تذکرۃ المحدثین:

User Rating: 2 / 5

Star ActiveStar ActiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تذکرۃ المحدثین:
……مفتی شبیر احمد حنفی ﷾
امام شعبہ بن الحجاج﷫
حجاج کہتے ہیں کہ ایک دن امام اپنے گدھے پر سوار کہیں جا رہے تھے۔ راستہ میں سلیمان بن مغیرہ ملے۔ فقر و فاقہ کی شکایت کی اور تذکرہ کیا کہ غربت نے گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ امام بولے:
وَاللهِ ما اَمْلِكُ غيرَ هذا الحِمَارِ•
واللہ! اس گدھے کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چیز نہیں ہے۔
یہ کہہ کر گدھے سے اترے اور گدھا سلیمان کے حوالے کر دیا۔
ایک بار آپ کے پڑوسی نے دامنِ حاجت پھیلایا اور امداد کی درخواست کی۔ دینے کے لیے فی الفور کچھ نہ تھا، فرمایا: آپ نے ایسے وقت میں سوال کیا ہے کہ میرے پاس دینے کو کچھ نہیں، اچھا میری سواری کا یہ گدھا ہی لیتے جائیں۔ اس شخص نے پس و پیش سے کام لیا لیکن آپ اصرار کرتے رہے تو اس نے گدھا لے لیا۔ وہ شخص سواری لے کر آگے گیا ہی تھا کہ آپ کے بعض احباب نے دیکھ لیا، پہچانا کہ یہ تو امام کی سواری کا گدھا ہے۔ احباب آپ کی سخاوت پسند طبیعت سے بخوبی واقف تھے، صورت حال سمجھ گئے، پانچ دراہم میں اس سائل سے گدھا خریدا اور لا کر امام کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا۔
(تاریخ بغداد: ج 7ص306)
سخاکی صفت رکھنے والے یہ انسان امام شعبہ بن حجاج تھے۔ اس کی وجہ سے آپ کا لقب ”أبو الفقراء وأمُّهم“پڑ گیا تھا۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص307)
نام و نسب:
نام ”شعبہ“، کنیت ”ابو بِسطام“ اور والد کا نام ”حجاج“ تھا۔ سلسلہ نسب یوں ہے:
ابو بِسطام شعبۃ بن الحجاج بن الورد الازدی العتکی الواسطی•
(سیر اعلام النبلاء: ج6 ص116)
سن و جائے ولادت:
آپ کے سنِ ولادت میں تین قول ہیں:
80 ہجری (سیر اعلام النبلاء: ج6 ص116)
82 ہجری (تہذیب التہذیب: ج 3ص169)
83 ہجری (الانساب: ج4 ص129)
امام شعبہ کے عام تذکرہ نگاروں نے آپ کا جائے ولادت ”واسط“ لکھا ہے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص302، الکاشف: ج1 ص485)
لیکن علامہ سمعانی (ت562ھ) نے تصریح کی ہے:
کان مولدہ… بنهرناب قرية أسفل من واسط•
(الانساب: ج4 ص129)
کہ آپ کی ولادت واسط کے قریب ایک دیہات ”نہرناب“ میں ہوئی۔
ممکن ہے کہ آپ کی ولادت تو ”نہرناب“ میں ہوئی ہو لیکن آپ کے والد ترک سکونت کرکے شہرواسط چلے آئے ہوں اور یہیں قیام پذیر ہو گئے ہوں۔
نسبت الازدی العتکی:
علامہ احمد بن محمد البخاری الکلاباذی (ت398ھ) لکھتے ہیں:
آپ کو عبدۃ الاغر العتکی سے نسبتِ ولاء حاصل تھی۔ عبدۃ موصوف بصرہ کے ایک مشہور آدمی یزید بن مہلب العتکی الازدی کے مولیٰ تھے۔
(الہدایۃ و الارشاد: ص354)
نسبت ”العتکی“ کے متعلق علامہ سمعانی (ت562ھ) لکھتے ہیں:
هذه النسبة إلى " عتيك " وهو بطن من الازد، وهو: عتيك بن النضر•
(الانساب: ج4 ص129)
ترجمہ: ”العتکی“ عتیق کی طرف نسبت کی وجہ سے ہے۔ یہ قبیلہ ”ازد“ کی ایک شاخ تھی جو عتیک بن النضر کا خاندان تھا۔
اسی بالواسطہ نسبت کی وجہ سے آپ بھی ”الازدی العتکی“ کہلائے۔
علمی زندگی کا آغاز:
امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے ابتدائی ایام واسط میں گزرے جو علم و ادب کا مشہور مرکز تھا۔ خداداد صلاحیتوں کو علم و فن کا یہ ماحول ملا تو ان میں جِلا پیدا ہوئی۔ چنانچہ آپ کی علمی زندگی کا آغاز شعر و ادب سے ہوا۔ اس فن میں وہ کمال حاصل کیا کہ اصمعی جیسے ماہر فن یہ کہنے پر مجبور ہو گئے:
لم نر أحدا قط اعلم بالشعر من شعبة•
(تاریخ بغداد: ج 7ص304)
ہم نے امام شعبہ سے زیادہ شعر کا ماہر نہیں دیکھا۔
آپ نے اس فن کو مستقل نہ اپنایا بلکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز جب کانوں میں پڑی تو اسی کی طلب کی جستجو شروع کر دی۔ خود فرماتے ہیں:
كنتُ الزمُ الطرماحَ أسأله عن الشعر فمررت يوما بالحكم بن عتيبة وهو يقول حدثنا يحيى بن الجزار وقال حدثنا زيد بن وهب وقال حدثنا مقسم فأعجبنى وقلت هذا أحسن من الذي اطلب أعنى الشعر قال فمن يومئذ طلبت الحديث•
(تاریخ بغداد: ج 7ص304)
کہ میں زیادہ ترطرماح (مشہور شاعر)کے پاس رہتا تھا اور اس سے شعروشاعری کے متعلق پوچھتا رہتا تھا۔ ایک دن مشہور محدث حکم بن عتیبہ کی مجلسِ درس سے گزرا تووہ اس انداز سے احادیث مبارکہ بیان فرما رہے تھے: ”حدثنا يحيى بن الجزار وقال حدثنا زيد بن وهب وقال حدثنا مقسم“ اس طرز سے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی آواز جب میرے کانوں میں پہنچی تو مجھے بہت اچھی لگی۔میں نے اسی وقت دل میں سوچا کہ شعروشاعری جس کی طلب اب تک میں نے کی ہے اس کے مقابلہ میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب بدرجہا بہتر ہے! چنانچہ اس دن سے میں علم حدیث کے حصول میں لگ گیا۔
اسی شوق کا مظہر تھا کہ آپ نےاس جلیل القدر محدث حکم بن عتیبہ کی مجلسِ درس میں حاضری دینا شروع کر دی اور ان کی احادیث میں وہ کمال حاصل کیا کہ امام احمد بن حنبل (ت241ھ)فرمایا کرتے تھے:
شعبة أثبت في الحكم من الاعمش وأعلم بحديث الحكم ولولا شعبة ذهب حديث الحكم•
(تہذیب التہذیب: ج3 ص167)
کہ امام شعبہ بن حجاج امام اعمش سے زیادہ محدث حکم بن عتیبہ کی احادیث کے محافظ اور اس کا علم رکھنے والے ہیں، اگرشعبہ نہ ہوتے توحکم کی مرویات ضائع ہوجاتیں۔
فنِ حدیث میں جو آ گہی آپ کو میسر آئی جب اس کا موازنہ گزرے ہوئے ایام کے ساتھ کرتے تو افسوس کے ساتھ تلامذہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے:
لولا الشعر لجئتكم بالشعبي.
(تذکرۃ الحفاظ: ج1 ص146)
میں اگرشاعری میں نہ لگ گیا ہوتا توامام شعبی کی احادیث تمہارے پاس لاتا
طلبِ حدیث میں انتھک کوشش:
امام شعبہ بن الحجاج رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کے ممتاز و جید محدثین سے روایت لی ہے۔ علامہ شمس الدین ذہبی اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے آپ کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ آپ کے اساتذہ حدیث میں چارسو تابعین شامل ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء: ج6 ص118، تہذیب التہذیب: ج3 ص169)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے شیوخ کی جوفہرست دی ہے اس میں تین سو سے اوپرنام ہیں، اس کے بعد لکھا ہے کہ امام شعبہ نے کوفہ کے ان تیس شیوخ حدیث سے بھی روایت لی ہے جن سے امام سفیان ثوری بھی روایت نہ لے سکے۔
(تہذیب التہذیب: ج3 ص169)
شیوخ حدیث کی اتنی بڑی تعداد سے حدیث لینے میں جو دشواری کسی محدث کو پیش آتی ہے وہ کسی طالب علم سے مخفی نہیں، جب کہ واقعہ یہ ہو کہ یہ شیوخ کسی ایک دومقام پر نہ ہوں بلکہ دشوار گزار راستوں اور کئی کئی دنوں کے سفر کی صعوبتوں کے بعد میسر آتے ہوں۔ مزید اِس زمانے کے ذرائع آمد و رفت کے بجائے اُس زمانہ کے محدود حمل ونقل کے ذرائع پر انحصار کیا جاتا ہو جہاں گدھے، اُونٹ یا کسی خوش قسمت کوگھوڑے میسر ہوجاتے ہوں اور ان کے ذریعہ سینکڑوں اور ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہو۔ پھراُس زمانے میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ ایک ایک حدیث کے لیے بسااوقات ہزاروں میل کا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ اس ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے ان مشکلات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو امام شعبہ کو طلب حدیث میں پیش آئی تھیں کہ ایک طرف توآپ کے والد کا انتقال بچپن ہی میں ہوچکا تھا اور دوسری طرف غربت نے آپ کے آنگن میں بسیرا کر لیا تھا جس کی وجہ سے آپ نے انتہائی عسرت کی حالت میں تعلیم حاصل کی، خود فرماتے تھے:
