فکری گمراہی کا پانچواں سبب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
فکری گمراہی کا پانچواں سبب
………مولانا محب اللہ جان ﷾
فکری آزادی رائے کا غلط استعمال:
چند ایک تمہیدی با تیں اس فکری آزادی رائے کے متعلق سمجھ لیجیے۔
1: فکری آزادی رائے ایک انسان کا بنیادی حق ہے اور اسلام نے بھی انسان کو یہ حق عطاءکیا ہے، اسے اس حوالہ سے قطعاً محروم نہیں کیا کیونکہ اسلام نام ہی حقوق کی ادائیگی کا ہے ، پورے اسلام کو اگر صرف ایک جملہ میں بیان کیا جائے تو وہ یہی ہے کہ”اسلام حقوق کی ادائیگی کا نام ہے“اور حقوق کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی کے متعلق اسلام کی تعلیمات دنیا کے مذاہب کی تعلیمات کے مقابلہ میں ممتاز اور بے مثال تعلیمات ہیں۔
تو فکری آزادی رائے بھی انسان کا فطری حق ہے، جو اسے اسلام نے دیا اسلام چونکہ مذہب اعتدال ہے اور اس کی تمام تر تعلیمات میں اعتدال و توسط کا رنگ نمایاں ہے اور یہی اعتدال اسلام کی روح ہے جس طرح اسلام ہر چیز میں اعتدال کا درس دیتاہے اس طرح فکری آزادی رائے کے متعلق بھی اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ایک معتدل نظریہ دیا ہے، جو مذاہب عالم میں پائے جانیوالے فکری آزادی رائے کے متعلق افراط وتفریط کے شکار نظریات کے مقابلہ میں ایک معتدل و متوسط نظریہ ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا کے مذاہب میں آزادی رائے کے متعلق ہمیشہ اعتدال سے ہٹے ہوئے نظریات پائے جاتے ہیں ، کہیں انسان کو یہ حق دیا تو اس کی بھی کوئی انتہاءمتعین نہیں کی ،اس کو اس حق میں اس قدر آزاد چھوڑا کہ اس انسان اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، حدود کو پھلانگتے ہوئے مذہب کے دائرہ سے بھی نکل گیا۔
تو کسی مذہب نے انسان کے اس فطری حق کو اتنا دبایا کہ اس کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رکھی۔ ہمارا منشاءچونکہ دعوتی اسلوب میں اپنا نظریہ سمجھانا ہے، لہٰذا سب سے پہلے آزادی رائے کے متعلق اسلام کے نظریہ پر مختصر گفتگو کی جاتی ہے۔
آزادی رائے کا فطری حق اور اسلام :
یاد رکھیے کہ” احقاقِ حق “اور” ابطالِ باطل“ اسلامی تعلیمات کا بنیادی نکتہ ہے اور اگر کوئی صاحب بصیرت انسان اس نکتہ پر غور کرے تو اسے یہ حقیقت سمجھ آجائیگی کہ یہ آزادی رائے کی ہی ایک گونہ تعلیم ہے۔
آزادی رائے پر قدغن کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ انسان ہر معاملہ میں سر تسلیم خم کر کے کچھ بھی کہنے اور رائے دینے کی اہمیت و جرات کو مذہبی جرم تصور کرے۔ لیکن اسلام نے انسان کو اس کی رائے کی آزادی کا بھرپور حق دیا ہے چنانچہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کے بہت سے واقعات اس بات پر شاہد ہیں۔
اس لیے کہ آزادی رائے انسان کا فطری حق ہے اور یہی انسان اور دیگر حیوانات میں امتیاز و ترقی و فضیلت کا راز ہے اور یہی انسان کے عقل فہم تدبر، خداداد صلاحیات، فکر، عقل سلیم، وسعت نظری اور اس کے علم و ہنر کا مطالبہ ہے۔ اور اسی کی بنیاد پر انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے، اسی سے کسی انسان کے کمالات اور اس کی بالغ ذہنی و فکری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ظہور اسلام سے قبل انسانیت مختلف قسم کی جکڑ بندیوں میں پوری طرح اسیر تھی۔ انسانوں کے مختلف طبقات ایسی چیزوں میں گھرے ہوئے تھے کہ وہ اپنی انسانیت کے حقیقی تقاضوں پر عمل کرنا تو درکنار اپنے ضروری واجبی حقوق کے حصول کی لئے نہ کوشش کر سکتے تھتے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی لب کشائی کی جرات کی جاسکتی تھی، اسلام نے آکر فقط اپنی دعوت کے ذریعہ پوری انسانیت کا رشتہ اپنے رب ہی سے نہیں جوڑا ، بلکہ پوری انسانیت کو اس کا یہ فطری حق بھی عطاکیا۔
اس نے مختلف طبقات کو اپنے اپنے مکمل حقوق عطاکیے اور یہ بھی اسلام کے اس عطاکردہ آزادی رائے کا ہی کرشمہ تھا کہ مسلم قوم نے ہر میدان میں وہ کارنامے انجام کیے ہیں کہ اس سے پہلے یا اس کے بعد کسی مذہبی قوم نے ان تمام میدانوں میں ایسے کارنامے انجام نہیں دیئے۔ دین و سیاست ہو یا ملک و ملت کی خدمت ، علم و عمل ہو یا صنعت و حرفت، اعتقادیات و معاشیات کا مسئلہ ہویا معاشرت و اجتماعیت کا ، اس میں نہ مرد و عورت اک فرق رہا ، نہ جوان و بوڑھے کا ، نہ آزاد، غلام کا ، نہ حاکم و محکوم کا آپ ہر میدان میں ہرنوع کے افراد کو نمایاں پائیں گے اور نہ صرف یہ کے مسلمانوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ، بلکہ مسلمانوں کے زیر سایہ بسنے والے غیر مسلم بھی ان حقوق سے پوری طور پر مستفید ہوئے ، بلکہ شاید یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ظہور اسلام کے بعد آج تک انسانیت نے جو صحیح و مفید ترقی کی ہے یا کرتی رہیں گی وہ سب اسی فکری آزادی رائے کا ہی کرشمہ ہے، جو انسان کو اسلام نے عطاکیا ہے۔
فکری آزادی رائے کی تحدید:
اسلام چونکہ دین اعتدال ہے اور وہ ہر چیز کے کچھ نہ کچھ حدود و اطراف کو متعین کرتا ہے لہٰذا وہ اس آزادی رائے پر قدغن تو ہرگز نہیں لگاتالیکن تحدید ضرور کرتا ہے ،نہ تو وہ اس حوالہ سے کسی کو اتنا تنگ کرتا ہے کہ انسان کی صلاحیات دب کر رہ جائے اور نہ ہی اتنی آزادی دیتا ہے کہ انسان پرواز کرتے کرتے اپنے مذہب و عقیدہ کو بھی سلام کر بیٹھے اور اپنی اس فطری حق کو غلط استعمال کرتے ہوئے عقیدہ ، مذہب حتی کہ اپنے رب سے بھی آزاد ہو جائے یوں اس کے دین و دنیا، دونوں تباہ و برباد ہو جائیں گے اور انسان اسی کی وجہ سے ہمیشہ کے لیئے نار جہنم کا ایندھن بن کر رہ جائے۔
اب اس آزادی رائے کے حدود و اطراف کیا ہیں اور اس کا دائرہ کار کیا ہے ، چند گزارشات پیش خدمت ہیں، امید ہے کہ ان کو سامنے رکھ کر تحقیق و ریسرچ کے میدان میں کام کرنیوالے ان حد بندیوں کا خیال رکھیں گے اور فکری گمراہی کے اس اہم سبب فکری آزادی رائے کے غلط استعمال سے بچیں گے۔ وماذالک علی اللہ بعزیز۔
