ماہِ محرم؛ فضیلت و احکام

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ماہِ محرم؛ فضیلت و احکام
……ترتیب وعنوانات:مفتی شبیر احمد حنفی
7 نومبر 2013 بروز جمعرات حضرت الشیخ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے خانقاہ اشرفیہ اختریہ مرکز اہل السنۃ والجماعۃ 87 جنوبی سرگودہا میں منعقد ماہانہ مجلس ذکر سے خطاب فرمایا جس میں محرم کے فتنوں سے بچنا کے عنوان پر پر اثر گفتگو فرمائی اور چاروں سلاسل میں خلق خدا کو بیعت بھی فرمایا اس موقع پر حضرت والا کا بیان پیش خدمت ہے۔
الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سئیات اعمالنا من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلاہادی لہ ونشہد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ ونشہد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ،امابعد فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: يَآأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارٰى أَوْلِيَآءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ۔
)سورۃ المائدۃ:51 (
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ.
)سنن ابی داؤد: رقم الحدیث4033(
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
دو قسم کے لوگ:
دنیا میں دو قسم کے لوگ موجود ہیں، بعض وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات،اللہ تعالیٰ کی بات،اللہ کے احکامات اور عبادت کے قائل نہیں اور بعض وہ ہیں جو اللہ کی ذات بھی مانتے ہیں،اللہ کی بات بھی مانتے ہیں،اللہ کی عبادت بھی مانتے ہیں، اللہ کے احکامات بھی مانتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اللہ کی ذات،بات احکامات کو مانتے ہیں ان میں پھر دو قسم کے لوگ ہیں۔
بعض لوگ وہ ہیں کہ جن کی عبادات کا رخ ٹھیک ہے اور بعض وہ ہیں جن کی عبادات کا رخ غلط ہے۔اگر کوئی شخص اللہ کی عبادت نہ کرے، یا عبادت کو مانے لیکن رخ غلط ہو تو یہ دونوں ایک قسم کے افراد شمار ہوتے ہیں۔
1:ایک آدمی نماز مانتا ہی نہیں دوسرا نماز مانتا بھی پڑھتا بھی ہے لیکن بغیر طہارت کے پڑھتاہے دونوں مجرم ہیں۔
2:ایک شخص نماز کو مانتا بھی نہیں،پڑھتا بھی نہیں،ایک نماز مانتا بھی ہے پڑھتا بھی ہے لیکن قبلہ کعبۃ اللہ کی بجائے مخالف سمت کو بنا لیتا ہے تو یہ دونوں ایک جیسے ہیں۔
3:ایک شخص نماز کو مانتا ہی نہیں ہے اور دوسرانماز کو مانتا ہے،پڑھتا بھی ہے لیکن کپڑے ناپاک پہن کر نماز پڑھتا ہے تو یہ دونوں ایک طرح کے ہیں۔
تو وہ لوگ جو اللہ کی ذات اور اللہ کی عبادات کے قائل نہ ہوں وہ بھی کافر ہیں اور جو اللہ کی ذات و عبادات کے قائل تو ہیں لیکن جیسے اللہ چاہتے ہیں ویسے قائل نہیں ہیں بلکہ جیسے خود چاہتے ہیں ویسے قائل ہیں تو مسلمان یہ بھی نہیں ہیں۔
آسمانی مذاہب:
اس وقت دنیا میں وہ مذاہب جن کو کسی درجہ میں آسمانی مذاہب کہتے ہیں۔ان میں معروف مذاہب یہ چلتے ہیں۔یہودیت،عیسائیت اور اسلام۔یہ دنیا میں مشہور ہیں۔
یہودی تورات کو مان رہے ہیں۔
عیسائی انجیل کو مان رہے ہیں۔
مسلمان قرآن کریم کو مان رہے ہیں۔
بلکہ اگر اس میں تھوڑا سا فرق کردیا جائے تو ہم یوں کہیں گے کہ یہودی وہ ہیں جو صرف تورات کو ماتنے ہیں،انجیل ،تورات اور قرآن کو نہیں مانتے۔دوسرے الفاظ میں یہودی وہ ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے۔
عیسائی وہ ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو مانتے ہیں لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے۔
اور مسلمان وہ ہیں جو تورات کو بھی مانتے ہیں،انجیل کو بھی مانتے ہیں قرآن کریم کو بھی مانتے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتے ہیں،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مانتے ہیں۔فرق کیا ہے؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کو پہلے دور کے نبی مانتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں،تورات اور انجیل کو آسمانی کتاب مانتے ہیں لیکن پہلی کتابیں مانتے ہیں اور قرآن کریم کو آخری کتاب مانتے ہیں،حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات تھیں لیکن محفوظ نہیں ہیں،قرآن کریم کی تعلیمات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تھیں اور محفوظ بھی ہیں۔
پہلی کتب محفوظ کیوں نہیں؟
اگر کسی بندے کے ذہن میں یہ بات آئے کہ موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات محفوظ کیوں نہیں ہیں،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات محفوظ کیوں نہیں ہیں،تورات آسمانی کتاب ہے تو لوگوں نے اسے کیوں بدل دیا ہے،انجیل آسمانی کتاب ہے تو لوگوں نے اسے کیوں بدل دیا ہے،تورات میں تحریف کیوں ہوگئی،انجیل میں تحریف کیوں ہوگئی ہے،اللہ پاک اگر قرآن کی حفاظت فرماسکتے ہیں،تو تورات،انجیل کی بھی فرماسکتے ہیں۔کسی کے ذہن میں اگر یہ سوال آئے تو اس کا بڑا آسان اور صاف جواب یہ ہے کہ چونکہ اِس وقت تورات کی ضرورت نہیں ہے اس لیے محفوظ رکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے،انجیل کی ضرورت نہیں ہے تو محفوظ رکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے تو جس کی ضرورت تھی محفوظ اسے رکھتے ہیں ناں!جس کی ضرورت نہیں ہے اس کو محفوظ رکھ کر آپ کریں گے کیا؟
چونکہ قرآن کریم وہ ساری ضرورتیں پوری کرتا ہے جو تورات اور انجیل سے ہوتی تھیں بلکہ اس سے بڑھ کر اضافی ضرورتیں بھی پوری کردیتا ہے اس لیے ان انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات محفوظ نہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات محفوظ ہیں اور یہ تا قیام قیامت محفوظ رہیں گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مرضئ جاناناں چاہیے:
میں یہ بات سمجھا رہا تھا کہ ہم اپنے ذہن میں یہ بات بٹھائیں کہ ہم اللہ کی ذات بھی مانتے ہیں،اللہ کی عبادات بھی مانتے ہیں،احکامات بھی مانتے ہیں،اللہ رب العزت کی پیدا کردہ مقدس شخصیات کو بھی مانتے ہیں۔لیکن عبادت ایسے کرنی ہے کہ عبادت خالص ہو،کلمہ ایسے پڑھا ہے کہ کلمہ خالص ہو،توحید ایسی کہ توحید خالص ہو اس کے بارے میں قرآن کریم میں آیات بھی موجود ہیں اور احادیث مبارکہ بھی موجود ہیں۔
اگر ایمان کی بات کی ہے تو اللہ تعالیٰ نے خالص ایمان کی بات کی ہے اور ”مخلصین“کا لفظ بھی ہے”حنفاء“ کا لفظ بھی ہے۔ابھی مغرب کی نماز میں جو میں تلاوت کی ہے اس میں بھی یہی بات تھی۔قرآن کریم نے”مخلصین“بھی فرمایا اور”حنفاء“ بھی ”مخلص“ کا معنیٰ بھی خالص ہے اور حنیف کا معنیٰ بھی خالص ہے۔فرمایا:
وَاتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيْمَ حَنِيفًا
)سورۃ النساء:125(
[ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کیجیے جو یکسو تھے]
ابراہیم علیہ السلام کو ”حنیف “کیوں فرمایا؟ حنیف اسے کہتے ہیں کہ جس میں باطل کا شبہ بھی نہ ہو،باطل کی ذرہ برابر ملاوٹ نہ ہو اور اخلاص اسے کہتے ہیں جس میں ملاوٹ نہ ہو۔حنیف وہ ہے جس میں ملاوٹ نہ ہو۔
ہر عمل خالص:
اللہ کو عبادت وہ چاہیے جو باطل سے صاف ہو،اللہ کو دین وہ چاہیے جو دین باطل سے بالکل صاف ہو،دین بھی خالص ہو اور دین والا بھی مخلص ہو۔اس لیے کہ دین خالص ہوگا تو دین والا مخلص ہوگا تو دین والا مخلص بنے گا ناں!
اگر دین خالص نہیں ہوگا تو دین والا مخلص کیسے بنے گا؟مخلص ہوتا ہے وہ ہے جس کے پاس خالص دین موجود ہو۔حدیث مبارک میں ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مخلِصًا دَخَلَ الْجَنَّةَ
)المعجم الکبیر رقم:5074(
صرف یہ نہیں فرمایا کہ : مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ
کہ جس نے بھی کلمہ پڑھا وہ جنت میں چلا جائے گا،نہ بلکہ فرمایا جس نے کلمہ پڑھا اور اخلاص سے پڑھا وہ جنت میں جائے گا۔اخلاص سے پڑھنے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ریا کاری نہ ہو اخلاص سے پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ کلمے کو ایسے مانے جیسے کلمے والا چاہتا ہے۔
آج مسلمان بھی پڑھتے ہیں
: لا إِلَهَ إِلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ
مرزائی بھی پڑھتے ہیں لا
إِلَهَ إِلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ
مسلمانوں کی مساجد پر بھی یہی کلمہ لکھا ہے اور مرزائیوں کی عبادت گاہ پر بھی یہی کلمہ لکھا ہوتا ہے جب کہ پاکستان کاقانون موجود ہے کہ کوئی قادیانی اپنی عبادت گاہ پر مسلمانوں والا کلمہ نہیں لکھ سکتا،اپنی عبادت گاہ میں مسلمانوں والی اذان نہیں دے سکتا۔
دین کا درد ہو تو فہم بھی ہو:
بعض لوگ جن کے پاس دین کا درد ہوتا ہے لیکن دین کی سمجھ نہیں ہوتی،دین کا درد ہوتا ہے لیکن دین کا علم نہیں ہوتا، دین کا درد ہوتا ہے لیکن دین کا فہم نہیں ہوتا تو یہ پھر دین کو بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں ایسے لوگ کہتے ہیں کہ ”مرزائی کلمہ پڑھتے ہیں تو ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہمارا کلمہ پڑھ رہے ہیں :
لا إِلَهَ إِلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ
اگر مرزائی ہمارے والی اذان دیتے ہیں تو ہمیں خوش ہونا چاہیے،تم عجیب مولوی ہو کہ وہ صحیح کلمہ پڑھیں تو وہ بھی نہیں پڑھنے دیتے،صحیح اذان دیں تو وہ بھی نہیں دینے دیتے“۔ہم کہتے ہیں کہ وہ کلمہ : لا إِلَهَ إِلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ پڑھتے ہیں لیکن ان سے یہ پوچھو کہ معنیٰ وہی لیتے ہیں جو ہم لیتے ہیں یا معنیٰ اپنا کرتے ہیں،وہ معنیٰ اپنا کرتے ہیں۔مرزائی جب :
لا إِلَهَ إِلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ
پڑھیں ان کے ہاں محمد رسول اللہ وہ نہیں ہیں۔جن کا کلمہ ہم پڑھتے ہیں بلکہ ان کے ہاں اس ”محمد“ سے مراد” مرزا غلام احمد “قادیانی ملعون کی ناپاک ذات ہے۔اب بتاؤ کلمے کا لفظ ٹھیک پڑھا ہے اور معنیٰ ٹھیک نہیں لیا تو مسلمان ہوسکتے ہیں؟مسلمان نہیں ہوسکتے۔
اہل قبلہ کون ہیں:
اس لیے ایک بات سمجھیں کہ ہمارے ہاں فقہاء کی اصطلاح ہے کہ اہل قبلہ کی تکفیر نہ کریں،اہل قبلہ کو کافر نہ کہیں۔بعض لوگ اس جملے کو نہیں سمجھتے تو پھر وہ یہ بات کہہ گزرتے ہیں کہ جی!قادیانی بھی تو اہل قبلہ ہیں،جو ہمارا کعبہ ہے وہی ان کاہے،رافضی بھی تو اہل قبلہ ہیں جو ہمارا قبلہ ہے وہی ان کا ہے،فلاں بھی تو اہل قبلہ ہیں جو ہمارا قبلہ ہے وہی ان کا ہے،تو جب فقہاء نے کہا کہ اہل قبلہ کی تکفیر نہ کریں تو ان کا قبلہ چونکہ ہمارے والا قبلہ ہے تو پھر آپ کیوں کہتے ہیں کہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ہم نے کہا کہ فقہاء نے جو اہل قبلہ فرمایا تو یہ اہل قبلہ فقہاء کی ایک اصطلاح ہے اس اصطلاح کا مخصوص معنیٰ ہے ،اہل قبلہ سے مراد یہ ہے کہ ان کے نظریات وہ ہوں جو کعبہ والوں کے ہیں،ان کے عقائد وہ ہوں جو کعبہ والوں کے ہیں ،یہ اہل قبلہ ہیں۔اگر کعبہ والے نبی کے عقائد اور ہیں اور ان کے اور ہیں تو ان کو فقہاء کی اصطلاح میں اہل قبلہ نہیں کہہ سکتے۔
لفظ ایک،معانی مختلف:
بسا اوقات ایک ہی لفظ ہوتا ہے، ہم بولیں تو معنیٰ اور ہوتا ہے،فقہاء بولیں تو معنیٰ اور ہوتا ہے۔ میں اس کی دو چار مثالیں دیتا ہوں۔آپ بات سمجھیں لیں۔
مثال نمبر1:
جب آپ تبلیغی جماعت میں جائیں۔ درمیان میں ایک بات یاد آگئی کہ رائیونڈ کا ماحول پریشان کن ہے،وہاں شدید بارش ہے تو تمام حضرات دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ماحول کو صاف فرمادیں،بارش رک جائے،موسم ٹھیک ہوجائے تاکہ اجتماع کو اللہ تعالیٰ کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔ جب جماعت میں جائیں اور گشت پہ نکلیں تو اس میں ایک امیر ہوتا ہے،ایک رہبر اور ایک کو متکلم کہتے ہیں کہ جماعت میں یہ بھائی رہبر ہوں گے،یہ امیر ہوں گے اور یہ متکلم ہوں گے۔اب وہاں” متکلم “کا معنیٰ کیا ہوتا ہے کہ جو یہ بات کرے کہ ہم سب نے کلمہ پڑھا ہے:
لا إِلَهَ إِلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ
اس کلمے میں اللہ پاک سے وعدہ کیا ہے اے اللہ تیرے حکم مانیں گے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر چلیں گے اور اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے اور مسجد میں جماعت آئی ہے محنت پہ بات ہورہی ہے آپ ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں۔ تو متکلم کا یہی معنیٰ ہوتا ہے ناں اور تو کوئی معنیٰ نہیں اور جب علماء میں کہیں کہ فلاں بندہ ”متکلم“ ہے تو کیا معنیٰ کہ وہ چھ نمبر بیان کرتا ہے ؟![نہیں:سامعین]وہاں متکلم کا معنی ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ بیان کرتا ہے اور گفتگو کرتا ہے۔اب فقہاء اور علماء کی اصطلاح میں متکلم کا لفظ عقائد پر بولا جاتا ہے۔یہاں متکلم کامعنیٰ اور ہے اور گشت میں نکلیں تو متکلم کا معنیٰ اور ہے۔لفظ تو ایک ہی ہے لیکن دیکھیں معنیٰ بدل جاتا ہے۔
مثال نمبر2:
آپ دیہات میں ہوں اور آپ کے پاس کوئی مہمان آئے،آپ اس سے پوچھیں :پانی پینا ہے؟تو وہ کہے جی !سادہ پانی لاؤ۔تو سادے پانی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شربت نہ دو،اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ٹھنڈا نہ دو اور جب شہر جائیں اور کہیں جی سادہ پانی لاؤ۔تو اب مطلب ہوتا ہے کہ ٹھنڈا نہ دو۔اب دیکھو لفظ ایک ہی ہے۔دیہات میں آکر کہو کہ جی سادہ پانی اس کا معنیٰ ہے کہ شربت نہ دو اور آپ لائیں نلکے کا پانی تو وہ کہے گا کہ یار!ایڈا وی سادہ نہ دیو[اتنا بھی سادہ نہ لاؤ]ایدے وچ برف پا،اینوں ٹھنڈا کر کے لے آ[اس میں برف ڈالو اور اسے ٹھنڈا کر کے لاؤ]
اب دیہات میں سادے پانی کا معنیٰ شربت نہ ہو اور شہر میں سادے پانی کا معنیٰ ٹھنڈا نہ لفظ تو ایک ہی ہے۔
مثال نمبر3:
آپ ہمارے پاس آئیں اور ہم کہیں حافظ صاحب کو بلانا،تو حافظ صاحب کا معنیٰ یہ ہوتا ہے کہ اس عالم کو بلاؤ جو قرآن کا حافظ ہےاور کسی دیہات میں بیٹھ کر کہیں حافظ جی نوں بلانا[کسی حافظ جی کو بلانا]اب اس کا معنیٰ یہ ہوگا کہ نابینا کو بلاؤ۔اب ایک جگہ حافظ کا معنیٰ حافظ قرآن ہے اور دوسری جگہ حافظ کا معنیٰ نابینا ہے۔
لفظ ایک ہی ہوتا ہے لیکن خاص معاشرہ بدلنے سے اس کا معنیٰ بالکل بدل جاتا ہے۔
مثال نمبر4:
ہمارے پنجاب میں کہو ناں” ماما“تو لوگ سمجھتے ہیں گالی دی اور خیبر پختونخواہ میں کہو” ماما“ تو سمجھتے ہیں عزت کی ہے۔وہاں” مامے“ کا لفظ تعظیم کے لیے اور یہاں ”مامے“ کا لفظ گالی ہے۔تو کہتے ہیں ناں تو ماما لگنا ایں[آپ مامے لگتے ہو]دیکھو،یہاں گالی سمجھتے ہیں۔
میں سمجھا صرف یہ رہا ہوں کہ لفظ ایک ہوتا ہے لیکن اس کا مفہوم بدلتا ہے تو جب فقہاء اہل قبلہ کہیں تو اہل قبلہ کا خاص معنیٰ ہے،اہل قبلہ تو فقہاء کہیں اور معنیٰ ہم بیان کریں ،یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
لا إِلَهَ إِلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ کلمہ دیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور معنیٰ بیان کریں قادیانی یہ کیسے ہوسکتا ہے؟جس نبی نے کلمہ دیا ہے،اسی نبی نے معنیٰ دینا ہے،جس نبی نے قبلہ بتایا ہے اس نبی نے اہل قبلہ کا معنیٰ بھی دینا ہے۔
میں بات صرف یہ سمجھا رہا تھا کہ عبادت چاہیے تو خالص، دین چاہیے تو خالص۔ دو باتوں کا اہتمام بہت ضروری ہے۔میری بات سمجھو اچھی طرح۔یہ ہمارا درد اور ہماری دعوت پوری دنیا کی ہے،بعض لوگوں کے پاس دین کا درد بہت ہوتا ہے علم نہیں ہوتا تو دین کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیتے ہیں،
باز والاواقعہ:
حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ایک واقعہ سناتے تھے،آپ نے سنا ہوگا حکیم الامت فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھی عورت کے گھر میں رات کو باز گرا اس نے باز کو پکڑ لیا۔اب چونکہ بوڑھی تھی دل میں درد تھا اور بیچاری بہت محبت کرنے والی تھی اس نے باز کو دیکھا تو اس کو باز پر بڑا ترس آیا۔ اس نے کہا دیکھو کتنا عرصہ گزر گیا ہے لگتا ہے عید پر بھی اس کی کسی نے حجامت نہیں کی،پورا سال گزر گیا ہے اس نے قینچی لی اور اس کے زائد بال کاٹ دئیے۔اس نے باز کی حجامت کر دی۔جس طرح بیٹے کی حجامت کی جاتی ہے۔اس نے بیٹے والا پیار اسے دیا اور اس کی حجامت کر ڈالی،اس نے قینچی سے اس کے ناخن تراش دیے،اور کہا کہ دیکھو اس کی چونچ!کتنا پریشان ہوتا ہوگا یہ دانہ کھاتے وقت،اس نے قینچی سے اس کی چونچ ختم کردی۔
اب بتاؤبوڑھی مخلص تھی یا نہیں؟دکھ درد بھی تھا، باز سے محبت بھی تھی، اس نے کتنی شفقت باز پہ کی ہے لیکن نہ باز اب اڑنے کے قابل ہے،نہ باز کھانے کے قابل ہے،نہ باز شکار کے قابل ہے۔
یہی ظلم آج دین کے ساتھ ہورہا ہے۔لوگ دین کا درد رکھتے ہیں دین کے مٹنے کا غم رکھتے ہیں لیکن دین کا علم نہیں ہے،دین کا فہم نہیں ہےاس لیے دین کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیتے ہیں،میری بات سمجھ رہے ہیں ؟[جی ہاں:سامعین]تو جہاں دین کا درد ہونا ضروری ہے وہاں دین کا صحیح علم علم ہونا بھی ضروری ہے۔
تبلیغی محنت ہماری محنت ہے:
رائیونڈ ہمارا بہت بڑا مرکز ہے تبلیغی جماعت کا بہت بڑا کام ہے،لیکن میں ساتھیوں سے ایک بات کہتا ہوں یہ بات اچھی طرح سمجھ لو۔تبلیغ والے دین کا درد دیتے ہیں،مدارس دین کا علم دیتے ہیں۔اس لیے دونوں کو مانو،تبلیغی کو بھی مانو اور مدارس کو بھی مانو،ایک کو بھی چھوڑ دیں گے تو نقصان ہو گا۔درد پیدا کرنا بھی ضروری ہے اور جس کے اندر دین کا درد ہو اس کو دین کی صحیح رہنمائی بھی ضروری ہے ورنہ یہ آدمی دین کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دے گا۔علماء کو معاشرے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔مسلسل اپنی آواز لگانی چاہیے۔اللہ پاک کام کے نتائج عطا فرمادیتے ہیں،میں نے آج کی مجلس میں ایک بات آپ کو سمجھانی ہے جس کے لیے میں ساری تمہید باندھ رہا ہوں،جو لوگ عبادات یا اللہ کی ذات کے قائل نہیں ہم کی بات نہیں کرتے،ان کا معاملہ بالکل جدا ہے۔آج فکر زیادہ اس بات کی کرنی ہے کہ جو لوگ اللہ کی ذات کو بھی مانتے ہیں،عبادات کوبھی مانتے ہیں وہ دین پر عمل کریں تو ایسے کریں جیسے اللہ چاہتا ہے،ایسے عمل کریں جیسے اللہ کا رسول چاہتا ہے۔اپنی مرضی اس کے اندر شامل نہ کریں ،اپنی رائے کو اس کے اندر شامل نہ کریں۔
محرم پہلا اسلامی مہینہ:
آج محرم کی 3 تاریخ ہے۔ محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔” محرم “کا معنیٰ ہے ”حرمت والا“،یہ ہمارے شیخ عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر رحمہ اللہ بڑے پیارے جملے فرماتے تھے،حضرت فرماتے اسلامی پہلامہینہ محرم ہے اور انگریزی پہلا مہینہ جنوری ہے۔جنوری جانور سے بنا ہے محرم حرمت سے بنا ہے ان کا پہلا مہینہ جانوروں والا ہے۔اور ہمارا پہلا مہینہ ہے محرم یعنی حرمت والا۔اب یہ سال کا پہلا مہینہ ہے اور سال کے بارہ مہینے ہیں۔ہمیں ان کے نام بھی یاد رکھنے چاہییں۔ انگریزی مہینوں کا حساب رکھنا غلط نہیں جائز ہے،انتظامی امور میں رکھ سکتے ہیں لیکن شریعت کے جتنے مسائل ہیں ان کا مدار انگریزی مہینوں پر نہیں ہے،ان کا مدار اسلامی مہینوں پر ہے۔مثلا میں دو چار احکام پیش کرتا ہوں۔
اسلامی احکام کی بنیاد:
1:سال میں ایک مرتبہ رمضان کے پورے مہینے کا روزہ فرض ہے،اب رمضان کا حساب قمری کے حساب سے لگائیں گے یا انگریزی کے حساب سے؟[قمری حساب سے:سامعین]چاند نظر آئے گا تو رمضان ہے نظر نہیں آئے گا تو رمضان نہیں ہے،اس لیے رمضان المبارک کے روزوں کا تعلق چاند کی بنیاد پر ہے سورج کی بنیاد پر نہیں ہے۔انگریزی مہینوں کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اسلامی مہینوں کی بنیاد پر ہے۔
2:عید الفطر کی بنیاد بھی انگریزی تاریخوں پر نہیں ہے بلکہ اسلامی تاریخوں پر ہے۔
