فقہی نظام ………قیامِ امن کا ضامن

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
فقہی نظام ………قیامِ امن کا ضامن
……مولانا محمد اسحاق
مرکز اہل السنت والجماعت
ربِ کریم کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت امن ہے، امن نہ ہو تو سارا سامانِ عیش بے مزہ ہے اس لیے امن و امان کی اہمیت ہر دور اور ہر ملت میں تسلیم کی گئی ہے کوئی ذی شعور باور ہی نہیں کرسکتا کہ کوئی قوم کوئی ملک یا کوئی دور بغیر امن وسلامتی ترقی یافتہ شمار ہوسکتا ہے۔
مختلف ملل وادیان میں امن کے تحفظ و بقاء کے سلسلہ میں جو ہدایتیں آئی ہیں وہ تو اپنی جگہ ہیں ہی، مگر وہ لوگ جو صرف اقتدار چاہتے ہیں اور جن کو کسی مذہب و ملت سے کوئی دلچسپی نہیں انہیں بھی یقین ہے کہ جب تک امن وامان اور عدل و انصاف نہ ہو عوام و خواص کی زندگی بے چین رہتی ہے بلکہ ان کے لیے زندگی کے دن پورے کرنے بھی مشکل ہوجاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سارے سنجیدہ لوگ خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک و ملت سے ہو قیام امن اور بقا ئے امن ان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے اس لیے یہ لوگ ہر دور میں اپنی طاقت کے بقدر کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ انسانوں میں باہمی اعتماد و اتحاد کا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر رہے اور ہر انسانی آبادی اطمینان و سکون کی دولت سے ہمکنار ہو۔
چنانچہ اس کے لیے انہوں نے ماضی کے مختلف ادوار میں مختلف عالمی ادارے اور تحریکیں چلائیں کبھی پیسف ازم یعنی تحریک امن خواہی چلائی، کبھی ورلڈ پیس موومنٹ یعنی عالمی تحریک امن قائم کی اور کبھی کسی اور نام سے عالمی امن ادارے کی بنیاد رکھی، امن وراحت کے نام پر آج بھی دنیا میں مختلف نظریوں کا ہجوم ہے : گاندھی ازم،سوشلزم، سیکولرازم ،کمیونزم ،کیپٹل ازم اور دوسرے دسیوں” ازم“ کارفرما ہیں۔
ان کے علاوہ سلامتی کونسل ،یو این انٹرنیشنل آرمی پلان، ورلڈ پیس کونسل، عالمی امن کانگریس،روسی امن مہم اور امریکہ امن بریگیڈ کی خدمات اور سنہری کارناموں کا میڈیا پر اکثر چرچا رہتا ہے۔
مگر سب کچھ کے باوجود دنیا سے امن وعافیت ناپید ، انسانی جان و مال اور عزت و آبرو اپنی صحیح قدرو قیمت سے محروم ہیں۔ نہ عالمی تنازعات اور تناؤمیں کوئی کمی ہے اور نہ عام انسان موت و حیات کی کشمکش سے محفوظ ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی جنگوں سے ماری ہوئی دنیا اور امن و عافیت سے محروم عوام کو اس وقت ایک ایسے پاکیزہ اور ٹھوس نظام امن کی تلاش ہے جو ملکی نسلی اور لسانی منافرت کو مٹاکر عالمی اخوت اور انسانی مساوات کا درس دے اور روئے زمین پر عدل و انصاف حق و صداقت اور انسانی شرف کے جھنڈے بلند کر سکےاور ہر انسان کو امن و عاقبت کی مضبوط ضمانت دے، اندرون ملک بھی اور خارجی تعلقات میں بھی۔
ظلم و جبر بے انصافی اور لا قانونیت سے ماری ہوئی انسانیت کو ایسے مقدس نظام اور قانون کی ضرورت ہے جس میں انسانی وحدت، مساوات،باہمی تعاون ، شرافت انسانی، عفو و درگزر،حریتِ فکر، عدل و انصاف، ایفائے عہد اور اخوت و محبت کو لازمی عنصر کی حیثیت دی گئی ہو اور اس میں کبر و غرور ،دولت و ثروت، ملکی و نسلی اور لسانی عصبیت،حب جاہ اور حبِ اقتدار کی قطعا گنجائش نہ ہو، ایسا قانون جو صرف جسموں پر ہی حکمرانی کا قائل نہ ہو بلکہ وہ سب سے پہلے دلوں میں خوفِ خدا، فکرِ آخرت اور انجام بخیر کا عقیدہ بھی راسخ کرتا ہو۔
