دین کا اہم موضوع تصوف

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
دین کا اہم موضوع تصوف
……مولانا عنایت اللہ عینی ﷾
ہر علم کا ایک موضوع ہے اور اس کی ایک غایت ہے عمل کی سب تگ وتاز اسی ایک موضوع کے گرد ہوتی ہے اس کی غایت اس کا تکمیل ہے تصوف کا موضوع دلوں پر صفائی کی محنت ہے اور اس کی غایت خدا کی محبت کا حاصل کرنا ہے یہاں تک کہ بندہ اس کا ہوکر رہ جائے اور وہ کچھ دیکھ لے جو اس نے کبھی سنا یا سمجھا نہ تھا یہ عبادت کی غایت ہے جو موت پر پوری ہوتی ہے
واعبد ربک حتی یاتیک الیقین
)سورۃ الحجر 99 (
)آثار الاحسان ج1ص55از ڈاکٹر علامہ خالد محمود (
بے شک تصوف کا نام دور نبوی اور صحابہ میں ایجاد نہیں تھا تاہم اس کا مصداق موجود تھا جیسے قران پاک میں تزکیہ اور حدیث شریف میں احسان کہا گیا ہے، بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔
ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم آیاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمۃ۔
)سورۃ البقرہ 150(
دوسری جگہ ارشاد ہے:
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم یتلوا علیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ۔
)سورۃ آل عمران161(
اس سے واضح ہوتا ہے کہ کتاب و سنت اس امت کا چشمہ علم ہے تو تزکیہ قلب سے اس کی عمل کی ابتداء ہے جس طرح بعد میں علم قرآنی کو تفسیر اور سنت کے علم کو حدیث کیا جانے لگا اور جس طرح ان دونوں سے مستنبط شدہ احکام کو علم فقہ اور ان سے حاصل شدہ عقائد کو علم الکلام ان کے قواعد و ترتیب سے پڑھنے کو علم تجوید اور ان کے الفاظ کی غلطیوں سے بچانے والا علم کو علم صرف و نحو کہا جانے لگا اسی طرح اسی تزکیہ قلب اور اسی احسان کا نام علم تصوف پڑگیا۔
تصوف سے مراد نفس کو حسد اور تکبر حب دنیا اور عشق جاہ و منصب جیسی عام بیماریوں سے پاک کر کے خدا تعالی کی محبت رضا، اخلاص اور توکل پیدا کرنا ہے اس لیے کہ جب تک نفس سرکش سے، شرعی احکام کی بجاآوری اور ان کی طرف نفس کا میلان نہیں ہوسکتا ہے کیا عجب کہ وہ بہت سے دینی احکام محض غرور (دھوکہ) کی پیاس بجھانے کے لیے انجام دے مثلا وہ ان کو جاہ و منصب مال و دولت کے حصوں کے لیے اور اظہار محب کے لیے استعمال کررہا ہو ایسے شخص میں اسلام محض نام کا رہ جاتا ہے۔
ایسا شخص اسلام کے خوشنما پردے میں غرور و تکبر جیسے خطرناک امراض چھپائےبیٹھا ہے جن کا صفایا کرنا ہی اسلام کا اہم مقصد ہے اسلام کا اصل جوہر یہ ہے کہ نفس کو اس طرح کی گندگیوں سے پاک و صاف کر کے اس میں حب الہی رضا توکل اور خوف خدا جیسے پاکیزہ اور صاف صفات کی آبیاری کی جائے۔
)سلفیت ایک تحقیقی جائزہ ص132 از علامہ سعید رمضان البوطی (