بعتُ طست أمي بسبعة دنانير.
(تذکرۃ الحفاظ:ج1 ص146 )
عسرت کی وجہ سے میں نے سات دینار میں اپنی والدہ کا طشت فروخت کرڈالا تھا۔
روایتِ حدیث میں خدمات:
امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم کی ابتداء تو شعر و ادب سے ہوئی تھی لیکن جب دینی علوم خصوصاً علم حدیث کی طرف توجہ مبذول ہوئی تو آپ کی امامت و جلالتِ شان ضرب المثل بن گئی۔ قابلِ قدر محدثین پروانہ وار آپ کے ارد گرد جمع ہوتے اور چشمہ فیض سے سیراب ہوتے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے تھے:
عن علي بن المديني له نحو الفي حديث•
(تہذیب الکمال: ج4 ص589)
کہ علی بن المدینی کے واسطہ سے ان کی دوہزار حدیثیں ہم تک پہنچی ہیں۔
امام ابوداؤد طیالسی فرماتے تھے:
سمعت من شعبة سبعة آلاف حديث•
(السیر للذہبی: ج6 ص118)
کہ میں نے شعبہ سے سات ہزارا حادیث کا سماع کیا ہے۔
علامہ ذہبی نے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ احادیث کی مذکورہ تعداد آثار اور احادیث مقطوعہ سمیت ہے۔
(ایضاً)
کثرت روایت کے پیش نظر آپ کا شمار ان پانچ نامور محدثین میں ہوتا ہے جن کے بارے میں امام عثمان بن سعید الدارمی(ت255ھ) فرماتے ہیں:
”جس شخص نے ان پانچ محدثین کی احادیث کو جمع نہ کیا وہ اس علم میں مفلس ہے، اس لیے کہ یہ پانچوں نادرہ روزگار ہستیاں ہیں جن کے نام یہ ہیں: امام شعبہ بن حجاج، امام سفیان الثوری، امام مالک بن انس، امام حماد بن زید اور امام سفیان بن عیینہ رحمہم اللہ۔“
(فتح المغیث ج3ص326)
شیوخ و تلامذہ:
آپ کے شیوخ حدیث کی تعداد بہت زیادہ ہے، چند ناموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے: ابان بن تغلب، ابراہیم بن عامر بن مسعود، ابراہیم بن محمد بن المنتشر، امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت، ابراہیم بن مسلم الہجری، ابراہیم بن مہاجر، ابراہیم بن میسرۃ، ابراہیم بن میمون، الازرق بن قیس، اسماعیل بن ابی خالد، اسماعیل بن رجاء، اسماعیل بن سمیع، اسماعیل بن عبدالرحمن السدی، اسماعیل بن علیہ، الاسود بن قیس، اشعث بن سوار، اشعث بن ابی الشعثاء، اشعث بن عبداللہ بن جابر، انس ابن سیرین، ایوب بن ابی تمیمہ، ایوب بن موسىٰ، بدیل بن میسرۃ، برید بن ابی مریم، بسطام ابن مسلم وغیرہ۔
(جامع المسانید: ج2 ص319، 320، تہذیب التہذیب: ج3 ص 164 تا 167)
آپ کےسرچشمۂ علم سے جن تشنگانِ علم نے فائدہ اُٹھایا ان کی صحیح تعداد تونہیں بتائی جاسکتی۔ اہلِ تذکرہ نے بھی کچھ نام گنائے ہیں۔ امام نووی (ت676ھ) چند ائمہ کے نام لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:
وخلائق لايحصون من كبار الأئمة•
(تہذيب الأسماء:ج1 ص344)
کہ اس کے علاوہ جو آپ کے ممتاز تلامذہ ہیں ان کا شمار بھی نہیں کیا جاسکتا۔
چند تلامذہ کے نام یہ ہیں:
ایوب سختیانی، سلیمان بن مہران الاعمش، سعد بن ابراہیم، محمد بن اسحاق (یہ حضرات آپ کے شیوخ بھی ہیں) جریر ابن حازم، سفیان الثوری، الحسن بن صالح، یحیى بن سعید القطان، عبد الرحمٰن بن مہدی، وكیع، ابن ادریس، ابن المبارك، یزید بن زریع، ابو داؤد الطیالسی، ابو الولید الطیالسی، ابن علیۃ، ابراہیم بن طہمان، ابو اسامۃ، شریك القاضی، ابو زید سعید بن الربیع، سلیمان بن حرب، ابو عاصم الضحاك بن مخلد النبیل اور عاصم بن علی الواسطی، علی بن المدینی۔
(تہذیب التہذیب: ج3 ص167)
تعدیل و توثیق امام شعبہ:
[۱] امام ابو حنیفہ (ت150ھ)
نِعم حَشو المصرِ هو•
(تاریخ یحیٰ بن معین: ج4 ص253)
کہ امام شعبہ اپنے شہرکے بھاری بھر کم محدث ہیں۔
[۲]امام سفیان ثوری (ت161ھ)
شعبة أمير المؤمنين في الحديث.
(تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج1 ص144)
امام شعبہ فنِ حدیث میں امیر المؤمنین ہیں۔
[۳]یزید بن زریع (182)
كان شعبة من اصدق الناس في الحديث.
(تہذیب الکمال: ج 4ص590)
امام شعبہ میدان حدیث میں دیگر محدثین سے زیادہ سچے ہیں۔
[۴]امام شافعی (ت204ھ)
لولا شعبة ما عرف الحديث بالعراق.
(شذرات الذہب: ج1 ص402)
اگرامام شعبہ نہ ہوتے توعراق میں علمِ حدیث اتنا زیادہ معروف نہ ہوتا۔
[۵]علامہ ابن سعد (ت230ھ)
ثقةً مأمونا ثبتا صاحب حديث حجة.
(الطبقات الکبریٰ: ج7 ص207)
امام شعبہ ثقہ، مامون، فن میں پختہ کار، محدث اور حجت تھے۔
[۶]امام یحیٰ بن معین (ت233ھ)
شعبة إمام المتقين.
(مغانی الاخیار: ج2 ص23)
امام شعبہ متقین کے امام ہیں۔
[۷]امام احمد بن حنبل (ت241ھ)
لم يكن فى زمن شعبة مثله فى الحديث، ولا أحسن حديثًا منه.
(تہذیب التہذیب: ج3 ص167)
امام شعبہ کے زمانے میں فنِ حدیث میں آپ جیسا عالم اور روایت حدیث میں آپ جیسا بہترین محدث نہیں تھا۔
[۸]ابو حفص عمر بن شاہین (ت385ھ)
الحافظ العلم، أحد أئمة الاسلام وعلمائه الجهابذة النقاد.
(تاریخ اسماء الثقات: ص9)
امام شعبہ حدیث کے حافظ، جید عالم اور دین اسلام کے ان ائمہ و علماء میں سے تھے جو حدیث کی نقد و پرکھ میں ممتاز شمار ہوتے تھے۔
[۹]ابو بكر ابن منجويہ (ت428ھ)
وكان من سادات أهل زمانة حفظا وإتقانا وورعا وفضلا•
(رجال مسلم لابن منجویہ: ج1 ص299)
امام شعبہ مضبوط حافظہ، قوتِ ضبط اور تقویٰ و فضیلت میں اپنے دور کے سرتاج علماء میں شمار کیے جاتے تھے۔
[۱۰]علامہ ذہبی (ت748ھ)
ثبت حجة.
(الکاشف: ج2 ص11)
آپ پختہ کار محدث اور حجت تھے۔
[۱۱]حافظ ابن حجر (ت852ھ)
ثقة حافظ متقن.
(تقریب التہذیب: ص301 )
آپ ثقہ، حافظ اور بہترین قوتِ ضبط کے مالک تھے۔
[۱۲]علامہ سیوطی (ت911ھ):
الحافظ العلم أحد أئمة الإسلام.
(طبقات الحفاظ: ص90 )
آپ حافظ، بلند پایہ مقتدا اور ائمہ اسلام میں سےایک تھے۔
فنِ جرح و تعدیل میں امامت:
آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نے اس بات کی پیشنگوئی فرمادی تھی کہ میری امت میں ایسے دجال اور جھوٹے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو حدیثیں گھڑ کر تمہارے سامنے پیش کریں گے جن کو نہ تم نے سنا ہوگا اور نہ تمہارے آباء و اجداد نے، اس لیے ان سے بچ کر رہنا۔
(مقدمہ صحیح مسلم)
اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین روایتِ حدیث کے معاملہ میں انتہائی احتیاط سے کام لیا کرتے اور خوب تحقیق کے بعد احادیث قبول کرتے تھے۔ علامہ ذہبی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
وکان اولَ من احتاط فی قبول الاخبار•
(تذکرۃ الحفاظ: ج1ص9)
کہ آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے احادیث قبول کرنے میں احتیاط سے کام لیا۔
خلافت راشدہ کے آخری دور میں عبداللہ بن سبا جیسے منافق نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر احادیث گھڑنا شروع کیں جس کی وجہ سے کئی فتنوں نے جنم لیا۔
(لسان المیزان ج3ص289)
وضع حدیث کے اس فتنے کے پیش نظر اہلِ علم نے اہتمام کے ساتھ سند حدیث اور رجال کی تحقیق کا التزام کیا اور بغیر سند کے احادیث نقل کرنے سے احتراز کرنے لگے۔ اب ضروری تھا کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس کی وجہ سے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت بھی ہوجائے اور ان لوگوں کی نشاندہی بھی ہوجائے جو اس فن میں مجروح اور متکلم فیہ ہیں تاکہ ان کی روایات سے بچا جا سکے۔ اس کے لیے سوائے فنِ اسماء الرجال کے اور کوئی راستہ نہ تھا یعنی راویانِ حدیث کے مکمل حالات (نام، ولدیت، کنیت، لقب، شہر، عدالت، حافظہ، اساتذہ، تلامذہ، محدثین کی نظر میں راوی کا مقام وغیرہ) کو قلم بند کیا جائے اور کچھ اصول مقرر کیے جائیں جن سے قبول وردِ روایت کا معیار معلوم ہوسکے۔ چنانچہ باقاعدہ طور پر اس فن کی تدوین کا سہرا امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ کے سر ہے۔ امام ابو بكر ابن منجويہ (ت428ھ) آپ کے منصبِ سیادت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وهو أول من فتش بالعراق عن أمر المحدثين وجانب الضعفاء والمتروكين وصار علما يقتدى به وتبعه عليه بعدہ أهل العراق.
