مختصر القدوری

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ :
……مفتی محمد یوسف ﷾
مختصر القدوری
تقریباً دنیا بھرکے مدارس عربیہ میں پڑھائی جانے والی فقہ حنفی کی معتبر اور مختصر کتاب مختصر القدو
ری کا تجزیہ ، جامعیت اور افادیت اور اس کی بعض شروحات کا تذکرہ فاضل مضمون نگار مفتی محمد یوسف حفظہ اللہ کے گوہر بار قلم سے ہدیہ قارئین ہے۔ ) ادارہ (
اس کتاب کے مصنف ابوالحسین احمد بن محمد بغدادی رحمہ اللہ ہیں ، جو امام قدوری کے لقب سے مشہور ہیں۔ پانچویں صدی ہجری کے نامور فقہاء میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ آپ بڑے صاحبِ کمال انسان تھے۔ امام سمعانی رحمہ اللہ آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وكان صدوقا وكان ممن أنجب في الفقه لذكائه وانتهت إليه بالعراق رياسة أصحاب أبى حنيفة وعظم عندهم قدره وارتفع جاهه وكان حسن العبارة في النظر جرى اللسان مديما لتلاوة القران۔
(تاریخ بغداد : رقم الترجمۃ: 2249)
امام قدوری صدوق یعنی راست باز تھے۔اپنی ذکاوت اور ذہانت کی وجہ سے فقہ میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ عراق میں مذہب حنفیہ کی ریاست آپ کی وجہ سے کمال تک پہنچی۔اس وجہ سے آپ کی بڑی قدر و منزلت ہوئی۔ آپ کی تقریر و تحریر میں بہت دلکشی تھی۔اکثر آپ تلاوتِ قرآن میں مصروف رہتے تھے۔
امام قدوری نے تصنیفی میدان میں گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں، بہت سی کتابیں آپ نے یادگار چھوڑی ہیں جن میں سے "زیرِ بحث" کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے۔ مختصر قدوری کو تصنیف کیے ایک ہزار سال کا عرصہ بیت چکا ہے، مگر اس وقت سے لے کر آج تک اسے پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان، ہندوستان، افغانستان، بنگلہ دیش، برما، شام، اردن، مصر، وسطِ ایشیا اور دیگر کئی ممالک میں(جہاں فقہ حنفی کی تعلیم دی جاتی ہے) مختصر قدوری؛ درسی کتاب کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔
مختصر قدوری کوئی لمبی چوڑی کتاب نہیں جو ہزاروں صفحات پر محیط ہو، بلکہ یہ ایک مختصر کتاب ہے۔ اس وقت اس کا جو نسخہ ہمارے پیشِ نظر ہے وہ صرف 317 صفحات پر مشتمل ہے۔مگر مصنف رحمہ اللہ نے فقہ حنفی کے لاکھوں مسائل میں سے بارہ ہزار اہم اور بنیادی مسائل منتخب کرکے اس مختصر سی کتاب میں جمع کر دیے ہیں۔مسائل کا انتخاب کا عبارت کی روانی اپنی مثال آپ ہے۔ تمام مسائل کو انتہائی آسان انداز میں جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب حسنِ ترتیب میں بھی اعلیٰ درجہ کی حامل ہے۔فقہی متون میں اس پایہ کی بہت کم کتابیں لکھی گئی ہیں۔
مختصر قدوری کی جامعیت اور بے پناہ مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہےکہ فقہ حنفی کی معروف و مفصّل کتاب "ہدایہ" کے مصنف نے اس ہدایہ کے لیے جس کتاب کو بطور متن کے منتخب کیا وہ یہی مختصر قدوری ہے۔ یعنی یہ مختصر قدوری؛ ہدایہ کا متن ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ مختصر قدوری سے لے کر ہدایہ کے اختتام تک طالب علم "مختصر قدوری" کا متن دوہراتا رہتا ہے۔زیرِ تعارف کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اکثر مسائل آیتِ کریمہ، حدیث مبارک، صحابی کے قول اور تابعی کے فتویٰ سے ماخوذ ہیں، بہت کم مسائل ایسے ہیں جو اصولوں کی روشنی میں قیاس کے تحت ذکر کیے گئے ہیں۔
امام قدوری رحمہ اللہ نے یہ کتاب لکھتے وقت جو اسلوب اپنایا ہے وہ بہت عام فہم اور سادہ ہے۔ عبارت کے اندر پیچیدگی اور غیر مانوسیت نہیں ہے۔ اس کتاب کے61 عنوانات کو"کتاب"اور 62 عنوانات کو"باب"کےنام سے شروع کیا ہے۔ فاضل مصنف کا عمومی طرز یہ ہے کہ پہلے "کتاب" یا "باب" کے نام سے مرکزی عنوان قائم کرتے ہیں، پھر تفصیل کرتے وقت عبارت کے آغاز میں ہی (مرکزی عنوان کی مناسبت سے) اس کا شرعی حکم بتایا ہے یا اس کی تعریف بیان کی ہے۔ مثلا: صفحہ 22 پر "باب الاذان" کے نام سے مرکزی عنوان قائم کیا ہے، پھر اس کی تفصیل کرتے ہوئے آغاز میں ہی اذان کی شرعی حیثیت کو واضح کر دیا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
الاذان سنۃ للصلوات الخمس والجمعۃ دون ما سواھا.