3:عید الاضحیٰ کی بنیاد بھی اسلامی مہینے پرہے انگریزی تاریخوں پر نہیں ہے۔
4:سال میں حج کے فریضے کی بنیاد جن دنوں میں ہے وہ اسلامی مہینے کی بنیاد پرہے انگریزی مہینے کی بنیاد پر نہیں ہے۔
5:قربانی کا تعلق بھی اسلامی ماہ کی بنیاد پر ہے انگریزی مہینے کی بنیاد پر قطعا نہیں ہے۔
6:جو زکوۃ ہم نے دینی ہے جو ایک سال کے بعد فرض ہوتی ہے یہ جو سال کے مہینے گننے ہیں انگریزی نہیں گننے بلکہ اسلامی مہینوں کو گننا ہے ،اس کا ہمیشہ خیال رکھیں۔
7:عورت کا معاملہ ہے کہ خدانخواستہ عورت کا خاوند فوت ہوجاتا ہے اس کے بعد جو عدت چلتی ہے چارماہ اور دس دن،یہ چار ماہ اور دس دن انگریزی حساب سے نہیں ہے بلکہ یہ اسلامی مہینوں کے حساب سے ہے۔
میں اس لیے عرض کر رہاں ہوں کہ ان سب چیزوں کی بنیاد اسلامی مہینوں پر ہے نہ کہ انگریزی مہینوں پر اور یہی وجہ ہے کہ جب قرآن مجید آپ کھول کر دیکھیں تو قرآن ایسی پتے کی بات کرتا ہے کہ بندہ عش عش کر اٹھتا ہے۔
چاند کیا ہے؟
قرآن کریم میں :
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ
)سورۃ البقرۃ:189(
اے نبی !آپ سے لوگ چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں،آپ ان کو یہ جواب دیں کہ یہ عام کاموں کے وقت اور حج کے وقت مقرر کرنے کے لیے ہے۔
پوچھا گیا تھا کہ چاند کیا چیز ہے؟ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کیا چیز ہےبلکہ جواب یہ دیا گیا کہ یہ کس لیے ہے؟یہ بتائیں کہ چاند کیا ہے؟اس سے تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا لیکن یہ بتائیں کس لیے ہے؟اس سے لوگوں کا فائدہ ہے۔
اب لوگ جارہے ہیں چاند پر تحقیق کرنے کے لیے،تحقیق ہورہی ہے کہ چاند کیا ہے؟ اس کا میڑیل کیا ہے؟مخلوق کون سی ہے؟چاند پر کون رہتا ہے؟سانس لے سکتے ہیں کہ نہیں؟آبادی ہوسکتی ہے کہ نہیں ؟لوگ اس پر تحقیق کر رہے ہیں کہ چاند کی حقیقت کیا ہے؟ فرمایا ہم سے یہ پوچھو کہ چاند کس لیے ہے حقیقت سے تمہیں کیا تعلق؟تم یہ دیکھو کہ چاند سے متعلقہ جو احکام ہیں ان پر عمل کرنا ہے۔دنیا میں کسی شخص کو پتہ نہ چلے کہ چاند کیا چیز ہے،اس سے ایمان میں کچھ نقصان نہیں آتا۔لیکن اگر یہ نہ پتہ چلا کہ چاند سے کیا کیا احکام وابستہ ہیں اب ایمان کا مسئلہ بہت نازک بن جائے گا۔
محرم امن کا مہینہ:
میں صرف یہ بات سمجھا رہا تھا۔محرم ہمارا پہلا مہینہ ہے۔ جب یہ پہلا مہینہ ہے تو اس میں عبادات خالص کرنی چاہییں۔ کفر نے اتنی محنت کی ہے کہابتداء سال سے مہینہ جیسے شروع ہوتا ہے لوگ اس قدر تباہی او ر واہی پھیلاتے ہیں کہ اللہ محفوظ فرمائے۔اسلام جس قدر امن دیتا ہے دنیا کوئی مذہب اس قدر امن دینے کے لیے تیار نہیں۔اور محرم کا معنیٰ ہے حرمت والا۔
یہ تو مہینہ ہی امن کا ہے لیکن ہمارے ہاں ابھی مہینہ شروع بھی نہیں ہوتا کہ پورے ملک میں پولیس الرٹ ہوجاتی ہے،کرفیو لگ جاتا ہے،فوج آجاتی ہے،رینجرز آجاتی ہے۔ کیوں؟محرم جو آگیا ہے۔بھائی محرم امن کا مہینہ تھا یا لڑنے کا؟دیکھو سازش ہمارے خلاف کتنی ہوئی ہے؟جو مہینہ امن کا تھا اس کو لڑائی کا بنا دیا۔جو مہینہ عبادت کا تھا اس کو شرارت کا بنا دیا۔جو مہینہ سکون کا تھا اسے فساد کا بنا دیا۔اور ہم اس میں خوامخواہ شریک ہوجاتے ہیں۔
ہم امن چاہتے ہیں:
ہمارے مرکز اہل السنۃ والجماعۃ کی پالیسی ہوتی ہے کہ اس موقع پر شرارت سے بچیں اور امت کو لڑائی سے محفوظ رکھیں۔میں نے چونکہ کل قصور جانا تھا،میرے پاس پہلے قصور [ایک شہر کا نام ہے]سے فون آیا،پھر سرگودہا سے فون آیا کہ ڈی پی او نے فلاں مولانا صاحب کے ذمے لگایا ہے کہ مولانا صاحب کی منت کریں،یہ آپ کا احسان ہوگا آپ کل قصور نہ جائیں میں نے کہا بھائی میرے جانے سے کیا ہوگا؟ان سے جاکر کہہ دو اگر میرے نہ جانے سے خوش ہو تو میں نہیں جاتا۔آج پھر فون آیا کہ ہمارے قصور کے ایم این اے گئے ہیں،انجمن تاجران کے صدر گئے ہیں اور بہت سے علماء گئے ہیں ڈی پی او سے مذاکرات ہوئے ہیں۔ اس نے کہا آئی جی صاحب رات قصور آئے تھے انہوں نے کہا ہے کہ مولانا صاحب سے کہو؛ ابھی محرم میں رک جائیں بعد میں جب چاہیں جلسہ کرلیں۔میں نے کہا :ابھی جانا کوئی ضروری تو نہیں ٹھیک ہے ہم بعد میں چلے جائیں گے۔
آپ اندازاہ کریں کہ ہم امن کی بات بھی کرتے ہیں، فسادی پھر بھی شمار ہوتے ہیں۔کس قدر باطل کی محنت ہے۔ لیکن کام کرنے والوں کو دل بڑا رکھنا چاہیے۔پروپیگنڈے کا مثبت جواب دینا چاہیے۔اور بلا وجہ مزید لڑائی پیدا کرکے اپنے ملک کو برباد نہیں کرنا چاہیےہمیں اپنے ملک کے امن کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ ہم نے ملک بنا یا ہے ہم ہی ملک بچانا ہے۔بنایا بھی ہمارے اکابر نے ہے تو بچانا بھی ہم ہی نے ہے۔کچھ قربانیاں بنانے میں لگ گئیں ہیں کچھ قربانیاں بچانے پہ لگ جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو پاکستان بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ کریم ان سب کو ختم فرما دے جو ملک کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔
یکم محرم شہادت عمر رضی اللہ عنہ:
خیر میں عرض کر رہا تھا کہ پہلا مہینہ محرم کا ہے ہمیں اسلامی مہینوں کا خیال کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ذہن میں رکھیں کہ اسلامی مہینے کا آغاز یکم محرم سے ہے۔یکم محرم کو شہادت ہوئی ہے تاریخ اسلامی کے سب سے بڑے جرنیل حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی۔یکم محرم اور شہادت کا دن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ تکوینی طور پر کہ مسلمان کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ جان بچے لیکن اگر اللہ کے دین کے لیے جان دینی پڑے تو اس پر روئے بھی ناں۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ آپ نے سنا ہوگا میں صرف ایک جملہ کہتا ہوں۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک عجیب دعا مانگے کرتے تھے۔
اللہم ارزقنی شہادۃ فی سبیلک واجعل موتی فی بلد رسولک
)صحیح بخاری رقم1890(