مخلوق کے بنائے ہوئے قوانین میں مذکورہ بالا صفات کا پایا جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا ان صفات کا حامل نظام و قانون صرف اور صرف خالق و مالک کا بنایا ہوا نظام ہی ہوسکتا ہے،یعنی ایسا قانون اور نظام جس کو نافذ کرنے سے دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے وہ رب کریم کا آسمانوں سے اتارا ہوا قانون ہے اور بس۔
اللہ رب العزت اپنے قانون کے بارے خودفرماتا ہے۔چند ارشادات خداوندی ملاحظہ کریں:
1: ان الحکم الا للہ الانعام رقم الایۃ 57
ترجمہ: اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں ہے۔
2: الا لہ الخلق والامر الاعراف رقم الایۃ 53
ترجمہ: خبر دار اسی (اللہ) کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا۔
3: ولا یشرک فی حکمہ احدا کہف رقم الایۃ 26
ترجمہ: اور اللہ شریک نہیں کرتا اپنے حکم میں کسی کو۔
یعنی اللہ تعالیٰ جو خالق ہے کل کائنات کا اس کا حکم مخلوق پر چلنا چاہیے جس طرح پیدا کرنے اور دوسری صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اللہ رب العزت نے اپنے حکم اور قانون میں بھی کسی کو شریک نہیں بنایا۔
احکم الحاکمین دوسری جگہ فرماتے ہیں:
4: انا انزلنا التوراۃ فیہا ھدی ونور یحکم بہا النبیون۔
)سورۃ مائدہ آیت 44 (
ترجمہ: بے شک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔خدا کے فرماں بردارانبیاء کرام یہود کے لیےاس کے ساتھ فیصلہ فرمایا کرتے تھے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے احکامات اور قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اہل اللہ اور علماء کا شعار رہا ہے کیونکہ وہ کتاب اللہ کی حفاظت کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر شدہ ہیں رب العالمین دوسرے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرماتے ہیں:
5: وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومہیمنا علیہ فاحکم بینہم بما انزل اللہ ولا تتبع اھواءہم عما جاءک من الحق۔
)سورۃ المائدہ آیت 48 (
ترجمہ : اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جو حق ہے پہلی کتابوں کی محافظ اور ان کی تصدیق کرنے والی ہے پھر آپ ان باہمی اختلافات میں اسی کے مطابق فیصلہ کریں اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔
یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں کے درمیان جھگڑوں کا فیصلہ اللہ تعالی کےنازل کردہ قانون کےمطابق کریں۔
6: مزید یہ بھی فرمایا گیا کہ اللہ تعالی کے اتارے ہوئے قانون سے فرار عذاب الٰہی کا موجب ہوگا ایسا کرنا فسق ہے اور اللہ تعالی کا فیصلہ سب سے اچھا اور بہتر ہے۔ ارشاد خداوندی ملاحظہ کیجیے:
وان احکم بینہم بما انزل اللہ ولا تتبع اہواءہم واحذرہم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک فان تولوا فاعلم انما یرید اللہ ان یصیبہم ببعض ذنوبہم وان کثیرا من الناس لفاسقون افحکم الجاہلیۃ یبغون ومن احسن من اللہ حکما لقوم یوقنون۔
)سورۃ المائدہ آیت 49، 50 (
ترجمہ: آپ اس بھیجی ہوئی کتاب کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور بچتے رہیں آپ ان سے کہیں وہ آپ کو فتنے میں نہ مبتلا کردیں۔ بعض ان چیزوں کے بارے میں جن کو اللہ نے آپ کی طرف نازل کیا ہے پس اگر یہ روگردانی کریں اور نہ مانیں تو آپ جان لیں کہ بے شک اللہ تعالی چاہتا ہے کہ ان کو سزا دے ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے اور بے شک بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نافرمان ہیں کیا یہ لوگ جاہلیت کے زمانے کا فیصلہ تلاش کرتے ہیں اور کون زیادہ بہتر ہے اللہ تعالیٰ سے فیصلہ کرنے کے اعتبار سے اس قوم کے لیے جو یقین رکھتی ہے۔
7: مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اللہ تعالی اس کے رسول اور اولی الامر کی اطاعت کریں اور اپنے باہمی جھگڑوں کو اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائیں اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان کا تقاضا یہی ہے اور اس میں خیر اور انجام کی خوبی ہے۔
چنانچہ رب کریم کا فرمان ہے:
یا ایہا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیء فرودوہ الی اللہ والرسول ان کنتم تؤمنون باللہ والیوم الاخر ذلک خیر واحسن تاویلا۔
)سورۃ النساء آیت 59 (
ترجمہ: اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور صاحب حکم کا جو تم میں سے ہوں اور اگر کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اس کو لوٹاؤاللہ اور رسول کی طرف اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔
8: مومن کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے جھگڑوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم تسلیم کرے اور آپ کے فیصلوں کے سامنے برضا و رغبت سر تسلیم خم کرے کیونکہ اس میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔
فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجاًمما قضیت ویسلموا تسلیما۔
)سورۃ النساءآیت 65 (
ترجمہ: پس تیرے رب کی قسم! یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاکم بنائیں اس جھگڑے میں جو ان کے درمیان ہوا ہے پھر نہ پائیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی اس چیز پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا ہے اور قبول کریں اس کو کھلے دل سے قبول کرنا۔
9: ایک طرف ایمان کا دعویٰ اور دوسری طرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےقوانین سے گریز کرنے کی قرآن پاک میں سخت مذمت کی گئی ہے۔
الم تر الی الذین یزعمون انہم آمنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ ویرید الشیطان ان یضلہم ضلالا بعیدا .
)سورۃ النساء آیت 60 (
ترجمہ: کیا آپ نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہے، وہ ارادہ کرتے ہیں کہ اپنے فیصلوں کو طاغوت کی طرف لے جائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس طاغوت کو نہ مانیں اور شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر دور کی گمراہی میں ڈال دے۔
ارشادات خداوندی کا خلاصہ یہ ہے کہ
1: صرف اللہ رب العزت ہی کا قانون اور نظام نافذ کرنے کے لائق ہے۔
2: اللہ کے ساتھ قانون میں کوئی بھی شریک نہیں ہے۔
3: قانون الہٰی کےمطابق فیصلہ کرنا انبیاء کرام اہل اللہ اور علماء حق کا شعار ہے۔
4: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قانون الہٰی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
5: قانون الہٰی سے فرار فسق اور موجب عذاب ہے۔
6: مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے جھگڑوں کے حل کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کریں۔
7: مومن ہونے کے لیے ضروری ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔
8: قانون الہٰی کے خلاف فیصلہ کفر ،ظلم اور فسق ہے۔
9: جب مسلمانوں کو خدا تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کی طرف بلایا جائے تو مومن کو اس وقت اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ سر جھکا دینا چاہیے کیونکہ یہی فلاح کا راستہ ہے۔
