باتیں اُن کی یاد رہیں گی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
باتیں اُن کی یاد رہیں گی!!
……مفتی راشد ڈسکوی ﷾
ماضی قریب کے بند دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو وہاں اپنے اکابر اساتذہ کرام کی سرپرستی، اُن کی راہنمائی، اُنگلی پکڑ کے چلانا، ہر مرحلے میں تربیت کرنا، قدم قدم پر سمجھانانظر آتا ہے تو پیشانی اللہ تعالیٰ کے سامنے تشکر بھرے جذبات کے ساتھ جھک جاتی ہے، الحمد للہ علیٰ ذٰلک، وجزاھم اللہ خیرا واحسن الجزاء۔قابلِ صد احترام مُشفِق اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ نہ کرتے تو معلوم نہیں ہماری زندگی جانوروں کی طرح ہوتی یا اُن سے بھی بدتر ہوتی؟!
9/محرم الحرام /1436ھ کی رات آٹھ بجے مدرسہ عربیہ رائے ونڈ کے طلبہ کی طرف سے صدمے سے لبریز یہ خبر آئی کی اُستاذ ِمحترم مولانا جمشید علی خان رحمہ اللہ اِس بے وفا دنیا کو داغِ مفارقت دیتے ہوئے سفرِ آخرت شروع کر چکے ہیں:”انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون”انّ لِلّٰہ ما اخذ، ولِلّٰہ ما اعطیٰ، وکلُّ شَییٍ عندَہ باجَلٍ مُسمّیٰ“
اُستاذِ محترم رحمہ اللہ اتباع سنت، تقویٰ، تواضع ، للہیت اور امتِ محمدیہ ﷺ کے جس درد اور فکر وکڑھن کو اپنے سینے میں لیے ہوئے تھے، وہ کسی سے مخفی نہیں ، اِس مضمون میں اُن کے مناقب پر روشنی ڈالنا ہی مقصودِ اصلی نہیں ہے (اگرچہ! ضمناً یہی کچھ سامنے آئے گا) بلکہ اس تحریر سے مقصود اپنی نسبت اُس عظیم ہستی کے ساتھ جوڑنا ہے کہ مجھے بھی اُستاذِ محترم رحمہ اللہ کے سامنے کچھ لمحات بیٹھنے کا شرف حاصل ہے، یقینا یہ مجھ جیسوں کے لیے قابلِ افتخار، باعثِ مسرت اور ذخیرہ آخرت ہے، نیز! اپنے ہم سفر طلبہ ساتھیوں کے ذہنوں میں اُستاذِ محترم رحمہ اللہ سے متعلق وابستہ یادوں کو تروتازہ کرنا ہے۔
مجھ سمیت دیگر طلبہ کا ایک جم غفیر مدرسہ عربیہ رائے ونڈ کی قدیم عمارت (جس کے خدوخال یاحدود واربعہ کو بھی سمجھنا یا سمجھانا چاہیں توشاید ممکن نہ ہو) کے دارِ خامس میں بیٹھے ہوئے انتظار کے پُر مشقت لمحات سے گزر رہا تھا، کہ ہمیں بتلایا گیا تھا، کہ ابھی کچھ دیر بعد مدرسہ کے قواعد وضوابط اور پابندیاں پڑھ کے سنائی جائیں گی، جس میں تمام طلبہ اور اُن کے سرپرستوں کی شرکت لازمی ہے۔خیر! کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اُستاذِ محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا جمشید علی خان رحمہ اللہ تشریف لائے، اور جلوہ افروز ہوئے، اُستاذِ محترم کی بارعب شخصیت اور جاہ و جلال کا اثر تھا کہ پورے ہال میں ایسا سکوت اور فضا میں طمانینت تھی کہ سانس تک کی آواز اس پُر سکون ماحول میں تلاطم پیدا کر رہی تھی، اُستاذِ محترم رحمہ اللہ نے کچھ دیر گفتگو فرمائی: جو لوحِ دل ودِماغ پر کچھ اِس طرح سے نقش ہو گئی کہ آج بھی اُن ہدایات کے نقوش پوری طرح تروتازہ ہیں، خلاصۃً کچھ باتیں یہ تھیں: بھائیو! تم سب اپنی اپنی اولادوں کو، اپنے عزیزوں کو دینی تعلیم کے حصول کی نیت سے داخل کروانے آئے ہو، تو اچھی طرح یہ بات سُن لو اور اپنے اپنے دِلوں دِماغ میں بٹھا لو اور جا کر اپنے گھر والوں کو سمجھا دو، کہ آج کے بعد ہمارا یہ بیٹا دنیاوی اعتبار سے ہمارے کسی کام کا نہیں ، ہم نے اسے دین کے لیے فارغ کر دیا ہے“۔پھر پوچھا ! ”جی عزم کر لیا؟ اچھا یہ بتاؤ! کہ جب کالے بالوں والی آئے گی ، اور دنیا کمانے کو کہے گی، تو پھر کیا کرو گے؟ “فرمایا: بھائیو!”اس لیے دین کی بنیاد پر رشتہ تلاش کرنا ہے، اور اُسے پہلے سے ہی سمجھا دینا ہے کہ ہمارا بیٹا تو ہمیشہ کے لیے دین کے لیے وقف ہو چکا ہے“۔