اے اللہ مجھے اپنے راستے کی شہادت دے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کی موت دے یعنی شہادت بھی ملےاور مدینہ میں ملے۔اب دیکھو کتنی عجیب دعا ہے کہ امیرالمومنین ہیں،خلیفہ المسلمین ہیں اب مدینہ میں آکر کون ان پر حملہ کرے گا؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑی کوشش کی کہ محاذوں پرجاؤں لیکن صحابہ کرام ان کو روک دیتے تھے کہ آپ محاذوں پر نہ جائیں آپ یہاں ٹھہریں۔آپ امیرالمومنین ہیں،اگر آپ چلے گئے اور آپ کی جان کو نقصان ہوا تو بہت بڑا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
شہادت تیرا نصیب ٹھہری:
چنانچہ آپ نے ایک دن مسجد نبوی میں خطبہ دیا: (إن في جنات عدن قصرا) اے لوگو! جنت عدن میں خدا نے ایک محل بنایا ہے۔ پھر آپ نے اس کی تفصیل بتائی کہ (له خمسمائة باب على كل باب خمسة آلاف من الحور العين) اس کے پانچ سو دروازے ہیں اور ہر دروازے پر پانچ ہزار حور عین ہیں۔ پھر فرمایا (لا يدخله إلا نبي) اس محل میں صرف نبی جاسکتا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا (هنيئا لك يا صاحب القبر) حضور! آپ کو مبارک ہو، آپ اس محل میں جاچکے ہیں، پھر فرمایا:(أو صديق) یا اس محل میں صرف صدیق جاسکتا ہے۔پھر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی قبر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: (هنيئا لك يا أبا بكر) اے ابوبکر آپ کو بھی مبارک، آپ بھی اس محل میں جاچکے ہیں۔ پھر فرمایا: (أو شهيد) یا اس محل میں شہید جاسکتا ہے۔پھر فرمایا
: (وأنى لك الشهادة يا عمر
) اے تجھے! تمہیں شہادت کیسے ملے گی؟ یعنی نبی بھی چلا گیا، صدیق بھی چلا گیا، تو شہید ہوگا تو تب جائے گا ، تو نہ شہید ہوگا نہ محل میں داخل ہوگا۔ اس لیے کہ تو محاذ پر جاتا نہیں ہے۔اب بتا تجھے کیسے شہادت ملے گی؟ دیکھو !یہ حضرات شہادت کے کتنے متمنی تھے؟! پھر فرمانے لگے
(إن الذي أخرجني من مكة إلى هجرة المدينة لقادر على أن يسوق إلي الشهادة)
وہ اللہ جو عمر کو مکہ سے نکال کے مدینہ لایا ہےوہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ عمر کو باہر لے کر نہ جائے باہر سے شہادت کو کھینچ کر مدینہ میں لائے۔
(المعجم الاوسط للطبرانی: رقم الحدیث9430)
اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ میں شہید ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں داخل ہوگئے۔اب تینوں کی وہاں موجود ہے۔ پہلی قبر حضور علیہ السلام کی ہے، پھر تھوڑی سی آگے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہے، اس کے بعد ذرا آگے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی ہے۔ اب ایک جگہ خالی ہے وہاں ایک گول سوراخ بنا ہوا ہے، اس جگہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے دفن ہونا ہے۔تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کے سب سے بڑے جرنیل تھے۔ اللہ نے انہیں شہادت کی موت نصیب فرمائی ہے۔ یکم محرم الحرام ان کی شہادت کا دن ہے۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو شہادت کیوں نہ ملی؟:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ درجہ بہت بڑے تھے مگر شہید نہیں ہوئے اور حضرت عمر بھی بہت بڑے تھے ساتھ شہید بھی ہوئے۔اب اگر کسی کے ذہن میں یہ شبہ آئے کہ حضرت عمر کا مقام ومرتبہ سیدنا صدیق سے بڑا ہے شہادت کی وجہ سے تو یہ شبہ فضول ہے۔کیوں؟یہ بات توجہ سے سمجھنا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے شاید کوئی ایک بھی ایسا صحابی نہیں کہ جس کو مقام شہادت نہیں ملا ،فرق کیا ہے؟فرق یہ ہے کہ شہادت کی حقیقت تمام صحابہ کو ملی ہے لیکن شہادت کی صورت کسی کو ملی ہے اور کسی کو نہیں ملی۔ایک ہے شہادت کی حقیقت اور ایک ہے شہادت کی صورت شہادت کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اللہ کے راستے میں قتل ہونے کے لیے خود کو پیش کردے اس کے لیے لڑتا بھی رہے پھر اگر اپنی موت بھی فوت ہوجائے تو تب بھی اس کو شہادت کی حقیقت مل گئی ہے۔اللہ کے نبی کے فرمایا :
من سئل اللہ تعالیٰ الشہادۃ بصدق بلغہ اللہ تعالیٰ منازل الشہداء وان مات علیٰ فراشہ.
)صحیح مسلم رقم:1909(
صحابہ کرام اور حقیقت شہادت:
جو آدمی صدق دل سے شہادت مانگتا ہے وہ بستر پر مرے تب بھی شہید ہے صدق دل کا مطلب کیا ہے؟یہ کہ جب ضرورت پڑے تو خود کو پیش بھی کرے یہ مطلب نہیں کہ ضرورت کے وقت جائے بھی نہ۔اب بتاؤ صحابہ میں کوئی ایسا تھا جس نے صدق دل سے شہادت نہیں مانگی[نہیں تھا۔سامعین]اب حقیقت شہادت تو سب کو ملی ہے مگر کسی کو صورت بھی ملی اور کسی کو صورت نہیں ملی۔اب یہ سمجھو کہ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کو شہادت کی صورت کیوں نہیں ملی؟اس کی حکمت یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق عکس نبوت تھے یاد رکھنا صحابہ کرام میں حضور علیہ السلام کا جو عکس تھا وہ سیدنا صدیق اکبر تھے۔اللہ کے نبی نے شہادت مانگی ہے صورت نہیں ملی۔اگر صدیق کو شہادت کی صورت بھی مل جاتی تو عکس نبوت نہ رہتے۔اس لیے خدا نے حقیقت دونوں کو دی ہے صورت دونوں کو نہیں دی۔صدیق چونکہ عکس نبوت تھے حضور ک پیچھے قدم بقدم چلتے تھے اس لیے اللہ نے پوری رعایت فرمائی ہے۔ میں اس لیے یہ شبہ دور کر رہا ہوں کہ کسی کے ذہن میں یہ نہ رہے کہ کہ شاید سیدنا عمر کا مرتبہ حضرت صدیق اکبر سے زیادہ ہے۔
عبادت اور احتجاج میں فرق:
تو یکم محرم سیدنا عمر کی شہادت کا دن ہے۔اب ہمارے ہاں ایک رخ چلا ہے،وہ یہ کہ یکم محرم کو سیدنا عمر کی شہادت کا دن منایا جائے لیکن یاد رکھنا،اسلام میں شہادت کے ایام منانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس تاریخ کو دنیا میں جلوہ افروز ہوئے ہیں ہم اس دن کو منانے کی بات کرتے ہیں؟ [نہیں۔سامعین]جس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے ہیں ہم منانے کی بات کرتے ہیں؟[نہیں۔سامعین]تو جب نبوت کے آنے اور جانے کے ایام منانے کی بات نہیں کرتے،سیدنا عمر کا یوم شہادت منانے کی بات کیسے کر سکتے ہیں؟ بعض حضرات کے ذہن میں آئے گا کہ ہمارے مسلک کی فلاں فلاں جماعتیں تو ان ایام کو منانے کی بات کرتی ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ وہ جماعتیں ایام منانے کی بات اس لیے نہیں کرتیں کہ وہ اس کو عبادت سمجھتی ہیں بلکہ وہ اس لیے بات کرتے ہیں کہ پہلے دس محرم ہے، اب یکم محرم بھی ہوگا پہلے دس ہے 18 ذوالحج بھی ہوگا، پہلے دس ہے اب 21 رمضان المبارک بھی ہوگا، پہلے دس ہے اب22 جمادی الثانی یوم صدیق اکبر بھی ہوگا۔جب اتنے ایاموں پر جلوس نکلنا شروع ہوگا تو حکومت سوچنے پر مجبور ہوگی کہ یہ جلوس بند کرو۔ہم کہیں گے کہ ہمارا بند کرتے ہو تو ان کا بھی بند کرو۔ان کا نہیں کرتے تو ہمیں بھی کرنے دو۔تو یہ عبادات کے جلوس نہیں ہیں یہ احتجاجی جلوس ہیں۔ احتجاج اور ہوتا اور عبادت اور ہوتی ہے۔میں یہ بات باربار کہتا ہے کہ شریعت کی منشاء ہمیشہ ذہن میں رکھا کرو۔شریعت کا درد بھی ہونا چاہیے اور شریعت کا صحیح علم بھی ہونا چاہیے۔ درد میں شریعت کو بدلنا نہیں چاہیے۔اس لیے اگر آپ ان جلوسوں میں شرکت کریں تو عبادت سمجھ کر نہیں بلکہ احتجاج سمجھ کر کریں۔کیونکہ عبادت اور احتجاج میں بہت فرق ہے۔
