تقلیدِ شخصی کیوں واجب ہے

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تقلیدِ شخصی کیوں واجب ہے؟
……مولانا محمد مبشر بدر﷾
پوری امت ایک راستے پر چلتی چلی آرہی ہوتی ہے۔ اس کا ایک منہج ، ایک نظریہ اور ایک فکر ہوتی ہے۔ گویا ایک اجتماعیت ہوتی ہے جس میں اس کی قوت و مضبوطی پنہاں ہوتی ہےپر فساد اور انتشار کی ابتدا وہاں سے ہوتی ہے جہاں سے اس کے منہج و نظریئے کی یا تو غلط تعبیر و تشریح کی جائے یا اس کے سابق منہج سے سرمو انحراف کرکے الگ راہ نکال لی جائےاور سبیل ِالمؤمنین کی مخالف راہ اختیار کی جائے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سے امت کی وحدت پارہ پارہ ہوتی ہے اور فتنہ ، فساد اور انتشار کو ہوا ملتی ہے۔ قدرت نے جس طرح اسلام کی بقا کی ضمانت لی ہے جو بذریعہ نزولِ ملائکہ نہیں کہ فرشتے اتریں اور اسلام کی اشاعت و حفاظت کا فریضہ سرانجام دیں بلکہ جس طرح انبیاء علیہم السلام کو گروہِ انسانیت میں سے پیدا کرکے اپنے پیغام کی تبلیغ کرائی گئی ٹھیک اسی طرح اسلام کی حفاظت کے لیے ایسے رجالِ کار کو امتِ مسلمہ میں پیدا فرمایا جنہوں نے اسلام کےنظریئے اور مزاج کے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا اور تھکایا یہاں تک کہ اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا۔
جناب رسول اللہ ﷺ جب تک موجود رہے صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے مسائل کے حل کے لیے درِ رسول ﷺ پر حاضر ہوجاتے وہاں سے انہیں مسائل کا حل مل جاتا۔
وفات سے کچھ عرصہ قبل آپ علیہ السلام نے اپنی امت کو ارشاد فرمایا: ’’میں نہیں جانتا کہ میں کب تک تم میں زندہ رہوں گا۔لہٰذا (فاقتدوابالذین من بعدی ابی بکرو عمر) تم میرے بعد ابو بکر ؓاور عمرؓ کی اقتداء کرنا۔‘‘
(ترمذی۔ابنِ ماجہ۔مستدرک)
اس امر کی تعمیل میں لوگ آقا علیہ السلام کی رحلت شریفہ کے بعد سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آنے لگے۔جب کہ صحابہؓ کرام میں اجلہ صحابہ ؓ کی ایک معتد بہ تعداد منصب اجتہاد کو پہنچی ہوئی تھی جنہیں آقا علیہ السلام کے علم کا وافر حصہ ازبر تھا وہ لوگوں کو نئے پیش آمدہ مسائل کا حل بتایا کرتے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب شریعت کے تمام مسائل مدون اور مرتب نہیں ہوئے تھے اس لیے کسی ایک عالم کی اتباع کا اس درجے اہتمام نہیں تھاکہ اس کے سوا دوسرے عالم سے رجوع جائز نہ ہو، بلکہ لوگ کسی ایک عالم سے رجوع کرتے تو کبھی دوسرے سے۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ایک ہی عالم کے تقویٰ ، تبحرِ علمی اوراس پر اعتمادِ خاص کی وجہ سے لوگ اسی سے ہی تمام یا اکثر مسائل میں رجوع کرتے ، اس کے ہوتے ہوئے دوسرے سے رجوع مناسب نہ سمجھتے۔ اور اس سے اس مسئلے کی دلیل بھی طلب نہیں کرتے تھے بس تقویٰ اور تبحرِ علمی پر ہی اعتماد کرتےتھے اور یہی اصطلاح میں تقلید کامطلب ہےکہ ’’مجتہد کے قول پر بغیر مطالبۂ دلیل عمل کرنا اس حسنِ ظن کے ساتھ کہ وہ قرآن و سنت سے ماخوذ اور مطابق ہے۔