(رجال مسلم لابن منجویہ: ج1 ص299)
آپ پہلے محدث ہیں جنہوں نے عراق میں محدثین کے حالات کا بنظرِ غائر جائزہ لیا اور ضعفاء و متروکین سے کنارہ کشی اختیار کی۔ اس طرح آپ ایک بلند پایہ مقتدا بن گئے، اس کے بعد اہلِ عراق اس فن میں آپ کے پیرو کار بنے۔
امام نووی (ت676ھ) نے صالح بن محمد کا قول نقل کیا ہے:
أوَّلُ مَنْ تَكَلَّمَ فِی الرِّجَالِ: شُعْبةُ ثمَّ تَبِعَهُ يحيى بنُ سعيدٍ القَطَّانُ، ثمَّ بَعْدَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَيَحْيَىٰ بنُ مَعِينٍ•
(تہذيب الأسماء:ج1 ص345)
سب سے پہلے راویوں کی چھان پھٹک کا کام امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے شروع کیا، پھر اس فن میں آپ کی پیروی امام یحیٰ بن سعید القطان نے کی، ان کے بعد امام احمد بن حنبل اور امام یحییٰ بن معین اس فن میں آئے۔
اس فن کی تدوین کی وجہ سے روایت حدیث میں ضعیف و کمزور لوگوں کی بے اعتدالیاں کم ہونے لگیں اور ہر کس و نا کس کو روایتِ حدیث کی جرات نہ ہوئی۔ امام شعبہ رحمہ اللہ کی اس کوشش کو جید محدثین نے خوب سراہا۔ امام یحیی بن سعید القطان (ت198ھ) کا بیان ہے:
ليس احد احب إلى من شعبة ولا يعدله احد عندي وكان اعلم بالرجال•
(الجرح و التعدیل: ج4 ص336)
مجھے شعبہ سے زیادہ کوئی پسند نہیں اور نہ میں کسی کو ان کا ہمسر خیال کرتا ہوں، شعبہ رجال کا علم زیادہ رکھنے والے تھے۔
امام احمد بن حنبل (ت241ھ) فرماتے ہیں:
كان شعبة أمة وحده فى هذا الشأن، يعنى الرجال، وبصره فى الحديث وتثبته وتنقيته للرجال.
(مغانی الاخیار: ج2 ص26)
امام شعبہ راویانِ حدیث کو پرکھنے، حدیث مبارک کی بصیرت، معانی حدیث میں غور و خوض کرنے اور رجال کی چھان بین میں فقید المثال حیثیت کے حامل ہیں۔
قوتِ حافظہ اور روایتِ حدیث میں احتیاط:
امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ کو قوتِ حافظہ کی نعمت کا ایک وافر حصہ عطا ہوا تھا۔ لمبی احادیث کو یاد رکھنا آپ کے لیے چنداں مشکل نہ تھا۔ ایک بار امام ابن المدینی نے امام یحیی بن القطان سے پوچھا: سفیان ثوری اور شعبہ میں سے کون لمبی لمی حدیثوں کو اچھی طرح یاد رکھتا تھا؟امام یحیی بن القطان نے جواب دیا: شعبہ اس میدان میں ان سے بہت آگے تھے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص308)
اتنی قوتِ حافظہ اور صلاحیتِ ضبط کے باوجود روایت حدیث میں بڑی احتیاط فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ جب تک ایک حدیث کوکئی کئی بار نہ سن لیتے تھے اسے آگے نقل نہیں فرمایا کرتے تھے حتیٰ کہ بسااوقات ایک ایک حدیث کا سماع بیس بیس مرتبہ بھی کرتے۔ امام سفیان ثوری فرماتے ہیں:ما رأيت أحدا اورع في الحديث من شعبة يشك في الحديث الجيد فيتركه•
(تاریخ بغداد: ج7 ص308)
میں نے حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت میں شعبہ سے زیادہ محتاط کسی کونہیں پایا۔آپ کوصحیح حدیث میں بھی شک ہوجاتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے۔
خود فرماتے تھے:
لاَن اتقطّع أحبُ إليَّ من أن أقولَ لما لم أسمعْ: سمعتُ•
(تہذیب التہذیب: ج3 ص168)
مجھے یہ پسند ہے کہ میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں مگریہ پسند نہیں کہ میں نے کسی حدیث کوسنانہ ہو اور یہ کہوں کہ ”سمعت“ یعنی میں نے سنا ہے۔
احتیاط کا یہ عالم اپنے تئیں محدود نہ تھا بلکہ دوسروں کوبھی اس احتیاط کا پابند
رکھنے کی پوری کوشش کرتے تھے، چنانچہ جب کسی نااہل آدمی کوحدیث کی روایت کرتے سنتے تھے تواس کے پاس جاتے اور اس سے کہتے کہ تم حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت کرنا چھوڑ دو ورنہ میں بادشاہ کے پاس تمہاری شکایت لے جاؤں گا۔
(سیر اعلام النبلاء: ج 6ص126)