توضیح بالمثال:
آپ کا ایک بڑا عالم ہے،پولیس نے ناحق پکڑ کے اسے جیل میں بند کر دیا۔آپ روڈ بلاک کرتے ہیں عبادت سمجھ کر یا احتجاج سمجھ کر؟[احتجاج سمجھ کر: سامعین]کوئی بندہ آپ سے کہے حدیث میں دکھاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کبھی روڈ بلاک کیا ہے؟آپ کہو گے بھائی،ہم عبادت سمجھ کے تھوڑی کر رہے ہیں یہ تو ہمارا احتجاج ہے۔ہم لڑنا نہیں چاہیے۔مرنا نہیں چاہتے۔حکومت کے قانون کو ہاتھ میں لینا نہیں چاہتے، ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں تھی بات منوانے کی۔اس لیے یہ روڈ بلاک کر دیا ہے۔اگر ہمارا مطالبہ پورا کردیا جائے تو ہم ابھی یہ ختم کر دیں گے۔ تو معلوم ہوا کہ عبادت اور ہوتی ہے اور احتجاج اور ہوتا ہے۔ یہ وضاحت اس لیے کرتا ہوں کہ اگر آدمی یہ سمجھ لے تو پھر فتویٰ دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ورنہ کبھی منانے والوں پر فتویٰ لگا دیتا ہے او کبھی نہ منانے والوں کو بزدل کہہ دیتا ہے، یہ بات اچھی طرح سمجھو۔نہ نکلنے والوں پر خلافِ شریعت کا فتویٰ لگاؤ اور نہ نکلنے والوں کو بزدل کہو۔اعتدال پر رہو۔ہر کام میں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔
محرم کے احکام:
یہ محرم چونکہ پہلا مہینہ ہے اس لیے یہ پہلے سمجھو کہ شریعت کا منشاء کیا ہے؟اس مہینے میں بعض کام ایسے ہیں جو کرنے کے ہیں اور بعض کام ایسے ہیں جو نہ کرنے کے ہیں۔پہلے وہ کام سمجھ لیں جو کرنے کے ہیں۔
روزہ رکھنا:
اس مہینے میں سب سے اہم کام ہے محرم کا روزہ رکھنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے:
افضل الصیام بعد شہر رمضان شہراللہ المحرم
)صحیح مسلم ج1ص368(
رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والا روزہ محرم کا ہے۔یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔
اور دوسری حدیث میں ارشاد ہے:
وصیام یوم عاشوراء احتسب علی اللہ ان یکفر السنۃ التی قبلہ۔
(صحیح مسلم: ج1 ص367 )
کہ آدمی نے ایک سال میں جتنے گناہ کیے ہیں یہ محرم کا وزہ رکھ لے اللہ تعالیٰ ایک سال کے سارے چھوٹے گناہ اس ایک روزے کی برکت سے معاف فرمادیں گے۔اب بتائیں کتنی بڑی فضیلت کی بات ہے۔
دسویں محرم کے روزے کی ابتداء:
یہ روزہ چلا کہاں سے ہے؟حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
(أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم المدينة)
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے۔ (فوجد اليهود صياما يوم عاشوراء) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ دس محرم کو یہودی روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : (ما هذا اليوم الذي تصومونه)یہ اس دن کا روزہ تم کیوں رکھتے ہو؟یہودیوں نے کہا (ہذا یوم عظیم)، یہ آج کا دن تو عظمت والا ہے (أنجى الله فيه موسى وقومه) دس محرم کے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور اس کی قوم کو فرعون کے ظلم سے نجات عطا کی تھی۔(وغرق فرعون وقومه)اور فرعون اور اس کی قوم دریا میں غرق کردیا تھا، (فصامه موسى شكرا)،موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے روزہ رکھا۔(فنحن نصومہ)،ہم چونکہ موسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں اس لیے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:( فنحن أحق وأولى بموسى منكم) ہم تم سے زیادہ اس بات کے حقدار ہیں کہ جو کام سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کیا وہ ہم کریں، ہمارا تعلق موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تم سے زیادہ ہے۔تم نے موسیٰ علیہ السلام کو نام سے مانا ہے ہم نے موسی علیہ السلام کو دل وجان سے مانا ہے۔تمہارا ماننا اور ہے ہمارا ماننا اور ہے۔ (
فصامه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمر بصيامه)
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور حکم بھی دیا کہ محرم کی دسویں کو روزہ رکھا کرو۔
(صحیح مسلم: رقم الحدیث1130)
اللہ کے نبی نے عام اجازت دے دی تو صحابہ کرام نے روزہ رکھنا شروع کردیا۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روزہ رکھنا شروع کیا تو انہیں اشکال ہوا کہ یا رسول اللہ
! (انہ یوم تعظمہ الیہود و النصاریٰ)
اس دن کی تو یہود اور نصاریٰ بہت تعظیم کرتے ہیں، کہیں ایسا نہ کہ ہم دسویں محرم کا روزہ رکھیں اور یہود سے مشابہت ہوجائے، اب کیا کریں؟نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع)
میں زندہ رہا تو اگلے سال نو محرم کا روزہ بھی رکھوں گا۔ راوی فرماتے ہیں:
(فلم يأت العام المقبل حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم)
آئندہ سال نہیں آیا تھا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوگئے۔
(صحیح مسلم: رقم ا لحدیث1134)
اسی طرح ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (
صوموا یوم عاشورآء وخالفوا فیہ الیہود
) دسویں محرم کو روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ پھر فرمایا:
(صوموا قبلہ یوما او بعدہ یوما
)
(مسند احمد: رقم الحدیث2154)
دس محرم سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھو (تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے)
اغیار کی مشابہت سے بچو!
