الاشباہ والنظائر

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ :
………مفتی محمد یوسف ﷾
الاشباہ والنظائر(1)
دسویں صدی ہجری کے عظیم محقق اور فقیہ شیخ زین الدین بن ابراہیم رحمہ اللہ کی تصنیف ہے آپ کے آباء واجداد میں ایک صاحب کانام نجیم تھا۔ اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپ کو ”ابنِ نجیم“ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل علم طبقہ میں آپ زین بن ابراہیم کی بہ نسبت ابن نجیم کے نام سے زیادہ جانے پہچانے جاتے ہیں۔ 926ھ کو مصر کے مشہور شہر قاہرہ میں آپ کی ولادت ہوئی آپ نے اپنے دور کے جید اور معروف صاحب علم وفضل حضرات کی خدمت میں رہ کر مختلف علوم وفنون حاصل کیے خصوصا ًعلم فقہ کے ساتھ آپ کو بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ علمِ فقہ کو آپ نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا، اس کا ثمرہ یہ ملا کہ اللہ پاک نے آپ کو فقہ میں خوب مہارت عطا کی۔ علم فقہ سے اپنے خصوصی تعلق اور بے پناہ لگاؤ کو آپ نے خود بیان کیا ، لکھتے ہیں:
(جن علوم و فنون کو میں نے حاصل کیا ان میں سے) فقہ وہ پہلا فن ہے جس کو سیکھنے کے لیے میں نے راتوں کی نیند قربان کی اور اس فن کے حصول کے لیے میں نے اپنی آنکھوں، ہاتھوں اور اپنی سوچ وفکر کو خوب خوب استعمال کیا اور زمانہ طالب علمی سے ہی مجھے فقہ میں لکھی گئی پرانی و نئی ہر قسم کی کتاب پسند تھی، میں ہمہ وقت اُن کتابوں کے حصول کی فکر میں لگا رہتا تھا جو مجھے دستیاب نہ تھیں۔ چنانچہ تلاش بسیار کے بعد میں ایسی کافی ساری کتابوں سے آگاہ ہوا جو نایاب ہوگئی تھیں۔
)الاشباہ والنظائر مقدمہ ص15 دار الکتب العلمیہ(
ہمارے شہر قاہرہ میں فقہ کے موضوع پر جتنی کتب موجود تھیں تقریباً ان تمام کتب کا میں نے بغور مطالعہ کیا اور ان میں موجود کتابوں میں سے سوائے چند ایک کے کوئی کتاب بھی میری نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی۔
علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ کو اللہ پاک نے ظاہری وباطنی خوبیوں سے خوب خوب نوازا تھا، شیخ عبدالوہاب الشعرانی رحمہ اللہ آپ کے عمدہ اخلاق کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں نے دس سال کا عرصہ آپ کے ساتھ گزارا۔ اس پوری مدت میں آپ سے کوئی ایسا کام سرزدہوتے نہیں دیکھا جو شریعت کے خلاف ہو اور 953ھ میں مجھے آپ کی معیت میں حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، دوران سفر اپنے پڑوسیوں،غلاموں اور رفقاء کے ساتھ آپ کا رویہ بہت اعلیٰ پایا، حالانکہ سفر میں (عموماً) لوگوں کے اخلاق و مزاج بدل جاتے ہیں۔
)البحراالرائق ترجمہ صاحب البحر ص5 (
شیخ ابن نجیم رحمہ اللہ نے بہت سی علمی و تحقیقی کتابیں تصنیف فرمائیں جن کی تعداد ایک درجن کے لگ بھگ ہے، سب سے آخری کتاب جو آپ نے لکھی وہ ”الاشباہ والنظائر“ہے اور آپ نے یہ کتاب بہت کم مدت میں لکھی۔
اس سے پہلے کہ ہم باقاعدہ طور پر کتاب اور اس کے مضامین سے متعلق بات کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ الاشباہ والنظائر کے بارے میں اہل علم حضرات کی آراء سے آپ کو آگاہ کرتے چلیں تاکہ آپ کو زیر بحث کتاب کی قدر و منزلت اور بے پناہ مقبولیت کا صحیح اندازہ ہوسکے۔
1: علامہ حموی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الاشباہ والنظائر ایک ایسی کتاب ہے کہ زمانہ نے اس جیسی کتاب نہیں دیکھی اور کتب حنفیہ میں اس کی مثل یا اس کے ہم پلہ کتاب نہیں، یہ کتاب اگر چہ حجم کے لحاظ سے چھوٹی ہے مگر اپنے اندر علوم کا سمندر سموئے ہوئے ہے…… کوئی بھی قاضی یا مفتی ایسا نہیں جسے اپنے فیصلے یا فتوے میں اس کتاب کی حاجت نہ ہوتی ہو۔
)غمز عیون الابصارص 5(
2: علامہ التقی الغزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الاشباہ والنظائر ایک ایسی کتاب ہے جس میں کثیر تعداد میں فقہی قواعد، بہت باریک مسائل اور بہترین جوابات ذکر کیے گئے ہیں،اسے عوام و خواص میں بہت مقبولیت حاصل ہے۔ میرا غالب گمان یہ ہے کہ روم کے کسی بھی عالم دین کی لائبریری اس کتاب سے خالی نہیں ہوگی۔
)الطبقات السنیہ فی تراجم الحنفیہ رقم الترجمہ 894(
3: علامہ شرف الدین الغزی رحمہ اللہ بڑے عجیب اندازسے تبصرہ فرماتے ہیں:
تمام کتابوں میں سب سے بہترین اور قابل فخر، اسلوب و طرز کے لحاظ سے منفرد،اس کی عبارت خوش نما، اس کے اشارات دقیق، اپنے فن میں بے مثال و لاجواب کتاب، فقہ کے بے شمار مسائل کا احاطہ کیے ہوئے۔
)تنویر البصائربحوالہ ماہنامہ وفاق المدارس(
4: علامہ تاج الدین سبکی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس جیسی کتاب فقہ حنفی میں نہیں دیکھی گئی۔
)شرح عقود رسم المفتی(
5: شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ لکھتے ہیں: کتاب کا بنظر غائر مطالعہ انسان میں تفقہ پیدا کرنے میں بہت معاون ہوتا ہے۔
)تبصرےص 318(