شرفِ تابعیت:
امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نے دو صحابہ؛ حضرت انس بن مالک اور حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہما کی زیارت کی ہے۔
(السیر للذہبی: ج 6ص118)
ایک قابلِ توجہ امر:
آپ کے بعض تذکرہ نگاروں نے آپ کو تبع تابعین کی فہرست میں شمار کیا ہے اور زمرہ تابعین میں ذکر نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ”صرف رؤیت صحابہ تابعیت کے لیے کافی نہیں بلکہ صحبت اور روایتِ حدیث بھی ضروری ہے۔“ واضح رہے کہ یہ مرجوح موقف ہے۔ اربابِ تحقیق کے ہاں محض رؤیتِ صحابی سے تابعیت کا شرف حاصل ہو جاتا ہے، صحبت اور روایتِ حدیث شرط نہیں۔
چند تصریحات پیش خدمت ہیں:
1: امام ابو الفضل زین ا لدین العراقی (ت806ھ) لکھتے ہیں:
الراجح الذي عليه العمل قول الحاكم وغيره في الإكتفاء بمجرد الرؤية دون اشتراط الصحبة وعليه يدل عمل أئمة الحديث مسلم بن الحجاج و أبي حاتم بن حبان و أبي عبد الله الحاكم وعبد الغنى بن سعيد وغيرهم•
(التقیید والایضاح: ص300)
تابعی کی راجح تعریف وہ ہے جو امام حاکم نے کی ہے کہ تابعی بننے کے لیے صحابی کی زیارت کافی ہے، اس کی صحبت شرط نہیں۔ یہی موقف ائمہ حدیث مثلاً امام مسلم، امام ابو حاتم بن حبان، امام ابو عبد اللہ الحاکم، امام عبد الغنی المقدسی وغیرہ کا ہے۔
2: حافظ ابن حجر عسقلانی (ت852ھ) فرماتے ہیں:
التابعي وهو: مَن لِقي الصحابي…… وهذا هو المختارُ خلافاً لمن اشترط في التابعي طول الملازمة أو صحة السماعِ•
(شرح نخبۃ الفکر: ص134)
تابعی وہ ہے جو صحابی سے ملاقات کرے۔ یہی موقف ان لوگوں کے موقف سے مختار (راجح) ہے جو تابعی کے لیے شرط لگاتے ہیں کہ اسے صحابی سے لمبا عرصہ کی صحبت اور حدیث کا صحیح سماع حاصل ہو۔
3: علامہ عبد الحئی لکھنوی (ت1304ھ) جمہور حضرات کے ہاں تابعی کی تعریف کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ثم اعلم ان جمہور علماء اصول الحدیث علی ان الرجل بمجرد اللقی و الرؤیۃ للصحابی یصیر تابعیاً•
(اقامۃ الحجۃ: ص29)
جمہور علماء اصول حدیث کا موقف یہ ہے کہ آدمی صحابی سے صرف ملاقات اور اس کی زیارت سے تابعی بن جاتا ہے۔
محققین کی ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ تابعیت کے لیے صحبت و روایت شرط نہیں۔ لہذا یہی راجح ہے کہ امام شعبہ رحمہ اللہ تابعی ہیں۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے شرفِ تلمذ:
امام شعبہ رحمہ اللہ اپنے زمانے کے عظیم الشان اور یکتائے روزگار محدث تھے۔ اس عظمت کے ساتھ ساتھ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تلمذ کا تعلق آپ کی شان و شوکت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ علامہ محمد بن محمدبن شہاب الکردری (ت827ھ) نے آپ کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تلامذہ اہل واسط میں شمار کیا ہے۔
(مناقب الامام الاعظم للکردری: ج2 ص229)
علامہ محمد بن یوسف الصالحی الشامی (ت942ھ) نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کرنے والوں کا تذکرہ کیا اور ”الشین المعجمۃ“ کے عنوان کے تحت امام شعبہ بن الحجاج کو بھی اس فہرست میں ذکر کیا۔
(عقود الجمان: ص139)
علامہ ابو المؤید محمد بن محمود الخوارزمی (ت665ھ) نے ”جامع المسانید“ میں اس تلمذ کا تذکرہ ان الفاظ سے کیا ہے:
یقول اضعف عباد اللہ: وشعبۃ رحمہ اللہ تعالیٰ مع انہ من شیخ اکثر شیوخ البخاری و مسلم یروی عن الامام ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ فی ہذہ المسانید•
(جامع المسانید: ج2 ص479)
اللہ کا ناتواں بندہ (الخوارزمی) کہتا ہے کہ امام شعبہ رحمہ اللہ تعالیٰ باوجودیکہ امام بخاری اور امام مسلم کے اکثر شیوخ کے شیخ ہیں، وہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے اِن مسانید میں روایت کرتے ہیں۔
