انشورنس کا متبادل ”نظامِ تکافل

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
قسط نمبر 1:
……مفتی محمد راشد ڈسکوی﷾
انشورنس کا متبادل ”نظامِ تکافل“
چودہویں صدی ہجری میں جب دوسرے ممالک میں بحری سفر کے ذریعے تجارت کا عام معمول تھا، توان اسفار میں کبھی یہ جہاز بحری قزاقوں کے ہاتھوں لوٹ لیے جاتے اور کبھی سمندری طوفان کی نظر ہو کر غرق ہوجاتے تھے ،جس کی بناءپر تاجروں کا لاکھوں ،کروڑں کا نقصان ہو جاتا، لہٰذا بحری سفر کے اس ہونے والے نقصان سے بچاؤ کے لیے یا اس نقصان کی تلافی کے لیے” بیمہ“ کا آغاز ہوا،چنانچہ بیمہ کا مفہوم یہ بنے گا”انسان کو مستقبل میں جو خطرات پیش آنے والے ہوں، کوئی انسان یا ادارہ ضمانت لے لے کہ فلاں قسم کے خطرات (Risks) کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے مالی اثرات کی میں تلافی کروں گا“۔اس کو اردو میں”بیمہ“،انگریزی میں”انشورنس،Insurance “اور عربی میں ”التامین“کہتے ہیں۔
علامہ شامی رحمہ اللہ کے زمانے میں یہ رواج ہو گیا تھا کہ بعض لوگ تاجروں کاسامان سمندر کے راستے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے تواس سامان کا کرایہ لینے کے علاوہ کچھ مزید متعین رقم بھی لیتے تھے اور وہ اس زائد متعین رقم کے عوض اس بات کی ضمانت دیتے کہ اگر کسی تاجر کا مال ہلاک ہو گیا تو رقم لینے والا اس کی تلافی کرے گا، یہ زائد رقم جو لی جاتی تھی ،اس کو ”سوکرہ “کہتے ہیں۔”سوکرہ “کا مطلب بیمہ اور ضمانت (Security) کے ہیں۔یہ مذکورہ صورت بحری بیمہ (Marine insurance) کی تھی۔علامہ شامی رحمہ اللہ نے اس صورت کے ناجائز ہونے کا فتویٰ جاری کیا اور فرمایا:
”میرے نزدیک تاجر کے لیے مال کی ہلاکت کی صورت میں اس کا عوض لینا حلال نہیں،کیونکہ(تاجر سے زائد رقم لے کر یہ وعدہ کرنا کہ اگر آپ کا مال ہلاک ہوگیاتو اس مال کا عوض میں آپ کو ادا کروں گا) یہ ایک ایسا التزام ہے جو شرعاً لازم نہیں ہوتا“۔
(ردالمحتار، کتاب الجھاد،باب المستامن، مطلب مھم فیما یفعلہ التجار)
اس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ بیمہ کی کئی صورتیں وجود میں آئیں، مثلاً:عام بیمہ، آگ کا بیمہ، صحت کا بیمہ، زندگی کا بیمہ وغیرہ۔بیمہ کی مذکورہ بالا تمام اقسام جمہور علمائے امت کے نزدیک ناجائز ہیں ، عدمِ جواز کی وجہ ان صورتوں میں سود، قمار اور غرر کا پایا جانا ہے۔پھر اس جدید ، ترقی یافتہ دور میں بیمہ کی ضرورت اور اہمیت کی وجہ سے اس کے جائز متبادل کی کوششیں شروع ہوئیں ، اسی تناظر میں”تکافل کی شرعی حیثیت“کے کلماتِ تشکر میں”پاک قطر فیملی تکافل کمپنی لمیٹڈ“کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جناب پی احمد لکھتے ہیں:
”موجودہ حالات میں انشورنس کی ضرورت مخفی نہیں، بلکہ بعض ملکوں میں لائف انشورنس کی بہت سی صورتیں ہر شہری کے لیے قانونی طور پر بھی لازمی ہیں، لیکن چونکہ انشورنس نظام میں کئی غیر شرعی عناصر تھے ، جس کی وجہ سے علمائے کرام نے ہر دور میں مسلمانوں کو اس نظام کا حصہ بننے سے منع فرمایا، ضرورت چونکہ اپنی جگہ مسلَّم تھی، لہٰذا اس نظام کے جائز متبادل کی کوششیں ہوئیں، الحمد للہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی توفیق سے جید مفتیانِ کرام کی نگرانی میں انشورنس نظام کا جائز متبادل ”نظامِ تکافل وجود“میں آیا“
(ص:11)
چنانچہ 2005ءمیں پاکستان میں سب سے پہلے ”پاک کویت تکافل کمپنی لمیٹڈ“نے کام شروع کیا، پھر2006ء میں”تکافل پاکستان لمیٹڈ“کے نام سے دوسری کمپنی شروع ہوئی، پھر2007ءمیں ”پاک قطر فیملی جنرل تکافل کمپنی لمیٹڈ“ شروع ہوئی، اور ”داؤد تکافل کمپنی لمیٹڈ“ بھی پاکستان میں کام کر رہی ہے۔ نظامِ تکافل کو مختلف قسم کی بنیادوں پر استوار کیا گیا تاکہ یہ اُن خرابیوں سے پاک ہو جائے جو انشورنس میں موجود تھیں ، لیکن پاکستان میں اس کی بنیاد وقف کے قواعد پر رکھی گئی ہے، اس نظام کے تفصیلی تعارف پر اب تک دو کتابیں اردو میں ،ایک مولانا مفتی اعجاز احمد صمدانی کی ”تکافل،انشورنس کا اسلامی متبادل“ اوردوسری کتاب مفتی عصمت اللہ کی ”تکافل کی شرعی حیثیت “ شائع ہو چکی ہیں۔
جوں جوں اس نظام کو فروغ ملتا گیا ویسے ویسے لوگوں کی طرف سے سوالات بڑھتے گئے، چنانچہ اس نظام کو سمجھنے اور جانچنے کے لیے (کہ آیا یہ نظام واقعتاً اُن خرابیوں سے اپنا دامن بچا سکا ہے یا نہیں؟)مطالعہ شروع کیا، پھر میری اس کوشش کو مزید تقویت اس بات سے بھی ملی، جو مفتی عصمت اللہ نے اپنی کتاب ”تکافل کی شرعی حیثیت“کے ”حرفِ مؤلف“ میں لکھی کہ:
”جو حل نکالا گیا ہے ، اس کے بارے میں یہ دیکھا جائے گا کہ یہ قرآن و حدیث کے کسی ”اصول ِ مقررہ“کے خلاف تو نہیں اور اس میں ایسا کوئی عنصر تو نہیں پایا جاتا، جو قرآن و حدیث سے متصادم ہو، اگر اس حل میں ایسی کوئی بات موجود نہ ہو اور حل قواعدِ شرعیہ کے خلاف نہ ہو ، تو وہ جائز حل ہو گااور اس کے مطابق عمل کرنا جائز ہو گا، جسے آج کل کی زبان میں ”Shariah Complaint“ بھی کہا جاتا ہے، اس کے معنی یہی ہیں کہ یہ قرآن و سنت اور اس سے مستخرج و مستنبط،ضوابط و قواعداور اصول کے خلاف نہیں“۔
(ص:13)
اس پورے نظامِ تکافل کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ نظامِ تکافل ”کمپنی اور شخصِ قانونی “ کے تصور کے بغیر بالکل ناقص ،ادھورا اور نامکمل ہے ، ان دونوں کا کردار اگر اس نظام میں نہ ہو تو مجوزین حضرات ہی کے بقول اس نظام ِ تکافل سے وہ خرابیاں دور نہ ہوں سکیں گی، جو انشورنس میں موجود ہیں اور جن کی بناءپر انشورنس کی حرمت کا فتویٰ دیا جاتا ہے۔
جبکہ ! کمپنی کی شرعی حیثیت ، کمپنی کی محدود ذمہ داری اور شخصِ قانونی کے شرعاً تسلیم ہونے پر نہ تو فقہی نظائر تسلی بخش ہیں اور نہ ہی ان پر وقت کے جمہور اکابر علمائے کرام و مفتیانِ عظام کا اظہار ِ اطمینان ہے،ان تصورات کو پیش کرنے والوں کو جب اس حوالے سے اشکالات اور عدمِ اطمینان کی وجوہات تحریر کر کے ارسال کی گئیں تو بھی تسلی بخش اور فقہی اعتبار سے مضبوط و مدلل جواب سامنے نہ آیا اور پھر تعجب تو اس بات پر ہے کہ اِن اُمور میں جو بحث اور دلائل وغیرہ قائم کئے گئے ہیں ، اُن کے بارے میں خود اُن احباب کی طرف سے جزماًکوئی دو ٹوک موقف اختیار کر کے قابل عمل قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی اس پر فتویٰ دیا گیا ہے،بلکہ ابھی تک مجوزین حضرات اسے ”ایک ابتدائی سوچ “ ہی قرار دیتے ہیں ، چنانچہ اس بارے میں جناب حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم اپنی تازہ ترین تالیف ”غیر سودی بینکاری“میں لکھتے ہیں:
”اس مسئلے کے بارے میں بندے نے جو کچھ لکھا ہے ، اُس میں یہ بات صاف صاف لکھی ہے کہ یہ میری طرف سے کوئی حتمی فتوی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سوچ ہے جو اہل ِ علم کے غور کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔
جہاں تک محدود ذمہ داری کے تصور کا سوال ہے، مجھے خود پہلے بھی اُس پر جزم نہیں تھا،اور جو ابتدائی میلان ظاہر کیا تھا ، اُس پر بھی نظرِ ثانی کی ضرورت سمجھتا ہوں ، اور جو دلائل اُس کے خلاف دئیے گئے ہیں، اُن میں بعض دلائل واقعۃً وزنی ہیں“
(غیر سودی بینکاری ، ص:339 ،343،مکتبہ معارف القرآن کراچی)
جب ایسی بات ہے کہ اس پر نہ کوئی فتوی دیا گیا ہے ، نہ اس کے بارے میں ابھی تک کوئی حتمی بات کی گئی ہے، اور پھر اس کے خلاف قائم کئے گئے دلائل بھی وزنی ہیں،تو پھراس نظرئیے پر پوری عمارت کھڑی کر دینا ، اور اس پر اسلامی اور صحیح متبادل ہونے کا عنوان چسپاں کردینا، اسی پر بَس نہیں، بلکہ اس کی بھر پورتشہیر کرنا ، اور اس کی دعوت عام کرنا اور زیادہ معنیٰ خیز ہے،شخصِ قانونی اور محدود ذمہ داری کی خرابیوں اور کمزوریوں پر تفصیلی کلام جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علامہ بنوری ٹاؤن سے شائع ہونے والی کتاب ”مروجہ اسلامی بینکاری“اور جامعۃ خلفائے راشدین ،کراچی کے مفتی احمد ممتاز زیدمجدہ کی جناب مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہ کی کتاب ”غیر سودی بینکاری“کے جواب میں لکھی گئی کتاب ”غیر سودی بینکاری، ایک منصفانہ علمی جائزہ“ اور جناب ڈاکٹر مفتی عبد الواحد زید مجدہ کی کتاب ”جدید معاشی مسائل اور حضرت مولانا تقی عثمانی مدظلہ کے دلائل کا جائزہ“ اورجناب مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ”غیر سودی بینکاری“کے جواب میں لکھی گئی کتاب ”ہدیہ جواب“ میں کیا گیا ہے۔
اس موضوع پر مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ تکافل کا مروجہ طریقہ کار بھی ان خرابیوں سے اپنا دامن نہیں بچا سکا ہے ،جو انشورنس میں پائی جاتی ہیں۔
ذیل میں چند باتیں بطورِ تمہید ذکر کرنے کے بعد اس نظام کی کمزوریاں تفصیل سے ذکر کی جائیں گی:
(۱) مروجہ نظام میں چند افراد مل کر ایک کمپنی قائم کرتے ہیں ، پھر نقود کی کچھ مقدار وقف کر کے وقف فنڈ قائم کرتے ہیں، چنانچہ تکافل پالیسی اختیار کرنے والے ہر قسم کے تکافل کے اعتبار سے ماہانہ فیس جمع کرواتے ہیں ، جس کا ایک حصہ وقف فنڈ میں ڈال دیا جاتا ہے، اور ایک حصہ تجارت میں لگایا جاتا ہے،وقف فنڈ میں ڈالا جانے والا حصہ اس پالیسی ہولڈر کی ملکیت سے نکل کر وقف فنڈ کی ملکیت میں داخل ہو جاتا ہے،دوسری طرف فنڈ قائم کرنے والے فنڈ کے مصارف( یعنی:موقوف علیہم)کے لئے شرائط نامہ مرتب کرتے ہیں کہ پالیسی ہولڈر جب فنڈ کو اتنا ....چندہ دے گا تو بوقتِ ضرورت اُس کی اِس فنڈ سے اتنی مقدار ....میں مدد کی جائے گی، اور جب اِتنی مقدار.... میں چندہ دے گا تو اُس کی اِس فنڈ سے اِتنی ....مدد کی جائے گی۔
دوسری بات: تکافل پالیسی اختیار کرنے والے افراد غریب نہیں بلکہ امیر تر ہوتے ہیں(ماہانہ قسطیں ادا کرنا عام افراد کے بس کی بات نہیں ہوتی)
تیسری بات: ابتداءً وقف فنڈ قائم کرنے والے خود اپنا بھی تکافل کرواتے ہیں اور اپنی ہی وضع کردہ شرائط ِ وقف کے تحت خود بھی مال موقوفہ کے فوائد سے منتفع ہوتے ہیں۔نظامِ تکافل کی بنیادوں میں یہ بات درج ہے:
تُنشئی شرکة التامین الاسلامی صندوقاً للوقف و تعزل جزءاً معلوماً من راس مالھا یکون وقفاً علی المتضررین من المشترکین فی الصندوق حسب لوائح الصندوق وعلی الجھات الخیریة فی النھایة“
(تاصیل التامین التکافلی علی اساس الوقف، للشیخ المفتی تقی العثمانی ص 11- 20غیر مطبوعہ)
عبارات ہذا سے مندرجہ ذیل امور مستفاد ہوتے ہیں:(۱) واقفین خود کمپنی مالکان ہوتے ہیں۔(۲) موقوف علیہم (جن کے لیے وقف قائم کیا جا رہا ہے )اس وقف فنڈ کو چندہ دینے والے متضررین(یعنی وہ افراد جومخصوص حادثات یا نقصان کا شکار ہوے ہوں) ہوں گے نہ کہ ہر خاص و عام۔(۳) وقف تحلیل (بے کار ، ختم یا دیوالیہ ) ہونے کی صورت میں مالِ موقوفہ فقراءپر خرچ کیا جائے گا۔ نیز!یہ بات یاد رہے کہ تکافل کروانے میں خود کمپنی مالکان بھی داخل ہوتے ہیں،اور دیگر شرکاءِتکافل بھی اغنیاءہی ہوتے ہیں۔
پہلی خرابی:
مذکورہ تفصیل کے بعدجاننا چاہیئے کہ
شرعاً نقود وقف کرنے والے خود اپنی وقف کردہ منقولی شئے(نقود) سے منتفع نہیں ہو سکتے ،اس کی کوئی نظیر شریعت میں نہیں ملتی، اس بارے میں مجوزین حضرات جو نظائر پیش کرتے ہیں وہ سب منقولی اشیاءکے وقف سے منتفع ہونے کی نہیں ہے بلکہ غیر منقولی اشیاءکے وقف سے خود واقف کے منتفع ہونے کی ہیں۔
(ملاحظہ ہو: تکافل کی شرعی حیثیت،ص:48-50)
اور دوسری طرف منقولی اشیاءکے وقف کی جتنی مثالیں ہیں وہ خلافِ قیاس نص سے ثابت ہیں ،چنانچہ ان پر قیاس کرتے ہوئے دیگر منقولی اشیاءکو وقف کرنا اور ان سے واقف کا خود نفع اٹھانا ٹھیک نہیں، گویااس صورت میں یہ واقف خود اپنے اوپر نقود وقف کرنے والا ہے جس کو دوسرے الفاظ میں وقف علی النفس بھی کہہ سکتے ہیں جو کہ نقود میں شرعاً متصور نہیں۔
(لا یجوز وقف ما ینقل و یحول ) وقال محمد رحمہ اللہ حبس الکراع والسلاح و معناہ وقفہ فی سبیل اللہ و ابو یوسف رحمہ اللہ معہ فیہ علی ماقالوا ، وہو استحسان و القیاس ان لا یجوز لما بیناہ من قبل (من شرط التابید والمنقول لایتابد) وجہ الاستحسان الآثار المشہورة فیہ (ای فی الکراع والسلاح ) وعن محمد رحمہ اللہ : انہ یجوز وقف ما فیہ تعامل من المنقولات کالفاس والمر والقدوم والمنشار والجنازة وثیابھا و القدور والمراجل والمصاحف وعند ابی یوسف لا یجوز؛ لان القیاس انما یترک بالنص، والنص ورد فی الکراع والسلاح ، فیقتصر علیہ ، ومحمد یقول: القیاس قد یترک بالتعامل کما فی الاستصناع، وقد وجد التعامل فی ہٰذہ الاشیاء(الھدایة،کتاب الوقف)
ولا یجوز وقف ما ینقل و یحول لانہ لا یبقیٰ علی التابید فلا یصح وقفہ .....قال فی الواقعات: اذا وقف ثوراً علی اھل قریة للانزاءعلی بقرھم لا یصح؛ لان الوقف المنقول لا یصح الا فیما فیہ تعارف ولا تعارف فی ھٰذا“(الجوھرة النیرة، کتاب الوقف :2/23 مکتبہ حقانیہ ، ملتان)
”ثم اذا عرف جوازالفرس والجمل فی سبیل اللہ، فلو وقف علی ان یمسکہ مادام حیاًان امسکہ للجہاد جاز لہ ذلک، لانہ لو لم یشترط کان لہ ذلک لان جاعل¸ فرس السبیل ان یجاھد علیہ، وان اراد ان ینتفع بہ فی غیر ذلک لم یکن لہ ذلک وصح جعلہ للسبیل، یعنی: یبطل الشرط ویصح وقفہ“
(فتح القدیر، کتاب الوقف:204/6،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
اس آخری جزئیے میں علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”پھر جب گھوڑے اور اونٹ کو فی سبیل اللہ وقف کرنے کا جواز معلوم ہوا تو اگر کسی نے اس شرط کے ساتھ گھوڑے کو وقف کیا کہ وہ اپنی زندگی بھر اس کو اپنے پاس رکھے گا (تو اس میں دو صورتیں ہیں)
اول: اگر اس پر خود جہاد کرنے کے لیے اس کو اپنے پاس رکھا تو یہ اس کے لیے جائز ہے، کیونکہ اگر وہ یہ شرط نہ بھی لگائے تب بھی اس کو حق حاصل ہے کہ خود اس پر جہاد کرے۔
دوم: اور اگر وقف کرنے والی کی مرادیہ ہے کہ وہ گھوڑے کواپنے ذاتی کاموں میں استعمال کرے تو یہ اس کے لیے جائز نہیں اور اس کا وقف تو صحیح ہو گالیکن شرط باطل اور کالعدم ہوگی۔ “
اس جزئیہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ منقولہ اشیاءمیں وقف اسی وقت جائز ہوگاجب وہ وجوہ خیر یا فقراءمیں فوری اور نقد وقف ہو، وقف علی النفس کے بعد نہ ہو اور اگروقف علی النفس کر لیا تووقف تو ہو جائے گا لیکن ”علی النفس“ نہ ہو گا۔
نیز! نظامِ تکافل میں موقوف علیہم (پالیسی ہولڈرز)اغنیاءہوتے ہیں (کیونکہ غرباءتو تکافل کروانے اور اس کی فیسیں بھرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے) یہ چیز اصلِ وقف کے خلاف ہے،کیونکہ وقف کا مقصود ِاصلی ہر کَس و ناکس کااس سے منتفع ہونا ہے،جبکہ تکافل کے تحت قائم کئے جانے والے وقف فنڈ سے منتفع ہونے والے صرف اور صرف اغنیاءہوتے ہیں،اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ اس وقف فنڈ کی انتہا (بصورتِ تحلیل ِ وقف )فقراءپر خرچ کرناہے، اس کی صورت ان کے مطبوع مواد میں یہ بتائی گئی ہے کہ ”اگر کبھی یہ فنڈ تحلیل ہو گیا تو اس کا مصرف فقراءہوں گے“۔بالفاظ ِ دیگر ”وقف فنڈ قائم کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ ایک خاص مدت تک [مثلاً:پچاس ، ساٹھ ، ستر،اسّی سال]اس وقف فنڈ کا مصرف اغنیاءہوں گے اور وقف فنڈ کے تحلیل ہونے کی (احتمالی )صورت میں اس کا مصرف فقراءہوں گے“۔(احتمالی اس لئے کہا گیا کہ اس وقف فنڈکو تحلیل ہونے سے بچانے کے لئے کمپنی اس وقف فنڈ کو قرضہ حسنہ دیتی ہے،اور ایسا اس لئے کرنا پڑتا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پالیسی ہولڈر کسی صورت میں اس بات کے لئے تیا ر نہ ہو گا کہ بوقت ضرورت اس کی مدد نہ کی جائے ،اُن (پالیسی ہولڈرز)کو اِن سارے وقف وغیرہ کے چکروں سے غرض نہیں اُن کو تو اِس سے غرض ہوتی ہے کہ اُن کے نقصان کی تلافی کی جائے،چنانچہ اگر کمپنی وقف فنڈ کو قرضہ حسنہ نہ دے تواس صورت میں تو ان کا سارا نظام ہی ٹھپ ہو جائے گا )
دوسری خرابی:
انشورنس عقدِ معاوضہ ہونے کی وجہ سے ربا ، قمار اور غرر جیسے مہلک گناہوں کا مجموعہ تھا، تکافل کو انشورنس کی طرح ربا، قمار اور غرر سے پاک کرنے کے لئے وقف کا ماڈل اختیار کیا گیااور وقف کو شخص قانونی قرار دیتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ
”(نظام ِ تکافل میں عقد ِ معاوضہ کی نفی کرتے ہوئے یوں کہا گیا کہ )عقد ِ معاوضہ اُس وقت ہوتا جب کمپنی کے مالکان کو چندہ دیا جاتا (اور )وہ اِس کے مالک بننے اور پھر پالیسی ہولڈروں کے نقصان کی تلافی کرتے “۔
(تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ،ص:150،ادارة اسلامیات،لاہور)
اسی طرح”تاصیل التامین التکافلی علی اساس الوقف“میں لکھا ہوا ہے:
”ھٰذہ التکییف انما یصحّ اذا کانت ھٰذہ المحفظة لھا شخصیة معنویة معتبرة شرعاً قانوناً، فیصح منھا التملک و التملیک“
(ص:11)
خلاصہ کلام:
انشورنس عقدِ معاوضہ تھا ، جس کی وجہ سے ربا ، قمار اور غرر سب خرابیاں تھی اور اب (بقول مجوزین )تکافل میں وقف ماڈل کی وجہ سے عقد معاوضہ نہ رہا، کیونکہ یہاں کمپنی کے مالکان چندوں کے مالک نہیں بنتے بلکہ فنڈ (شخص قانونی )اِس کا مالک بنتاہے۔قابل ِ غور امور یہ ہیں کہ:
الف: شخصِ قانونی کو شرعی بنیادوں پر تسلیم کرنے والے حضرات جملہ مسائل کا حل شخصِ قانونی کے ذریعے کر لیتے ہیں، چنانچہ درپیش مسئلہ میں بھی ایسا ہی ہوا، لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِنہی حضرات کے بقول” شخصِ قانونی“ بھی زندہ انسانوںکی طرح مالک بننے اور مالک بنانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے،چنانچہ اِسی بنا پر اِ س کو بہت سے معاملات میں عقد کا ایک فریق بھی بنایا جاتا ہے،جیسا کہ تکافل میں بھی وقف فنڈ (شخصِ قانونی )کو رب المال بنایا جاتا ہے ، بلکہ اب تو عقد کے دونوں فریقوں کی جگہ شخصِ قانونی نے ہی لے لی ہے۔(اس کی تفصیل آگے آرہی ہے)
تو پھر اِس جگہ (نظامِ تکافل میں) جب پالیسی ہولڈر وقف فنڈ کو چندہ دے کر موقوف علیہم میں داخل ہو جاتا ہے تو اِس سے چندے کا مالک بننے والا وقف فنڈ (جو کہ شخص ِقانونی ہے ) کہتا ہے کہ اگر تم مجھے اتنا چندہ دو گے تو بوقت ِضرورت میں تمہاری اِتنی مدد کروں گا اور اگر تم مجھے اِتنا چندہ دو گے تو میں تمہاری اتنی مدد کروں گا، تو دیکھ لیا جائے کہ یہ معاملہ عقدِ معاوضہ ہونے سے کیسے نکلا؟!
ب: اِس جگہ مجوزین حضرات یہ تاویل کرتے ہیں:”چندہ دہندہ کو نقصان کی تلافی کا فائدہ اُس کی کسی شرط کی وجہ سے نہیں مل رہا، بلکہ وہ تو فنڈ کو چندہ دے کر اُس کا رُکن بن گیا ہے، اب اُس کو یہ فائدہ واقفین کی شرط کی وجہ سے منجملہ موقوف علیہم میں شامل ہونے پر مل رہا ہے، جو کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے عطاءِ مستقل ہے “۔
(تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ،ص:149،ادارہ اسلامیات،لاہور)
یعنی! وہ (پالیسی ہولڈر)یہ نہیں کہتا کہ چونکہ میں نے وقف کو اتنا چندہ دیا ہے ، اِس لئے میں اِن فوائد کا حق رکھتا ہوں بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ اِن قواعد کی بنیاد پر مجھے یہ فوائد حاصل ہونے چاہیے،یہ قانونی حق اِس کو عقد ِ معاوضہ میں داخل نہیں کرتا….. مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پالیسی ہولڈرز کو قواعد و ضوابط کے تحت دعوی کرنے کا حق کس نے دیا؟! اُسے وقف فنڈ سے اپنے نقصان کی تلافی کروانے کا قانونی حق بھی تو تکافل فنڈکو دی جانے والی رقم کی وجہ سے ہی حاصل ہواہے، اب مجوزین حضرات اس قانون کی وجہ سے ملنے والی رقم کو قواعد و ضوابط کا نام دیں یا پریمیم کی کمی بیشی کا، اِ س سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ج: نیز! تکافل کو عقد ِ تبرع قرار دے کرغرر کی نفی کی گئی ہے، چنانچہ لکھا ہے:
”لیکن اسلامی تکافل کے اندر اس غیر یقینی کیفیت سے عقد ناجائز نہیں ہوتا کیونکہ اِس کی بنیاد”عقد تبرع“پر ہے،اور تبرعات کے اندر غیر یقینی کیفیت (Uncertainty) کا پایا جانا ممنوع نہیں جبکہ عقد معاوضہ کے اندر ممنوع ہے“۔
(تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ،ص:122، ادارہ اسلامیات،لاہور)
تو اِس جگہ سوال یہ ہے کہ شخصِ قانونی (وقف فنڈ)کو چندہ دینے والاکبھی تبرع کرنے کے لئے چندہ نہیں دیتا،کمپنی والے چاہے اِس کو جو کچھ بھی کہتے رہیں،اُن کی بَلا سے!اُسے تو اپنے نقصان کی تلافی اور نفع سے غرض ہوتی ہے،چاہے کسی طریقے سے ہو۔بلکہ اگر اسے یہ بات بتا دی جائے کہ ”عین ممکن ہے کہ وقف فنڈ چندہ نہ ہونے کی صورت میں تلافی نہیں کر ے گا،یا کسی وقت فنڈ تحلیل ہو گیا تو بھی اس کے نقصان کی تلافی نہیں کی جا سکے گی“
جیسا کہ ”تکافل کی شرعی حیثیت “ میں لکھا:”اگر فنڈ تحلیل ہو گیا تو تمام کلیمز (Claims)ادا(Pay) کرنے کے بعد سرپلَس، چندے اور واجب الوصول رقوم خیراتی مقاصد میں خرچ ہوں گی ، جس میں شریعہ بورڈ سے مشاورت ضروری ہو گی، جہاں تک وقف رقم ہے ، تو وہ ایسے مقصد میں دی جائے گی، جو ختم ہونے والا نہ ہو، شئیر ہولڈرزاِن رقوم میں سے کسی رقم کے مستحق نہیں ہوں گے، تحلیل کے وقت آپریٹر متعلقہ اخراجات وصول کر سکتا ہے “۔
(تکافل کی شرعی حیثیت، ص:110، ادارة المعارف،کراچی)
تو وہ ہر گز پالیسی لینے کے لئے تیار نہ ہو گا۔(تو اُس وقت اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا کہ پالیسی ہولڈر وقف وغیرہ کو فنڈ دینے سے کوئی غرض نہیں رکھتا، اُس کی تو اپنی اغراض ہیں)
بلکہ اِس سے بھی آگے بڑھ کے اُس کو تو یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ وہ اپنے نقصان کی تلافی کے لئے باقاعدہ قانونی حق رکھتا ہے (چاہے مجوزین حضرات اس کی کوئی تاویل کرتے رہیں) اور اس کے لئے (کہ ہر حال میں پالیسی ہولڈر کے نقصان کی تلافی کرنی ہے) کمپنی نے اپنے وضع کردہ نظام میں باقاعدہ یہ شق رکھی ہے کہ ”وقف فنڈ خالی ہونے کی صورت میں کمپنی اِس فنڈ کو قرضہ حسنہ دے گی“(تاکہ پالیسی ہولڈرز کے نقصان کی تلافی ہر حال میں کی جاسکے)۔جیسا کہ ”تکافل کی شرعی حیثیت “میں آپریٹر کی ذمہ داریاں(Obligations) کے عنوان کے تحت لکھا ہے:
”فنڈ میں کمی کی صورت میں آپریٹر فنڈ کو قرضِ حسنہ دے گا“اور اس سے کچھ ہی آگے”فنڈ(PTF) کی آمدنی اور اخراجات (Income,Outgo)“کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ:”پول کے فنڈ میں خسارے (Deficit) کی صورت میں وکیل سے حاصل شدہ قرضِ حسنہ“۔
(ص:110،111)
چنانچہ دیکھ لیا جائے کہ چندہ دینے والا کس بنیاد پر چندہ دے رہا ہے اور چندہ لینے والا (شخصِ قانونی)مشروط طور پر چندہ وصول کرکے نقصان کی تلافی کرتا ہے اور باقاعدہ چندے کی بنیاد پر تلافی کرتا ہے توکیا یہ معاملہ عقد معاوضہ سے نکل جائے گا ؟!