اسلام کی انہی اعلی مقاصد کے حصول کے لیے کچھ اصحاب تربیت چند اعمال اور تربیتی کورس کی پابندی کرتے اور کراتے ہیں ان کے صحیح یا غلط ہونے کا قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں !مبادیا ت و احکام شریعت سے موافقت و مخالفت دونوں طرح کے آثار ان میں ملتے ہیں اس لیے ان کو اجتہادی امور کے قبیل سے ماننا ہوگا جو بہرحال نصوص فہمی اور تفسیر و استنباط کے منہاج و ضوابط کے دائرے میں آتے ہیں یہ اجتہادی طریقے اور اعمال جن کا مقصد حقیقت اسلام سے آراستہ ہونا ہے مجموعی طور پر جائز رہیں گے جس طرح دوسرے اجتہادی و نظریاتی مسائل میں کسی مجتہد کو دوسرے پر ضلالت و گمراہی کا حکم لگانے کا حق نہیں اسی طرح یہاں بھی کیونکہ ایسا حکم اس منہج کے ضوابط کی بنیاد پر لگایا جاسکتا ہے اور جب اس کے ضوابط بذات خود اجتہادی اور مختلف فیہ ہیں تو ان کی بنیاد پر دوسرے مجتہد کو احمق یا گمراہ کہنا تمام شرعی ضوابط کی خلاف ورزی ہے اور دین دفاع دین کے نام پر انانیت و ہوس کی تسکین کے سوا کچھ نہیں۔
)سلفیت ایک تحقیقی جائزہ ص184(
مولانا نعیم الدین صاحب ”تصوف اور صوفیاء کرام“ میں لکھتے ہیں:
تصوف کی حقیقت اور صوفیائے کرام کے مقاصد حسنہ سے معلوم ہوا کہ حقیقی تصوف تزکیہ قلب اور کیفیت احسانی کے پیدا کرنے کا نام ہے جو مزہب کی روح اخلاق کی جان اور ایمان کا کمال ہے اس کی اساس شریعت ہے اور اس کا سر چشمہ کتاب و سنت ہے۔ تصوف کی مستند کتب مثلاً: احیاء العلوم ،قوت القلوب ،رسالہ قشیریہ، کشف المحجوب، عوارف المعارف ،تذکرۃ الاولیاء، فوائد الفواد، خیر المجالس وغیرہ کے صفحات الٹ جائیے صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ آپ کو صوفیاء کرام کی طرف سے کتاب و سنت پر عمل کی تلقین ملے گی، ذیل میں صوفیائے کرام کی کتابوں سے حفاظت شریعت اور اتباع سنت کی تلقین کے چند حوالے جات نذر قارئین کیے جاتے ہیں:
1: تیسری صدی ہجری کے بزرگ سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی رحمہ اللہ (م297ھ) فرماتے ہیں: راہ تصوف تو صرف وہی شخص پاسکتا ہے جس کے سیدھے ہاتھ میں کتاب اللہ ہو اور بائیں ہاتھ میں سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہو اور ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راستہ طے کرے تاکہ نہ تو شبہہ کے گڑھوں میں گرے اور نہ بدعت کے اندھیرے میں پھنسے۔
)تذکرۃ الاولیاء ج2ص8 از شیخ فرید الدین عطار رحمہ اللہ(
اسی طرح دوسری جگہ آپ یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمارا مذہب کتاب و سنت کے اصولوں کا پابند ہے نیز فرمایا ہمارا یہ علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے مضبوط ہوتا ہے۔
) الرسالۃ القشیریہ 20 از شیخ ابو القاسم القشیری رحمہ اللہ (
2: حضرت امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد عارف باللہ حضرت ذوالنون مصری رحمہ اللہ (م245ھ) ارشاد فرماتے ہیں: اللہ تعالی کے محب اور عاشق ہونے کی علامت یہ ہے کہ اپنے اخلاق و اعمال اور تمام امور وسنن میں حبیب خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے۔
)الاعتصام ج1ص92 از علامہ شاطبی رحمہ اللہ (
3: شیخ سہل تستری رحمہ اللہ (م283ھ) فرماتے ہیں:صوفیاء کے سات اصول ہیں کتاب اللہ کے ساتھ تمسک، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع، اکل حلال، لوگوں کی ایذاء دہی سے بچنا، گناہوں سے بچنا، توبہ کرتے رہنا، حقوق ادا کرنا۔
)الاعتصام ج1ص92 از علامہ شاطبی رحمہ اللہ (
4: شیخ احمد بن ابی الحواری رحمہ اللہ (م230ھ) فرماتے ہیں: جو شخص اتباع سنت کے بغیر عمل کرتا ہے اس کا عمل باطل و بیکار ہے۔ ) الاعتصام ج1ص94 شاطبی(
5: شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ (م561ھ) فرماتے ہیں: صاحبزادے تیرا بدکاروں کے ساتھ رہنا تجھ کو نیکو کاروں سے بدگمانی کے اندر ڈال دے گا اللہ عز و جل کی کتاب اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے سایہ کے نیچے چل یقینا فلاح پائے گا۔
) الفتح الربانی مع ترجمہ فیوض یزدانی ص40(
اب رہا ان حضرات کا کہنا کہ تصوف ایک عجمی سازش ہے اور یہ یونانی فلسفہ ہے یہ اسلام کے خلاف ایک متوازی دین ہے تو یہ بات نہ صرف غلط ہے بلکہ امت مسلمہ کے ان جلیل القدر ہستیوں پر بدگمانی بھی ہے جنہوں نے تصوف کے ذریعے دین اسلام کو بقاء دی ہے۔
اس لیے کہ یونانی علوم کی آمد خلیفہ ہارون رشید کے بیٹے خلیفہ مامون رشید کے عہدتیسری صدی میں ہوا ہے جب کہ تصوف اور صوفی کے الفاظ اس سے دو صدی پہلے خیر القرون میں رائج ہوچکے تھے ذیل میں چند شواہد زکر کیے جاتے ہیں:
1: امام حسن بصری رحمہ اللہ (م110ھ) فرماتے ہیں : میں نے طواف کے دوران ایک صوفی کو دیکھا اور اسے کچھ دینا چاہا مگر اس نے نہیں لیا اور کہنے لگا میرے پاس چار دانگ پڑے ہیں وہ میرے لیے کافی ہیں۔ )اللمع فی التصوف ص25 شیخ الطوسی(
2: امام سفیان ثوری رحمہ اللہ (م161ھ) فرماتے ہیں کہ اگر ابو ہاشم صوفی (م150ھ) نہ ہوتے تو میں ریاء کی باریکیاں نہ جان سکتا۔
)عوارف المعارف ص66 للسہروردی، الفتاوی الحدیثیہ ص470(
3: امام مالک رحمہ اللہ (م179ھ) تو یہاں تک فرما گئے کہ جو فقہ علم ظاہری حاصل کرے اور تصوف حاصل نہ کرے تو وہ شخص فاسق ہے اور جو صرف تصوف کے پیچے پڑجائے اور ظاہری علم فقہ حاصل نہ کرے تو وہ زندیق ہے اور جو شخص دونوں کو حاصل کرے تو وہ محقق ہے۔
) قواعد التصوف ج2ص2 امام احمد زروق المالکی (
لہذا یہ اعتراض باطل ہے کہ تصوف نئی چیز ہے بلکہ صاحب اعتراض کی کم فہمی پر دال ہے شیخ ابو الفرسراج طوسی رحمہ اللہ بھی اپنی کتاب اللمع فی التصوف ص25 میں لکھا ہےاور امام ابن حجر مکی رحمہ اللہ (م974ھ) لکھتے ہیں کہ صحابہ میں صوفی کا لفظ اس لیے عام نہ ہوا کہ ان پر صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گہرا اثرتھا باوجود اس کے کہ وہ بڑے علماء فقہاء مجاہدین تھے لیکن صحابہ کے علاوہ کوئی دوسرا نام ان پر نہیں بولا جاتا لہٰذا صوفی بھی اسی طرح کا معاملہ ہے۔
) الفتاوی الحدیثیہ ص470(