اجماع ………امت محمدیہ کا اعزاز

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اجماع ………امت محمدیہ کا اعزاز
………مولانا عبدالرحمان سندھی ﷾
اللہ رب العزت نے جس طرح ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سید المرسلین اور خاتم الانبیاء بنایا اور آپ کو ایسی خصوصیات اور اعزازات سے نوازا جن سے دوسرے انبیاء کو نہیں نوازا گیا، اسی طرح اس امت کو ایسی خصوصیات اور اعزازات سے نوازا جو دوسری امتوں کو نہیں ملیں، ان اعزازات میں سے ایک یہ بھی ہےکہ اللہ رب العزت نے اس امت کےاجماع کو معصوم قرار دے کر اسے شریعت کا ایک مستقل ماخذ قرار دے دیا۔
فقہ اسلامی کی بنیاد چار چیزیں ہیں: کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اجماع، قیاس شرعی۔ اصول فقہ کی تمام کتابوں میں ان اصولوں کو اس ترتیب سے بیان کیا گیا ہے، اس ترتیب کو اگر فطری ترتیب کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، اس ترتیب کے اعتبار سے ”اجماعِ امت“ شرعی احکام کا تیسرا ماخذ ہے اور اس کا حجت ہونا پوری امت کا مسلمہ اور متفقہ فیصلہ رہا ہے۔
صحابہ و تابعین اور تمام ائمہ مجتہدین فقہی مسائل میں اجماع سے استدلال کرتے رہے اور اجماع کو تیسرے ماخذ کے طور پر ایسی حقیقت سمجھا گیا کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس کی حجیت ثابت کرنے کے لیے دلائل بیان کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ پھر جب خواہش پرستی کا دور آیا تو کچھ لوگوں نے اسے حجت ماننے سے انکار کیا، تو امت کو انتشار سے بچانے اور اسلامی احکام کے تحفظ کے لیے حجیت اجماع پر قرآن و سنت کے دلائل واضح کرنے کی ضرورت پیش آئی،راقم کی معلومات کے مطابق اجماعِ امت پر سب سے پہلے امام شافعی رحمہ اللہ نے کام کیا اور اس کی حجیت پر قرآن و سنت سے دلائل دیے، بعد میں مفسرین اور محدثین نے مزید دلائل پیش کیے ہیں۔ ”اجماعِ امت“ چونکہ ایک علمی اصطلاح ہے اور اس کا ایک مفہوم ہے۔ جسے معلوم کیے بغیر اس کی حقیقت کو نہیں سمجھا جا سکتا، اور کچھ شرائط ہیں جن کے بغیر ”اجماعِ امت“ منعقد نہیں ہوسکتا۔
لیکن اس کو سوئے قسمت کہیے کہ ہمارے زمانے کے بعض متجددین نے قرآن وسنت سے ثابت شدہ مفہوم اور شرائط سے ہٹ کر اپنی طرف سے اس کی تعریف کی ہے اور چند ایسے لوگوں کے اتفاق کو بھی اجماع کا نام دے دیا ہے جن میں سے اکثر کو دین کی بنیادی باتوں کا بھی علم نہیں۔
اس لیے ہم حجیت اجماع پر دلائل ذکر کرنے سے پہلے اس کی تعریف کرتے ہیں جس سے اس کی حقیقت واضح ہوجائے گی ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اس کے علاوہ کسی کے اتفاق کو” اجماع “ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
اجماع کی تعریف میں علماء اصولیین کے متعدد اقوال ہیں، ہر ایک نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق تعریف کی ہے تاہم سب کا خلاصہ اور مابہ الاشتراک یہ ہے۔
صاحب نورالانوار ملا جیون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفی الشریعۃ اتفاق مجتہدین صالحین من امۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فی عصر واحد علی امر قولی او فعلی .
)نور الانوار ص219(
ترجمہ: کسی امر قولی یا فعلی پر امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل علم مجتہدین اہل تقویٰ کا اتفاق ہو اور وہ اتفاق خواہ کسی بھی دور میں ہو اس کو اصطلاح شرع میں ”اجماع “ کہتے ہیں۔
علامہ ابن منذر نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اتفاق مجتہدی امۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم العدول بعد وفاتہ فی عصر من العصور علی حکم شرعی اجتہادی .
)الاجماع ص8(
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی امت میں سے عادل مجتہدین کا کسی بھی زمانے میں کسی شرعی اجتہادی معاملے پر اتفاق کرلینا۔
ان دو تعریفات سے بطورخلاصہ چند باتیں معلوم ہوتی ہیں جس سے اجماع کی پوری حقیقت واضح ہوجاتی ہے، اجماع کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی امت میں سے اہل علم مجتہدین صلحاء کا کسی بھی ایک زمانے میں امر شرعی اجتہادی پر قولاً یا فعلاً اتفاق کرلینا۔
اجماع کی تعریف بیان کرنے بعد دلائل کو ذکر کرنے سے پہلے یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ اجماع ایک علمی اصطلاح ہے جس طرح اور بھی کئی علمی اصطلاحات ہیں، مثلاً:توحید ،تقلید ، حدیث وغیرہ۔ ان کو تسلیم کرنا یہ الفاظ قرآن میں نہیں ہیں لیکن معنی اور مفہوم ان کا موجود ہے اسی طرح اجماع کا بھی لفظ اگر چہ قرآن پاک میں موجو د نہیں ہے لیکن اس کا مفہوم قرآن و سنت میں موجود ہے جس کو ماہرین قرآن و سنت نے بیان کیا ہے اور کئی آیات اور احادیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے جن میں سے چند دلائل ہم ذکر کرتے ہیں۔
آیت نمبر1:
ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدیٰ ویتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولیٰ ونصلہ جہنم وساءت مصیرا۔
)سورۃ النساء:15(
ترجمہ: اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔
علامہ سید محمود آلوسی رحمہ اللہ؛ امام شافعی رحمہ اللہ کا اس بارے میں نکتہ نظر اور مذہب نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اجماع کی حجیت کے لیے اس آیت کریمہ کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔
)روح المعانی ج5ص146(
اس طرح اور بھی بہت سارے مفسرین نے اس آیت کریمہ کو اجماع کے حجت ہونے پر بطور دلیل ذکر کیا ہے۔ چندنام یہ ہیں :