نیز اس کتاب”جامع المسانید“ میں انہوں نے امام شعبہ کے طریق سے کچھ روایات نقل کی ہیں۔ مثلاً حدیث نمبر5559، 5560 وغیرہ
اسی تعلق کا نتیجہ تھا کہ آپ امام صاحب کا تذکرہ غایتِ ادب کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ امام طیالسی کہتے ہیں:
كان شعبة حسن الذكر لأبي حنيفة كثير الدعاء له ما سمعته قط يذكر بين يديه إلا دعا له•
(اخبار ابی حنیفۃ وأصحابہ: ص80- وسندہ صحیح)
امام شعبہ امام ابو حنیفہ کا تذکرہ اچھے الفاظ سے کیا کرتے تھے اور آپ کے لیے کثرت کے ساتھ دعا بھی کرتے تھے۔ میں نے کبھی نہیں سنا کہ آپ کے سامنے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ ہوا ہو اور آپ نے ان کے لیے دعا نہ کی ہو۔
امام شعبہ کا فقہی مذہب:
امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں اس لیے آپ مذہباً حنفی بھی ہیں۔ خطیب بغدادی (ت463ھ) اپنی سند کے ساتھ صالح بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
كان شعبةُ بصرياً مولى الأزد ومولده ومنشأه واسط وعلمه كوفى•
(تاریخ بغدد: ج7 ص302)
شعبہ بصری تھےاور ازد قبیلہ کے مولیٰ، ان کی پیدائش اور نشوو نما واسط میں ہوئی اور ان کا علم کوفی تھا۔
صرف یہی نہیں کہ ان کا علم کوفی تھا بلکہ علامہ ذہبی (ت748ھ) نے حماد بن سلمہ کے ترجمہ میں”ہدبہ“ سےنقل کیا کہ انہوں نے فرمایا:وكان شعبة رأيه رأى الكوفيين. (میزان الاعتدال: ج1 ص544)کہ امام شعبہ کوفی المذہب تھے۔
زہد و تقویٰ اور خوفِ آخرت:
امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ کی زندگی علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے حسین امتزاج سے متصف تھی۔ امام یحیٰ بن معین آپ کو ”امام المتقین“ فرمایا کرتے تھے۔
(مغانی الاخیار: ج2 ص26)
نماز نہایت خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے۔ ابو قطن کا بیان ہے:
ما رأيت شعبة قد ركع إلا ظننت أنه نسي ولا سجد إلا قلت نسي.
(تذکرۃ الحفاظ: ج1 ص145)
کہ شعبہ جب رکوع یا سجدہ کرتے تھے کہ مجھے گمان ہوتا تھا کہ شاید یہ بھول گئے ہیں، اس لیے اتنی تاخیر ہو رہی ہے۔
ابو بحر البکراوی کہتے ہیں:
ما رأيت أحدا أعبد لله من شعبة، لقد عبد الله حتى جف جلده على عظمه واسود•
(سیر اعلام النبلاء: ج6 ص120)
میں نے شعبہ سے زیادہ عبادت گزار نہیں دیکھا، کثرتِ عبادت کی وجہ سے نہایت ہی کمزور اور نحیف ہوگئے تھے اور چہرہ کا رنگ سیاہ ہوگیا تھا۔
دنیا سے بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے:
إذا كان عندي دقيق وقصب ما أبالي ما فاتني من الدنيا.
(سیر اعلام النبلاء: ج6 ص119)
اگرمیرے گھر میں آٹا اور پانی پینے کا برتن موجود رہے تومجھے اور کسی چیز کے نہ ہونے کا کوئی غم نہیں ہے۔
وفات حسرت آیات:
علم و عمل، جود و سخا، عبادت و ریاضت اور فکرِ آخرت جیسی گناگوں صفات کا مالک اور آسمان علوم حدیث کا یہ درخشاں آفتاب سن160ہجری میں غروب ہو گیا۔
(سیر اعلام النبلاء: ج6 ص128 ، تہذیب الکمال للمزی: ج4 ص592 وغیرہ) <
آپ کی وفات کی خبر سن کر امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا:مات الحديث•(تہذیب التہذیب: ج3 ص168) حدیث کا علم آج ختم ہو گیا۔
انا للہ و انا الیہ رٰجعون
مشہور محدث محمد الحبحابی کہتے ہیں کہ جب امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو میں نےسات دن بعد آپ کو خواب میں دیکھا کہ آپ مشہور زمانہ محدث امام مسعر بن کدام رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں اور دونوں پر نور کی ایک ایک قمیص تھی۔ میں نے کہا: ابو بِسطام! اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ فرمانے لگے: اللہ نے بخش دیا ہے۔ میں نے پوچھا: کیا سبب بنا؟ فرمایا: روایت حدیث میں صدق سے کام لینے، حدیث کی نشر و اشاعت کرنے اور امانتِ علم کو آگے پہنچانے کی وجہ سے۔ پھر آپ نے یہ اشعار پڑھے:
حَباني
 
