حیاتِ حجۃ الاسلام …… ایک جھلک

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

حیاتِ حجۃ الاسلام …… ایک جھلک
………مولانا محمد اسحاق ﷾
حضرت مولانا امام محمد قاسم بن اسد علی بن غلام شاہ بن محمد بخش بن علاء الدین بن محمد فتح بن محمد مفتی بن عبدالسمیع بن مولوی محمد ہاشم صدیقی رحمۃ اللہ علیہم ، آپ کا سلسلہ نسب مشہور مدنی فیقہ اور امام قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے ہوتا ہواخلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔ رمضان المبارک یا شوال المکرم 1248ھ میں نانوتہ ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے، تاریخی نام خورشید حسین تھا بچپن ہی سے بزرگی کے آثار آپ کی پیشانی سے ظاہر تھے، اور یہ شعر آپ کے حق میں بالکل صادق تھا۔
بلائے سرش
 
ز

ہو شمندی

 

می تافت

ستارہ بلندی

عظیم مؤرخ مولانا فقیر محمد جہلمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
آپ علامہ عصر، فہامہ دہر، فاضل متبحر، مناظر، مباحث، ذہین، معقولات کے گویا پتلے تھے، آپ لڑکپن ہی سے ذہین، طباع، بلند ہمت، تیز، وسیع مطالعہ، جفاکش اور جری تھے۔ مکتب میں اپنے ساتھیوں سے ہمیشہ اول رہتے تھے، قرآن شریف بہت جلد ختم کرلیا خط اس وقت بھی سب لڑکوں سے اچھا تھا، نظم کا شوق اور حوصلہ تھا، اپنے کھیل اور بعض قصے نظم فرماتے اور لکھ لیتے تھے۔
)حدائق الحنفیہ ص509(
حضرت امام محمد قاسم رحمہ اللہ نے مبادی نوشت و خواند اور ناظرہ قرآن پاک کے مراحل نانوتہ کے مکتب میں طے کیے،پھر اس کے بعد علم و عمل کے جن سرچشموں سے سیراب ہوئے ان کے اسماء گرامی درج ہیں۔
مولانا مہتاب علی دیوبندی متوفیٰ 1293ھ، مولانا محمد نواز سہارنپوری، مولانا محمد مظہر نانوتوی متوفیٰ 1302ھ، مولانا مملوک العلی نانوتوی متوفیٰ 1267ھ، مولانا شاہ عبدالغنی مجددی متوفیٰ 1296ھ، مولانا احمد علی محدث سہارنپوری متوفیٰ 1297ھ، بعض تذکرہ نگاروں نے مولانا مفتی صدر الدین آزردہ دہلوی کا نام بھی آپ کے اساتذہ میں لیا ہے یہ سب حضرات اپنے وقت میں علم و عمل کے آفتاب و ماہتاب تھے جن کی علمی روشنی سے اب تک اپنے پرائے سبھی نفع اٹھارہے ہیں۔
اس زمانہ میں ہندوستان میں مذہبی سازشیں خوب عروج پر تھیں ،بالخصوص پادری اورآریہ سماج طبقے۔
حضرت امام محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے پادریوں کی سازشوں اور محاذ آرائیوں کا جم کر مقابلہ کیا اور ان سے مختلف مقامات پر مناظرے کیے اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا، 1293ھ میں چاند پور ضلع شاہجہان پور میں جلسہ عام میں پادریوں کو ایسا لا جواب کیا کہ وہ عین جلسہ سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حجۃ الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی بدولت اسلام کو فتح و نصرت عطاء فرمائی، مباحثہ شاہجہان پور اور میلہ خدا شناسی وغیر کتابیں ایسی یاد داشتوں پر مشتمل ہیں اور پڑھنے والوں کے لیے حظ وافر رکھتی ہیں۔
اسی طرح آریہ سماج کی طرف سے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور کوششوں کو حضرت امام محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے ناکام بنایا اور ہندو پنڈت دیانند سرسوتی جو کہ بزعم خویش بڑا منطقی اور فلسفی تھا مگر بفضلہ تعالیٰ حجۃ الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے علمی طور پر اس کی ایسی سرکوبی کی کہ رہتی دنیا تک اس کی آریہ جماعت کو اپنے باطل نظریات علمی دنیا میں پیش کرنے کی ہمت نہ ہوگی، انتصار الاسلام، قبلہ نما اور جواب ترکی بہ ترکی وغیرہ کتابیں اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ برطانوی سامراج کے مقابلے میں اہل اسلام کے عقائد و نظریات کی حفاظت کے جذبے سے آپ کی عملی کوششیں امت پر احسان عظیم کا درجہ رکھتی ہیں۔ چنانچہ نامور مورخ مولانا سید محمد میاں صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