I.

امام ابوبکر احمد الرازی الجصاص متوفیٰ 370ھ
)احکام القرآن ج2ص281(

II.

امام جار اللہ محمود بن عمر بن محمد الزمخشری متوفیٰ 538ھ
)الکشاف ج1ص565(

III.

قاضی ناصر الدین عبداللہ بن عمر بن محمد الشیرازی البیضاوی متوفیٰ 685ھ
)تفسیر بیضاوی ج1ص206(

IV.

حافظ عمادالدین اسماعیل بن کثیر القرشی الدمشقی متوفیٰ 774ھ
)تفسیر ابن کثیر ج1ص555(

V.

قاضی ثناء اللہ پانی پتی المتوفیٰ 1225ھ
)تفسیر مظہری ج2ص336(
آیت نمبر 2:
وکذالک جعلنٰکم امۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا .
) سورۃ بقرہ:143(
ترجمہ: اور مسلمانو! اسی طرح ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واستدل بہ علی حجیۃ الاجماع لان بطلان ما اجمعوا علیہ ینافی عدالتہم .
)تفسیر مظہری ج1ص139(
ترجمہ: اس آیت سے حجیت اجماع پر استدلال کیا ہے اس لیے کہ امر باطل ہر اس امت کا اجماع اس کی عدالت کے منافی ہے۔
اس کے علاوہ جن مفسرین نے اس آیت کو حجیت اجماع پر بطور دلیل کے ذکر کیا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

I.

امام ابوبکر احمد الرازی الجصاص متوفیٰ 370ھ
)احکام القرآن للجصاص ج1ص88(

II.

امام فخر الدین محمد بن عمر الرازی الشافعی متوفیٰ 604ھ
)تفسیر کبیر ج2ص7(

III.

محمد بن یوسف الشہیر بابی حیان الاندلسی متوفیٰ 745ھ
)تفسیر البحر المحیط ج1ص22(
آیت نمبر3:
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باللہ .
)سورۃ آل عمران:110(
ترجمہ: مسلمانو!تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی تم نیکی کی تلقین کرتے ہو برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ آیت کئی وجوہ سے حجیت اجماع پر دلالت کررہی ہے۔
پہلی وجہ……… یہ ہے کہ کنتم خیر امۃ کہہ کر اس امت کی تعریف کی گئی ہے اور یہ تعریف کی مستحق اس وقت ہوسکتی ہے جب کہ حقوق اللہ کو قائم کرنے والی ہو گمراہ نہ ہو (لہذا امت کا ہر فیصلہ حق اللہ کو قائم کرنے کے لیے ہوگا جس کا اتباع سب پر لازم ہوگا)
دوسری وجہ ……… یہ کہ ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ معروف کا حکم دیں گےوہ اللہ کا امر ہوگا (اور اللہ کے امر کا اتباع ہر شخص پر لازم ہے)
تیسری وجہ ……… یہ کہ ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ نہی عن المنکر کریں گے اور منکَر وہ ہے جس سے اللہ نے روکا ہے اور یہ اس صفت کے مستحق اس وقت ہوسکتے ہیں جب کہ یہ اللہ کے ہر حکم پر راضی ہوں۔
اس سے ثابت ہوا کہ امت جس چیز سے روکے گی وہ منکر ہوگی اور جس چیز کا حکم دے گی وہ معروف ہوگی اور وہ اللہ کا حکم ہوگا اس سے معلوم ہوا کہ کسی گمراہی پر امت کا اجماع نہیں ہوسکے گا اور جس پر اجماع ہوگا وہ اللہ کا حکم ہوگا۔
)احکام القرآن ج2ص53(
احادیث مبارکہ اور اجماع:
1: عن ابن عمر رضی اللہ عنہما عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم لن تجتمع امتی علی ضلالۃ فعلیکم بالجماعۃ فان ید اللہ علی الجماعۃ .
)مجمع الزوائد ج5ص218 ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ (
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت ہرگز گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی لہٰذا آپ جماعت کے ساتھ رہیں بے شک اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔
اس حدیث کے تحت ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ مسلمانوں کا اجماع؛حق ہے اور اجماع سے علماء کا اجماع مراد ہے کیونکہ یہ علم کی بنیاد پر ہوتا ہے۔عوام کے اجماع کا کوئی اعتبار نہیں۔
)مرقات ج1ص249(
2: عن ابی ذر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من فارق الجماعۃ قید شبر فقد خلع ربقۃ الاسلام من عنقہ۔
)مستدرک حاکم ج1ص117، سنن ابی داود ج2ص299(
ترجمہ: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جماعت سے ایک بالشت برابر علیحدگی اختیار کی گویا وہ اسلام سے دستبردار ہوگیا۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ظاہر ہے کہ جماعت سے جدا ہونے سے مراد اجماع کا ترک ہے اوراسلام سے دستبرداری سے مراد مرتد ہونا اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے نکلنا ہے۔
)مرقاۃ ج1ص255(
3: عن ثوبان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق۔
)صحیح مسلم باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تزال امتی طائفۃ من امتی الخ(
ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا۔
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفیہ دلیل لکون الاجماع حجۃ اس میں اجماع کے حجت ہونے پر دلیل ہے۔
) شرح صحیح مسلم للنووی ج2ص143(
قارئین کرام! ہم نے اختصار کے ساتھ یہ چند حوالےقرآن و حدیث سے ذکر کیے ہیں جن سے روز روشن کی طرح واضح ہورہا ہے کہ جس طرح قرآن وسنت؛ عقائدا ور مسائل کے ثبوت کے لیے حجت ہیں اسی طرح اجماع بھی حجت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر آج تک۔علمائے امت نے اصول شریعت میں قرآن و سنت کے بعد تیسرے نمبر پر اس کو بیان کیا ہے اور ساتھ ساتھ وضاحت بھی کی ہے کہ اجماع کون سا شریعت میں معتبر ہوگا) جس کو ہم نے ابتداء میں بیان کیا ہے۔ (
آخر میں ہم قارئین کے فائدے کے لیے ماہنامہ الحدیث شمارہ نمبر91 دسمبر 2011ء میں جناب زبیر علی زئی کا مضمون بعنوان ”اجماع حجت ہے“ سے چند سطریں نقل کررہے ہیں : چنانچہ موصوف اس شمارہ کے ص45 لکھتے ہیں:
اجماع کے بارے میں بطور فوائد ہندوستان و پاکستان کے بعض علماء کے چند حوالے بھی پیش خدمت ہیں تاکہ کوئی جدید اہل حدیث یہ دعوی نہ کرسکے کہ زبیر علی زئی نے اپنی طرف سے اجماع کا مسئلہ بنالیا ہے۔
موصوف نے اس عبارت کو لکھنے کے بعد اپنے علماء کے حوالہ جات نقل کیے ہیں ان میں سے چند ہم آپ کی نظر کرتے ہیں،چنانچہ لکھتے ہیں:
1: میاں نذیر حسین دہلوی نے فرمایا: ہاں ہم اجماع و قیاس کو اسی طرح مانتے ہیں جس طرح ائمہ مجتہدین مانتے تھے۔
)آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی ص64 (
2: ثناء اللہ امرتسر ی نے لکھا ہے: اہل حدیث کا مذہب ہے کہ دین کے اصول چار ہیں، قرآن، حدیث، اجماع امت، قیاس مجتہد۔
) اہل حدیث کا مذہب ص58 (
3: محمد گوندلوی نے لکھتے ہیں اہل حدیث اجماع اور قیاس کو صحیح مانتے ہیں
)الاصلاح ص207 (