رکاوٹیں دور کریں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
رکاوٹیں دور کریں!!!
……امیر افضل اعوان
اسلام کی آفاقی تعلیمات ہمیں دوسروں کے کام آنے اور ان کے لئے آسانی پیدا کرنے کا حکم دیتی ہیں، اسی طرح ظلم و ستم، جبر و جور سے گریز کی ہدایت کے ساتھ ساتھ اسلام ہمیں معاشرہ میں رہنے والے افراد کے لئے بہتر روابط استوار کرتے ہوئے حسن سلوک، نیکی، اخوت، بھائی چارہ اور محبت و شفقت کا درس دیتا ہے، اسلام میں دنیا و آخرت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ان کی ابدی وفانی حیثیت بھی نمایاں کی گئی ہے اور خالق کائنات نے انسان کے لئے جزاءاور سزا کا معیار بھی مقرر کردیا ہے۔ اسی طرح انسان کے لئے دنیا کو دارامتحان قرار دیتے ہوئے ہر رشتہ و تعلق کے حقوق و فرائض بھی واضح کردئیے ہیں تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے، اسلام میں کسی کے کام آنے،ایک دوسرے کی تکلیف دور کرنے اور راہ سے رکاوٹیں ہٹانے کی بھی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے مگر اس کے برعکس ہم دوسروں کے لئے مشکلات پیداکرکے اور ان کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے خوش ہوتے ہیں حالانکہ کسی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرناتو ایک طرف۔ اسلام ہمیں ویسے ہی راہ کی رکاوٹیں دور کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس کااجر اتنا زیادہ بیان کیا گیا ہے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کسی راستہ میں چلا جارہا تھا کہ اس نے راستے میں کانٹوں کی ایک شاخ پڑی ہوئی دیکھی تو اس کو ہٹا دیا پس اللہ تعالیٰ نے اس کا ثواب اسے یہ دیا کہ اس کو بخش دیا “
)صحیح بخاری، جلد اول، حدیث628 (
غور فرمائیے خلق خدا کی راہ سے کسی رکاوٹ کو دور کرنا کس قدر باعث ثواب ہے کہ اللہ پاک نے صرف ایک کانٹوں بھری شاخ پر بخشش کا عندیہ دے دیا ہے ، ایک اور حدیث مبارک میں بیان ملتا ہے کہ راہ کی رکاوٹیں دور کرنا بھی صدقہ ہے۔
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا کہ راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹا دینا بھی صدقہ ہے“
)صحیح بخاری، جلد اول، حدیث2366(
راستہ سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا بھی کتنی اہمیت کا حامل ہے کہ اجتماعی مفاد اور خلق خد اکی بھلائی کے نظریہ سے اس کو صدقہ کادرجہ دے دیا گیا ہے۔
اسلامی تعلیمات کے برعکس ہم کسی بےمار معاشرتی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے تجاوزات کی شکل میں راستے کی رکاوٹیں اور دوسروں کی مشکلات بڑھانے کے عادی ہوچکے ہیں ، مہذب معاشرہ میں پیدل چلنے والوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے ان کے لئے نہ صرف فٹ پاتھ بنائے جاتے ہیں بلکہ زیبرا کراسنگ پر ٹریفک کارک جانا بھی معمول کی بات تصور کیاجاتا ہے اور ہر شخص اس کی پابندی کو لازم جانتے ہوئے ان ضوابط کو ملحوظ رکھتا ہے۔
مگر ہمارے معاشرہ میں جہاں قانون شکنی کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے اسی طرح ہمارے ہاں زیبرا کراسنگ ہو بھی تو وہاں اس کو خاطر میں نہیں لایا جاتا اور فٹ پاتھ تو یہاں دکانداروں کے قبضوں کی شکل میں ویسے ہی غائب ہوجاتے ہیں ، یہی نہیں بلکہ ہم تو سڑکوں پر بھی تسلط جمانا اپنا وراثتی حق سمجھتے ہیں ،حالانکہ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت میں اس عمل کو پسندنہیں فرمایا۔
”حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میری امت کے اچھے اور برے اعمال مجھ پر پیش کئے گئے تو میں نے ان کے اچھے اعمال میں سے اچھا عمل راستہ میں سے تکلیف دینے والی چیز کا دور کردینا پایا اور میں نے ان کے برے اعمال میں سے مسجد میں تھوکنا اور اس کا دفن نہ کرنا پایا“
) صحیح مسلم، جلد اول، حدیث1228(
راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹادینا کس قدر اہمیت و برکت کا حامل ہے کہ اسے ہمارے پیارے رسول ﷺ نے خود اپنی امت کے لئے پسند فرمایا مگر ہم اس پر بھی توجہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ اسلام میں راستہ کے مشکلات کے خاتمہ کے حوالہ سے بہت تاکید کی گئی ہے، یہاں تک کہ اسے حیاءاور ایمان کی شاخ قرار دیا گیا ہے:
” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایمان کی کچھ اوپر ستر یا کچھ اوپر ساٹھ شاخیں ہیں جن میں سب سے بڑھ کر لَا اِلٰہ اِ لَّا اللہ کا قول ہے اور سب سے ادنی تکلیف دہ چیز کو راستہ سے دور کر دینا ہے اور حیاءبھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔“
)صحیح مسلم، جلد اول، حدیث156(
” ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ جب تم راستہ میں آپس میں جھگڑ پڑو تو سات ہاتھ چھوڑ دو (راہ گیروں کے لئے)“