1951 میں دار العلوم دیوبند میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی دیوبندی اور حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیَاوی رحمہم اللہ تعالیٰ جیسی نابغہ روزگار ہستیوں کے سامنے زانوئے تلمذ کیا اور دورہ حدیث کی تکمیل فرمائی، فراغت کے فورا بعد ملکِ پاکستان کی طرف ہجرت فرمائی، صوبہ سندھ کے ضلع ٹنڈوالہ یار میں واقع ایک بڑے مدرسہ میں حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے زیرِ سایہ اپنے سفرِ تدریس کا آغاز فرمایا، بارہ سال تک اسی جگہ شب وروز ابتدائی کتب سے لے کر انتہائی کتب تک کی تدریس میں مشغول رہے، اس وقت معاشرے اور عامۃ الناس مسلمانوں کی دینی زندگی کی پستیوں کو دیکھتے دیکھتے دعوت وتبلیغ کی طرف قلبی رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا، حتیٰ کہ1964 میں آپ نے تبلیغ میں سات چلّے لگائے، اُس کے بعد آپ کا تقرر مدرسہ عربیہ رائے ونڈ میں ہو گیا، اِس سلسلے میں خاص بات یہ ہے کہ اُستاذِ محترم رحمہ اللہ جب ٹنڈوالہ یار سے چھوڑ کے رائے ونڈ تشریف لائے تو وہ وہاں صحیح البخاری پڑھاتے تھے، لیکن رائے ونڈ میں آپ کی تدریس کی ابتدا شعبہ حفظ اور تعلیم الاسلام کی تدریس سے ہوئی، اُس وقت سے لے کر 1997 تک درجہ موقوف علیہ تک کی تمام کتب پڑھانے کا آپ کو موقع ملا،1997 میں مدرسہ عربیہ رائے ونڈ کے بڑے اُستاذ حضرت محمد ظاہر شاہ صاحب رحمہ اللہ تھے، اُن کی وفات کے بعد اُستاذِ محترم رحمہ اللہ کو بڑے استاذ کے رتبے سے پہچانا جانے لگا، پھر 1999 میں جب دورہ حدیث کی ابتداءہوئی تو شیخ الحدیث کے مرتبے پر بھی آپ کو ہی فائز کیا گیا، اُس وقت سے 2010 تک مکمل بخاری شریف اُستاذِ محترم رحمہ اللہ ہی پڑھاتے رہے، پھر علالت کی بناءپر صحیح البخاری کا ایک حصہ اُستاذِ محترم رحمہ اللہ کے پاس ہی باقی رہا، جو اِمسال تک جاری وساری تھا اور بقیہ حصے دیگر کبار اساتذہ میں تقسیم کر دئیے گئے۔اِس طرح آپ کے علومِ ظاہریہ اور باطنیہ سے فیض حاصل کرنے والوں کی ملک وبیرون ملک میں ہزاروں سے متجاوز ہو گئی، صرف اِمسال مدرسہ عربیہ رائے ونڈ سے دورہ حدیث شریف مکمل کر کے دستارِ فضیلت حاصل کرنے والے آپ کے تلامذہ کی تعداد پانچ سو باسٹھ (562)ہے، جن میں پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک (مثلاً: برونائی، سری لنکا، تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا، فلپائن، تُرکی، حبشہ، کمبوڈیا، چین، ناروے، سوڈان، سعودی عرب، تیونس، اُردن، روس، قطر، طائف، صومالیہ، مقدونیہ، البانیہ، جنوبی افریقہ، روس، کرغیستان، تاجکستان، قازقستان اور افغانستان وغیرہ)کے ننانوے (99)طلبہ شامل ہیں، وللہ الحمد!
دعوت وتبلیغ کے میدان میں بھی اُستاذِ محترم رحمہ اللہ نے خوب ترقی کی، تبلیغی مرکز رائے ونڈ ، پاکستان میں تبلیغی جماعت کی عالمی شوریٰ کے رُکن و امیر تبلیغی جماعت پاکستان محترم حاجی عبد الوہاب صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے بعد بڑی ہستی اُستاذِ محترم رحمہ اللہ کو ہی تسلیم کیا جاتا تھا، مرکز میں ہونے والے روزانہ اور ماہانہ مشوروں میں حضرت حاجی صاحب دامت برکاتہم کے بعد آپ ہی ذمہ دار ہوتے تھے، انہی کا فیصلہ حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا، جن ایام میں حاجی صاحب دامت برکاتہم شدید علیل ہوئے یا ہوتے تھے، بیانِ فجر کی ذمہ داری آپ کی ہی ہوتی تھی، اس کے علاوہ اللہ کے راستے میں جانے والی جماعتوں کو دی جانے والی ہدایات اور وقت لگا کر واپس جانے والے احباب میں اختتامی دعا اور مصافحہ بھی اکثر آپ کے ذمہ لگتا تھا۔
اُستاذِ محترم رحمہ اللہ نے1928 میں اس دنیا میں آنکھ کھولی اور 3نومبر /2014 میں انتقال ہوا، اُستاذِ محترم رحمہ اللہ زندگی کے چھیاسی سال اس طرح گزار کے گئے ہیں کہ اُن پر فخر کیا جا سکتا ہے، یقیناً اللہ تعالیٰ بھی اُن سے راضی ہوں گے اور آخرت میں اُن کے ساتھ اعزاز واکرام والا معاملہ فرمائیں گے، ان شاءاللہ العزیز