بھکاری بھی ہوتے ہیں۔ کراچی میں ہی ناظم آباد کے علاقے میں اس قسم کے بھکاری بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ وہ تھری پیس یا کلف لگا کاٹن پہن کر ہاتھ میں بریف کیس تھامے اپنے علاقے سے دور کسی مسجد یا کسی دکان وغیرہ میں جاکر کہتے ہیں کہ میں فلاں شہر سے کسی کام کی غرض سے کراچی آیا تھا، کسی نے میرے سارے پیسے چرا لیے یاکہتے ہیں کہ مجھ سے بندوق کے زور پر پیسے چھین لیے ہیں۔ مجھے حیدر آباد تک کا (یا کسی اور جگہ کا نام لیتے ہیں) کرایہ دے دیں تاکہ میں اپنے گھر واپس پہنچ سکوں۔ اس کی ذی وجاہت ہیت کو دیکھ کر کوئی اسے پانچ دس روپے دینے سے تو رہا، کم از کم100،50 روپے تو دے ہی دیتے ہیں۔ اس طرح اس کے پاس کچھ ہی دیر میں بہت سارے پیسے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ ایک دن میں کئی جگہوں کا چکر لگا لیتے ہیں اور اچھی خاصی رقم جمع کر لیتے ہیں۔
ذرائع نے یہ انکشاف کیا کہ گداگر مافیا معصوم بچوں کو اغوا کرکے انہیں دانستہ معذور بنادیتی ہے تاکہ لوگوں کی ہمدردی بڑھے اور وہ ترس کھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بھیک دے سکیں۔ اندرون ملک سے اغوا ہونے والی جوان لڑکیاں پہلے تو جسم فروشی پر مجبور کی جاتی ہیں اور بعد ازاں ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔ بعض خواتین گداگری کے ساتھ ساتھ بسوں، منی بسوں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹس میں سوار ہوکر مسافر خواتین سے پرس، زیورات اور موبائل فون چوری کرنے کا فن بھی جانتی ہیں اور جو نہیں جانتیں انہیں مافیا کے کارندے باقاعدہ ٹرین کرتے ہیں۔اب وقت کے ساتھ ساتھ بھیک مانگنے والوں میں خواجہ سرا ؤں کی بھی ایک بڑی اکثریت شامل ہوگئی ہے۔یہ لوگ اپنے مخصوص فن،باتوں کی بھرمار اور اوچھی اداؤں سے چوراہوں پر رکنے والی ہر گاڑی میں سوار لوگوں سے دست سوال کرتے ہیں۔ ایک ایسے ہی خواجہ سرانے بتایا"سب لوگ خواجہ سرا نہیں ہوتے، بلکہ اکثریت مردوں کی ہے جوخواجہ سراؤں کی وضع قطع اختیار کرکے بھیک مانگ رہے ہیں۔
پیشہ ور گداگروں کو ان کے ”گرو“ خاص قسم کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ بھکاریوں کو چند ایسے مخصوص التجائی فقرے اور جملے یادکروائے جاتے ہیں،جن سے معصومیت ومسکینی ٹپکتی ہے اورسننے والوں کے دل میں ان سے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ بادل نخواستہ تندرست وتوانا بھکاریوں کی مالی مدد کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔نوجوان گداگر لڑکیاں بالعموم غیرمناسب لباس پہنے چھوٹے چھوٹے ننگ بدن بچّوں کو بغل میں دبائے مردوں کے دائیں بائیں چکر لگاتی رہتی ہیں۔ کبھی ان کا دامن، آستین اور ہاتھ پکڑلیتی ہیں، نازیبا اشارے کرتی ہیں اور بھیک لیے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ بعض تیز و طرار اور جرائم پیشہ گداگر عورتیں جیب کاٹنے، خواتین کی سونے کی انگوٹھی، کان کی بالیاں اور پرس چھیننے کی وارداتیں بھی کرتی ہیں۔ عورتوں اور بچّوں کو گداگری کی جہنّم میں جبری طور پر جھونک دیا جاتا ہے۔ گداگروں کے سرغنہ اور سردار کے جرائم پیشہ گروہ، بردہ فروشوں اور تخریب کاروں سے بھی تعلق ہوتے ہیں جو کمسن بچوں کو اغوا کرکے بھکاریوں کے سرغنہ کو فروخت کردیتے ہیں جو ان بچّوں کو بھیک مانگنے کی تربیت دیتے ہیں۔بعض سفّاک و ظالم تو بچّوں کے ہاتھ پاﺅں دانستہ توڑ کر انھیں چلنے پھرنے سے معذور کردیتے ہیں اور ایسے بچوں کو مختلف مزارات، درگاہوں، بس اسٹاپوں، بازاروں و دیگر مقامات پر بٹھا کر بھیک منگوائی جاتی ہے۔ بھکاری مافیا گداگری کی آڑ میں چوری اور قتل جیسے گھناؤنے جرائم بھی کرتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ دوسرے ممالک کی ایجنسیوں کے اکثر کارندے بھکاریوں کا روپ دھار کر جاسوسی کرتے ہیں اور پل پل کی خبریں دشمن ملک تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ ایسے بہت سے کیس سامنے آئے ہیں کہ بہت سے بھکاری جاسوسی کرتے ہوئے پکڑے بھی گئے ہیں۔
لاپتہ بچوں میں زیادہ توجہ طلب مسئلہ ان بچوں کا ہے جنہیں بھکاری گروہ اپنے مقاصد کے لیے اغوا کر لیتے ہیں تا کہ ان کا نیٹ ورک وسیع ہو سکے۔2010ءمیں تین ہزار نوے بچوں کے والدین نے گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرائیں۔ان گمشدہ بچوں میں تقریبا ڈھائی ہزار لڑکے جبکہ چھ سو لڑکیاں شامل تھیں۔گلشن آباد، اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاون اور لیاری ٹاؤن ایسے علاقے ہیں جہاں بچوں کی گمشدگی کے واقعات سب سے زیادہ رونما ہوئے ہیں اور انہی علاقوں میں بھکاریوں کے عارضی ٹھکانے بھی تھے۔اغوا ہونے والے بہت سے بچوں کے بارے میں بعد میں یہ اطلاع ملی تھی کہ ان کو بھکاری گینگ نے اغوا کروایا ہے۔
بھکاریوں کی یونین کے افراد معذوروں کو اغوا کر کے ان سے بھیک منگواتے ہیں، 2012ءمیں بھکاریوں کی چنگل سے آزاد ہونے والا معذور شخص نذیر حسین اس کی دلیل ہے، اس کی خبر تقریباً تمام اخبارات میں لگی تھی۔ اس نے بتایا کہ گداگروں نے اسے8سال پہلے اغوا کر کے اس پر بے انتہاءتشدد کیا اور 8سال تک اس سے بھیک منگواتے رہے اور اسے پاکستان کے مختلف شہروں میں رکھا گیا، جہاں اس سے زبردستی بھیک منگوائی جاتی تھی،گداگر گروہ کے کارندے معذور شخص کو رات کے وقت جھونپڑی میں زنجیروں سے جکڑ دیتے تھے اور تشدد کا نشانہ بناتے تھے اور بھیک منگواتے وقت بھی بھکاریوں کی نگرانی کی جاتی اور حاصل ہونے والے تمام پیسے لے لیے جاتے تھے۔ پھر اچانک ایک دن نذیر حسین کے رشتہ داروں نے اسے ایبٹ آباد میں بھیک مانگتے ہوئے دیکھ لیا، نذیر حسین نے بھی انہیں دیکھ کر شور مچانا شروع کردیا، اس کے رشتہ داروں کو دیکھ کر نگرانی کرنے والے بھکاری مافیا کے کارندے بھاگ گئے اور نذیر حسین کے رشتہ دار اسے اپنے ساتھ لے آئے۔
شاہ دولے کے چوہے بھی بھکاریوں کی ایک معروف قسم ہے۔ ان کے سر چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔چھوٹے سر اور دبلے بدن والے بھکاری ”شاہ دولہ کے چوہے“ کہلاتے ہیں جو عموماً سبز رنگ کا چوغہ پہنے ہوتے ہیں جبکہ اِن کے ساتھ ایک اور فرد جو کہ بالکل نارمل ہوتا ہے اپنی زیر نگرانی ان سے بھیک منگوا رہا ہوتا ہے۔ شاہ دولہ ایک پیر کا نام ہے جن کا مزار پنجاب کے ضلع گجرات میں واقع ہے۔ ان کے مزار پر بطورِ عقیدت جو بچے چڑھائے جاتے ہیں انہیں شاہ دولہ کے چوہے کہا جاتا ہے۔