)سنن ابوداؤد، جلد سوم، حدیث240(
” رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہود اور نصاری کو سلام کرنے میں ابتداء نہ کرو اور جب تمہیں ان میں سے کوئی راستہ میں ملے تو اسے تنگ راستہ کی طرف مجبور کر دو۔“
) صحیح مسلم، جلد سوم، حدیث1164(
یعنی کی راستہ تنگ کرنے کا تو یہودو نصاریٰ کے لئے کہا گیا ہے اور ہم اس کے برعکس مسلمانوں کے لئے بھی راہیں مسدود کررہے ہیں۔
اسلام میں ہے کہ راستہ کے اطراف چلنا خواتین کا حق ہے ،حدیث میں ہے:” حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ سے ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اور آپ ﷺمسجد سے باہر تھے اور راستہ میں مردوں اور عورتوں سے فرمایا پرےہٹو راستہ کے درمیان میں چلنا تمہارا حق نہیں، تمہارے لیے راستوں کے کناروں پر چلنا ضروری ہے چنانچہ عورت پھر دیوار سے لگ کر چلتی تھی اس کا کپڑا دیوار کے کھردے پن کی وجہ سے دیوار میں اٹک جاتا تھا۔“
) سنن ابوداؤد (
اب یہاں یہ بھی غور فرمائیے کہ ہم راستوں کی اطراف میں ان جگہوں پر کہ جہاں خواتین کے چلنے کا حکم ملتا ہے وہاں رکاوٹیں کھڑی کرکے کس قدر گنہگار ہوتے ہیں مگر ہمیں اس کو کوئی پرواہ نہیں ،واضح رہے کہ راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کاہٹا دینا انسان کے بہتر خصائل میں شمار کیا جاتا ہے جس پر جنت کا مژدہ سنایا جارہا ہے۔
” عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ چالیس خصلتیں ہیں جن میں سب سے بہتر بکریوں کا کسی کو عطا کرنا ہے جو شخص ان میں سے کسی ایک خصلت پر بھی بغرض ثواب اور اللہ کے وعدے کو سچا سمجھ کر عمل کرے گا، تو اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا حسان کا بیان ہے کہ ہم بکری کے عطیہ کے علاوہ جن خصائل کا شمار کر سکے وہ یہ ہیں سلام کا جواب دینا چھینک کا جواب دینا راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا دور کردینا وغیرہ وغیرہ۔ “
) صحیح بخاری، جلد اول، حدیث2522(
”حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سرراہ بیٹھنے سے پرہیز کرو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے لئے راستوں میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کیونکہ ہم وہاں گفتگو کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم راستہ میں ہی بیٹھنا پسند کرتے ہو تو راستہ کا حق ادا کرو، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اس کا حق کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا نگاہ نیچی رکھنا تکلیف دہ چیز کو دور کرنا سلام کا جواب دینا نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔“
)صحیح مسلم، جلد سوم، حدیث1151(
یہاں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ راہ سے رکاوٹیں دور کرنے کے ساتھ ساتھ اگر آپ راستہ میں بیٹھیں تو اس کے بھی کچھ آداب اور حقوق ہیں مگر ہم اس پر بھی توجہ نہیں دیتے جو کہ کسی بھی طرح درست نہیں، بازاروں میں بیٹھنے والوں کو جہاں راستہ کی رکاوٹوں کاخیال رکھنا چاہئے وہیں راستہ کے حقوق بھی ادا کرنے چاہئیں ، انسان کے حقوق وفرائض کی وضاحت کرتے ہوئے اسلام میں یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ صدقہ انسان پر واجب ہے اور کس طرح واجب ہے اس کا بیان اس حدیث مبارک میں بڑی تفصیل کے ساتھ ملتا ہے: ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ انسان کے بدن کے جوڑ پر طلوع آفتاب کے ساتھ ایک صدقہ واجب ہوجاتا ہے دو آدمیوں میں انصاف و عدل کرا دینا صدقہ کسی آدمی کو اس کے سوار ہونے میں مدد دینا یا اس کی سواری پر اس کا مال و اسباب لاد دینا صدقہ ہے کسی سے اچھی بات کہنا صدقہ ہے اور ہر وہ قدم جو نماز کے لئے اٹھے صدقہ ہے اور تکلیف دینے والی چیز کو راستہ سے ہٹا دینا صدقہ ہے“
) صحیح بخاری،جلد دوم،حدیث256(
دوسروں کی مشکل آسان کرنے اورراستہ کی رکاوٹیں دور کرنے کے حوالہ سے اسلام میں متعدد مقامات پر بڑی وضاحت کے ساتھ بے شمار احکامات ملتے ہیں اور اسی طرح ان کی فضیلت بھی بیان کی جاتی ہے مگر افسوس کہ ہم ان احکامات سے یا تو واقف ہی نہیں یا پھر ہم خود ان کے منافی چلنا اپنا فرض اولین گردانتے ہوئے اپنی روش تبدیل کرنے کو تیار نہیں، یہ صورتحال بحیثیت محمدی ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ بزبان خو دتو رسول کریم ﷺ سے محبت کا اظہار واقرار کرتے ہیں مگر راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے حوالہ سے وہ آپ ﷺ کے حکم و ہدایت کو فراموش کردیتے ہیں ، سوچئے کہ اگر ہم آپ ﷺ کی واضح ہدایات کیے باوجود ان کے منافی عمل کریں گے توہم روز محشر کس منہ سے اپنے پیارے نبی ﷺکا سامنا کریں گے۔