حق کو بیان کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے، مگر جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے اسلام نے اپنے ماننے والوں کو خلاف حقیقت ، سنی سنائی بات اور غلط بات کرنے سے بڑی تاکید اور سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ آپ حق بولیے ، جتنا مرضی بول سکتے ہیں ، آپ کی حوصلہ افزائی کی جائےگی مگر وہ ہو حق ہو ،اگر باطل اور خلاف حقیقت و فطرت و شریعت ہو تو اسلام میں ایسی رائے کی حوصلہ افزائی نہیں ہو سکتی۔
2: اگر رائے جائز حدود کے اندر ہو تو اس رائے کے اختلاف کو برداشت کیا جائے گا اور ایسی آراءکا اختلاف ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے، مگر ایسی رائے جو جائز حدود سے باہر ہو قابل برداشت نہیں۔
3: رائے کا اختلاف اور اس کی آزادی کسی مظبوط دلیل کی بنیاد پر ہو کوئی علمی و جوہات ہو، اگر اختلاف رائے دلیل، علم کی بنیاد پر ہو ایسی رائے کی قدردانی کی جائیگی وگرنہ اسے تعصب پر محمول کیا جائے گا۔
4: رائے کی بنیاد اخلاص اور انسانیت کے نفع پر ہو ایسی رائے جس کی بنیاد ذاتیات، خواہش پرستی، سہولت پسندی ، مذہب سے آزادی، خواہشات کی تسکین ہواسلام میں ایسی رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
5: انسان کی رائے نصوص قطیعہ، قرآن و سنت، مسلمات دین، عقائد اسلام کے خلاف نہ ہو، اگر رائے اس کے موافق یا متصادم نہ ہو تو قابل قبول وگرنہ ہرگز قبول نہ ہوگی۔ اور اسے سنگین جرم تصور کیا جائے گا۔ انسانوں کا علم ان کے خالق و مالک کے علم کے سامنے ذرہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا اس لیئے اللہ تعالی کے احکامات کے خلاف ہر انسان کی رائے کو خلاف حقیقت ہی تصور کیا جائے گا، یہ جکڑ بندی ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس کو ناکامی و نامرادی سے بچانا مقصود ہے۔
قرآن و سنت میں رائے زنی سے بچے ، بالخصوص ایسی رائے جو اس کے متصادم ہو ایسی رائے قابل قبول نہیں۔مثلاًایک آدمی قرآن کی تفسیر و تشریح میں اپنی رائے قائم کرے جو قرآن و سنت کے نصوص صریحہ کے متصادم ہو اور یہ کہے چونکہ مجھے آزادی رائے کا حق حاصل ہے لہٰذا میری رائے مانی جائے تو اسے یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ آزادی رائے کا صحیح استعمال نہیں بلکہ ناجائز اورغلط استعمال ہے۔ لہٰذا یہ شخص حدیث مبارک کی اس وعید کا مستحق ہوگا۔ من قال فی القرآن برایہ فلیتبوأ مقعدہ فی النار اس طرح ایک شخص احادیث مبارکہ کی تشریحات اور عقائد اسلامیہ کی تعبیرات اور دیگر امور غیبیہ کی تشریح و توضیح میں من بھاتی آراءکا سہارا لے تو ایسے شخص کو یقیناً الحاد، زندقیت، ارتداد کا ترجمان تو کہا جا سکتا ہے، لیکن دین اسلام کا ترجمان ہرگز نہیں۔ الغرض کہ رائے حق پر ہو ،درست ہو، دلیل اور علم کی بنیاد پر ہو اور اخلاص اور رب کی رضا اصل مقصود ہو، شرعی حدود کے اندر ہو، نصوص و قطیعات سے متصادم نہ ہو تو ایسی رائے یقیناً قابل احترام ہے وگرنہ ان حدود سے تجاوز کر کے ایسی رائے کو قبول کرنا نہ صرف یہ کہ شریعت مطہرہ کی بلکہ انسانیت کے حدود کی بھی یقینا خلاف ورزی ہے۔ واللہ اعلم باالصواب۔