چنانچہ ! چندہ اورنقصان کی کمی بیشی”ربا“ بنی۔اور تلافی کے غیر یقینی ہونے کی بنا پریہ معاملہ” قمار“ بنا۔
د: نیز ! پالیسی ہولڈر چندہ دیتے وقت(اصلاً) اِس شرط سے چندہ دیتا ہے کہ اُس کو کوئی نقصان ہو گا تو وقف فنڈ اُس کا نقصان پورا کرے گا اور چونکہ اُس کو نقصان پہنچنا یقینی نہیں بلکہ موہوم ہے تو موہوم نقصان کی تلافی کی شرط سے وقف فنڈ کو چندہ دینا شرطِ فاسد ہے۔ اِس جگہ اگر کوئی کہے کہ”ہبہ اور ہدیہ وغیرہ شرط ِ فاسد سے فاسدنہیں ہوتا بلکہ خود شرط، فاسد ہو جاتی ہے اور ہبہ درست ہو جاتا ہے،اور پالیسی ہولڈر اِس بنیاد پر اپنے نقصان کی تلافی کا مطالبہ نہیں کر سکتابلکہ اِس کے نقصان کی تلافی تو قواعد ِ وقف کی وجہ سے کی جاتی ہے جو کہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔“
تو اِس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اتنی بات تو ٹھیک ہے ، لیکن اس بنیاد پر چندہ جمع کروانے کے بعد جب نقصان کی تلافی کروالی جائے تو سارا معاملہ ایک بن کے فاسد ہو جائے گا،مثلاً:زید نے بکر کو اِس شرط پر پچاس تولے سونا قرض دیا کہ واپسی پر پچپن تولہ واپس لے گا،اب بوقتِ واپسی زید نے اگر پچاس تولہ سونا ہی لے لیا توپہلی تقدیر کے مطابق اتنامعاملہ تو ٹھیک ہو جائے گااور شرط فاسد ہو جائے گی،لیکن اگر بکر نے پچپن تولے دئیے اور زید نے لے لئے تو یہ سارا معاملہ ایک بن کے فاسد ہو جائے گا، اور سود کہلائے گا،یہاں کوئی بھی نہیں کہے گا کہ ”چونکہ پچاس تولہ دینے کا معاملہ درست تھا اور شرط فاسد ہو چکی تھی اِس لئے واپسی پر جو پانچ تولے زائددیا گیاوہ اِس شرط کے تحت داخل ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک نیا ہبہ ہے“۔
خلاصہ کلام! یہ کہ تکافل کے تحت ہونے ولا یہ معاملہ پالیسی ہولڈر اور وقف فنڈ کے درمیان عقد ِ معاوضہ کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ سود اور قمار پر مشتمل ہے۔
ھ: نیز!اِسے برادریوں کے درمیان بنائے جانے والے باہمی امدادی فنڈوں کے مشابہہ قرار دیا جاتاہے ،جیسا کہ ”تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ“ میں لکھا ہے: ”اسے ناجائز کہنے کی کوئی وجہ نہیں ، یہ ایسا ہے جیسا کہ عام طور پر مختلف برادریوں میں اس طرح فنڈز بنائے جاتے ہیں،لہذا اس کو عقد ، معاوضہ کہنا درست نہیں“۔
(ص:150)
حالانکہ تکافل اور برادریوں کے امدادی فنڈوں کے درمیان کھلا تضاد اور فرق ہے، ملاحظہ ہو:
(۱) برادریوں کے امدادی فنڈسے استفادہ کرنے والے محض اغنیاءنہیں ہوتے بلکہ حادثات کا شکار ہونےوالے تمام افراد اِن فنڈوں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
(۲) برادریوں میں مبتلیٰ بہ افراد کی امداد ان کے جمع کروائے گئے چندوں کی بنیاد پر نہیں ہوتی کہ جو کم چندہ جمع کرواتا ہے اُس کی کم امداد کی جاتی ہے، اور جو زیادہ چندہ جمع کرواتا ہے تو اس کی زیادہ امداد کی جاتی ہے جیسا کہ تکافل میں ہوتا ہے۔
(۳) برادریوں میں قائم کئے جانے والے فنڈز کا قیام باہمی اخوت کی بنیاد پر ہوتا ہے ، فنڈز سنبھالنے والوں کا اس سے کوئی ذاتی مفادوابستہ نہیں ہوتا ،جبکہ تکافل پالیسیاں تو وجود میں آتی ہی اسی لئے ہیں ،جیسا کہ تکافل کمپنیوں کے متولی اور ڈائریکٹرز پہلے فنڈبناتے ہیں پھر پالیسیاں شروع کرتے ہیں چنانچہ ڈائریکٹرزمضارب بن کر یا وکیل بن کرباقاعدہ نفع کماتے ہیں۔
(۴) برادریوں کے امدادی فنڈمیں تمام ارکان باہمی امداد اور ایک دوسرے کی بھلائی و خیر خواہی کو مدِّ نظر رکھ کے چندہ جمع کرواتے ہیں جبکہ تکافل میں حصہ لینے والے کو اِس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے کو کچھ مل رہا ہے یا نہیں ، بلکہ اُس کو تو اپنے جمع کروائے گئے مال سے زیادہ ملنا چاہیے اور بَس !!۔
………………) جاری ہے (