کچھ والدین کم علمی یا کمزور عقیدے کے سبب اپنے بچوں کو بطورِ عقیدت مزار پر موجود بھکاری مافیا کے حوالے کر دیتے ہیں وہ ایسے بچوں کے سروں پر ایک مخصوص ٹوپی نما شکنجہ (لوہے کی ٹوپیاں)چڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے سروں کی نشوونما رک جاتی ہے بلکہ ان کی دماغی اور جسمانی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے اور پھر یہ بچے رفتہ رفتہ ذہنی طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔ اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے جو کہ بھیک مانگنا، کھانا اور پھر بھیک مانگنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہتے اور نہ ہی زندگی کی بھاگ دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھکاری مافیا شاہ دولہ کے چوہوں کا استحصال کرتے ہوئے نہ صرف ان سے شہر شہر، گاؤں گاؤں بھیک منگواتا ہے بلکہ پیشہ ور بھکاری اِن چوہوں کو ماہانہ ٹھیکوں پر بھی لے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا باقاعدہ کنٹریکٹ ہوتا ہے اور پھر جب کنٹریکٹ کی مدت ختم ہو جاتی ہے تو انہیں واپس دربار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس طرح ملک کے کونے کونے میں شاہ دولہ کے چوہے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ بعض بھکاری اپنے آپ کو کسی دربار کا مجاور ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں بابے کا عرس ہونے والا ہے، اس کے لیے کچھ دو، اگر نہ دو گے تو بابے کی طرف سے آپ کو کوئی نقصان ہو سکتا ہے۔
ایک اور دلچسپ حقیقت سنیے! رپو رٹ کے مطا بق سعو دی عرب میں عمرہ اور حج ویزے پر جانے والی پاکستانی خواتین وہاں جاکر بچہ گود لیے گدا گری کا پیشہ اپنا لیتی ہیں، رمضان المبارک اور ایام حج کے موقع پر پاکستان سے گداگروں کے گروہ منظم طور پر سعودی عرب جاتے ہیں اور مکہ المکرمہ ، مدینہ المنورہ اور جدہ کی شاہراہوں پر ہاتھ پھیلائے ً اللہ کے نام پر ً کہتے ہوئے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔سعودی حکومت نے ان کے خلاف سخت اقدام اٹھانے کے لیے انسداد گداگری کا شعبہ بھی قائم کر رکھا ہے جو ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بھکاری گرفتار کرنے کے بعد ملک بدر کر دیتا ہے۔ لیکن پاکستان سے بااثر افراد کے توسط سے مخصوص یا جعلی ناموں سے قائم ٹور آپریٹرز انسانی اسمگلنگ کا مرتکب ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب میں گداگری ایک جرم ہے جس کی سزا گرفتاری،بھاری جرمانے اور جیل میں قید رکھنے کے علاوہ ملک بدر کیا جا نا ہے۔یہ گداگر پولیس کی گشتی گاڑی دیکھ کر سڑکوں سے بھاگ کر نامعلوم مقام پر روپوش ہو جاتے ہیں جبکہ ہر مصروف سگنل پر یہ عورتیں تمام دن بھیک مانگتی ہیں، اگر کوئی پاکستانی انہیں ایسا کرنے سے بازرہنے اور پاکستان کا نام بدنام نہ کرنے کی تلقین کرتا ہے تو یہ انہیں غلیظ گالیوں سے نوازتی ہیں۔معلومات کے مطابق اب تو بھکاریوں نے بھیک مانگنے کی جگہوں کو بھی اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دینا شروع کردیا ہے،اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی خاندان والے اپنا بھیک مانگنے کا اڈہ مافیا کے سربراہ کی اجازت سے اپنی بیٹی کے نام الاٹ کردیتے ہیں، اس کے بعد بیٹی کو اس جگہ پر بھیک مانگنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسے کوئی دوسرا بھکاری وہاں سے روک نہیں سکتا۔