اللہ کے نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے روزہ کی بات بھی بتائی ہے اور فضیلت بھی بتائی ہے لیکن ساتھ یہ بھی تنبیہ فرمائی ہے کہ اپنی عبادت کو یہود کے مشابہ نہ ہونے دینا۔یہود کی مشابہت سے بچا کے رکھنا۔معلوم ہوا کہ عبادت کو خالص کرنا بہت ضروری ہے، عبادت کو ملاوٹ سے بچا کے رکھنا بہت ضروری ہے۔اللہ کی قسم؛خالص عبادت اگرچہ تھوڑی ہو ملاوٹ والی عبادت سے گئی گنا بہتر ہوتی ہے۔سنت عمل ہو، خالص عبادت ہو بےشک تھوڑی ہو یہ بہت افضل ہے اس عبادت سے جو ملاوٹ والی ہو اور بہت زیادہ ہو۔اس لیے ہم سب اس بات کا اہتمام کریں کہ روزہ رکھیں۔ 9 اور 10 محرم کو یا 10 اور 11 محرم کو تاکہ یہود کی مخالفت نہ ہو اس میں دو باتیں سمجھنے کی ہیں۔
1:جس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت فرمائی ہو ہمیں عبادت کرنی چاہیے اور ساتھ اپنی عبادت کو ملاوٹ سے بھی بچانا چاہیے۔سنن ابی داود کی حدیث ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من تشبہ بقوم فہومنہم
)سنن ابی داود رقم:4033(
جو آدمی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے قیامت کے دن اسی قوم سے اٹھایا جائے گا۔
اور قرآن کریم میں ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ
)سورۃ المائدۃ:51(
اے ایمان والو؛تم یہود اور نصرانیوں کے ساتھ دوستی نہ رکھو وہ آپس میں دوست ہیں۔جو تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے گا وہ انہیں میں سے ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔[آمین۔ سامعین]
2:کالا کپڑا پہننا شرعا گناہ نہیں ہے،پہن سکتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ کپڑا سفید ہے۔اس لیے ہمیں بھی سفید کپڑے پہننے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
آقا کا عمامہ:
کالی پگڑی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنی ہے اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول کالا عمامہ پہننے کا تھا۔حتیٰ کہ جب مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر گئے ہیں اس وقت بھی کالا عمامہ سر پر تھا۔حدیث مبارک میں ہے:
دخل مکۃ وعلیہ عمامۃ سوداء
(شمائل ترمذی)
شمائل ترمذی کی حدیث ہے کہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر کالا عمامہ تھا البتہ زرقانی میں روایت ہے امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کالی پگڑی پہنتے تھے اور بسا اوقات سفر میں سفید عمامہ پہنتے تھے۔
یہاں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ سفر میں تو کالی پگڑی پہننی چاہیے سفید تو میلی جلدی ہوجاتی ہے لیکن وہ سفر عرب کا تھا جو ریگستان کا علاقہ ہے وہاں مٹی نہیں ہوتی ریت ہوتی ہے اس لیے وہاں سفید پگڑی بھی اتنی جلدی میلی نہیں ہوتی۔اس لیے ریگستان کا معاملہ اور ہوتا ہے اور عام زمینوں کا معاملہ بالکل الگ ہوتا ہے۔میں اسی لیے کہہ رہا تھا کہ کالا کپڑا پہننا جائز ہے لیکن محرم کے دنوں میں کالا کپڑا کسی بھی صورت میں نہ مرد پہنے نہ عورت پہنے۔کیوں؟اس لیے کہ محرم کے دنوں میں کالا کپڑا پہننا خالص روافض کا شعار ہے روافض کا جھنڈا بھی کالا ہے باہر سے بھی کالے ہیں اور اندر سے بھی کالے ہیں۔تو اس لیے اپنے آپ کو ان سے الگ رکھیں تاکہ اللہ دل کو بھی صاف رکھے۔ اللہ ظاہر کو بھی سفید رکھے۔تو کالوں سے الگ رہیں۔اپنا معاملہ صاف رکھیں۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشابہت سے منع کیا ہے ہمیں بھی مشابہت سے بچنا چاہیے۔اب اچھی طرح سمجھ لو کہ کالا کپڑا پہننا اگرچہ جائز ہے لیکن محرم میں نہیں پہننا چاہیے کیوں؟اس لیے کہ اس سے روافض کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے۔
محرم میں سبیل کا حکم:
غریبوں کے لیے پانی کا انتظام کرنا جائز ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں کنواں خرید کے وقف کیا ہے، جائز ہے۔عام زبان میں اس کو ”سبیل “کہتے ہیں۔آپ یہاں نلکا لگا دیں تاکہ لوگ پانی پیتے رہیں کوئی حرج نہیں،جائز ہے۔لیکن پورے گیارہ مہینے سبیلیں نہ لگائیں اور صرف محرم کے دنوں میں سبیلیں لگائیں اس سے بچنا چاہیے ،کیوں؟اس لیے کہ اس سے روافض کے ساتھ مشابہت لازم آئے گی۔پورے سال غریبوں کو کھانا نہ کھلانا صرف محرم کے دنوں میں دیگیں چڑھا کے تقسیم کرنے سے بچنا چاہیے کیوں؟اس سے روافض اور شیعوں کے ساتھ مشابہت ہوگی پورے سال قبرستان میں نہ جانا صرف محرم کے دنوں میں وہاں جا کے صفائی کرنا،جھاڑو لگانا،قبر پہ پھول رکھنا،ٹہنیاں توڑ کے قبر پہ رکھنا،اور قبر پہ پڑھتے رہنا، اس سے بچنا چاہیے کیوں؟اس لیے کہ یہ روافض کا شعار ہے اہل السنۃ کا کام ہرگز نہیں۔اہل السنۃ تو کہتے ہیں کہ کوئی دن متعین نہیں سال میں کسی بھی دن قبرستان جانا چاہو تو جاسکتے ہو۔
آج کا ماحول اورعورتوں کا قبرستان جانا:
ایک مسئلہ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ آج کل عورتیں قبرستان جاسکتی ہیں یا نہیں؟عورت اگر پردے کا مکمل اہتمام کرے اور وہاں جا کے نوحہ نہ کرے تو پھر فی نفسہ اس کے جانے کی گنجائش موجود ہے،جا سکتی ہے۔لیکن اس دور میں زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ عورت قبرستان نہ جائے۔ دیکھو!ام المومنین امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تو نماز کے لیے مسجد میں آنے والی عورتوں کے بارے میں فرما رہی ہیں کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے ان حالات کو دیکھ لیتے جو انہوں نے اختیار کر رکھے ہیں تو ان کو مساجد میں آنے سے روک دیتے۔
(صحیح البخاری: رقم الحدیث869)
کہ حالات بدل گئے ہیں، لہذا اب اس دور میں قبرستان میں آنے کی کیسے اجازت دی جاسکتی ہے؟جتنی گنجائش ہے ہم لڑتے نہیں ہیں لیکن سمجھاتے ضرور ہیں کہ عورت کو اس کام سے بچنا چاہیے۔
میں عرض کر رہا تھا کہ روزہ بھی رکھیں لیکن جن کاموں سے روافض اور اہل بدعت کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے ان سے بچیں تاکہ ہماری عبادت خالص بنے،ہماری عبادت ملاوٹ والی نہ ہو۔اس بات بہت زیادہ اہتمام فرمائیں اللہ کریم ہمیں محرم کا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔[آمین:سامعین]
گھر والوں پر وسعت:
ایک جو اور کرنے کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَنْ وَسَّعَ نفسه وعَلَى أَهْلِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللهُ تعالى عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ
)كنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال رقم الحدیث:24258(
اللہ کے نبی نے فرمایا جو آدمی دس محرم کو اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پہ خرچ کرنے میں ہمت سے کام لے، دل کھول کر خرچ کرے تو اللہ پاک پورا سال وسعت رزق کے اسباب پیدا فرما دیتے ہیں۔
اب دیکھو؛یہ فضیلت غریبوں کو چاول کھلانے کی نہیں ہے یہ فضیلت اپنی بیوی اور بچوں کو کھلانے کی ہے۔عام آدمی سمجھتا ہے کہ دس محرم کو چاولوں کی دیگ پکا کر غریبوں کو کھلائیں گے تو ثواب ہوگا اور اگر اپنے گھر والوں کو کھلا دئیے تو پتہ نہیں گناہ ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو فضیلت بیان فرمائی ہے یہ اجر دوسروں کو کھلانے پہ ملے گا یا اپنے بیوی بچوں کو؟[اپنے گھر والوں کو:سامعین]لیکن ہمارا عام مزاج یہ ہے کہ ہم باہر چاول پکا کے کھلانا عبادت سمجھتے ہیں لیکن گھر والوں پہ خرچ کرنے کو عبادت نہیں سمجھتے۔کسی اور کو فروٹ دیں تو سمجھتے ہیں بہت سخی آدمی ہے اگر اپنے گھر والوں کو دیں تو سمجھتے ہیں سخاوت ہی نہیں ہے۔تو جس طرح دوسروں کو کھلانا عبادت ہے اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو کھلانا بھی عبادت ہے۔باہر والوں کو زردہ اور مٹھائی کھلانا ثواب ہے تو اپنے گھر والوں کو کھلانا بھی ثواب ہے۔تو وسعت سے بڑھ کے خرچ نہ کریں البتہ دس محرم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر خرچہ نسبتا ًبڑھا دیں۔ عام دنوں میں آلو ہیں تو آج گوشت پکا لیں،عام دنوں میں چاول نہیں ہیں تو آج زردہ پکا لیں۔تو نسبتاً خرچہ بڑھائیں حد سے تجاوز نہ کریں اور یہ ذہن میں رکھ کے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو دس محرم کو وسعت سے خرچ کرے گا اللہ پاک پورا سال اس کو وسعت سے عطا فرمائیں گے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدے پہ ہمارا یقین ہونا چاہیے ناں؟[جی ہاں:سامعین]اللہ کریم ہمیں بات سمجھنے کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔[آمین: سامعین]