اس نوعیت کی ایک روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے’’اہلِ مدینہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مسئلہ دریافت کیا کہ ’’کیا جب عورت حیض میں مبتلا ہوجائے تو اس کے لیے طواف زیارت کے بعد طواف ِ وداع چھوڑ کر اپنے وطن جانا جائز ہے؟‘‘جواب میں سیدنا ابن ِ عباس ؓ نے جواز کا قول فرمایا جس پر لوگ کہنے لگے ہم آپ کی بات لے کر سیدنا زید ؓ کی بات نہیں چھوڑ سکتے کیوں کہ وہ فرماتے ہیں کہ عورت کے لیے طوافِ وداع چھوڑ کروطن جانا جائز نہیں۔اس کی وجہ حضرت زید رضی اللہ عنہ پر ان کا زیادہ اعتماد تھاتبھی سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے فتوے پر توجہ نہ دی پھر جب سیدنا زید ؓ تک حدیثِ صفیہ ؓ پہنچی تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا۔یہ اس بات کی مثال تھی کہ لوگ اپنے اعتماد والے عالم پر دیگر علماء کی نسبت زیادہ رجوع کرتے تھےاور اس کے فتاویٰ کو دوسرے علماء کے فتاویٰ پر ترجیح دیتے تھے۔
یہ سب اس وقت تھا جب مذاہب مدون نہ تھے۔ ان کے اصول وضع نہیں ہوئے تھے۔اس لیے لوگ کسی خاص فقہ کے پابند بھی نہ تھے۔بس بعض تو مختلف علماء سے جہاں موقع ملتا رجوع کرلیا کرتے اور بعض اپنے معتمد علیہ فقیہ کے فتاویٰ پر انحصار کرتے۔خیرالقرون کے زمانے میں فقہاء مجتہدین کی کمی نہ تھی، وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے جو بلادِ اسلامیہ میں پھیلے ہوئے تھے۔لیکن جو مقبولیت اللہ کی طرف سے فقہائے اربعہ امام ابوحنیفہ ،امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کو حاصل ہوئی وہ کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔
سب سے پہلے جدید پیش آمدہ مسائل کی تدوین کی طرف سیدنا ابوحنیفہ رحمہ اللہ متوجہ ہوئے انہوں نے باقاعدہ قرآن و سنت میں غور و خوض کر کے فقہ کے اصول مرتب فرمائےاور یوں سلسلہ چل نکلا اور وقت گزرنے کے ساتھ چار فقہ متعارف ہوگئیں جنہیں لوگوں میں قبولیتِ تامہ حاصل ہوئی۔جب کہ باقی فقہاء کو وہ مقام اور مقبولیت نصیب نہ ہوسکی یہاں تک کہ ان کا نام و نشان مٹ گیا یاکہیں کسی کتاب میں ان فقہاء کا کوئی ایک آدھ قول مل جاتا ہے۔جب کہ مدون اور مرتب صورت میں ان چار فقہوں کو شہرت حاصل ہوگئی۔ جن کا ماخذ صرف اور صرف قرآن و سنت تھا نہ کہ خواہشاتِ و ہوائے نفس کی اتباع ، جن سے یہ فقہاء ماوراء تھے۔فقہائے اربعہ اور ان کے متبعین اہلِ علم نے اس میں انسانی زندگی سے متعلق تمام گوشوں سے متعلق مسائل حل فرما کر امت سے استنباط و استخراج کا بوجھ اتار دیا اور صحیح منہج امت کو دے گئے۔
یہ چاروں فقہ عالمِ اسلام میں رائج ہوگئیں۔ ان کے مرتب اور مدون ہونے کے بعد انتظامی طور پر لوگ کسی ایک فقہ جن پر ان کا اعتماد تھا عمل پیرا ہوگئے اور اپنی زندگی میں پیش آمدہ تمام مسائل کے حل کے لیے اس فقہ کے ماہر علماء سے رجوع کرنے لگے۔عالم اسلام کے تمام اہل علم کا ان مذاہبِ اربعہ کی حقانیت پر اجماع ہوگیا۔ در اصل یہی اہل السنت والجماعت کا اصلی مصداق ہیں جن سے روگردانی کرنا نجات یافتہ طبقےاہل السنت والجماعت سے باہر ہونا ہے۔
ان میں واقع ہونے والا آپس میں فقہی اختلاف در اصل احادیث مبارکہ اور اقوال و اعمال صحابہؓ کے اختلاف کی وجہ سے رونما ہوا۔ ہر فقیہ نے دلائل کی بنیاد پر ایک جانب کو راجح قرار دے کر دوسری جانب کو مرجوح قرار دیا۔ ان میں سے کسی کو بھی قرآن و سنت کی مخالفت کرنے اور خواہشات پر عمل کرنے والا نہیں کہا جاسکتا۔ جسے بنیاد بنا کر یار لوگوں نے ان چاروں فقہ کا نہ صرف انکار کیا بلکہ اسے قرآن و سنت سے مخالف اور گمراہی کا موجب بنا کرپیش کیا (معاذاللہ) اور تقلید کے خلاف مکمل محاذ آرائی قائم کرلی اور امت کے متواتر و متوارث طریقے کے خلاف ایک الگ راہ اختیار کرکے خود کو مجتہد سمجھنے لگے۔یاد رکھیے کہ غیر مجتہد پر چاروں فقہ میں سے کسی ایک فقہ کی تقلید لازم ہے اور یہ لزوم و وجوب کسی شرعی و قطعی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ انتظامی طور پر ہے جیسا کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا:’’سوہم تقلیدِ شخصی کو فی نفسہٖ فرض یا واجب نہیں کہتے ، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ تقلید شخصی میں دین کا انتظام ہے اور ترکِ تقلید میں بے انتظامی ہے۔‘‘(خطبات حکیم الامت ؒ: ج:۶ ص: ۱۷۲ )
اب یہاں سے اس اعتراض کا جواب دیا جاسکتا ہے کہ بیک وقت تمام فقہوں پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا صرف تقلید شخصی کو کیوں واجب کیا گیا ہے؟ اس کا جوا ب یہ ہے کہ اگر تمام فقہوں کی بیک وقت تقلید جائز قرار دی جائے تو اس سے اتباعِ شریعت کے بجائے اتباعِ خواہشات لازم آتی ہے۔ خاص طور اس فساد کے دور میں جب کہ احکامات پر عمل کمزور پڑگیا ہے اور دین کے بجائے خواہشات کی اتباع کی جارہی ، لوگ ان فقہاء کے اقوال کو کھیل بنالیں گے۔ مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں بدن سے خون نکلنا ناقضِ وضو نہیں ہے جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے۔اس طرح بیسیوں مسائل ہیں۔اب کوئی شخص اپنی آسانی دیکھتے ہوئے جس وقت جس پر چاہے عمل کرلے گا جب کہ یہ شریعت پر عمل تو نہ ہوا خواہشات کی تقلید ہوئی جسے حرام کہا گیا ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم کے عظیم شارح علامہ نووی ؒ نے اپنی کتاب ’’ المجموع شرح المہذب ، مقدمہ ، فصل فی آداب المستفتی ( ۱؍ ۵۵ ) ‘‘ میں لکھا ہےکہ ’’ اگر لوگوں کے لیے اپنی چاہت کے مذاہب پر عمل کو جائز قرار دیا جائے تو اس سے یہ خرابی پیدا ہوگی کہ وہ ان مذاہب اربعہ کے رخصت اور آسانی والی مسائل کو چن کر عمل کرنے لگیں گے جو کہ خواہشات کی اتباع ہے نہ کہ شریعت کی۔ ‘‘
اسی وجہ سے علمائے کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں’’ غیر مجتہد کے لیے ان چار مذاہبِ فقہیہ میں سے ایک کی تقلیداس طور پر واجب ہے کہ اس کے سوا پھر دوسرےمذہب کی تقلید نہ کرے۔‘‘ اور یہ وجوب انتظاما ہے۔اللہ تعالی خواہشات کی اتباع سے محفوظ فرما کر اپنے دین کی اتباع کرنے کی اور امت کے سوادِ اعظم کے ساتھ چمٹے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین