فکری گمراہی کا چوتھا سبب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
فکری گمراہی کا چوتھا سبب
……مولانا محب اللہ جان ﷾
فکری و علمی گمرا ہی کا یہ ایک اہم ترین سبب ہے کہ انسان ہر چیز کے رد قبول کر نے میں اور حق و با طل کو معلوم کرنے کے لئے اپنی نا قص عقل کو معیار بنا لے اور پھر جو چیز عقل میں آئے اسے تسلیم کرلے ،جو عقل میں نہ آئے تو اس کا انکا ر کر دے ، در حقیقت (علو م شرعیہ )پر عقل کو تر جیح دینا ، اور حقا ئق اشیا میں وحی، نبو ت پر اعتما د کے بجا ئے اپنی عقل کو فیصل ما ن لینا یہ وہ خطر نا ک ترین مرض ہےکہ جس میں مبتلا کے بعد را ہ حق اور نظریات حق کے دریا فت کے راستے مسدوو ہو جا تے ہیں ،حق کی بجائے انسا ن گمرا ہی کی دلدل میں پھنس جا تا ہے یہی وہ لوگ ہیں جو بند گا ن خدا نہیں بند گا ن عقل کہلوانے کے مستحق ہیں ،عقل کی غلا می میں مبتلا ہو نے کے بعد جب مذھب کا کوئی مسئلہ ،حکم ، عقیدہ،بظا ہر خلا ف عقل نظر آتا ہے تو ایسی صو رت میں دو گروہ سا منے آتے ہیں ،ایک گرو ہ تو وہ ہے جو اس مسئلہ ، حکم اورعقیدہ کو خلا ف عقل کہہ کر انکار کر لیتا ہے جیسے قدیم فلا سفہ سے یہ طرز چلا آر ہا ہے اور اب بھی منکرین حدیث اور دیگرمنکرین عقائد حقہ اورمادہ سے مرگوب لوگوں میں یہ مرض بڑی حد تک مو جو د ہے ،اور خلا ف عقل کہہ کر کسی حدیث ،مسئلہ ، عقیدہ ، کا انکا ر ایک رواج اورعصر حاضر کا ایک فیشن بن چکا ہے۔
دوسراگروہ وہ ہے جو اتنی جرات تو نہیں کرتا کہ وہ کسی مسئلہ کو صرا حتًا خلا ف عقل کہنے کے بعد اس کااس انکا ر کر دے ، تو وہ دوسری صورت یہ اختیا ر کر تا ہے کہ اس مسئلہ ، عقیدہ ، عمل و حدیث کی تشریح و تفسیرمیں دور دراز کی ایسی ناقص اور فاسد تا ویلات کا سلسلہ شرو ع کر دیتا ہے جو دین میں تحریفات و تلبیسات کا ہی ایک خاصا نمونہ بن جاتا ہے۔
ہم عقل اور اس کے استعما ل کے قطعًا مخا لف نہیں کیونکہ اللہ نے اس کو استعمال کرنے کے لئے ہی عطاکیا ہے اور نہ ہی اس کی مخا لفت کوئی دا نشمندی اورعقلمندی ہے ،با ت صرف اس کے صحیح مصرف اور اس کے اصلی اور حقیقی منصب و مقا م پر رکھ کر استعما ل کر نے کی ہے ، اہل حق یہ کہتے ہیں کہ عقل کا جو منصب اورمقام ہے اس کو صرف اسی پر رکھ کر استعما ل کرنامنشاءخدا وندی اور تقاضا عقل سلیم ہے اور دونوں جہانوں کی سعا دتوں کو حا صل کر نے کا زینہ ہے ،لیکن عقل؛ عقل ہی ہے اور وہ مخلوق ہے ، خالق کے مقا بلہ میں اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے ،احکام خدا وندی کے سا منے اس کا سر تسلیم خم کر نے کے علاوہ اورکوئی چارہ کار نہیں ہو سکتا ہے۔ چہ جائیکہ اس کو فیصل مان کر شریعت پر ترجیح و فو قیت دی جا ئے۔
بندگا ن عقل جو کہ عقل سے حددرجہ مر عو ب ہے اور ہر چیز میں عقل ہی کو معیار اور کسوٹی مانتے ہیں یہاں تک کہ مذہب ، اس کی تعلیمات ،اس کے حقائق میں بھی عقلیت پرستی ہی کو بنیا د بنا کر چلتے ہیں (اور یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کی سچائی وحی یا علوم نبوت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی صداقت و حقانیت عقل کی تا ئید وحمایت ہی کی مرہون منت ہے تو ظا ہر با ت ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا گمرا ہی ہو سکتی ہے۔ اللہ کریم نے علم حاصل کرنے ،معلو ما ت کو جمع کر نے، اشیاءکے حقائق کو معلوم کر نے ، خالق اور محسن حقیقی کے حقوق کو پہنچا نے کیلئے انسا ن کو تین چیزیں عطا فر ما ئی ہیں: (۱)حوا س خمسہ (۲)عقل(۳)وحی (وجدا نیات )
پھر دیکھئے کہ ا ن میں سے ہر ایک کا ایک مخصوص دا ئرہ عمل ہے جس سے وہ ہر قدم رکھ ہی نہیں سکتا اور ہر چیز اپنے ہی دا ئرہ میں قا بل عمل ہے دو سرے کے دا ئر ہ عمل میں مداخلت سے وہ چیز عاجزہے ،مثلاًآنکھ دیکھنے کی کا م کر سکتی ہےسننے اور بولنے کا ہر گز نہیں پھر سننے میں بھی سب سے قیودا ت و شرا ئط و پا بندیا ں ہیں مثلاً آنکھ حا ل کی چیز کو تودیکھ سکتی ہے ،ما ضی اور مستقبل کی چیز کو دیکھنے سے عا جز ہے ، ظاہر کوتو دیکھ سکتی ہے ، مگر حقیقت اور با طن کو دیکھنے سے وہ قا صر ہے ، صورت کو تودیکھ سکتی ہے مگر سیرت کو کو دیکھنے وہ قا صر ہے ، ایک حد تک دیکھ سکتی ہے ، زیا دہ فا صلہ پر بھی قوت جواب دےجا تی ہے ، الغرض آنکھ کا کام ہے دیکھنا ،مگر اس دیکھنا بھی بہت ہی محدود ہے ، اسی پر دوسری حواس خمسہ کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔
دوسرے نمبر پرعقل ہے……… ، جہا ں حوا س خمسہ کا دائرہ ختم ہو جاتاہے وہاں سے عقل کے دائرہ عمل کی ابتدا ءہو جا تی ہے ، مگر عقل بھی اپنے کام میں حواس خمسہ ہی کا محتا ج ہے مثلاً اگر آنکھ نے ایک چیز نہ دیکھی ہو ، کا ن نے نہ سنی ہو ، ہا تھ نے نہ پکڑی ہو ، تو عقل کی وہاں تک رسائی کیسے ہو سکتی ہے ؟؟الغر ض کہ عقل بھی کام میں حواس خمسہ کی ہی محتا ج ہے اور اس کا بھی ایک مخصوص دا ئرہ عمل ہے اس دائرہ عمل سے تجاوز کے بعدنتیجتاً گمرا ہی ، ضلالت کے سوا کچھ بھی ہا تھ نہیں آسکتا۔
تیسرا نمبر وحی الٰہی کا ہے ،جہا ں عقل کے دائرہ کار کی انتہاءہو تی ہے وہا ں وحی الٰہی کے دائرہ عمل کا آغاز ہو تا ہے ، عقل صرف ہمیں شریعت، محسن حقیقی کے حقوق کی ادا ئیگی کے لئے ترغیب تو دے سکتی ہے اور عقلی دلا ئل کے ذریعہ ہمیں مجبو ر کر سکتی ہے ،مگر وہ حقوق کیا ہیں؟ان کی ادائیگی کا طریقہ کا ر کیا ہے؟ تو ظا ہربات ہے کہ عقلِ محض ان چیزوں میں اپنی را ئے قا ئم کرنے سے قاصرہے جب تک کہ محسن حقیقی ہی ان اشیا ءکی تجویز اور طریقہ کا حکم نہ دے۔
عقل کا منصب و مقام اور اس کی حقیقت :
عقل کے اس منصب و مقام اور عقل کے دائرہ عمل کی تحدید کے متعلق بعض علماء نے ایک بہت عمدہ مثال پیش فرما ئی ہے ، جس سے عقل کے منصب و مقام کی صحیح تعیین کا اندا زہ ہو جا تا ہے ، وہ یہ کہ عقل کی حیثیت با لکل ایسی ہے کہ جیسے ایک عامی آدمی کسی نا واقف سائل کو شہر کے مفتی کے پاس پہنچا دے اور بتلا دے کہ یہ مفتی ہے پھر اگر اس عا می راہنما اور اس مفتی کے درمیان کسی مسئلہ میں اختلا ف ہو تو یہ ناواقف صاحب کا بھی فرض ہو گا کہ وہ مفتی کے قول کو ترجیح دے اور اس عا می کو ہرگزیہ کہنے کا حق نہیں ہو گا کہ چونکہ میں نے ہی تو آپ کی رہنما ئی کی ہے ، اگر را ہنما ئی نہ کرتا تو تم کو اس مفتی تک رسا ئی کیسے ہو تی لہٰذا میری بات کو ترجیح دو۔
رسا لت کے علم کے بعد عقل کا بھی یہی کام ہے کہ وہ رسول پر اعتماد اور اس کی اطا عت کرے ،جس طرح ہر فن میں صاحب فن کی تقلید کی جا تی ہے اور بے چوں و چرا اس کے مشو رہ پر عمل کیا جا تا ہے اوراس کے قول کو قو ل فیصل سمجھا جا تا ہے اس طرح امو ر غیبیہ واحکا م و شرا ئع اور ما بعد الطبعیا ت میں بھی رسول سندکی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا قول قول فیصل ہوتاہے۔
(تا ریخ دعوت و عزیمت جلد۲، ص۴۲۳)
مذکو رہ با لااقتباس سے عقل کے منصب و مقام اوراس کے دائرہ عمل کی انتہا ء کا پتہ چلتا ہے اور یہی ایک نظریہ ہے جو عقل کے متعلق پا ئے جا نےوا لے مختلف نظریات میں اعتدال کا مظہر ہے۔
اللہ کریم ہم سب کو شریعت مطہرہ و مقدسہ کے احکاما ت اور ما بعد الطبعیاتی حقائق کو دل و جا ن تسلیم کرنے اور پو ری عقیدت و بصیرت کے سا تھ وحی الٰہی کی روشنی میں قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین