خلافتِ فاروقی کے چند مثالی واقعات

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
خلافتِ فاروقی کے چند مثالی واقعات
……نعیم خان ، لاہور
مسلمانوں نے اپنے جوش،ثبات اوراستقلال کے باعث حضرت عمر ؓ کے دس سالہ عہد خلافت میں روم ایران کی عظیم الشان حکومتوں کا تختہ الٹ دیا؛ لیکن کیا تاریخ کوئی ایسی مثال پیش کرسکتی ہے کہ چند صحرا نشینوں نے اس قدر قلیل مدت میں ایسا عظیم الشان انقلاب پیدا کردیاہو؟بے شبہ سکندر،چنگیزاورتیمورنے تمام عالم کوتہ وبالا کردیا؛لیکن ان کے فتوحات کو فاروق اعظم ؓ کی کشورستانی سے کوئی مناسبت نہیں،وہ لوگ ایک طوفان کی طرح اٹھے اورظلم وخونریزی کے مناظر دکھاتے ہوئے ایک طرف سے دوسری طرف کو گزرگئے۔
چنگیز اورتیمور کا حال تو سب کو معلوم ہے،سکندر کی یہ کیفیت ہے کہ اس نے ملک شام میں شہر صورفتح کیا تو ایک ہزار شہریوں کے سرکاٹ کر شہر پناہ کی دیوار پر لٹکادیئے اور تیس ہزار بے گناہ مخلوق کو لونڈی غلام بناکر بیچ ڈالا، اسی طرح ایران میں اصطخر کو فتح کیا تو تمام مردوں کو قتل کرادیا، برخلاف اس کے حضرت عمر ؓ کے فتوحات میں ایک واقعہ بھی ظلم وتعدی کا نہیں ملتا،فوج کی خاص طور پر ہدایت تھی کہ بچوں، بوڑھوں،عورتوں سے مطلق تعرض نہ کیا جائے، قتل عام تو ایک طرف، ہرے بھرے درختوں تک کاٹنے کی اجازت نہ تھی، مسلمان حکام مفتوحہ اقوام کے ساتھ ایسا عدل وانصاف کرتے تھے اوراس طرح اخلاق سے پیش آتے تھے کہ تمام رعایا ان کی گرویدہ ہوجاتی اوراسلام حکومت کو خدا کی رحمت تصور کرتی تھی،صرف یہی نہیں؛ بلکہ وہ لوگ جوش امتنان میں مسلمانوں کی اعانت ومساعدت سے دریغ نہیں کرتے تھے،فتوحات شام میں خود شامیوں نے جاسوسی اورخبررسانی کی خدمات انجام دیں،(بلاذری : ۱۲۸)حملہ مصر میں قبطیوں نے سفر مینا کا کام کیا،(ایضا!) اسی طرح عراق میں عجمیوں نے اسلامی لشکر کے لئے پل بندھوائے اورغنیم کے راز سے مطلع کرکے نہایت گراں قدرخدمات انجام دیں،ان حالات کی موجودگی میں حضرت عمر ؓ کے مقابلہ میں سکندر اورچنگیز جیسے سفاکوں کا نام لینا کس قدر بے موقع ہے، سکندر اورچنگیز کی سفاکیاں فوری فتوحات کے لئے مفید ثابت ہوئیں؛لیکن جس سلطنت کی بنیاد ظلم وتعدی پر ہوتی ہے وہ کبھی دیرپا نہیں ہوسکتی ہے؛چنانچہ ان لوگوں کی سلطنت قائم کی اس کی بنیاد عدل وانصاف اورمسالمت پر قائم ہوئی تھی،اس لئے وہ آج تیرہ سو برس کے بعد بھی اسی طرح ان کے جانشینوں کے قبضہ اقتدار میں موجود ہے۔ یورپین مورخین عہد فاروقی کے اس بدیع مثال کارنامے کی اہمیت کم کرنے کے لئے بیان کرتے ہیں کہ اس وقت فارس وروم کی دونوں سلطنتیں طوائف الملوکی اورمسلسل بدنظمیوں کے باعث اوج اقبال سے گزرچکی تھیں؛لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی ایسی زیردست سلطنتیں بادشاہوں کے ادل بدل اورمعمولی اختلاف سے اس درجہ کمزور ہوگئی تھی کہ روم و ایران میں قسطنطین اعظم اورخرد پرویز کا جاہ و جلال نہ تھا، تاہم ان سلطنتوں کا عرب جیسی بے سروسامان قوم سے ٹکراکرپرزے پرزے ہوجانا دنیا کا عجیب وغریب واقعہ ہے اورہم کو اس کا راز ان سلطنتوں میں کمزوری میں نہیں؛ بلکہ اسلامی نظام خلافت اورخلیفہ وقت کے طرز عمل میں تلاش کرنا چاہئے۔
نظام خلافت:
اسلام میں خلافت کا سلسلہ گوحضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد سے شروع ہوا اور ان کے قلیل زمانہ خلافت میں بھی بڑے بڑے کام انجام پائے؛ لیکن منتظم اورباقاعدہ حکومت کا آغاز حضرت عمر ؓ کے عہد سے ہوا، انہوں نے نہ صرف قیصر وکسریٰ کی وسیع سلطنتوں کو اسلام کے ممالک محروسہ میں شامل کیا؛بلکہ حکومت وسلطنت کا باقاعدہ نظام بھی قائم کیا اوراس کو اس قدر ترقی دی کہ حکومت کے جس قدر ضروری شعبے ہیں، سب ان کے عہد میں وجود پذیر ہوچکے تھے؛لیکن قبل اس کے کہ ہم نظام حکومت کی تفصیل بیان کریں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس حکومت کی ترکیب اورساخت کیاتھی؟
حضرت عمر ؓ کی خلافت جمہوری طرز حکومت سےمشابہ تھی،یعنی تمام ملکی وقومی مسائل مجلس شوریٰ میں پیش ہوکر طے پاتے تھے، اس مجلس میں مہاجرین وانصار ؓ کے منتخب اوراکابر اہل الرائے شریک ہوتے تھے اوربحث ومباحثہ کے بعد اتفاق آراء یا کثرت رائے سے تمام امور کا فیصلہ کرتے تھے،مجلس کے ممتاز اورمشہورارکان یہ ہیں:
حضرت عثمان ؓ،حضرت علی ؓ،حضرت عبداللہ بن عوف ؓ،حضرت معاذ بن جبل ؓ،حضرت ابی بن کعب ؓ،حضرت زید بن ثابت ؓ۔
)کنزالعمال ج۳ : ۱۳۴(
مجلس شوریٰ کے علاوہ ایک مجلس عام بھی تھی جس میں مہاجرین وانصار کے علاوہ تمام سرداران قبائل شریک ہوتے تھے،یہ مجلس نہایت اہم امور کے پیش آنے پر طلب کی جاتی تھی،ورنہ روز مرہ کے کاروبار میں مجلس شوریٰ کا فیصلہ کافی ہوتا تھا،ان دونوں مجلسوں کے سوا ایک تیسری مجلس بھی تھی جس کو ہم مجلس خاص کہتے ہیں، اس میں صرف مہاجرین صحابہ شریک ہوتے تھے۔
) فتوح البلدان بلاذری : ۲۷۶(
مجلس شوریٰ کے انعقاد کا عام طریقہ یہ تھا کہ لوگ مسجد میں جمع ہوجاتے تھے،اس کے بعد ہر ایک کی رائے دریافت کرتے تھے۔
)تاریخ طبری،: ۲۵۷۴(
جمہوری حکومت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہرشخص کو اپنے حقوق کی حفاظت اوراپنی رائے کے اعلانیہ اظہار کا موقع دیا جائے، حاکم کے اختیارات محدود ہوں اور اس کے طریق عمل پر ہر شخص کو نکتہ چینی کا حق ہو،حضرت عمرؓ کی خلافت ان تمام امور کی جامع تھی،ہرشخص آزادی کے ساتھ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا تھا اورخلیفہ وقت اختیارات کے متعلق خود حضرت عمؓر نے متعدد موقعوں پرتصریح کردی تھی کہ حکومت کے لحاظ سے ان کی کیا حیثیت ہے،نمونہ کے لئے ایک تقریر کے چند فقرے درج ذیل ہیں:
"وإنما أنا ومالكم كولي اليتيم إن استغنيت استعففت ، وإن افتقرت أكلت بالمعروف ، لكم علي أيها الناس خصال فخذوني بها،لكم علي أن لا أجتبي شيئا من خراجكم و مما أفاء الله عليكم إلا من وجهه لكم علي إِذَا وقع فِي يدي أن لا يخرج مني إلا فِي حقه ومالكم علي أن أزيد أعطياتكم وأرزاقكم إن شاء الله وأسد ثغوركم , ولكم علي أن لا ألقيكم فِي المهالك"
)الخراج الاابی یوسف،باب:فصل فی تقبیل السوادی واختیار،:۱۱۷(
"مجھ کو تمہارے مال میں اسی طرح حق ہے جس طرح یتیم کے مال میں اس کے مربی کا ہوتا ہے،اگر میں دولتمندہوں گا تو کچھ نہ لوں گا اوراگر صاحب حاجت ہوں گا تواندازہ سے کھانے کے لئے لوں گا،صاحبو!میرے اوپر تمہارے متعدد حقوق ہیں جن کا تم کو مجھ سے مواخذہ کرنا چاہیے، ایک یہ کہ ملک کا خراج اورمال غنیمت بے جاطورپر صرف نہ ہونے پائے، ایک یہ کہ تمہارے روز ینے بڑھاؤں اورتمہاری سرحدوں کو محفوظ رکھوں اوریہ کہ تم کو خطروں میں نہ ڈالوں۔"
مذکورہ بالاتقریر صرف دلفریب خیالات کی نمائش نہ تھی؛ بلکہ حضرت عمر ؓ نہایت سختی کے ساتھ اس پر عامل بھی تھے، واقعات اس کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں،ایک دفعہ حضرت حفصہ ؓ آپ کی صاحبزادی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ یہ خبر سن کر کہ مال غنیمت آیا ہے،حضرت عمر ؓ کے پاس آئیں اورکہا کہ امیر المومنین !میں ذوالقربی میں سے ہوں،اس لئے اس مال میں سے مجھ کو بھی عنایت کیجئے، حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ"بیشک تم میرے خاص مال میں حق رکھتی ہو؛لیکن یہ تو عام مسلمانوں کا مال ہے۔
) کنزالعمال ج۶ : ۳۵۰(
ایک دفعہ خود بیمار پڑے لوگوں نے علاج میں شہد تجویز کیا،بیت المال میں شہد موجود تھا؛ لیکن بلا اجازت نہیں لے سکتے تھے،مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جاکر لوگوں سے کہا کہ"اگر آپ اجازت دیں تو تھوڑا ساشہد لے لوں"
)ایضاً ۳۵۳(
ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں جب حضرت عمر ؓ کی احتیاط کا یہ حال تھا تو ظاہر ہے کہ مہمات امور میں وہ کسی قدر محتاط ہوں گے۔
حضرت عمر ؓ نے لوگوں کو احکام پر نکتہ چینی کرنے کی ایسی عام آزادی دی تھی کہ معمولی سے معمولی آدمیوں کو خود خلیفۂ وقت پر اعتراض کرنے میں باک نہیں ہوتا تھا،ایک موقع پر ایک شخص نے کئی بار حضرت عمر ؓ کو مخاطب کرکے کہا"اتق اللہ یاعمر"(کتاب الخراج : ۷)حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کو روکنا چاہا،حضرت عمر ؓ نے فرمایا"نہیں کہنے دو،اگریہ لوگ نہ کہیں گے تو یہ بے مصرف ہیں اورہم نہ مانیں تو ہم"یہ آزادی صرف مردوں تک محدود نہ تھی؛بلکہ عورتیں بھی مردوں کے قدم بہ قدم تھیں۔
ایک دفعہ حضرت عمر ؓ مہر کی مقدار کے متعلق تقریر فرمارہے تھے،ایک عورت نے اثنا ئے تقریر ٹوک دیا اورکہا"اتق اللہ یاعمر!"یعنی اے عمر ؓ !خدا سے ڈر!اس کا اعتراض صحیح تھا حضرت عمر ؓ نے اعتراف کے طورپر کہا کہ ایک عورت بھی عمر ؓ سے زیادہ جانتی ہے،حقیقت یہ ہے کہ آزادی اورمساوات کی یہی عام ہوا تھی جس نے حضرت عمر ؓ کی خلافت کو اس درجہ کامیاب کیا اور مسلمانوں کو جوش استقلال اورعزم وثبات کا مجسم پتلا بنادیا۔خلافت فاروقی کی ترکیب اورساخت بیان کرنے کے بعد اب ہم انتظامات ملکی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور دکھانا چاہتے ہیں کہ فاروق اعظم نے اپنے عہد مبارک میں خلافت اسلامیہ کو کس درجہ منظم اورباقاعدہ بنادیا تھا اور کس طرح حکومت کی ہرشاخ کو مستقل محکمہ کی صورت میں قائم کردیا تھا۔
نظام حکومت کے سلسلہ میں سب سے پہلا کام ملک کا صوبوں اورضلعوں میں تقسیم ہے،اسلام میں سب سے پہلے حضرت عمرؓ نے اس کی ابتدا کی اور تمام ممالک مفتوحہ کو آٹھ صوبوں پر تقسیم کیا،مکہ ،مدینہ،جزیرہ،بصرہ،کوفہ،مصر،فلسطین،ان صوبوں کے علاوہ تین صوبے اورتھے،خراسان،آذربائیجان ،فارس،ہر صوبہ میں مفصلہ ذیل بڑے بڑے عہدہ دار رہتے تھے،والی یعنی حاکم صوبہ ،کاتب یعنی میر منشی ، کاتب دیوان یعنی فوجی محکمہ کا میر منشی، صاحب الخراج عینی کلکٹر ،صاحب احداث یعنی افسر پولیس، صاحب بیت المال ،یعنی افسر خزانہ،قاضی یعنی جج چنانچہ کوفہ میں عماربن یاسر ؓ والی ،عثمان بن حنیف ؓ کلکٹر ،عبداللہ بن مسعود ؓ افسر خزانہ، شریح ؓ قاضی اور عبداللہ بن خزاعی کاتب دیوان تھے۔
)طبری ص ۶۴۱(
بڑے بڑے عہدہ داروں کا انتخاب عموماً مجلس شوریٰ میں ہوتا تھا، حضرت عمر ؓ کسی لائق راستباز اورمتدین شخص کا نام پیش کرتے تھے، اورچونکہ حضرت عمر ؓ میں جوہر شناسی کا مادہ فطرتا تھا اس لئے ارباب مجلس عموما ان کے حسن انتخاب کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس شخص کے تقرر پر اتفاق رائے کرلیتے تھے؛چنانچہ نہاوند کی عظیم الشان مہم کے لئے نعمان بن مقرن کا اسی طریقہ سے انتخاب ہواتھا۔
)استیعاب تذکرہ نعمان(
احتساب:
خلیفہ وقت کا سب سے بڑا فرض حکام کی نگرانی اورقوم کے اخلاق وعادات کی حفاظت ہے،حضرت عمر ؓ اس فرض کو نہایت اہتمام کے ساتھ انجام دیتے تھے،وہ اپنے ہر عامل سے عہد لیتے تھے کہ ترکی گھوڑے پر سوارنہ ہوگا،باریک کپڑے نہ پہنےگا،چھنا ہوا آٹانہ کھائے گا، دروازہ پر دربان نہ رکھے گا، اہل حاجت کے لئے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا۔
(طبری : ۲۷۴۷)
اسی کے ساتھ اس کے مال واسباب کی فہرست تیارکراکے محفوظ رکھتے تھے اورجب کسی عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی اضافہ کا علم ہوتا تھا تو جائزہ لے کر آدھا مال بٹالیتے تھےاور بیت المال میں داخل کردیتے تھے۔
(فتوح البلدان : ۲۱۹)
ایک دفعہ بہت سےعمال اس بلا میں مبتلا ہوئے، خالد بن صعق نے اشعار کے ذریعہ سے حضرت عمر ؓ کو اطلاع دی،انہوں نے سب کی املاک کا جائز ہ لے کر آدھا آدھا مال بٹالیا اور بیت المال میں داخل کرلیا، موسم حج میں اعلان عام تھا کہ جس عامل سے کسی کو شکایت ہو وہ فورا بارگاہ خلافت میں پیش کرے۔
(تاریخ طبری : ۲۶۸)
چنانچہ ذراذرا سی شکایتیں پیش ہوتی تھیں اور تحقیقات کے بعد اس کا تدارک کیاجاتا تھا۔ایک دفعہ ایک شخص نے شکایت کی کہ آپ کے فلاں عامل نے مجھ کو بے قصور کوڑے مارے ہیں،حضرت عمر ؓ نے مستغیث کو حکم دیا کہ وہ مجمع عام میں اس عامل کو کوڑے لگائے،حضرت عمروبن العاص ؓ نے التجا کی کہ عمال پر یہ امر گراں ہوگا، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ میں ملزم سے انتقام نہ لوں،عمروبن العاص ؓ نے منت سماجت کرکے مستغیث کوراضی کیا کہ ایک ایک تازیا نے کے عوض دو دو اشرفیاں لے کر اپنے حق سے بازآئے۔
)کتاب الخراج : ۶۶(
حضرت خالد سیف اللہ جو اپنی جانبازی اورشجاعت کے لحاظ سے تاج اسلام کے گوہر شاہوار اوراپنے زمانہ کے نہایت ذی عزت اور صاحب اثر بزرگ تھے محض اس لئے معزول کردیئے گئے کہ انہوں نے ایک شخص کو انعام دیا تھا،حضرت عمر ؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے حضرت ابو عبیدہ ؓ سپہ سالار اعظم کو لکھا کہ خالد ؓ نے یہ انعام اپنی گرہ سے دیا تو اسراف کیا اور بیت المال سے دیا تو خیانت کی،دونوں صورت میں وہ معزولی کے قابل ہیں۔
) ابن اثیر ج ۲ : ۴۱۸(
حضرت ابوموسی اشعری ؓ جو بصرہ کے گورنر تھے،شکایتیں گزریں کہ انہوں نے اسیران جنگ میں سے ساٹھ رئیس زادے منتخب کرکے اپنے لئے رکھ چھوڑے ہیں اور کاروبار حکومت زیاد بن سفیان کے سپر د کررکھا ہے اوریہ کہ ان کے پاس ایک لونڈی ہے جس کو نہایت اعلی درجہ کی غذا بہم پہنچائی جاتی ہے جو عام مسلمانوں کو میسر نہیں آسکتی،حضرت عمر ؓ نے ابو موسیٰ اشعری سے مواخذہ کیا تو انہوں نے دو اعتراضوں کا جواب تشفی بخش دیا، لیکن تیسری شکایت کا کچھ جواب نہ دے سکے؛چنانچہ لونڈی ان کے پاس سے لے لی گئی۔
)طبری : ۱۲،۲۷۱(
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے کوفہ میں ایک محل تعمیر کرایا جس میں دیوڑھی بھی تھی، حضرت عمر ؓ نے اس خیال سے کہ اہل حاجت کو رکاؤ ہوگا محمد بن مسلمہ ؓ کو حکم دیا کہ جاکر ڈیوڑھی میں آگ لگادیں؛ چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی اورحضرت سعد بن ابی وقاص ؓ خاموشی سے دیکھتےرہے۔
)کنزالعمال ج ۶ : ۳۵۵(
عیاض بن غنم عامل مصر کی نسبت شکایت پہنچی کہ وہ باریک کپڑے پہنتے ہیں اور ان کے دروازہ پر دربان مقرر ہے،حضرت عمر ؓ نے محمد بن مسلمہ ؓ کو تحقیقات پر مامور کیا،محمد بن مسلمہ ؓ نے مصر پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازہ پر دربان تھا اورعیاض باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے،اس ہیئت اورلباس کے ساتھ لے کر مدینہ آئے،حضرت عمر ؓ نے ان کا باریک کپڑا اتراوادیا اوربالوں کا کرتہ پہنا کر جنگل میں بکری چرانے کا حکم دیا،عیاض ؓ کو انکارکی مجال نہ تھی،مگر باربار کہتے تھے،اس سے مرجانا بہتر ہے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ یہ تو تمہارا آبائی پیشہ ہے، اس میں عار کیوں ہے؟ عیاض نے دل سے توبہ کی اورجب تک زندہ رہے اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔
)کتاب الخراج : ۶۶۱(
حکام کے علاوہ عام مسلمانوں کی اخلاقی اورمذہبی نگرانی کا خاص اہتمام تھا،حضرت عمر ؓ جس طرح خود اسلامی اخلاق کا مجسم نمونہ تھے، چاہتے تھے کہ اسی طرح تمام قوم مکارم اخلاق سے آراستہ ہوجائے،انہوں نے عرب جیسی فخار قوم سے فخروغرور کی تمام علامتیں مٹادیں،یہاں تک کہ آقا اورنوکر کی تمیز باقی نہ رہنے دی۔
ایک دن صفوان بن امیہ نے ان کے سامنے ایک خوان پیش کیا،حضرت عمر ؓ نے فقیروں اورغلاموں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اورفرمایا کہ خدا ان لوگوں پر لعنت کرے جن کو غلاموں کے ساتھ کھانے میں عار آتا ہے۔
)ادب المفرد باب ہل یجلس خادمہ معہ اذااکل(
شعر وشاعری کے ذریعہ ہجووبدگوئی عرب کا عام مذاق تھا،حضرت عمر ؓ نے نہایت سختی سے اس کو بندکردیا، حطیہ اس زمانہ کا مشہور ہجوگوئی شاعرتھا، حضرت عمر ؓ نے اس کو قید کردیا اورآخر اس شرط پر رہا کیا کہ پھر کسی کی ہجو نہیں لکھے گا،(اسدالغابہ تذکرہ زبرقان)ہواپرستی،رندی اورآوارگی کی نہایت شدت سے روک تھا م کی، شعراء کو عشقیہ اشعارمیں عورتوں کا نام لینے سے قطعی طورپر منع کردیا ،شراب خوری کی سزاسخت کردی، چالیس درے سے اسی درے کردیئے۔
حضرت عمر ؓ کو اس کا بڑا خیال تھا کہ لوگ عیش پرستی اور تنعم کی زندگی میں مبتلا ہو کر سادگی کے جوہر سےخالی نہ ہوجائیں،افسروں کو خاص طور پر عیسائیوں اورپارسیوں کے لباس اورطرز معاشرت کے اختیا ر کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے،سفر شام میں مسلمان افسروں کے بدن پر حریر دیباکے حلے اورپرتکلف قبائیں دیکھ کر اس قدر خفا ہوئے کہ ان کو سنگریز ےمارے اورفرمایا تم اس وضع میں میرا استقبال کرتےہو۔
)طبری :۴۲۳(
مسلمانوں کواخلاق ذمیمہ سے باز رکھنے کے ساتھ ساتھ مکارم اخلاق کی بھی خاص طورپر تعلیم دی ،مساوات اورعزت نفس کا خاص خیال رکھتے تھے اور تمام عمال کو ہدایت تھی کہ مسلمانوں کو مارانہ کریں اس سے وہ ذلیل ہو جائیں گے۔
)ابن سعد قسم اول جز ۳ : ۲۰۱(
ملکی نظم ونسق:
شام وایران فتح ہواتو لوگوں کی رائے ہوئی کہ مفتوحہ علاقے امرائے فوج کی جاگیر میں دے دیئے جائیں،حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کہتے تھے کہ جن کی تلواروں نے ملک فتح کیا ہے ان ہی کا قبضہ بھی حق ہے،حضرت بلال ؓ کو اس قدر اصرار تھا کہ حضرت عمر ؓ نے دق ہوکر فرمایا"اللھم اکفنی بلالا" لیکن خود حضرت عمر ؓ کی رائے تھی کہ زمین حکومت کی ملک اورباشندوں کے قبضہ میں رہنے دی جائے،حضرت علی ؓ،حضرت عثمان ؓ،اورحضرت طلحہ ؓ بھی حضرت عمر ؓ کے ہم آہنگ تھے،غرض مجلس عام میں مسئلہ پیش ہوا اوربحث ومباحثہ کےبعد فاروق اعظم ؓ کی رائے پر فیصلہ ہوا۔
) کتاب الخراج : ۱۴،۱۵(
عراق کی پیمائش کرائی،قابل زراعت اراضی کا بندوبست کیا،عشروخراج کا طریقہ قائم کیا،عشرکا طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت صدیق ؓ کے زمانہ میں جاری ہوچکا تھا؛ لیکن خراج کا طریقہ اس قدر منضبط نہیں ہواتھا، اسی طرح شام ومصر میں بھی لگان تشحیص کیا؛ لیکن وہاں کا قانون ملکی حالات کے لحاظ سےعراق سے مختلف تھا، تجارت پر عشر یعنی چنگی لگائی گئی، اسلام میں یہ خاص حضرت عمر ؓ کی ایجاد ہے اور اس کی ابتدایوں ہوئی کہ مسلمان جو غیر ممالک میں تجارت کے لئے جاتے تھے ان کو دس فیصد ٹیکس دینا پڑتا تھا،حضرت عمر ؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے بھی غیر ملکی مال پر ٹیکس لگادیا،اسی طرح تجارتی گھوڑوں پر بھی زکوٰۃ خاص حضرت عمر ؓ کے حکم سے قائم کی ورنہ گھوڑے مستثنی تھے، اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ نعوذ باللہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ فرمائے تھے اس سے بظاہر سواری کے گھوڑے مفہوم ہوتے ہیں، اس لئے تجارت کے گھوڑے مستثنی کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
حضرت عمرؓ نے تمام ملک میں مردم شمار کرائی،اضلاع میں باقاعدہ عدالتیں قائم کیں،محکمۂ قضا کے لئے اصول وقوانین بنائے، قاضیوں کی بیش قرار تنخواہیں مقرر کیں تاکہ یہ لوگ رشوت ستانی سے محفوظ رہیں؛چنانچہ سلمان ؓ، ربیعہ ؓ اورقاضی شریح ؓ کی تنخواہیں پانچ پانچ سودرہم ماہانہ تھی۔
)فتح القدیر حاشیہ ہدایہ ج۲ صفحۃ ۲۴۷(
اور امیر معاویہ ؓ کی تنخواہ ایک ہزار دینار تھی، (استیعاب تذکرہ امیر معاویہ ؓ) حل طلب مسائل کے لئے شعبہ افتاء قائم کیا ،حضرت علی ؓ، حضرت عثمان ؓ،حضرت معاذبن جبل ؓ، حضرت عبداللہ بن عوف ؓ، حضرت ابی بن کعب ؓ، حضرت زید بن ثابت ؓ اور حضرت ابودرداءؓ اس شعبے کے ممتاز رکن تھے۔
ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے لئے حضرت عمر ؓ نے احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا،اس کے افسر کانام "صاحب الاحداث" تھا،حضرت ابوہریرہ ؓ کو بحرین کا صاحب الاحداث بنادیا تو ان کو خاص طورپر ہدایت کی کہ امن وامان قائم رکھنے کے علاوہ احتساب کی خدمت بھی انجام دیں،احتساب کے متعلق جو کام ہیں،مثلاً دکاندار ناپ تول میں کمی نہ کریں،کوئی شخص شاہراہ پر مکان نہ بنائے،جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے،شراب علانیہ نہ بکنے پائے، اس قبیل کے اوربہت سے امور کی نگرانی کا جن کا تعلق پبلک مفاد اور احترام شریعت سے تھا اور پورا انتظام تھا اورصاحبان احداث (افسران پولیس) اس خدمت کو انجام دیتے تھے۔
عہد فاروقی سے پہلے جزیرہ نما عرب میں جیل خانوں کا نام ونشان نہ تھا، حضرت عمر ؓ نے اول مکہ معظمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چارہزار درہم پر خریدکر اس کو جیل خانہ بنایا۔
)مقریزی ج ۲(
پھر اور اضلا ع میں بھی جیل خانے بنوائے،جلاوطنی کی سزا بھی حضرت عمر ؓ ہی کی ایجاد ہے؛چنانچہ ابو محجن ثقفی کو بار بار شراب پینے کے جرم میں ایک جزیرہ میں جلاوطن کردیا تھا۔
)اسد الغابہ(
بیت المال:
خلافت فاروقی سے پہلے مستقل خزانہ کاوجود نہ تھا؛ بلکہ جو کچھ آتا اسی وقت تقسیم کردیا جاتا تھا، ابن سعد ؓ کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے ایک مکان بیت المال کے لئے خاص کرلیا تھا؛ لیکن وہ ہمیشہ بند پڑارہتا تھا اوراس میں کچھ داخل کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی؛چنانچہ ان کی وفات کے وقت بیت المال کا جائزہ لیا گیا تو صرف ایک درہم نکلا۔
حضرت عمر ؓ نے تقریباً۱۵ھ میں ایک مستقبل خزانہ کی ضرورت محسوس کی اور مجلسِ شوریٰ کی منظوری کے بعد مدینہ منورہ میں بہت بڑاخزانہ قائم کیا،دارالخلافہ کے علاوہ تمام اضلاع اورصوبہ جات میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور ہر جگہ اس محکمہ کے جداگانہ افسر مقرر ہوئے،مثلاً اصفہان میں خالد بن حارث ؓ اورکوفہ میں عبداللہ بن مسعود خزانہ کے افسر تھے، صوبہ جات اوراضلاع کے بیت المال میں مختلف آمدنیوں کی جو رقم آتی تھی وہ وہاں کے سالانہ مصارف کے بعد اختتام سال پر صدر خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت المال میں منتقل کردی جاتی تھی، صدر بیت المال کی وسعت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ دارالخلافہ کے باشندوں کی جو تنخواہیں اوروظائف مقرر تھے،صرف اس کی تعداد تین کروڑ درہم تھی، بیت المال کے حساب کتاب کے لئے مختلف رجسٹرڈ بنوائے،اس وقت تک کسی مستقل سنہ کا عرب میں رواج نہ تھا، حضرت عمر ؓ نے ۱۶ھ میں سنہ ہجری ایجاد کرکے یہ کمی بھی پوری کردی۔
تعمیرات
اسلام کا دائرہ حکومت جس قدر وسیع ہوتا گیا، اسی قدر تعمیرات کا کام بھی بڑھتا گیا،حضرت عمر ؓ کے عہد میں اس کے لئے کوئی مستقل صیغہ نہ تھا تاہم صوبہ جات کے عمال اورحکام کی نگرانی میں تعمیرات کا کام نہایت منتظم اوروسیع طورپر جاری تھا، ہر جگہ حکام کے بودوباش کے لئے سرکاری عمارتیں تیار ہوئیں ،رفاہ عام کے لیے سڑک ،پل اورمسجدیں تعمیر کی گئیں،فوجی ضروریات کے لحاظ سے قلعے چھاؤنیاں اوربارکیں تعمیر ہوئیں،مسافروں کے لئے مہمان خانے بنائے گئے،خزانہ کی حفاظت کے لئے بیت المال کی عمارتیں تیار ہوئیں،حضرت عمر ؓ تعمیرات کے باب میں نہایت کفایت شعار تھے؛ لیکن بیت المال کی عمارتیں عموما ًشاندار اورمستحکم بنواتے تھے؛چنانچہ کوفہ کے بیت المال کو روزبہ نامی ایک مشہور مجوسی معمار نے بنایا تھا اوراس میں خسر وان فارس کی عمارت کا مسالہ استعمال کیا گیا تھا۔
) طبری ذکر آبادی کوفہ(
مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ میں جو خاص تعلق ہے اس کے لحاظ سے ضروری تھا کہ ان دونوں شہروں کے درمیان راستہ سہل اور آرام دہ بنایا جائے،حضرت عمر ؓ نے ۱۷ھ میں اس کی طرف توجہ کی اورمدینہ سے لے کر مکہ معظمہ تک ہر ہر منزل پر چوکیاں،سرائیں اورچشمے تیار کرائے۔
(ایضا ۵۲۹)
ترقی زراعت کے لئے تمام ملک میں نہریں کھدوائی گئیں، بعض نہریں ایسی تھیں جن کا تعلق زراعت سے نہ تھا، مثلاً نہر ابی موسیٰ جو محض بصرہ والوں کے لئے شیریں پانی بہم پہنچانے کے خیال سے دجلہ کو کاٹ کر لائی گئی تھی،یہ نہر نو میل لمبی تھی،(فتوح البلدان ۳۶۵)اسی طرح نہر معقل جس کی نسبت عربی ضرب المثل ہے اذاجاء نھر اللہ بطل نھرا لمعقل.
)ایضاً: ۳۶۶(
حضرت سعد بن ابی وقاص گورنر کوفہ نے بھی ایک نہر تیار کرائی جو سعد بن عمر وبن حرام کے نام سے مشہور ہوئی،(ایضاً ۳۸۳)اس سلسلہ میں سب سے بڑی اور فائدہ رساں وہ نہر تھی جو نہر امیر المومنین کے نام سے مشہور ہوئی جس کے ذریعہ سے دریائے نیل کو بحر قلزم سے ملادیا گیاتھا۔
)حسن المحاضرہ سیوطی ۶۸(
مستعمرات
مسلمان جب عرب کی گھاٹیوں سے نکل کر شام وایران کے چمن زار میں پہنچے تو ان کو یہ ممالک ایسے خوش آئندنظر آئے کہ انہوں نے وطن کو خیرباد کہہ کر یہیں طرح اقامت ڈال دی اور نہایت کثر ت سے نوآبادیاں قائم کیں،حضرت عمر ؓ کے عہد میں جو شہر آباد ہوئے ان کی ایک اجمالی فہرست درج ذیل ہے۔
بصرہ:
۱۴ھ میں عبتہ بن غزوان نے حضرت عمر ؓ کے حکم سے اس شہر کو بسایا تھا ، ابتدا میں صرف آٹھ سو آدمیوں نے یہاں سکونت اختیار کی؛ لیکن اس کی آبادی بہت جلد ترقی کر گئی، یہاں تک کہ زیاد بن ابی سفیان کے عہد امارت میں صرف ان لوگوں کی تعداد جن کے نام فوجی رجسٹرمیں درج تھے اسی ہزار اوران کی آل واولاد کی ایک لاکھ بیس ہزار تھی،بصرہ اپنی علمی خصوصیات کے لحاظ سے مدتوں مسلمانوں کا مایہ ناز شہر رہا ہے۔
کوفہ:
حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ نے امیر المومنین کے حکم سے عراق کے قدیم عرب فرمانروا نعمان بن منذر کے پایہ تخت کو آباد کیا اور اس میں چالیس ہزار آدمیوں کی آبادی کے لائق مکانات بنوائے گئے،حضرت عمر ؓ کو اس شہر کے بسانے میں غیر معمولی دلچسپی تھی،شہر کے نقشہ کے متعلق خود ایک یادداشت لکھ بھیجی،اس میں حکم تھا کہ شارع ہائے عام چالیس چالیس ہاتھ چوڑی رکھی جائیں،اس سے کم کی مقدار ۳۰ ، ۳۰ ہاتھ اور ۲۰ ،۲۰ ہاتھ سے کم نہ ہو،جامع مسجد کی عمارت اس قدر وسیع بنائی گئی تھی کہ اس میں چالیس ہزار آدمی آسانی سے نماز ادا کرسکتے تھے۔
( معجم البلدان ج ۷ کوفہ)
مسجد کے سامنے دوسوہاتھ لمبا ایک وسیع سائبان تھا جو سنگ رخام کے ستونوں پر قائم کیا گیا تھا، یہ شہر حضرت عمر ؓ ہی کے عہد میں اس عظمت و شان کو پہنچ چکا تھا کہ وہ اس کو راس اسلام فرمایا کرتے تھے، علمی حیثیت سے بھی ہمیشہ ممتاز رہا ہے،امام نخعی، حماد،امام ابو حنیفہ اورامام شعبی اسی معدن کے لعل وگوہر تھے۔
فسطاط:
دریائے نیل اورجبل مقطم کے درمیان ایک کف دست میدان تھا،حضرت عمروبن العاص ؓ فاتح مصر نے اثنائے جنگ میں یہاں پڑاؤ کیا،اتفاق سے ایک کبوتر نے ان کے خیمہ میں گھونسلا بنالیا،عمروبن العاص ؓ نے کوچ کے وقت قصدا اس خیمہ کو چھوڑدیا کہ اس مہمان کو تکلیف نہ ہو مصر کی تسخیر کے بعد انہوں نے حضرت عمر ؓ کے حکم سے اسی میدان میں ایک شہر آبادکیا،چونکہ خیمہ کو عربی میں فسطاط کہتے ہیں، اس لئے اس شہر کا نام فسطاط قرارپایا، (ایضا ذکر فسطاط)فسطاط نے بہت جلد ترقی کرلی اورپورے مصر کا صدر مقام ہوگیا ،چوتھی صدی کا ایک سیاح ان الفاظ میں اس شہر کے عروج وکمال کا نقشہ کھینچتا ہے:"یہ شہر بغداد کا ناسخ ،مغرب کا خزانہ اوراسلام کا فخر ہے،دنیائے اسلام میں یہاں سے زیادہ کسی جامع مسجد میں علمی مجلسیں نہیں ہوتی ہیں، نہ یہاں سے زیادہ کبھی ساحل پر جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں۔"
موصل:
یہ پہلےایک گاؤں کی حیثیت رکھتا تھا،حضرت عمر ؓ نے اس کو ایک عظیم الشان شہر بنادیا ہر ثمہ بن عرفجہ نے بنیاد رکھی اورایک جامع مسجد تیار کرائی اورچونکہ یہ مشرق ومغرب کو آپس میں ملاتا ہے اس لئے اس کا نام موصل رکھا گیا۔
حیزہ:
فتح اسکندریہ کے بعد عمروبن العاص ؓ اس خیال سے کہ رومی دریا کی سمت سے حملہ نہ کرنے پائیں ،تھوڑی سی فوج لب ساحل مقرر کردی تھی،ان لوگوں کو دریا کا منظر ایسا پسند آگیا کہ وہاں سے ہٹنا پسند نہ کیا،حضرت عمر ؓ نے ان لوگوں کی حفاظت کے لئے۲۱ھ میں ایک قلعہ تعمیر کرادیا اور اس وقت سے یہاں ایک مستقل نوآبادی کی صورت پیدا ہوگئی۔
)تفصیلی حالات مقریزی میں مذکورہیں(
فوجی انتظامات:
اسلام جب رومن امپائر سے بھی زیادہ وسیع سلطنت کا مالک ہوگیا اور قیصر وکسریٰ کے عظیم الشان ممالک اس کا ورثہ بن گئے تو اس کو ایک منتظم اورفوجی سسٹم کی ضرورت محسوس ہوئی، ۱۵ھ میں حضرت عمر ؓ نے اس کی طرف توجہ کی اور تمام ملک کو فوجی بنانا چاہا؛ لیکن ابتداء میں ایسی تعلیم ممکن نہ تھی اس لئے پہلے قریش وانصارسے آغاز کیا اورمخرمہ بن نوفل ؓ،جبیربن مطعم ؓ، عقیل بن ابی طالب ؓ کے متعلق یہ خدمت سپرد کی کہ وہ قریش وانصار کا ایک رجسٹر تیار کریں جس میں ہرشخص کانام ونسب تفصیل سےدرج ہواس ہدایت کےمطابق رجسٹرتیار ہوا اور حسب حیثیت تنخواہیں اوران کی بیوی بچوں کے گزارے کے لئے وظائف مقرر ہوئے مہاجرین اورانصار کی بیویوں کی تنخواہ ۲۰۰ سے ۴۰۰ درہم تک اوراہل بدر کی اولاد ذکور کی تنخواہ دودوہزار درہم سالانہ مقرر ہوئی،اس موقع پر یہ امر خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ جن لوگوں کی جتنی تنخواہیں مقرر ہوئیں اتنی ہی ان کے غلاموں کی بھی مقرر ہوئیں۔
(تنخواہوں کی تفصیل میں مختلف روایتیں ہیں، دیکھو کتاب الخراج : ۲۴ ومقریزی ج۱ : ۹۲،وبلاذری : ۴۵۳)
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ فاروق اعظم نے مساوات کا کیسا سبق سکھایا تھا۔کچھ دنوں کے بعد اس نظام کو قریش وانصار سے وسعت دے کر تمام قبائل عرب میں عام کردیا،پورے ملک کی مردم شماری کی گئی اور ہر ایک عربی نسل کی علی قدرمراتب تنخواہ مقرر ہوئی، یہاں تک کہ شیر خوار بچوں کے لئے وظائف کا قاعدہ جاری کیا گیا۔
(فتوح البلدان : ۴۶۴)
گویا عرب کا ہر ایک بچہ اپنے یوم ولادت ہی سے اسلامی فوج کا ایک سپاہی تصور کرلیا جاتا تھا، ہر سپاہی کو تنخواہ کے علاوہ کھانا اورکپڑا بھی ملتا تھا،تنخواہ کی تقسیم کا طریقہ یہ تھا کہ ہر قبیلہ میں ایک عریف ہوتا تھا، اسی طرح ہر دس سپاہی پر ایک افسر ہوتا تھا جن کو امراء الاعشار کہتے ہیں،تنخواہیں عریف کو دی جاتی تھیں وہ امرائے عشار کی معرفت فوج میں تقسیم کرتا تھا، ایک ایک عریف کے متعلق ایک ایک لاکھ درہم کی تقسیم تھی،کوفہ اوربصرہ میں سو عریف تھے جن کے ذریعہ سے ایک کروڑ کی رقم تقسیم ہوتی تھی،حسن خدمت اور کار گزاری کے لحاظ سے سپاہیوں اورافسروں کی تنخواہوں میں وقتا فوقتا اضافہ بھی ہوتا رہتا تھا؛چنانچہ زہرہ ،عصمہ، اورضبی وغیرہ نے قادسیہ میں غیر معمولی جانبازی کا اظہا رکیا تھا، اس صلہ میں ان کی تنخواہیں دو دو ہزار سے اڑھائی اڑھائی ہزار کردی گئیں۔
حضرت عمر ؓ کو فوج کی تربیت کا بہت خیال تھا، انہوں نے نہایت تاکیدی احکام جاری کئے تھے کہ ممالک مفتوحہ میں کوئی شخص زراعت یا تجارت کا شغل اختیار نہ کرنے پائے، کیونکہ اس سے ان کے سپاہیانہ جوہر کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا،سرد اور گرم ممالک پر حملہ کرتے وقت موسم کا بھی کاخاص خیال رکھا جاتا تھا کہ فوج کی صحت اورتندرستی کو نقصان نہ پہنچے۔
قواعد کے متعلق چارچیزوں کے سیکھنے کی سخت تاکید تھی،تیرنا،گھوڑے دوڑانا،تیرلگانا اورننگے پاؤں چلنا،ہر چار مہینے کے بعد سپاہیوں کو وطن جاکر اپنے اہل وعیال سے ملنے کے لئے رخصت دی جاتی تھی۔
( فتوح البلدان،: ۱۴۸)
جفاکشی کے خیال سے حکم تھا کہ اہل فوج رکاب کے سہارے سے سوارنہ ہوں ،نرم کپڑے نہ پہنیں،دھوپ سے بچیں حماموں میں نہ نہائیں۔
موسم بہار میں فوجیں عموما سرسبز وشاداب مقامات میں بھیج دی جاتی تھیں، بارکوں اورچھاؤنیوں کے بنانے میں آب و ہوا کی خوبی کا لحاظ رکھا جاتا تھا،کوچ کی حالت میں حکم تھا کہ فوج جمعہ کے دن مقام کرے اورایک شب وروز قیام رکھے کہ لوگ دم لیں، غرض حضرت عمر ؓ نے تیرہ سوبرس پیشتر فوجی تربیت کے لئے اعلی اصول وضع کر دیئے تھے کہ آج بھی اصولی حیثیت سے اس پر کچھ اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ حسب ذیل مقامات کو فوجی مرکز قراردیا تھا،مدینہ ، کوفہ، بصرہ، موصل، فسطاط، دمشق،حمص،اردن،فلسطین،ان مقام کے علاوہ تمام اضلاع میں فوجی بارکیں اور چھاؤنیاں تھیں،جہاں تھوڑی تھوڑی فوج ہمیشہ متعین رہتی تھی۔
فوج میں حسب ذیل عہدے دار لازمی طورپر رہتے تھے، خزانچی، محاسب، مترجم،طبیب،جراح،اورجاسوس جو غنیم کی نقل وحرکت کی خبریں بہم پہنچایا کرتے تھے، یہ خدمت زیادہ تر ذمیوں سے لی جاتی تھی چنانچہ قیساریہ کے محاصرہ میں یوسف نامی یہودی نے جاسوسی کی خدمت انجام دی تھی۔
(فتوح البلدان ص ۱۴۸)
اسی طرح عراق میں بعض وفادار مجوسی اپنی خوشی سے اس خدمت کو انجام دیتے تھے،تاریخ طبری میں ہے:
وکانت تکون لعمرالعیون فی کل جیش.
"ہر فوج میں حضرت عمر ؓ کے جاسوس رہتے تھے۔"
آلات جنگ میں تیغ وسنان کے علاوہ قلعہ شکنی کے لئے منجنیق اور دبابہ بھی ساتھ رہتا تھا چنانچہ دمشق کے محاصروں میں منجنیقوں کا استعمال ہواتھا۔
)طبری : ۲۱۵۲(
فوج حسب ذیل شعبوں میں منقسم تھی:
مقدمہ،قلب،میمنہ،میسرہ ، ساقہ، طلیعہ،سفرمینا،روایعنی عقبی گارد، شتر سوار،سوار،پیادہ،تیراندازگھوڑوں کی پرورش و پرداخت کا بھی نہایت اہتمام تھا، ہر مرکز میں چارہزار گھوڑے ہر وقت سازوسامان سے لیس رہتے تھے،موسم بہار میں تمام گھوڑے سرسبزو شاداب مقامات پر بھیج دیئے جاتے تھے، خود مدینہ کے قریب ایک چراگاہ تیار کرائی، اوراپنے ایک غلام کو اس کی حفاظت اورنگرانی کے لئے مقرر کیا تھا،گھوڑوں کی رانوں پر داغ سے"جیش فی سبیل اللہ"نقش کیا جاتا تھا۔
عرب کی تلوار اپنی فتوحات میں کبھی غیروں کی ممنون نہیں ہوئی لیکن حریف اقوام کو آپس میں لڑانا فن جنگ کا ایک بڑا اصول ہے، حضرت عمر ؓ نے اس کو نہایت خوبی سے برتا،صدہاعجمی،یونانی اوررومی بہادروں نے اسلامی فوج میں داخل ہوکر مسلمانوں کے دوش بدوش نہایت وفاداری کے ساتھ خود اپنی قوموں سے جنگ کی۔قادسیہ کے معرکہ میں دوران جنگ ہی میں ایرانیوں کی چار ہزار افواج حلقہ اسلام میں آگئی اور سعد بن ابی وقاص ؓ نے ان کو اسلامی فوج میں شامل کرلیا اور ان کی تنخواہیں مقرر کردیں،یرموک کے معرکہ میں رومیوں کے لشکر کا مشہور سپاہی عین حالت جنگ میں مسلمان ہوگیا اور مسلمانوں کے دوش بدوش لڑکر شہید ہوا۔
مذہبی خدمات:
مذہبی خدمات کے سلسلہ میں سب سے بڑا کام اشاعت اسلام ہے حضرت عمر ؓ کو اس میں بہت انہماک تھا؛ لیکن تلوار کے زور سے نہیں؛بلکہ اخلاق کی قوت سے انہوں نے اپنے غلام کو اسلام کی دعوت دی،اس نے باوجود ترغیب وہدایت کے انکار کیا تو فرمایا لااکراہ فی الدین۔
(کنز العمال ج۵ : ۴۹)
یعنی مذہب میں جبر نہیں، حکام کو ہدایت تھی کہ جنگ سے پہلے لوگوں کے سامنے محاسن اسلام پیش کرکے ان کو شریعت عزا کی دعوت دی جائے، اس کے علاوہ انہوں نے تمام مسلمانوں کو اپنی تربیت اور ارشاد سے اسلامی اخلاق کا مجسم نمونہ بنادیا تھا، وہ جس طرف گزرجاتے تھےلوگ ان کے اخلاقی تفوق کو دیکھ کر خود بخود اسلام کے گرویدہ ہوجاتے تھے،رومی سفیر اسلامی کیمپ میں آیا تو سالار فوج کی سادگی اوربے تکلفی دیکھ کر خودبخود اس کا دل اسلام کی طرف کھینچ گیا اور وہ مسلمان ہوگیا،مصر کا ایک رئیس مسلمانوں کے حالات ہی سن کر اسلام کا گرویدہ ہوگیا اور دوہزار کی جمعیت کے ساتھ مسلمان ہوگیا۔
)مقریزی،: ۲۴۶(
وہ عربی قبائل جو عراق وشام میں آباد ہوگئے تھے،نسبتا آسانی کے ساتھ اسلام کی جانب مائل کئے جاسکتے تھے،حضرت عمر ؓ کو ان لوگوں میں تبلیغ کا خاص خیال تھا چنانچہ اکثر قبائل معمولی کوشش سے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے، مسلمانوں کے فتوحات کی بوالعجبی نے بھی بہت سے لوگوں کو اسلام کی صداقت کا یقین دلادیا؛چنانچہ معرکہ قادسیہ کے بعد دیلیم کی چارہزار عجمی فوج نے خوشی سے اسلام قبول کرلیا۔
(فتوح البلدان :۲۰۹)
اسی طرح فتح جلولا کے بعد بہت سے رؤسا برضاورغبت مسلمان ہوگئے جن میں بعض کے نام یہ ہیں: جمیل بن بصہیری، بسطام بن نرسی،رفیل،فیروزان۔
(ایضا فتح جلولا)
عراق کی طرح شام ومصر میں بھی کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے؛چنانچہ شہر فسطاط میں ایک بڑا محلہ نو مسلموں کا تھا غرض حضرت عمر ؓ کے عہد میں نہایت کثرت سے اسلام پھیلا،اس سے بھی بڑ ھ کر یہ کہ آپ دین حنیف کی آئندہ کے لئے راستہ صاف کرگئے۔
اشاعت اسلام کے بعد سب سے بڑا کام خود مسلمانوں کی مذہبی تعلیم وتلقین اورشعار اسلامی کی ترویج تھی، اس کے متعلق حضرت عمر ؓ کے مساعی کا سلسلہ حضرت ابوبکر ؓ ہی کے عہد سے شروع ہوتا ہے،قرآن مجید جو اساس اسلام ہے حضرت عمر ؓ ہی کے اصرار سے کتابی صورت میں عہد صدیقی میں مرتب کیا گیا تھا، اس کے بعد انہوں نے اپنے عہد میں اس کے درس وتدریس کا رواج دیا،معلمین اورحفاظ اورمؤذنوں کی تنخواہیں مقررکیں،سیرۃ العمر میں مذکورہے:
ان عمر بن الخطاب وعثمان کان یرزقان الموذنین والائمۃ والمعلمین
حضرت عبادہ بن الصامت ؓ،حضرت معاذبن جبل اورحضرت ابوالدردا کو جو حفاظ قرآن اورصحابۂ کبار میں سے تھے، قرآن مجید کی تعلیم دینے کے لئے ملک شام میں روانہ کیا۔
(کنز العمال ج۱ : ۲۸۱)
قرآن مجید کو صحت کے ساتھ پڑھنے اور پڑھانے کے لئے تاکیدی احکام روانہ کئے ابن الانباری کی روایت کے مطابق ایک حکم نامہ کے الفاظ یہ ہیں: تعلموا اعراب القران کما تعلمون حفظہ،غرض حضرت عمر ؓ کی مساعی جمیلہ سے قرآن کی تعلیم ایسی عام ہوگئی تھی کہ ناظرہ خوانوں کا توشمارہی نہیں،حافظوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تھی،حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ایک خط کے جواب میں لکھا تھا کہ صرف میری فوج میں تین سو حفاظ ہیں۔
)ایضا! : ۲۱۷(
اصول اسلام میں قرآن کے بعد حدیث کا رتبہ ہے،حضرت عمر ؓ نے اس کے متعلق جو خدمات انجام دیں ان کی تفصیل یہ ہے:
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نقل کرا کے حکام کے پاس روانہ کیا کہ عام طورپر اس کی اشاعت ہو،مشاہیرصحابہ کو مختلف ممالک میں حدیث کی تعلیم کے لئے بھیجا؛چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو ایک جماعت کے ساتھ کوفہ روانہ کیا، عبداللہ بن مغفل ،عمران بن حسین اور معقل بن یسار ؓ کو بصرہ بھیجا،حضرت عبادہ بن الصامت ؓ اورحضرت ابوالدردا ؓ کو شام روانہ کیا۔
(ازالۃ الخلفاء ج ۲ : ۶)
اگرچہ محدثین کے نزدیک تمام صحابہ عدول ہیں؛لیکن حضرت عمر ؓ اس نکتہ سے واقف تھے کہ جو چیزیں خصائص بشری ہیں،ان سے کوئی زمانہ مستثنیٰ نہیں ہوسکتا؛ چنانچہ انہوں نے روایت قبول کرنے میں نہایت چھان بین اوراحتیاط سے کام لیا،ایک دفعہ آپ کسی کام میں مشغول تھے،حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ آئے اور تین دفعہ سلام کرکے واپس چلے گئے،حضرت عمر ؓ کام سے فارغ ہوئے تو ابو موسیٰ ؓ کو بلا کر دریافت کیا کہ تم واپس کیوں چلے گئے تھے؟
انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تین دفعہ اجازت مانگو اگر اس پر بھی نہ ملے تو واپس چلے جاؤ،حضرت عمر ؓ نے فرمایا، اس روایت کا ثبوت دوورنہ میں تم کو سزا دو ں گا۔