ذکر حسین اور دیگر صحابہ کا احترام:
محرم کے دنوں میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا کثرت سے ذکر ہوتا ہے لیکن حضرت حسین کی شہادت اور ذکر کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یا کسی بھی صحابی پر ہلکا سا تبرا کرنا اس کی شریعت میں کوئی بھی گنجائش نہیں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا
ارحم امتی بامتی ابوبکر رضی اللہ عنہ
،حضرت عمر کے بارے میں فرمایا واشدہم فی امراللہ عمر رضی اللہ عنہ،حضرت عثمان کے بارے میں فرمایا وا
صدقہم حیاء عثمان رضی اللہ عنہ،
اور سیدنا علی کے بارے میں فرمایا واقضاہم علی رضی اللہ عنہ،کہ میری امت میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا صدیق ہے،دین کے معاملے میں سب سے زیادہ مضبوط میرا عمر ہے،حیاء میں سب سے آگے میرا عثمان ہے اور فیصلے صحیح کرنے میں سب سے آگے میرا علی ہے۔آگے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واحلم واجود امتی معاویۃ،اور میری امت کا سب سے زیادہ بردبار اور سخی میرا معاویہ ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امیرمعاویہ کے بارے میں کتنے فضائل بیان فرمائے ہیں ان کے بارے میں ذرا سی میل بھی دل میں لانا انسان کو ایمان سے نکال دیتا ہے۔اس لیے کبھی بھی کسی بھی صحابی کے بارے میں اپنے دل مں میل نہ لائیں۔دل کو صاف رکھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے بعض کلمات ارشاد فرمائے ہیں اگر آدمی ان الفاظ پر توجہ کرے تو نبوت کے کلام کی بلاغت سمجھ آتی ہے۔
فضائل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ:
اللہ کے نبی نے فرمایا
اللہم علمہ الکتاب والحساب وقہ العذاب
)مسند احمد رقم:17192(
ذرا معانی پہ غور کرنا۔
1:اے اللہ میرے معاویہ کو قرآن کا علم دے یا لکھنے کا علم دے، کتاب کے دونوں معانی ہیں۔
2:اللہ اس کو حساب کا علم دے۔
3:اللہ اس کو عذاب سے بچا۔
یہ تین دعائیں کیوں دی ہیں؟الفاظ نبوت کی بلاغت پہ غور فرمائیں،اللہم علمہ الکتاب،اے اللہ میرے اس معاویہ کو کتاب کا علم عطا فرما،کیوں؟اس لیے کہ اس نے حاکم بھی بننا ہے۔حاکم ہو اور عالم بھی ہو یہ بہتر ہے یا حاکم ہو اور عالم نہ ہو وہ بہتر ہے[حاکم ہو اور عالم بھی ہو یہ بہتر ہے۔سامعین]
چونکہ اس نے حاکم بھی بننا ہے تو جس طرح حکومت اس کے ہاتھ میں ہو علم بھی اس کے ہاتھ میں ہو۔یہ حکومت میں بھی محتاج نہ ہو اور علم میں بھی محتاج نہ ہو۔پھر فرمایا والحساب،اللہ اس کو حساب کا بھی علم دے۔کیوں؟
آدمی حاکم ہو اور خود حساب کرنا نہ جانتا ہو،منشیوں سے حساب کرائے تو دھوکے کا خطرہ ہوتا ہے ناں؟اور خود حساب جانتا ہو،منشیوں کو چیک کرے تو دھوکے کا خطرہ نہیں ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دعائیں دی ہیں۔اے اللہ اس کو حساب وکتاب کا علم دے تاکہ اس کو حکومت کے نظام میں کوئی دھوکا نہ دے سکے۔پھر نبوت نے تیسری دعا دی۔وقہ العذاب،اے اللہ میرا معاویہ انسان ہے اتنی بڑی حکومت کا نظام بھی چلانا ہے۔اگر بحیثیت انسان اس سے کوئی خطا اور غلطی بھی ہوجائے تو اس کو عذاب سے محفوظ رکھنا۔اس کی خطاؤں سے درگزر فرمالینا۔ دیکھو حضور علیہ السلام نے کیسی دعائیں فرماکر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو صاف فرمادیا ہے۔
علی معاویہ رضی اللہ عنہمابھائی بھائی:
بعض لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ادھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں آپس میں اختلاف ہوا جنگ ہوگئی۔یہ ہو گیا،وہ ہوگیا۔آپس ان بحثوں میں نہ پڑیں کیوں نہ پڑیں۔خود حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قتلاي وقتلى معاوية في الجنة
)معجم کبیر رقم الحدیث:688(
میری فوج کے شہید بھی جنتی ہیں اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج کے شہید بھی جنتی ہیں۔جب سیدنا علی خود فرمارہے ہیں کہ کہ دونوں جنتی ہیں تو پھر آپ کو کیا تکلیف ہے؟دیکھو یہ دونوں ہمارے بڑے ہیں۔ان کے شہداء بھی ہمارے بڑے ہیں ہمیں ان کے بارے میں رتی برابر بھی دل میں میل نہیں رکھنی چاہیے۔باپ اور چچا اگر کسی بات میں الجھ جائیں،لڑ بھی پڑیں،تو اولاد کو حق نہیں پہنچتا کہ باپ کو برا کہے یا چچا کو برا کہے،اولاد باپ کا احترام بھی کرے اور چچا کا احترام بھی کرے ان کو چھڑانے کی کوشش کریں۔مسالے ڈال کر لڑائی کو بڑھانے کی کوشش نہ کرے۔اللہ کریم ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ہم باقی صحابہ کا بھی احترام کریں اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھی احترام کریں اور امیرالمومنین سمجھ کر کریں تاریخ اسلامی میں سب سے بڑی خلافت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہے۔
جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پہ سارے صحابہ اور پوری امت جمع تھی اسی طرح سیدنا علی کی شہادت کے بعد اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے بیعت کے بعد سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پہ بھی تمام اہل اسلام جمع تھے تو یہ اتفاقی واجماعی خلافت ہے اس کے بارے میں انسان چھوٹا ذہن نہ رکھےاور نہ ہی کسی شک کا شکار ہو۔اللہ کریم ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یزید کے بارے میں ہمارا موقف:
باقی سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ کے بعد جو یزید اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا معاملہ ہے۔اس کے بارے میں ہمارا اہل السنۃ والجماعۃ کا موقف یہ ہے کہ حضرت حسین برحق ہیں،حضرت حسین جنتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں۔ہمارے سر کا تاج ہیں ان کی جوتیاں ہماری پگڑی سے افضل ہیں ان کے پاوں کی خاک ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے۔سیدنا حسین ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ان کے مقابلے میں یزید فاسق ہے،فاجر ہے،ہم لعنت نہیں کرتے،کفر کے فتوے نہیں لگاتے،ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کرتے ہیں لیکن فاسق اور فاجر کہتے ہیں۔
بعض لوگوں کو شبہ ہوجاتا ہے کہ جی یزید کے بارے میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ یزید کے بارے میں توقف کریں،خاموش رہیں۔جب امام کا موقف خاموش رہنا ہے تو پھر آپ کیوں کہتے ہیں فاسق وفاجر ہے؟ان الفاظ کو اچھی طرح سمجھا کرو۔حضرت امام صاحب نے جو یہ فرمایا کہ توقف کرو۔اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جب ایک انسان کا خاتمہ ایمان پر ہو مگر ہو وہ فاسق وفاجر تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی،بلکہ اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد کردیتے ہیں ہوسکتا ہے اللہ اس کے نیک اعمال کے بدلے جنت دے ہوسکتا ہے برے اعمال کے بدلے جنت دے دے۔ توقف کا معنیٰ یہ ہے کہ ہم جنتی وجہنمی ہونے کا فیصلہ نہ کریں یہ معنیٰ نہیں کہ ہم فاسق وفاجر بھی نہ کہیں۔فاسق کہنا اور ہے اور جہنمی ہونے کا فیصلہ کرنا اور ہے۔تو توقف کا معنیٰ یہ ہے۔
اللہ ہم سب کو حسینی بنائے،اللہ ہم سب کو صحابہ کا غلام بنائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری جماعت سے محبت کرنے والا بنائے اور صحابہ کرام کے نقش قدم پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین