سیدنا عروہ بن زبیر﷫

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تذکرۃ الفقہاء:
……مولانا محمدعاطف معاویہ﷾
سیدنا عروہ بن زبیر﷫
تعارف:
مدینہ منورہ کے وہ سات نفوس قدسیہ جواپنے دور کےلوگوں کے لئے علمی دنیا میں سکون قلب کاسبب تھے جنہیں فقہاء سبعہ کےمقدس ومبارک لقب سے یادکیاجاتاہے ان میں ایک نام سیدنا عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کابھی ہے۔
آپ کانام عروہ کنیت ابوعبداللہ آپ کے والد مشہور صحابی سیدنا زبیررضی اللہ عنہ ہیں جوعشرہ مبشرہ میں سےہیں اوروالدہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دختر، ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ہمشیرہ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے آپ کی ولادت کےمتعلق دوقول نقل فرمائےہیں یاتو آپ کی ولادت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےدورخلافت کےآخر میں ہوئی یاپھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اس وقت مسلمان پہلے دور کی بنسبت بہت خوش حال تھے اور اسلامی حکومت کافی دور تک پھیل چکی تھی آپ نے اس سے فائدہ اٹھاتےہوئے خوب انہماک سےعلم حاصل کیا۔
آپ کوصحابہ کرام کی ایک بہت بڑی جماعت سے حصول علم کاموقع نصیب ہوا۔ جن میں آپ کےوالد حضرت زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے بھائی حضرت عبداللہ والدہ سیدہ اسماء خالہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ حضرت علی بن ابی طالب، حضرت زید بن ثابت، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت اسامہ بن زید، حضرت ابوہریرہ ، حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہم شامل ہیں۔
(تذکرۃ الحفاظ ج 1 ص 50 تہذیب التہذیب ج 4 ص 472)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی خصوصی توجہ:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا چونکہ آپ کی خالہ تھی اس لیے آپ ان کے پاس رہتےاور علم حاصل کرتےاگر بات سمجھ نہ آتی "یااماہ "ائے میری امی کہہ کر حقیقت مسئلہ دریافت فرماتے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت عروہ کوعلمی بلندیوں پر پہنچانےمیں سب سے زیادہ حصہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کاہے ام المؤمنین نے اپنے ہونہار بھانجے کی تعلیم وتربیت پرخصوصی توجہ دی اورجو علوم ومعارف جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سےآپ کونصیب ہوئے وہ سب کےسب حضرت عروہ کوسکھانےمیں بھر پور محنت کی۔
حضرت عروہ نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتےہوئے خوب دلجمعی کےساتھ ان علوم کواپنے سینہ میں جگہ دیکر محفوظ کیا۔ آپ فرمایاکرتےتھے کہ میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات سےچار پانچ سال قبل ان سے مکمل علم حاصل کرچکاتھا اورمیں کہتا تھا کہ اگرام المؤمنین رضی اللہ عنہا کاانتقال ہوجائے تومجھے ان کی کسی حدیث پرپچھتاوانہیں ہوگا کیونکہ میں نے ان کی تمام احادیث کویاد کرلیاہے۔
(تہذیب التہذیب۔ ج 4 ص 473)
علمی مقام اہل علم کی نظرمیں :
کتب اسماء الرجال وکتب تواریخ میں آ پ کے معاصرین اوردیگر اہل علم کے فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے درومیں علم کے سمندر تھے۔
امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ادركت أربعة بحور من قريش سعيد بن المسيب وأبا بكر ابن عبدالرحمن بن الحارث وعبيد الله بن عبد الله بن عتبة وعروة بن الزبير۔
)حلیۃ الاولیاء ج2ص188(
میں نے قریش میں علم کے چارسمند پائے ہیں ان میں ایک نام حضرت عروہ کا بھی ہے۔
امام ابن کثیر نے امام زہری کایہ فرمان بھی نقل کیاہے:كان عروة بحرا لا ينزف ولا تكدره الدلاء۔
)البدایہ والنھایہ ج9ص120(
حضرت عروہ علم کا ایسا سمندر ہیں جس سے جتناعلم حاصل کیاجائے تب بھی ختم نہیں ہوتا۔
مشہور تابعی اور خلیفہ عادل حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ فرماتے ہیں:ما أحد أعلم من عروة۔
)البدایہ والنھایہ ج9ص120(
میرے علم کے مطابق حضرت عروہ سب سے بڑے عالم ہیں۔
ساتویں صدی ھجری کے مشہور عالم حضرت امام نووی آپ کے متعلق اہل علم کے اقوال نقل کرکے فرماتے ہیں:
ومناقبه كثيرة مشهورة، وهو مجمع على جلالته،وعلو مرتبته،ووفور علمه۔