الزام غدر یا اس الزام کے شبہ میں لاکھوں ہندوستانی موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں، ظلم و ستم اور وحشت بربریت کی جتنی بھی صورتیں ہوسکتی ہیں ہندوستانیوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے کام میں لائی جاچکی ہیں مگر جو قدرت فرعون کے گھر میں موسی کی پرورش کیا کرتی ہے۔ وہ عجیب و غریب انداز میں ان کی حفاظت کرررہی ہے جو فرعون برطانیہ کے مقابلے میں موسیٰ بن کر سامنے آنے والے ہیں، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ بھی انہیں منتخب افراد میں سے ہیں جن کو قدرت خداوندی برطانوی سامراج کے مقابلہ میں نہ صرف موسیٰ بلکہ موسیٰ گر بنا کر کھڑا کرنے والی تھی۔
)علماء ہند کا شاندار ماضی ج4ص296 (
یہ حقیقت ہے کہ حضرت قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے فرنگی یلغار کا ہر محاذ پر خوب مقابلہ کیا اور مستقبل کے لیے ایک ایسی جماعت تیار کر گئے جس نے اس کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
حضرت امام قاسم نانوتوی رحمہ اللہ میدان تصوف میں بھی اعلی مقام پر فائز تھے ،چنانچہ سر سید احمد خان لکھتے ہیں:
آپ نیکی اور خدا پرستی میں بھی زبان زد اہل فضل و کمال تھے ان کو جناب مولوی مظفر حسین صاحب کاندہلوی رحمہ اللہ کی صحبت نے اتباع سنت پر بہت زیادہ راغب کردیا تھا اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کے فیض صحبت نے ان کے دل کو ایک نہایت ہی اعلیٰ رتبہ کا دل بنادیا تھا خود بھی پابند شریعت اور سنت تھے، اور لوگوں کو بھی پابند شریعت اور سنت کرنے میں زائد از حد کوشش کرتے تھے۔
)علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ مؤرخہ 24 اپریل 1880ء(
اتباع سنت اور اس کی تعلیم و تبلیغ ہی تصوف کا اولین مقصد ہے۔
حضرت امام محمد قاسم رحمہ اللہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کے مرید اور خلیفہ اعظم تھے، حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ آپ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
جو شخص مجھ سے عقیدت و محبت رکھے وہ مولوی رشید احمد سلمہ اور مولوی محمد قاسم سلمہ کو جو کمالات ظاہری و باطنی کے جامع ہیں، میری جگہ بلکہ مجھ سے بھی بلند مرتبہ سمجھے، اگر چہ ظاہر میں معاملہ بر عکس ہے، کہ میں ان کی جگہ پر اور وہ میری جگہ پر ہیں اور ان کی صحبت کو غنیمت سمجھے کہ ان جیسے لوگ اس زمانے میں نہیں پائے جاتے اور ان کی با برکت خدمت سے فیض حاصل کرے اور سلوک کے جو طریقے اس کتاب (ضیاء القلوب) میں ہیں ان کے سامنے حاصل کرے، ان شاءاللہ بےبہرہ نہ رہے گا خدا ان کی عمر میں برکت دے اور معرفت کی تمام نعمتوں اور اپنی قربت کے کمالات سے مشرف فرمائے اور بلند رتبوں تک پہنچائے اور ان کے نور ہدایت سے دنیا کو روشن کرے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں قیامت تک ان کا فیض جاری رکھے۔
)کلیات امدادیہ ضیاء القلوب ص72،73(
اللہ تعالیٰ نے حضرت حاجی صاحب نور اللہ مرقدہ کی اس دعا کو شرف قبولیت عطاء فرمائی ہے حضرات شیخین کا فیض پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اپنے پرائے سبھی اس سے مستفید ہورہے ہیں حضرت امام قاسم نانوتوی رحمہ اللہ با وجود حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ کے خلیفہ اعظم ہونے کے بہت کم لوگوں کو بیعت کرتے تھے، بندہ نے بڑی تلاش و جستجو سے بعض خوش نصیب حضرات کے نام جمع کئے ہیں ،جو کہ درج ذیل ہیں:
مریدین حجۃ الاسلام رحمہ اللہ:
شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ
مولانا سید احمد حسن امروہی رحمہ اللہ
مولانا فخر الدین گنگوہی رحمہ اللہ
مولانا فخر الدین صاحب رحمہ اللہ
حاجی محمد اسحاق خان رحمہ اللہ
دیوان محمد یسین دیوبندی رحمہ اللہ
منشی حمید الدین سنبھلی رحمہ اللہ
حافظ تجمل حسین رحمہ اللہ
خلیفہ بشیر احمد رحمہ اللہ
مولانا عبدالرب دہلوی رحمہ اللہ
حکیم مشتاق احمدرحمہ اللہ
سید فضل حق رحمہ اللہ
مولانا سید احمد دہلوی رحمہ اللہ
حضرت امیر شاہ خان رحمہ اللہ