إلهي في
 
الجِنانِ

بقُبَّةٍ

شَرابي
 
رَحيقٌ

في الجِنانِ وحِلْيَتي

وَنَقْلِي

لِثَامُ الحُورِ والله خَصَّني

وَقال ليَ

الرّحمٰنُ: يا شُعْبةُ الذي

تَنَعَّمْ

بقُرْبي إِنَّني عنك راضي

كَفٰى

مِسْعَرًا عِزًّا بأَنْ سَيَزُورُني

لَها أَلْفُ
 
بابٍ

من لُجَينٍ وجَوهَرُ

من

الذَّهَبِ الاِبْريزِ والتَّاجُ أزْهَرُ

بقَصرٍ

عَقيقٍ، تُرْبةُ القصرِ عنبَرُ

تَبَحَّرَ في

جَمْعِ العُلُومِ فأكْثَرُ

وعن

عبديَ القوَّامِ باللَّيلِ مِسعَرُ

فأكْشِفُ

حُجْبي ثمّ أدنيه يَنْظُرُ

(سیر اعلام النبلاء: ج6 ص125)
1: میرے پروردگارنے جنت میں مجھے ایسا محل عطا کیا ہے جو چاندی اور جواہرات کے ہزار دروازوں سے مزین ہے۔
2: جنت میں میری خاطر مدارت خالص شراب سے کی جاتی ہے جس میں مشک کی آمیزش ہے، میں خالص سونے کے زیورات پہنتا اور سر پر چمکدار تاج سجاتا ہوں۔
3: شراب کے ساتھ بطور میوہ حوروں کے نقاب (یعنی حسین چہروں) سے لطف و اندوز ہوتا ہوں، اللہ نے مجھے سرخ موتی سے بنا محل عطا کیا ہے جس کی مٹی عنبر کی ہے۔
4: خدائے رحمٰن نے مجھے فرمایا: شعبہ! تو نے تمام علوم میں خوب مہارت حاصل کی۔
5: اب میری قربت کی لذتوں سے خوب لطف حاصل کرتے رہو، میں تم سے اور راتوں کو قیام کرنے والے اپنے بندے مسعر سے راضی ہوں۔
6: مسعر کی عزت افزائی کے لیے یہی اعزاز کافی ہے کہ عنقریب وہ میری زیارت کرے گا، جب میں حجاب اٹھاؤں گا اور اس کے قریب ہوں گا تو وہ مجھے دیکھ سکے گا۔
تصانیف:
مؤرخین نے امام شعبہ رحمہ اللہ کی دو تصانیف کا ذکر کیا ہے۔
(1): تفسیر القرآن الكريمعلوم قرآن کی ترویج و اشاعت کے لیے آپ نے یہ تفسیر لکھی تھی۔ صاحب کشف الظنون (ج1 ص451) نے ”تفسیرشعبۃ بن الحجاج“ کے نام سے اس تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ عصرِ حاضر میں سے عمر رضا کحالہ نے بھی ”معجم المؤلفین“(ج4 ص301)میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ تفسیر اب چھپی ہوئی میسر نہیں ہے اور نہ ہی امام شعبہ رحمہ اللہ کے جدید تذکرہ نگاروں نے اس کی طباعت کی کوئی بات کی ہے۔ آپ کی اس تالیف سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ دوسری صدی کے ابتدائی زمانہ ہی سے علم تفسیر کی بھی تدوین شروع ہوگئی تھی۔
(2): كتاب الغرائب فی الحديث
علامہ زرکلی اور شیخ عمر رضا کحالہ نے اس کا تذکرہ آپ کی تصنیف کے طور پر کیا ہے۔
(الاعلام للزرکلی: ج3 ص164، معجم المؤلفین لعمر رضا کحالہ: ج4 ص301)
لیکن اس کی طباعت بھی ابھی تک منظرِ عام پر نہیں آ سکی۔