)تہذیب الاسماء واللغات ج1ص466(
حضرت عروہ کے فضائل ومناقب بہت زیادہ ہیں آپ کی جلالت شان ،بلند مرتبہ اور کثرت علم پر اہل علم کا اتفاق ہے۔
حضرت امام ابن العماد حنبلی فرماتے ہیں:
الفقيه الحافظ جمع العلم والسيادةوالعبادة۔
)شذرات الذھب ج1ص97،98(
آپ الفاظ حدیث کے حافظ ،مسائل کا استنباط کرنے والے فقیہ اور علم پر عمل کرنے والے انسان تھے۔
فقہی مقام :
آپ رحمہ اللہ کوعلم تفسیر ،علم حدیث اور دیگر کئی علوم میں مہارت تامہ حاصل تھی لیکن علم فقہ کے ساتھ آپ کو خاص لگاوتھا اور اس علم میں آپ کو بلند مقام حاصل تھا اسی وجہ سے آپ کاشمار مدینہ منور ہ کے ان سات فقہاء میں ہوتا ہے جن کا فتویٰ پر اہل اسلام عمل کرتے تھے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد ذكره غير واحد في فقهاء المدينة السبعة الذين ينتهي إلى قولهم، وكان من جملة الفقهاء العشرة الذين كان عمر بن عبد العزيز يرجع إليهم في زمن ولايته …الخ
)البدایہ والنھایہ ج9ص120(
اہل علم کی ایک بہت بڑی جماعت نے حضرت عروہ کو مدینہ کے ان سات فقہاء میں شمار کیاہے جن کی فقہ کولوگ حرف آخر سمجھتے تھے اور حضرت عمربن عبد العزیزرحمہ اللہ اپنے دور خلافت میں جن دس فقہاء کی طرف رجوع کرتے تھے ان میں حضرت عروہ بھی شامل ہیں۔
مشہور مورخ علامہ واقدی آپ کے فقہی مقام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وكان من فقهاء المدينة المعدودين ولقد كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يسألونه.
)البدایہ والنھایہ ج9ص119(
مدینہ منورہ کے بڑے فقہاء میں حضرت عروہ رحمہ اللہ بھی ہیں ان کافقہی مقام اتنابلندتھا کہ صحابہ کرام بھی بسااوقات دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع فرماتے تھے۔
یہ قول صرف واقدی کا نہیں بلکہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے حضرت حمید بن عبد الرحمٰن بن عوف رحمہ اللہ کایہ قول نقل کیا ہے:
لقد رأيت الاكابر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وانهم ليسألونه من قصة ذكرها۔
)تہذیب التہذیب ج4ص473(
میں نے کبارصحابہ کوحضرت عروہ سے سوال کرتے ہوئے دیکھا۔
جس شخص کی طرف صحابہ رجوع کریں اور مسائل پوچھیں اس کی فقاہت پر اعتماد کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی۔
حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے فقہی مسائل کو مستقل کتب میں لکھا لیکن بعدمیں ان کو ختم کردیا کہ کہیں یہ مسائل کتاب اللہ کے ساتھ خلط ملط نہ ہوجائیں جس پر آپ اکثر افسوس بھی کرتے تھے کہ کاش وہ کتب فقہ ضائع نہ ہوتیں آپ کے صاحبزادے حضرت ھشام فرماتے ہیں :
أن أباه كان حرق كتبا فيها فقه ثم قال لوددت اني كنت فديتها بأهلي ومالي۔
)تہذیب التہذیب ج4ص473(
حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے اپنے فقہی مسائل پر مشتمل کتب کو ختم کردیا بعد میں اس پر پچھتاتے ہوئے فرماتے وہ کتابیں مجھے اپنے اھل وعیال اور مال ودولت سے عزیز محسوس ہورہی ہیں۔
مسح علی الراس :
ادلہ شرعیہ کی روشنی میں احناف کا موقف یہ ہے کہ اگر انسان نے عمامہ باندھا ہوتو بوقت وضو اسے اتار کر سر کا مسح کرنا چاہئے صرف عمامہ کے اوپر مسح کافی نہیں اس مسئلہ میں حضرت عروہ کا عمل بھی یہی تھا چنانچہ آپ کے صاحبزادے حضرت ھشام فرماتے ہیں :
أنه رأى أباه يمسح على الخفين على ظهورهمالا يمسح بطونهما قال ثم يرفع العمامة فيمسح برأسه۔
)کتاب الحجہ لامام محمد ج1ص38(
میں نے اپنے والد حضرت عروہ کودیکھا آپ نے موزہ کے اوپر والے حصہ پر مسح کیا اس کے بعد پگڑی اتار کر سر پر مسح فرمایا۔
معلوم ہوا صرف عمامہ پر مسح کافی نہیں بلکہ پگڑی اتار کر سر کا مسح کرنا چاہیے۔
وفات :
بقول امام ذھبی رحمہ اللہ آپ کی وفات 94ھ میں ہوئی حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سفر وحضر میں مسلسل روزے رکھتے تھے جب آپ کاانتقال ہوا تو آپ اس وقت بھی روزہ کی حالت میں تھے اور 94 ھ کو فقہاء کی موت کا سال کہا جاتا ہے کیونکہ اسی سال حضرت علی بن حسین {امام زین العابدین رضی اللہ عنہ}حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ ،حضرت عروہ رحمہ اللہ اور حضرت ابو بکر بن عبد الرحمان رحمہ اللہ کا انتقال ہوا۔