مسلم معاشرہ اور جدید میڈیا کا کردار

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مسلم معاشرہ اور جدید میڈیا کا کردار
میر افسر امان، کراچی
مسلم معاشرے سے مراد اگر موجودہ مسلم معاشرہ ہے تو یہ مسلم معاشرے کی بگڑی ہوئی شکل ہے مسلم معاشرے کو ہمارے آقاؤں نے توڑ پھوڑ دیا ہے اس کی مثال کچھ واقعات سے ہم اخذ کر سکتے ہیں جب صلیبیوں نے ترکی کو شکت دی خلافت کو ختم کیا مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے راجوڑوں (ملکوں)میں با نٹ دیا تو ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ہم نے مسلم معاشرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اتاترک نے ترکی میں اسلام کی ساری کی ساری معاشرت کو ریاستی جبر سے ختم کیا اس کی جگہ مغرب کی شیطانی معاشرت کورائج کر دیا جس کو آج تک سنبھلنے کا موقع نہیں مل سکا۔
کچھ مدت پہلے ایسی ہی کوشش کا ذکر بھارت میں کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے کیا اور کہا تھا کہ مسلمانوں کی معاشرت(تہذیب) کو ہم نے ختم کر دیا اسی طرح یہودیوں کے پروٹوکول میں بھی درج ہے کہ فلاں وقت تک ہم نے میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنا جو انہوں نے حاصل کر لیا جس پر عمل کرتے ہوئے اس وقت دنیا کی تمام بڑی بڑی خبر رساں ایجنسیاں اور الیکٹرونک میڈیا پر یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں دنیا اور خصوصاًمسلم معاشرے میں وہی خبر آتی ہے جو وہ چھان بین کر اپنے مطلب کی بنا کر نشر کرتے یا پیش کرتے ہیں۔
دوسری طرف مسلم دنیا میں میڈیا پر کوئی خاس پیش رفت نہیں کی گئی جس وجہ سے مغربی میڈیا جس رخ پر مسلم معاشرہ کو چاہتا ہے ہانک کر لے جاتا ہے بلکہ مسلم حکومتوں میں ڈالر کی چمک دکھا کر میڈیا کے لوگوں کو خریدا جا تا جس کی خبریں ہمیں پاکستان میں بھی اکثر ملتی رہتی ہیں۔
صحیح مسلم معاشرہ ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھوں مدینے میں قائم ہوا تھا جسے دنیا کی شیطانی قواتیں ہر دور میں ختم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر وہ اسے با لکل ختم نہیں کر پائے صرف اس میں بگاڑ پیدا کر سکے ہیں۔ میڈیا نام ہے معلومات کی ابلاغ کا،الیکٹرونک، پرنٹ یا زبانی ہو۔ میڈیا کے ذریعے معاشرے پر اثر انداز ہونا، معاشرے کی نشوونما پر میڈیا کا اثر ہر زمانے میں مانا گیا ہے۔
اسلام سے پہلے بادشاہوں کے دور میں یہ کام بادشاہ کے قصہ گو زبانی عوام تک بادشاہ کی خبریں پہنچاتے تھے جس میں اﷲ سے ڈرنے کے بجائے بادشاہ سے ڈراتے تھے طریقہ یہ رائج تھا کہ’’ قصہ گو خبر کو اس طرح عوام تک پہنچاتے تھے کہ ایک تھا بادشاہ تیرا میر ا اﷲ بادشاہ․ ․ ․پھر آگے خبر شروع ہو جاتی تھی‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں دنیا کے سارے غلط چلن ختم کیے وہاں میڈیا کی سمت بھی درست کی خبر کو عام کرنے کے لیے مقدس جگہ مسجد تھی رسول ؐ مسجد نبوی کے ممبر پر بیٹھ کر( خبر )احکامات دیا کرتے تھے جو معاشرے میں اﷲ کے حکم کا درجہ رکھتی تھی اُس پر ہر مسلمان کا عمل فرض قرار دیا گیا تھا اسی مسجد کے میڈیا کے ذریعے مسلم معاشرہ قائم ہوا تھا عام مسلمان کسی بھی خبر کو پہلے تحقیق کر کے آگے بیان کیا کرتاتھا کسی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہ کافی تھا کہ اِدھر سے بات سنی اُدھر بغیر تحقیق کے آگے پھیلا دی۔
یہی مسلم معاشرہ اسی دنیا میں خلفائے راشدین ؓ کے دور تک قائم تھا مساجد میں خطیب اﷲ کی کبرایائی جو سب سے بڑی خبر ہے کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے کی نشو ونما اور اخلاق سدھارنے کی ذمہ داری بھی ادا کرتے تھے سارا مسلم معاشرہ، ایک مسلم قومیت میں زعم ہو گیا تھا اسی مسلم معاشرے پر شاعر اسلام علامہ محمد اقبال مرحوم نے کہا تھا۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں ہے قومِ رسولِ ہاشمی
پھر اس مسلم معاشرے میں تبدیلی آنا شروع ہوئی خلافت عام مسلمانوں کی رائے کے بجائے اپنے خاندان میں قائم ہونے لگی خزانہ حکمرانوں کے ذاتی ملکیت میں چلاگیا۔ وفاداری کا معیار اﷲ اور رسول ؐ کی بجائے حکمرانوں کے ساتھ منسلک ہو گیا فرد کی آزادی کم سے کم ہوتی گئی مسجد جو اس وقت کا سب سے بڑا میڈیا کا ذریعہ تھی حکمرانوں کے کنٹرول میں چلا گیا اب وہی بات صحیح مانی گئی جو حکمرانوں نے کہی جس نے حق و سچ بیان کرنے کی کوشش کی اس کے گلے کاٹے گئے اور پس ِزنداں ڈالے گئے۔
پھر دنیا میں فاصلے کم ہونا شروع ہوئے ابلاغ میں آسانی پیدا ہوئی سفری سہولتیں جانوروں کے بجائے مشین کے ذریعے حاصل ہو گئیں موٹر کار اور ہوائی جہاز نے آسانیاں پیدا کر دیں ساتھ ہی ساتھ ذارئع ابلاغ نے ترقی کی چھاپا خانے وجود میں آئے اس کے بعد ریڈیو ایجاد ہوا فلم جس میں انسان کی شکل سامنے دیکھی جا سکتی تھی ایجاد ہوئی ٹیلیوژن ایجاد ہوا بلا آخر ایسے ذریعے ایجاد ہوئے کہ ایک شخص زمین کے ایک کونے سے اپنی بات پوری دنیا کو سنا نے کے قابل ہو گیا۔
ان آسانیوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مقتدر قوموں اورحکومتوں نے اپنے مقصد کے لیے اپنے مخالفوں کے اندر نفوذ کرنا شروع کیاجدید میڈیا سے خوف کی فضاء پیدا کی گئی جیسے افغان جہاد میں اس کے حواری ڈراتے تھے کہ روس ایک دفعہ جس ملک میں داخل ہوا واپس نہیں گیااب یہودی کنٹرولڈ میڈیا امریکہ سے کمزور قوموں کو ڈرا رہا ہے اسی میڈیا کے ذریعے اپنی تہذیب کو بڑھا چڑھا کے پیش کر رہے ہیں اپنے فنکاروں سے ڈراموں کے ذریعے پرانی تہذیبوں کا مذاق اُڑایا گیا اور اس کی جگہ اپنی تہذیب کو ترقی کے لیے زینے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اسی میڈیے کے زور سے کمزور قوموں کی معاشرت کو ختم کر کے اپنی معاشرت کو پروان چڑھایا جاتا ہے مختلف قسم ڈیز منائے جاتے ہیں جیسے آج ویلٹائین ڈے منایا جا رہا ہے بین ا لاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعے بھی یہ کام کیا جارہا ہے۔
مسلم معاشرے ،خاص کر پاکستان میں ان تمام ذریعوں کو استعمال کیا جارہا ہے مغربی شیطانی معاشرہ جس میں بے حیائی عام ہے عورت جو اسلام میں ماں بہن بیٹی کے روپ میں تقدس کی مالک ہے مغرب میں اسے شمع ِ محفل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے معاشی ضرروت کے لیے اسے نیم عریاں کر کے پیش کیا جارہا ہے سرمایہ دار کا کوئی پروڈکٹ جب تک عورت کا حسین جمیل چہرہ نہ پیش کیا جائے فروخت ہی نہیں ہوتا ہوٹلوں اور کلبوں میں عورتیں مادر زاد نیگی ہو کر بیلے ڈانس پیش کرتیں ہیں فعل قوم لوط کو عام کر دیا گیا ہے بلکہ مغرب نے اس قبیح فعل کو آئین کا حصہ بنا دیا ہے۔
پچھلے دنوں ہمارے دوست نما دشمن امریکا کے سفارت خانے میں ہم جنسوں کا اجتماع ہوا تھا جو ہمارے مذہب اور معاشرت پر حملہ ہے خاموشی سے ہمار اسکوں میں جنسی تعلیم رائج کر دی گئی ہے مغرب میں ایک ہی پانی کے عوض میں باپ بھائی ماں بیوی بہن نیم عریاں نہانے کے لباس میں نہاتے ہیں جس سے بے حیائی پھیلتی ہے جبکہ مسلم معاشرے میں عریانی نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ سوسائٹی میں پردے کا حکم ہے مغربی معاشرے میں عورت کو بھی کمائی میں لگا دیا ہے جبکہ اسلام میں گھر کی معاشی ضروریات کا ذمہ دار مرد ہے عورت پر معاشی ذمہ داری نہیں ہے۔