گداگری کا پیشہ رمضان المبارک کے بابرکت اور رحمتوں والے مہینے میں خوب پروان چڑھتا ہے۔ پیشہ ور گداگر اپنے آبائی قصبوں اور دیہاتوں سے نکل کر ملک کے اہم شہروں اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور، حیدرآباد، ملتان اور فیصل آباد وغیرہ کی طرف کوچ کرجاتے ہیں۔ چونکہ شہروں میں زیادہ متمول اور نسبتاً خوش حال لوگ رہتے ہیں جو خاص طور سے رمضان المبارک میں اپنے مال و متاع کی زکوٰة، صدقات اور خیرات وغیرہ کثرت سے غرباءو مساکین میں تقسیم کرتے ہیں۔اسی لیے یہ پیشہ ور گداگر اور دیہی و پس ماندہ علاقوں کے غریب، نادار، مفلس اور ضرورت مند لوگ بھی رمضان میں ”کمائی“ کے لیے شہری علاقوں میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 13 ارب 78 کروڑ روپے سے زائد زکوٰة دی جاتی ہے جب کہ 16ارب کے لگ بھگ چیریٹی کی مد میں دیے جاتے ہیں۔ گویا مجموعی طور پر کم و بیش 30 ارب روپے مالی طور پر خیرات کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ تقریباً ساڑھے 11 ارب روپے سالانہ کی امدادی اشیاءبھی غریبوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کی جاتی ہیں اور خیرات کے ان اربوں روپوں سے اپنے کشکول بھرنے کے لیے ہٹے کٹے پیشہ ور گداگروں کے غول کے غول ملک کے طول و عرض میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔ رمضان میں گداگر روزانہ 2 سے ڈھائی ہزار اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ کما لیتا ہے۔ 2012ءکی تحقیق کے مطابق فی بھکاری نارمل حالات میں اوسطاً 30سے 40 ہزار روپے ماہانہ کما لیتا ہے اور رمضان و عیدین جیسے مخصوص مواقع پر تو ان کی چاندی ہو جاتی ہے۔
ہر سال رمضان المبارک کے آتے ہی کراچی میں بھی گداگر مضافاتی علاقوں میں اپنے ڈیرے جمانا شروع کر دیتے ہیں۔ کراچی کے خالی پلاٹوں، کینٹ اسٹیشن اور ٹاور کے قریب بھی ان کی بڑی تعداد پڑاو ڈالتی ہے۔گداگر مافیا فقیروں کو ان کی "اہلیت "دیکھ کر ان کی مزدوری طے کرتی ہے۔ مثلاً جو لوگ پیدائشی طور پر معذور ہوتے ہیں انہیں سب سے زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پرجو لوگ دونوں ٹانگوں ، دونوں ہاتھوں یا اسی قسم کی کسی پیدائشی معذوری کا شکار ہوں انہیں زیادہ دیہاڑی دی جاتی ہے۔ اس کے بعد خواتین اور پھر بچوں کی باری آتی ہے۔مثلاً ڈیفنس چورنگی، سب میرین چورنگی ،کلفٹن، پنجاب چورنگی، خیابان شمشیر چورنگی، ٹاور، بولٹن مارکیٹ، صدربازار، بہادرآباد، گرومندر، نمائش، لیاقت آباد، ناظم آباد، ناگن چورنگی، گلشن چورنگی اور نیپا چورنگی وغیرہ ایسے علاقے ہیں جہاں ان گداگروں کو "ذمے داری"دی جاتی ہے جو زیادہ معذور اور رو دھوکر ، شعبدے بازی کے ذریعے یا پھر جذباتی اداکاری کرکے زیادہ بھیک جمع کرنے کا فن جانتے ہوں۔ چونکہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں یا تو زیادہ تر امیر گھرانے آباد ہیں یا پھر یہاں آنے جانے والوں کی بہتات ہوتی ہے۔ بھکاری مافیا کا ایک گروپ2011ءمیں پاکستان کے مختلف شہروں سے صرف رمضان المبارک کے مہینے میں بھیک مانگنے کے لیے صرف چودہ سو بھکاریوں کو پانچ کروڑ کے ٹھیکے پر کراچی میں لایا تھا۔اسی طرح 2012ءمیں بھی رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اندرون ملک سے ایک لاکھ سے زائد افراد کراچی پہنچائے گئے تھے۔ گاؤں اور دیہات سے لائے گئے ان گداگروں میں بوڑھے، جوان اور خواتین کے علاوہ بڑی تعداد جسمانی معذور بچوں کی تھی۔ کراچی کے سگنل چوراہوں، ہوٹل ریسٹورنٹس، مساجد، مارکیٹیں اور شاپنگ سینٹرز گداگری کے انتہائی منافع بخش مقامات ہیں جن کے حصول کے لیے بااثر ٹھیکیداروں نے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ گداگروں کی رہائش اور طعام کے علاوہ ان کے کمیشن میں بھی اضافہ کیا گیا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھیک مانگنا شریعت کی نظر میں معیوب اور ایک بدترین جرم ہے۔ جولوگ اس عمل کو محض پیشے کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں ان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا روز قیامت ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا بلکہ صرف خراشوں کے واضح نشانات ہوں گے“ (نسائی۔کتاب الزکاة)۔ اس کے علاوہ بھی متعدد وعیدیں بھکاریوں کے لیے آئی ہیں۔ جس طرح سے بھیک مانگنا درست نہیں اسی طرح ان پیشہ ور بھکاریوں کو بھیک دینا بھی درست نہیں۔ بھیک مانگنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے اور ان لوگوں کے لیے تو بالکل ہی ڈوب مرنے کا مقام ہے جو اچھے خاصے صحت مند ہونے کے باوجود بھیک مانگتے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان بھکاریوں کو بھیک دینا جائز نہیں تو پھر واقعی حاجت مند کی پہچان کیسے ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے زیادہ حق دار اپنے قریبی لوگ ہیں۔ ان میں رشتہ دار، دوست احباب اور وہ لوگ جن کو آپ جانتے ہیں کہ یہ لوگ واقعی حاجت مند ہیں ،اس کے بعد تمام لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے علاقے اور محلے میں تلاش کرے کہ کون ایسے سفید پوش لوگ ہیں جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے شرماتے ہیں۔ ایسے افراد کو ڈھونڈ کر ان کو ان کا حق دیا جائے۔ اسی طرح مستحق افراد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کوئی ایسی راہ تلاش نہ کریں جو درست نہ ہو یا بھکاریوں کی راہ کے مشابہ ہو۔اگر آپ نے مکمل احتیاط کے ساتھ کسی کو حق دار سمجھ کر کچھ دے دیا تو یہ آپ کے دل کا معاملہ ہے۔ جیسی نیت ویسی جزا۔ اگر آپ نے بلا سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے بھکاریوں کو کچھ دیا تو آپ ملک میں ان لوگوں کی بڑھوتری کا سبب بنیں گے جو کہ یقینا ملک کے لیے نقصان کا باعث ہے۔
پاکستان کے قانون کے مطابق بھی بھیک ماننا قابل سزا جرم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ بھکاریوں کے لیے کوئی قانون بنائے اور انہیں اس جرم سے روکے۔ گداگری میں سالانہ 4فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھکاریوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ان کے لیے کسی روزگار کا انتظام کر ے اور انہیں زبردستی اس قابل سزا قبیح جرم سے منع کر ے۔