مولانا احمد حسن معقولی رحمہ اللہ
مولانا سید سلطان الدین رحمہ اللہ
مولانا حافظ عبدالغنی رحمہ اللہ
مولانا محمد صدیق مراد آبادی رحمہ اللہ
مولانا روشن خان رحمہ اللہ
میاں محمد خلیل گنگوہی رحمہ اللہ
سید ہدایت علی رحمہ اللہ
راؤ امداد علی خان رحمہ اللہ
پیر جی عاشق علی دیوبندی رحمہ اللہ
جناب احمد خان رحمہ اللہ
جناب پیر محمد صاحب رحمہ اللہ
قاضی محی الدین مراد آبادی رحمہ اللہ
حافظ قادر بخش رحمہ اللہ
محمد یاسین نانوتوی رحمہ اللہ
اورحضرت مولانا محمد مراد فاروقی پاک پتنی رحمہ اللہ۔
یہ ہیں وہ خوش نصیب حضرات جو حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ سے بیعت ہوئے، آخر الذکر مولانا محمد مراد فاروقی سلسلہ چشتیہ کے مشہور امام حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی اولاد میں سے ہیں اور اپنے وقت کے چشتی امام حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ سے اپنے دادا کی میراث لینے دیوبند پہنچے اور بامراد ہوئے۔
حضرت امام محمد قاسم رحمہ اللہ نے شادی بھی کی جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو تین لڑکیاں اور تین لڑکے محمد ہاشم، محمد، حافظ محمد احمد، پیدا ہوئے اوّل الذکر دنوں بیٹے بچپن میں انتقال کرگئے تھے۔ 4 جمادی الاولیٰ 1297ھ جمعرات کے دن بعد از نماز ظہر قاسم العلوم و الخیرات حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اس دنیائے خاک و گل سے رخصت ہوکر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں میں جا بسے۔ نیک اولاد و مخلص شاگرد و مریدین کے علاوہ پیش قیمت 70 سے زائد علمی اور تحقیقی کتابوں کا ذخیرہ یاد گار چھوڑگئے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں:
آب حیات
ہدیۃ الشیعہ
اجوبہ اربعین
تقریر دل پذیر
حجۃ الاسلام
انتصار الاسلام
قبلہ نما
اسرار قرآنی
مصابیح التراویح
الدلیل المحکم
تحفہ لحمیہ
توثیق الکلام
الحق الصریح
تصیفۃ العقائد
تحذیر الناس
لطائف قاسمیہ
فیوض قاسمیہ
جمال قاسمی
مناظرہ عجیبہ
جواب ترکی بہ ترکی
مباحثہ شاہجان پور
شہادت امام حسین
میراث فدک
تنویرالنبراس
حضرت امام محمد قاسم کی وفات حسرت آیات پر سر سید احمد خان نے جو تحریر کیا اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
زمانہ بہتوں کو رویا ہے، اور آئندہ بہتوں کو روئے گا لیکن ایسے شخص کے لیے رونا جس کے بعد کوئی اس کا جانشین نظر نہ آئے ،نہایت رنج اور غم اور افسوس کا باعث ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ دلی کے علماء میں سے بعض لوگ جیسے اپنے علم و فضل اور تقوی اور ورع میں معروف اور مشہور تھے، ویسے ہی نیک مزاجی اور سادہ وضعی اور مسکینی میں بھی بے مثل تھے، لوگوں کا خیال تھا کہ بعد جناب مولوی محمد اسحاق محدث دہلوی رحمہ اللہ کے کوئی شخص ان تمام صفات میں پیدا ہونے والا نہیں ہے۔
مگر مولوی محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ مرحوم نے اپنی کمال نیکی اور دین داری اور تقوی اور ورع اور مسکنی سے ثابت کردیا کہ اس دلی کی تعلیم و تربیت کی بدولت مولوی محمد اسحاق صاحب کی مثل اور شخص کو بھی خدا نے پیدا کیا ہے بلکہ چند باتوں میں ان سے زیادہ ان کی تمام خصلتیں فرشتوں کی سی تھیں ہم اپنے دل سے ان کے ساتھ محبت کرتے تھے اور ایسا شخص جس نے ایسی نیکی سے اپنی زندگی بسر کی ہو بلا شبہ نہایت محب کے لائق ہے ایسے شخص کے وجود سے زمانہ کا خالی ہوجانا ان لوگوں کے جو ان کے بعد زندہ ہیں نہایت رنج اور افسوس کا باعث ہے۔
)علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گڑھ 24اپریل 1880ء (
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے علوم و افکار سے مستفید ہونے کے لیے ان کی تصانیف کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی صاحب علم حضرت کی کتب کی تسہیل کا کام کر دے تو امت پر احسان ہوگا۔ حضرت کی سوانح پرمیرا تفصیلی مضمون قافلہ حق کے خصوصی نمبر میں ملاحظہ فرمائیے گا۔ان شاء اللہ