10: ایمان کے دعوےکے بعدقانون الہٰی سےگریز کرنا بہت زیادہ قابل مذمت ہے کیونکہ شریعت کا فیصلہ خواہش کے مطابق آئے یا مخالف۔ مسلمانوں پر اس کو ماننا ضروری ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :شریعت کی بات کو دل و جان سے تسلیم کرنا مسلمانوں پر ضروری ہے چاہے وہ پسندہویا اسے ناگوار ہو۔ جب تک اسے کسی معصیت کا حکم نہ دیا گیا ہو۔
)متفق علیہ مشکوۃ ص319(
گویا کہ دنیا میں قیام امن کے لیے قانون الہٰی کا نفاذ ضروری ہے: احکامات الٰہیہ ہی کو مربوط اور مدون کرنے کے بعد” اسلامی فقہ“ اور” اسلامی قانون“ کا نام دیا گیا ہے۔
بے شک ہدایت اور اسلامی احکام کا سر چشمہ قرآن و سنت ہے،مگر چونکہ احکام کا ذکر قرآن وحدیث میں ایمانیات اور اخلاق کے ساتھ مخلوط ہے۔ اس لیے علماء اسلام نے امت مسلمہ کی سہولت کے لیے ایمانیات کو الگ مرتب کرکے اسے” علم الکلام“ اور” علم العقائد“ کا نام دیا، اور اخلاق کو الگ مرتب کر کے اس کو ”علم التصوف“ اور ”سلوک و احسان“ کا نام دیا، اسی طرح احکام کو جدا مرتب کر کے اس کا نام” علم الفقہ“ رکھا اور اس پر بے شمار کتابیں مرتب کیں۔
اسلامی فقہ (فقہ حنفی، فقہ مالکی، فقہ شافعی، فقہ حنبلی) سراپا قرآن وسنت اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے ماخوذ ہے، ان چاروں کی مثال ایسے ہے جیسے ایک منزل مقصود تک پہنچنے کے چار راستے ہوں آدمی ان میں سے جس کسی رستے پر چلے منزل مقصود تک ضرور پہنچے گا یعنی ائمہ اربعہ کی مدون و مرتب کردہ چار وں فقہ بر حق ہیں۔
یہ چاروں اپنے تدوین کے وقت سے مختلف علاقوں میں نافذ رہی ہیں لیکن سرکاری سطح پر اسلامی خلافت؛ خلافتِ عثمانیہ کے ختم ہونے تک عالم اسلام میں صرف فقہ حنفی نافذ رہی ہے۔
گویا کہ ماضی میں اسلامی قانون کو فقہ اسلامی کی شکل ہی میں عالم اسلام پر نافذ کیا گیا ہے اور یہ دور تاریخ عالم کا سنہری دور کہلاتا ہےجس میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی ، ماضی کی تاریخ دہرانے کی ضرورت نہیں حال ہی کو دیکھ لیجیے، 70 ،80 سال سے سعودی عرب میں اسلامی قانون ”فقہ حنبلی“ کی صورت میں نافذ ہے۔ ہر سال اقوام متحدہ کی رپورٹ یہی ہوتی ہے کہ سب سے کم جرائم سعودیہ میں ہوتے ہیں اگر نام نہاد ترقی یافتہ ممالک امریکہ اور برطانیہ وغیرہ کے جرائم کو دیکھا جائے تو ان کے مقابلہ میں سعودیہ میں جرائم ایک فیصد سے بھی کم ہیں وہاں عدل و انصاف کے ادارے از حد کم ہونے کے باوجود ان میں مقدمات بہت تھوڑے آتے ہیں۔ مقدمۂ قتل کا فیصلہ عموماً تین ماہ میں ہوجاتا ہے اور دیوانی مقدمہ ایک ماہ میں ختم ہوجاتا ہے۔
ابھی چند برس قبل امارت اسلامیہ افغانستان میں ”فقہ حنفی“ کو اسلامی قانون کے طور پر نافذ کیا گیا تھا جس میں مثالی اور معیاری امن و انصاف کے نظام نے ساری دنیا کو ورطۂِ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ قانون کا تعلق در اصل انسانی حقوق سے ہوتا ہے تاکہ انسان کی جان و مال، عزت و آبرو اور عقل وخرد محفوظ رہے اس مقصد کے لحاظ سے سب فقہیں یکساں ہیں اور سب امن و انصاف کی ضامن ہیں۔
ظلم و بد عنوانی اور حرام خوری کے سارے اسباب بالاتفاق ممنوع ہیں۔ چوری، ڈاکہ، رشوت ،ملاوٹ ،شراب نوشی، زنا، قذف، عریانی وفحاشی کے تمام مظاہر ہر ”اسلامی فقہ“ میں جرم ہیں ان پر عبر تناک سزائیں مقرر ہیں نظام صلوٰۃ ،نظام زکوٰۃ نیک کاموں کی اشاعت اور تلقین اور برے کاموں سے بچنے اور ان سے روکنے پر سب متفق ہیں۔چونکہ فقہ حنفی کو متعدد و جوہ سے دوسرے تمام فقہی قوانین پر فکری اور عملی برتری حاصل ہے۔