صفحہ29 پر مرکزی عنوان "باب الجماعۃ"ہے۔ اب طالب علم کو معلوم نہ تھا کہ جماعت کا شرعی حکم کیا ہے؟یہ فرض ہے، واجب ہے، یا سنت ہے؟چنانچہ عبارت کی ابتداء میں ہی مصنف نے جماعت کا شرعی حکم بتا دیا۔ فاضل مصنف رحمہ اللہ لکھتے ہیں: والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ۔
اسی طرح صفحہ52 پر مرکزی عنوان یہ قائم کیا ہے "باب الشہید" تفصیل کرتے وقت آغاز میں شہید کا حکم نہیں بتایا بلکہ پہلے اس کی تعریف بیان کی ہے تا کہ طالب علم جان سکے کہ ہر مرنے والے کو شہید نہیں کہا جائے گا بلکہ شہید صرف اسے کہیں گے جو مخصوص طریقے سے قتل ہوا ہو۔چنانچہ امام قدوری لکھتے ہیں:
الشهيد من قتله المشركون أو وجد في المعركة وبه أثرالجراحۃ أو قتله المسلمون ظلما ولم يجب بقتله دية۔
شہید وہ ہے جسے مشرکین نے قتل کر دیا ہو یا وہ میدانِ جنگ میں مقتول پایا جائے اور اس کے جسم پر زخم کے نشانات بھی ہوں، یا اسے مسلمانوں نے ظلماً قتل کر دیا ہو اور اس کے قتل کی وجہ سے ابتداءً دیت واجب نہ ہوئی ہو۔
نوٹ: مذکورہ تعریف اس شہید کی ہے جو دنیا و آخرت دونوں اعتبار سے شہید ہو۔
مختصر قدوری کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف انداز سے اس پر قلم اٹھایا گیا تا کہ اس کا سمجھنا سمجھانا مزید آسان ہو جائے۔چنانچہ اپنے اپنے وقت میں نامور علماء و محققین حضرات نے مختلف زبانوں میں اس کی شروحات ، حواشی اور تراجم لکھنے کی سعادت حاصل کی۔
مختصر قدوری کی شروحات ، حواشی اور تراجم کی تعداد تو بہت زیادہ ہے، جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
1:زاد الفقہاء…………. اس کے مصنف محمد بن احمد ابو المعالی رحمہ اللہ ہیں۔
2: المجتبیٰ…………….. یہ شرح احمد بن مظفر شمس الائمہ کردری رحمہ اللہ نے لکھی ہے۔
3: البیان فی شرح المختصر ……………… اس کے مصنف کا نام محمد بن رسول ہے۔
4: اللباب فی شرح الکتاب………شیخ عبد الغنی الغنیمی المیدانی نے اسے تصنیف کیا ہے۔
5:الجوھرۃ النیرۃ………………………. یہ شرح امام ابوبکر بن علی الحدادی کی تصنیف ہے۔
6:التسہیل الضروری لمسائل القدوری…………… یہ مختصر قدوری کا فارسی ترجمہ ہے۔ مترجم کا نام استاد غلام الدین ہے۔
7:الشرح الثمیری علی المختصر للقدوری…………….. یہ شرح چار جلدوں پر مشتمل ہے۔
موخر الذکر شرح کو جامعہ روضۃ العلوم، نیانگر، جھارکھنڈ (انڈیا) کی طرف سے شائع کیا گیا ہے۔اس کے مصنف مولانا ثمیرالدین قاسمی صاحب ہیں جوجامعہ اسلامیہ، مانچسٹر (انگلینڈ) کے سابق استادِ حدیث ہیں۔یہ شرح بہت سی اضافی اور امتیازی خوبیوں کی حامل ہے۔ اردو زبان میں اس سے بہترین شرح ہماری جستجو کے مطابق شاید ہی کوئی ہو۔