(صحیح مسلم باب الاستیذان)
حضرت ابوموسیٰ ؓ نے حضرت سعید ؓ کو شہادت میں پیش کیا،اسی طرح سقط یعنی کسی عورت کا حمل ضائع کردینے کے مسئلہ میں مغیرہ ؓ نے حدیث روایت کی تو حضرت عمر ؓ نے شہادت طلب کی محمد بن مسلمہ ؓ نے تصدیق کی تو انہوں نے تسلیم کیا۔
(ابوداؤد کتاب الدیات باب دیۃ الجبین)
حضرت عباس ؓ کے مقدمہ میں ایک حدیث پیش کی گئی تو حضرت عمر ؓ نے تائید ثبوت طلب کیا،جب لوگوں نے تصدیق کی تو فرمایا مجھ کو تم سے بدگمانی نہ تھی؛ بلکہ اپنا اطمینان مقصود تھا۔
)تذکرۃ الحفاظ ج۱ تذکرہ عمر(
حضرت عمر ؓ لوگوں کو کثرت روایت سے بھی نہایت سختی کے ساتھ منع فرماتے تھے؛چنانچہ جب قرظہ بن کعب کو عراق کی طرف روانہ کیا تو خود دور تک ساتھ گئے اور سمجھا یا کہ دیکھو تم ایسے ملک میں جاتے ہو جہاں قرآن کی آواز گونچ رہی ہے،ایسا نہ ہو کہ ان کی توجہ کو قرآن سے ہٹاکر احادیث کی طرف مبذول کردو۔
(ایضاً : ۶)
حضرت ابوہریرہ ؓ بڑے حافظ حدیث تھے اس لئے وہ روایتیں بھی کثرت سے بیان کرتے تھے،ایک دفعہ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ حضرت عمر ؓ کے عہد میں اس طرح روایت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ اگر اس زمانہ میں ایسا کرتا تو درے کھاتا۔(ایضاً)
حدیث کے بعد فقہ کا درجہ ہے،حضرت عمر ؓ خود بالمشافہ اپنے خطبوں اورتقریروں میں مسائل فقہیہ بیان کرتے تھے اور دور دراز ممالک کے حکام فقہی مسائل لکھ کر بھیجتے تھے،مختلف فیہ مسائل کو صحابہ ؓ کے مجمع میں پیش کرا کے طے کراتے تھے،اضلاع میں عمال اورافسروں کی تقرری میں عالم اورفقیہ ہونے کا خاص خیال رکھا جاتاتھا، تمام ممالک محروسہ میں فقہاء مقرر کئے تھے جو احکام مذہبی کی تعلیم دیتے تھے اور حسب بیان ابن جوزی حضرت عمر ؓ نے فقہاء کی بیش قرار تنخواہیں مقرر کی تھیں،اس سے پہلے فقہاء اورمعلمین کو تنخواہ دینے کا رواج نہ تھا،غرض یہ کہ فاروق اعظم ؓ کے عہد میں مذہبی تعلیم کا ایک مرتب اورمنظم سلسلہ قائم ہوگیا تھا جس کی تفصیل کے لئے اس اجمال میں گنجائش نہیں۔
عملی انتظامات کی طرف بھی حضرت عمرؓ نے بڑی توجہ کی،تمام ممالک محروسہ میں کثرت سے مسجدیں تعمیر کرائیں، امام اورمؤذن مقرر کئے،حرم محترم کی عمارت ناکافی تھی ۱۷ھ میں اس کو وسیع کیا،غلاف کعبہ کے لئے نطع کے بجائے قباطی کا رواج دیا جو نہایت عمدہ کپڑا ہوتا ہے اورمصر میں بنایاجاتا ہے ،مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہایت وسعت دی،پہلے اس کا طول سوگز تھا انہوں نے بڑھا کر۱۴۰ گزکردیا،عرض میں بھی ۲۰ گز کا اضافہ ہوا،مسجد کے ساتھ ایک گوشہ چبوترا بنوادیا کہ جس کو بات چیت کرنا یا شعر پڑھنا ہو تو یہاں چلاآئے۔ مسجدوں میں روشنی اورفرش کا انتظام بھی حضرت عمر ؓ کے عہد سے ہی ہوا، حجاج کی راحت وآسائش کا بھی پورا انتظام تھا، ہر سال خود حج کے لئے جاتے تھے اور خبر گیری کی خدمت انجام دیتے تھے۔
)اسد الغابہ تذکرۂ عمر(
متفرق انتظامات:
ملکی،فوجی اورمذہبی انتظامات کا ایک اجمالی خاکہ درج کرنے کے بعد اب ہم ان متفرق انتظامات کا تذکرہ کرتے ہیں جو کسی خاص عنوان کے تحت نہیں آتے۔ ۱۸ھ میں عرب میں قحط پڑا،حضرت عمر ؓ نے اس مصیبت کو کم کرنے میں جو سرگرمی ظاہر کی وہ ہمیشہ یادگار زمانہ رہےگی،بیت المال کا تمام نقد وجنس صرف کردیا، تمام صوبوں سے غلہ منگوایا اور انتظام کے ساتھ قحط زدوں میں تقسیم کیا۔
(یعقوبی ج۲ : ۱۷۷ میں اس کی پوری تفصیل ہے)
لاوارث بچوں کو دودھ پلانے اورپرورش پرداخت کا انتظام کیا۔
(ایضاً: ۱۷۱)
غرباء ومساکین کے روز ینے مقرر کئے اور منبر پر اس کا اعلان فرمایا:
میں نے ہر مسلمان کے لئے فی ماہ دو مد گیہوں اوردوقسط سرکہ مقرر کیا۔
ایک شخص نے کہا کہ کیا غلام کے لئے بھی؟ فرمایاہاں غلام کے لئے بھی۔
(فتوح البلدان ذکر العطاءفی خلافۃ عمر ؓ )
لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ حضرت عمر ؓ اس نکتہ سے بے خبر تھے کہ اس طرح مفت خوری سے لوگ کاہل ہوجائیں گے،درحقیقت انہوں نے ان ہی لوگوں کے روزینے مقرر کئے تھے جو یا تو فوجی خدمت کے لائق تھے یا ضعف کے باعث کسب معاش سے معذور تھے،ملکی حالات سے واقفیت کے لئے ملک کے ہر حصے میں پرچہ نویس اورواقعہ نگار مقرر کئے تھے جن کے ذریعہ سے ہر جزئی واقع کی اطلاع ہوجاتی تھی،مورّخ طبری لکھتے ہیں:
عمر پر کوئی بات مخفی نہیں رہتی تھی،عراق میں جن لوگوں نے خروج کیا اورشام میں جن لوگوں کو انعام دیئے گئے سب ہی ان کو لکھا جاتا تھا۔
عدل وانصاف:
خلافت فاروقی کا سب سے نمایاں وصف عدل وانصاف ہے،ان کے عہد میں کبھی سرموبھی انصاف سے تجاوز نہیں ہوا،شاہ وگدا،شریف ورزیل،عزیزوبیگانہ سب کے لئے ایک ہی قانون تھا،ایک دفعہ عمروبن العاص ؓ کے صاحبزادے عبداللہ نے ایک شخص کو بے وجہ مارا،حضرت عمرؓ نے اسی مضروب سے ان کے کوڑے لگوائے، عمروبن العاص ؓ بھی موجود تھے،دونوں باپ بیٹے خاموشی سے عبرت کا تماشا دیکھتے رہے اورکچھ نہ کہا۔
(کنزالعمال ج۶ : ۳۵۵)
جبلہ بن ایہم رئیس شام نے کعبہ کے طواف میں ایک شخص کو طمانچہ مارا، اس نے بھی برابر کا جواب دیا،جبلہ نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ جیسا کیا ویسا پایا جبلہ کو اس جواب سے حیرت ہوئی اور مرتد ہوکر قسطنطنیہ بھاگ گیا۔ حضرت عمر ؓ نے لوگوں کی تنخواہیں مقرر کیں تو اسامہ بن زید ؓ کی تنخواہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب غلام حضرت زید ؓ کے فرزند تھے،اپنے بیٹے عبداللہ سے زیادہ مقررکی،عبداللہ نے عذر کیا کہ واللہ اسامہ ؓ کسی بات میں ہم سے فائق نہیں ہیں،حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہاں! لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ ؓ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔
)مستدرک حاکم جلد ۳ مناقب عبداللہ بن عمر ؓ(
فاروقی عدل وانصاف کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہ تھا؛ بلکہ ان کا دیوان عدل مسلمان،یہودی،عیسائی سب کے لئے یکساں تھا،قبیلۂ بکربن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو مارڈالا،حضرت عمر ؓ نے لکھا کہ قاتل مقتول کے ورثاء کے حوالہ کردیا جائے؛چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کانام حنین تھا سپرد کیا گیا اور اس نے اس کو مقتول عزیز کے بدلہ میں قتل کردیا۔