ان غلط کاموں کی وجہ سے مغرب کا معاشرہ سیکسی سوسائٹی بن گیا ہے باپ کے سامنے نوجوان بیٹی کہتی ہے او کے ڈیڈ میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ جا رہی ہوں ان کے خاندانی نظام کا یہ حال ہے کہ مرد کارخانے سے شام کو کام سے واپس آتا ہے بیوی کی طرف سے میز پر تحریر پڑی ہوتی ہے میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہوں کل کورٹ میں فیصلے کے لیے آجانا مغرب کے اپنے سروے کے مطابق مغربی معاشرے میں چالیس فی صد حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں اس جدید شیطانی معاشرے کی کیا کیا خامیاں بیان کی جائیں مغربی معاشرہ مکمل تباہ ہو چکا ہے اسی معاشرے کو جدید میڈیا مسلم دنیا اور پاکستان میں خاص کر پیش کر رہا ہے حکومتیں جن کا کام عوام کی حفاظت کے ساتھ ان کی تہذیب کی بھی رکھوالی ہوتی ہے بری طرح اس جدید میڈیے کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے۔
اس کی وجہ بیرون ملکوں سے قرضوں کا حصول ہے جو قرض دیتے ہیں وہ اپنی شیطانی تہذیب بھی مسلط کرتے ہیں پاکستان میں ا لیکٹرونک میڈیاگھنٹوں فلمی ایکٹروں کی موت ان کی عمر اور ان کی کارکردگی پر شو پیش کرتے ہیں اس کے مقابلے میں قوم کے ہیروں کو وقت نہیں دیا جاتا جو پاکستانی مسلم تہذیب کے مخالف ہیں انہیں زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا جاتا جیسے حال ہی میں ملالہ یوسفزئی کو پوری دنیا کا لیڈر بنا دیا گیا ہے۔ مغربی ملک خاص کر امریکا میڈیا کو خریدنے کے لیے فنڈ مختص کرتے ہیں اس سے پاکستانی میڈیا بھی مستفیض ہوا ہے اسی لیے اس کو امریکی فنڈڈ میڈیا کہا جارہا ہے دوسری طرف امن کی آشا کے نام پر بھارتی ہندوانہ تہذیب کو پاکستان پر زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے یہ اسی جدید میڈیا کاکردار ہے جو ہمارا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ایک ایک کر کے اسلامی قدروں کو ختم کیا جا رہا ہے اس میں پاکستانی حکومتیں بین الاقوامی قوانین کے تحت پابند ہیں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادرے جو مغربی صلیبی ملکوں کے قبضے میں ہیں جو خود شیطانی تہذیب کے معمار ہیں وہ دنیا میں کبھی ماں کا دن،باپ کادن، بچوں کا دن، عورتوں اور ویلنٹائن ڈے منانے کے ذریعے اپنی تہذیب مسلط کر رہے ہیں یہ جدید میڈیا کا کردار ہے جس نے مسلم معاشرے خاص کر پاکستانی معاشرے کو اسلام سے دور کیا ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو غصہ سے کہا کہ"خدا کی قسم جب تک تم مجھ سے بات نہیں کرو گی میں بھی تمہارے ساتھ نہیں بولوں گا" عورت نےبھی غصہ میں کہ دیا "خدا کی قسم جب تک تم مجھ سے نہ بولو گے میں بھی نہیں بولوں گی"اس وقت تو غصہ میں قسم کھا بیٹھے لیکن بعد میں پریشان کیونکہ بولنے پر ان کے خیال میں قسم ٹوٹتی اور بھاری کفارہ لازم پڑتا تھا اور نہ بولتے تو بسر کیسے ہوتا۔ سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آئے تو انہوں نے فتوٰی دیا کہ جو بھی بات کرے گا اس پر کفارہ لازم پڑے گا اس کے سوا چارہ نہیں۔آدمی بیچارہ غریب تھا اما م ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آیا۔امام صاحب نے فرمایا کہ جاؤ شوق سے باتیں کرو کسی پر کفارہ نہیں۔سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ کو پتا چلا تو برہم ہوئے اور امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آ کر ان سے فرمایا آپ لوگوں کو غلط مسئلہ نہ بتایا کریں۔اس پر امام صاحب نے دونوں میاں اور بی بی کو بلوایا اور دوبارہ واقعہ پوچھا اور فرمایا جاؤ اب بھی وہی مسئلہ ہے کسی پر کفارہ نہیں۔سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ : کیوں؟اما م ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ: "جب عورت نے شوہر کے جواب میں قسم کھائی تو وہ تو بولنا ہی تھا نا!اب شوہر کی قسم تو باقی نہ رہی"سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ حیران ہوئے اور فرمایا کہ جو بات وقت پر آپ سوچ لیتے ہیں ہمارا وہاں خیال بھی نہیں جاتا۔
از تاریخ کے دریچوں سے؛ مفتی تقی عثمانی صاحب