1: فقہ حنفی کی تدوین کسی ایک دو فرد کی محنت اور تحقیق کا نتیجہ نہیں بلکہ اپنے وقت کے عظیم اور جید اسکالرز کی ایک عظیم جماعت کے ہاتھوں یہ بے مثال تاریخی کارنامہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے درجنوں شاگردوں نے جو کہ سب کے سب اپنے وقت کے جلیل القدر مجتہد شمار ہوتے تھے اسلامی قانون (تدوین فقہ) کے کام میں ذمہ دارانہ حصہ لیتے تھے ایک ایک مسئلہ پر کئی کئی دن بحث و مباحثہ ہوتا مکمل تحقیق و تدقیق کے بعد اس مسئلہ کو محفوظ کرلیا جاتا تھا۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ جو کہ حدیث شریف کے بہت بڑے حافظ اور عامل تھے نے تدوین فقہ کا یہ طریقہ خاص بھی در حقیقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان عالی شان کی تعمیل میں اختیار کیا تھا۔
چنانچہ امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
ان نزل بنا امر لیس فیہ بیان امر ولا نہی فما تامرنا قال تشاورون الفقہاء والعابدین۔
)معجم اوسط طبرانی ج 1 ص 444(
اگر کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس میں واضح طور پر نہ تو وہ کام کرنے کا حکم موجود ہو اور نہ ہی اس کو چھوڑنے کا حکم تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فقہاء اور عابدین سے مشورہ کرو۔
یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی جو کہ دراصل ایک شورائی قانون ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک ید اللہ علی الجماعۃ سے تائید شدہ ہے ہر زمانہ میں مقبول خاص وعام رہا ہے۔
2: فقہ حنفی کی بنیاد خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور فقیہ امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مسائل و فتاویٰ پر قائم ہے۔ مشہور تابعی امام مسروق رحمہ اللہ؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے فرماتے ہیں:
شاممت اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوجدت علمہم ینتہی الی الستۃ ای علی وعبداللہ وعمر وزید بن ثابت وابی الدرداء وابی بن کعب رضی اللہ عنہم ثم شاممت الستۃ فوجدت علمہم انتہی الیٰ علی وابن مسعود رضی اللہ عنہما۔
)اعلام الموقعین لابن قیم ج 2 ص 25(
ترجمہ: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب گرامی قدر رضی اللہ عنہم کے علوم کا اچھی طرح جائزہ لیا میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ان سب کا علم چھ حضرات: حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم میں سمٹ آیا ہے۔ پھر میں نے ان چھ کے علوم کو حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما میں سمٹا ہوادیکھا۔
گویا کہ ”فقہ حنفی“ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کل علوم کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔
3: باقی تمام ائمہ نے اپنی فقہ کی تدوین میں جہاں صحیح حدیث نہیں ملی وہاں ضعیف حدیث کے مقابلہ اجتہاد سے کام لیا ہے لیکن امام اعظم رحمہ اللہ حدیث ضعیف کے مقابلہ میں بھی قیاس نہیں کرتے کیونکہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے باوجود متن کے اعتبار سے اس حدیث کے صحیح ہونے کا احتمال موجود ہے۔
4: دوسرے ائمہ قول صحابی رضی اللہ کے مقابلے میں قیاس کرتے ہیں لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ قول صحابی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں بھی قیاس نہیں کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہو اور صحابی نے کسی وجہ و مصلحت کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کرنا مناسب نہ سمجھا ہو جناب محمد ابراہیم میر سیالکوٹی فرماتے ہیں:آپ قیاس کے مقابلہ میں ضعیف حدیث کو مقدم جانتے تھے کہ ضعیف کا ضعف عارضی ہے۔ اس میں احتمال صحت کا ہوسکتا ہے لہٰذا اس کے مقابلہ میں قیاس کی ضرورت نہیں ہے بھلا وہ شخص جو صحابہ کے قول کے سامنے بھی قیاس نہ کرتا ہو وہ صحیح حدیث کو عملا کس طرح ترک کرسکتا ہے۔
)تاریخ اہل حدیث ص312 طبع قدوسیہ لاہور (
5: اسلام کےپھیلنے کے ساتھ ساتھ خیر القرون ہی میں فقہ حنفی کو بھی اللہ تعالیٰ نے قبولیت عامہ عطا فرمائی۔ دنیا کے کونے کونے تک فقہ حنفی کا حلقہ وسیع ہوگیا اور اسے عالمگیر حیثیت حاصل ہوگئی چنانچہ 228ھ میں واثق باللہ عباسی نے سد سکندری کا حال معلوم کرنے کے ایک وفد چین بھیجا جس نے واپس آکر یہ رپورٹ پیش کی:
محافظان سد کہ در انجا بود ہمہ دین اسلام داشتند و مذہب حنفی و زبان عربی و فارسی می گفتند واز سلطنت عباسیہ بے خبر بودند۔
)ریاض المرقاض ص316 از نواب صدیق حسن خان بحوالہ آثار خیر ج8ص502 (
ترجمہ: سد سکندری کے محافظ جو وہاں موجود تھے سب کے سب مسلمان تھے ان کا مذہب حنفی تھا زبان عربی اور فارسی بولتے تھے لیکن سلطنت عباسیہ سے بے خبر تھے۔
سبحان اللہ آبادیوں سے کہیں دور چین کے کوہستانوں میں جہاں سلطنت عباسیہ کے جاہ و جلال کی ہوا تو نہ پہنچ سکی مگر حنفیت کاجھنڈا لہرارہا تھا جس کے بارے یہی کہنا زیادہ مناسب ہے۔
واللہ یوید بنصرہ من یشاء۔
6: فقہ حنفی کی تدوین سے لے کر آج تک امت مسلمہ کے ستر فیصد سے زائد طبقہ نے فقہ حنفی کی عملا تائید کی ہے اس کی یہ مقبولیت جہاں رضائے الہی کی دلیل ہے وہاں اس کی خصوصیت بھی ہے۔ <
7: بر صغیر پاک و ہند میں وسیع پیمانہ پر اسلام کی آمد، اس کی اشاعت اور حفاظت کے جملہ امور احناف نے ہی سرانجام دیے یہی وجہ ہے کہ ترکی وسط ایشیائی ریاستوں سے لے کر افغانستان ،پاکستان ،ہندوستان، بنگلہ دیش ،برما اور چین تک فقہ حنفی کے علاوہ کوئی اور فقہی مذہب موجود بھی نہیں ہے اور یہ فقہ حنفی کی دیگر مذاہب پر علمی و فکری برتری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اٹھائے کچھ ورق لالہ نے کچھ
 
نرگس نے کچھ گل

نے

چمن میں ہر طرف بکھری
 
ہوئی ہے داستان

میری

فقہ حنفی کی اور بھی بہت ساری خصوصیات ہیں لیکن ہمارا مقصود یہاں پر فقہ حنفی کی تمام خصوصیات کاشمار کرنا نہیں ہےبلکہ ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ تاریخ اسلام پڑھ کر دیکھیے جس دور میں فقہ حنفی کو سرکاری سطح پر قانونی حیثیت حاصل رہی ہے اس دور کو انسانی وحدت و مساوات ،باہمی تعاون، شرافتِ انسانی، عفو و درگزر ،حریتِ فکر، عدل و انصاف، ایفائے عہد، اخوت و محبت اور امن و امان کے لیےنمونہ کے طور پر پیش کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
آج ہمیں کئی مسائل کا سامنا ہے ان سب کا باعث اور سبب عدل و انصاف اور امن و امان کا نہ ہونا ہے اور ان کے حصول کا ذریعہ فقط ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلامی قانون یعنی فقہی نظام کا نفاذ۔ چونکہ ہمارے ملک میں اکثریت فقہ حنفی پر عمل پیرا ہے اس لیے اس کو ترجیحی طور پر نافذ کرنا اس کا اولین حق ہے۔ ارباب اقتدار کو مل کر سوچنا ہو گا کہ اگر وہ ملک میں امن کے خواہاں ہیں تو جید علماء کی کمیٹی تشکیل دے کر اس پر سنجیدگی کے ساتھ مشاورت کی جائے اور ایسا لائحہ عمل طے کیا جائے جس سے ملک میں امن و انصاف میسر ہو ، اور امن و امان کے بارے میں فقہ حنفی کاسابقہ سنہرا دورہمیں دوسرے نئے تجربات کرنےکے بجائے اپنی طرف دعوت فکر دے رہا ہے۔