نیکی کانقدبدلہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
نیکی کانقدبدلہ!
……… مفتی محمدمعاویہ اسماعیل
دسمبرکامہینہ شروع ہوچکاتھا،ٹھنڈاپنے عروج پرتھی،رہی سہی کسر دھند نے نکال دی تھی،سرشام ہی لوگ بستروں میں دبک جایاکرتے تھے،سڑکیں سنسان لگتی تھیں،وقفے وقفے سے کوئی گاڑی گزرتی توکوئی آوازپیداہوتی تھی ورنہ توہرطرف ہوکاعالم تھا۔
اس دن توکچھ ٹھنڈزیادہ ہی تھی،اسی وجہ سے میراآفس جانے کابالکل دل نہیں کررہاتھامگربازارسے گھرکی کچھ ضرورت کی چیزیں لانی تھیں ،اس لئے آفس چلاآیا،کہ چلوناغہ بھی نہ ہوگاگھرکی چیزیں بھی خریدلوں گا،ویسے بھی بازارکی طرف جاناہی پڑتا،اورآفس میں آکربھی صبح سے ہیٹرہی کے پاس بیٹھاتھا،مگرپھربھی کسی کسی وقت ایک ٹھنڈی لہرسی جسم میں دوڑجاتی ،اتنے میں گھڑی نے چاربجنے کااعلان کیا، آفس کاوقت ختم ہوچکاتھا،اب میں اپنے آپ کوکوسنے لگا کہ کیاضرورت تھی آج اتنی سردی میں آنے کی، سامان کسی اوروقت میں بھی خریداجاسکتاتھا، مگراب تو آچکا تھا،بہرحال اب سوچنے کاقت نہ تھابلکہ آفس سے جانے کاوقت تھا،میں نے اپنے اوپرلی ہوئی چادرکواتارکرکیس میں ڈالااوراورکوٹ اچھی طرح پہن کرگیٹ سے باہرکی طرف نکلا،جیسے ہی گلاس ڈورکھولاایک ٹھنڈی لہرجسم سے ٹکرائی اورکوٹ کوچیرتی ہوئی سیدھاہڈیوں میں جاگھسی،میں نے کوٹ کومزیداپنے اوپرسختی سے لپیٹ لیا، اور آہستہ آہستہ چلتاہوابائیک سٹینڈکی طرف آنے لگا، چوکیدار کو ادھرادھر نظر دوڑا کرڈھونڈاتووہ بیچارہ ایک کونے میں دبکابیٹھانظرآیا،میں اس کی حالت دیکھ کربے اختیارمسکرادیا،اس کوسلام کیاتواس نے صرف سرہلانے پرہی اکتفاکیا،لگتاتھاکہ ٹھنڈنے اس کوجما کررکھ دیاہے،بہرحال میں نے اپنی بائیک نکالی اورسٹارٹ کرکے بازارکی راہ لی،وہاں سے خریداری کرتے کرتے شام کے سات بج گئے،رات کافی گہری ہوچکی تھی،اوپرسے دھند،خداکی پناہ ہاتھ کوہاتھ سجھائی نہ دیتاتھا،میں نے بائیک کی ہیڈلائٹ آن کی اورآہستہ آہستہ چلاتے ہوئے مین روڑپرآگیا،ابھی میں نے تھوڑاہی فاصلہ طے کیاتھاکہ پیچھے سے ہارن سنائی دیا،میں نے بائیک سائیڈپرکرلی تاکہ پیچھے والی سواری کوراستہ دے دوں،مگرپیچھے سے آنے والے نے میرے قریب آکررفتارکم کرلی،میں نے گردن گھماکردیکھاتووہ ایک بیس بائیس سالہ نوجوان تھا،جوایک 125بائیک پرسوارتھا،اتنی ٹھنڈمیں اس نے اپنے اوپرکچھ نہ پہناہواتھا،نہ کوئی چادرنہ کوٹ اورنہ ہی کوئی ہیلمٹ ،میں اس کی حالت دیکھ کر حیران رہ گیا،جب بیمار ہو گا تو پتہ چل جائے گا،میں نے دل ہی دل میں سوچا،آؤبھئی اس دھنداورٹھنڈمیں کچھ تھوڑی سی ریس لگاتے ہیں،اس کی بات سن کرمجھے لگاکہ شایدوہ پاگل بھی ہے،مگرمیں نے اس کوکوئی بات کئے بغیرہی نفی میں سرہلایا،بس ڈرگئے،کوٹ ہیلمٹ اورنئی 125 بائیک کے ہوتے ہوئے بھی گھبرارہے ہو،اس نے مجھے پچکارتے ہوئے کہا،واقعتااس کی بات بالکل ٹھیک تھی،میری گاڑی بالکل نئی تھی میں نے چندہی دن پہلے لی تھی اس کی گاڑی کچھ پرانی سی لگ رہی تھی،اس نے جب باربارمجھے شہ دلائی تومیں بھی یہ سوچ کرکہ اس وقت توروڑبالکل صاف ہے،کوئی گاڑی توہے نہیں ،تیار ہوگیا،میں نے بائیک کاگیئربدلا،اوراس کی رفتاربھی بڑھادی اس نے جب دیکھاتواس نے بھی گاڑی کی رفتارتیزکردی۔
اب ہم دونوں وقفے وقفے سے گاڑی کی رفتار بڑھا رہے تھے، روڈ صاف تھا،کوئی سواری نہ تھی،کبھی وہ مجھ سے آگے نکل جاتا،توکبھی میں،تھوڑاآگے ایک چوک آتاتھا،جب ہم وہاں سے گزرتے وہ چوک بالکل خالی تھا، مگراس چوک کے آخرمیں ایک ہیولاسانظرآیاقریب آئے تو وہاں ایک باباجی کھڑے نظرآئے،ان کے ایک ہاتھ میں شاپرتھاجس کووہ آگے بڑھاکرہم سے لفٹ لینے کیلئے اشارہ کررہے تھے اوردوسراہاتھ سینے پررکھے زورزورسے کھانس رہے تھے،ہم دونوں وہاں سے تیزی ہی میں آگے بڑھ گئے،مگرمجھے ایسے لگاکہ کسی نے میرادل مٹھی میں لے لیاہے،اصل میں میری طبیعت میں نرمی بہت زیادہ تھی، مجھ سے کسی کادکھ برداشت نہیں ہوتاتھا،اسی جذبہ ہمدری کی وجہ سے میرے دل میں خیال آیاکہ پتہ نہیں اس وقت یہ باباجی کہاں جاناچاہتے ہونگے،اوراس بات کاتومجھے یقین تھاکہ اب ان کوکوئی گاڑی نہیں ملے گی،اورلگتاتھاکہ وہ بیماربھی ہیں،پھرمقابلہ یادآگیاتومیں نے اس خیال کوجھٹکنے کی کوشش کی،دماغ اورضمیرکی اسی جنگ میں جیت ضمیرکی ہوگئی اورمیں نے بائیک آہستہ کرنی شروع کردی،تووہ نوجوان جومجھ سے کچھ پیچھے رہ گیاتھا،زوں کرکے آگے نکل گیامیں نے اس کی پرواکیے بغیرگاڑی واپس موڑی اوراس چوک میں واپس آگیاجہاں باباجی مایوس سے کھڑے تھے،میں نے ان کے قریب بائیک روکی۔
جی باباجی کہاں جاناہے آپ نے؟بب بیٹا!مم میں غریب آدمی ہوں،اُح اُح اُح کہتے کہتے باجی کوپھرکھانسی شروع ہوگئی تومیں بائیک سے نیچے اترآیا،میں نے دیکھا کہ باباجی کے ہاتھ میں جوشاپرتھااس میں کچھ دوائیاں تھیں،باباجی اس وقت آپ کہاں جارہے ہیں،باباجی کی کھانسی رکی تومیں نے پھرپوچھا،بب بیٹابیمارآدمی ہوں، وہ، مم مجھے سانس کی تکلیف ہے،ساتھ میں کھانسی بھی بب بڑی شدیدہے،کافی عرصے سے دوائی کھارہاہوں،آآآج اُح اُح اُح باباجی کوکھانسی کاپھردورہ ساپڑگیا،آج دوائی بھی ختم ہوگئی تھی ،اورڈاکٹرکوبھی چیک کرواناتھا،اس لئے مم میں نے سوچاکہ ڈاکٹرکے پاس چیک کرواآتاہوں،مگرابھی توکوئی گاڑی ہی نہیں ہے،باباجی نے تفصیل سے بتایا۔
آپ صبح چلے جاتے اتنی دیرسے جانے کی کیاضرورت تھی،میں نے کہا،بب بیٹادراصل مجھے رات کوس س سانس کی تکلیف بڑھ جاتی ہے دوائی نہ کھاؤں توسانس بندہونے لگتارات کواٹھ کردوائی کھ کھ کھاتاہوںتت توکچھ فرق پڑتاہے،اوردوائی ختم ہوگئی تھی،پیسے بھی نہیں تھے،ااابھی ایک محلے دارسے کچھ پیسے قق قرض لیے ہیں،وہ بھی شش شام کوآتاہے،نوکری کرتاہے ناکسی جگہ پر،اس سے پیسے دیرسے ملے،اس لئے اب اب جا رہا ہوں۔
باباجی نے ہکلاتے ہوئے بات کی،لگتاتھاکہ ٹھنڈان کوکچھ زیادہ ہی لگ گئی تھی ،ٹھیک ہے باباجی میں آ پ کوہسپتال چھوڑآتاہوں،یہ کہہ کرمیں نے کیس میں سے اپنی چادرنکال کرباباجی کے اوپرلپیٹ دی،بائیک سٹارٹ کی اورباباجی کوپیچھے بٹھا کر واپس سول ہسپتال کی طرف روانہ ہوگیا،کیونکہ سول ہسپتال ہمارے آفس والی جانب تھا، مجھے دیرہوناتویقینی بات تھی،مگرباباجی کوایسے چھوڑکربھی نہ جا سکتا تھا، بہرحال میں نے باباجی کوہسپتال پہنچایا،باباجی نے دوائی لی،جس میں تقریباپندرہ منٹ صرف ہو گئے،باباجی کی دوائی کابل ایک ہزارروپے بنا،باباجی نے بل دینے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالاتومیں نے روک دیااوربل خوداداکردیا،آؤباباجی چلیں،میں نے کہا اور باباجی مجھے ایسے دیکھنے لگے جیسے میں کوئی انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہوں۔
بہرحال میں نے باباجی کواسی چوک میں اتاردیا،باباجی نے مجھے ڈھیروں دعائیں دے کررخصت کیا، اور چادر اتارنے لگے،نہیں نہیں باباجی رہنے دیں،آپ یہ چادر رکھ لیں،آپ کوکام آئے گی، جب میں نے یہ کہاتوباباجی کی آنکھوں میں آنسو آگئےاوروہ لگے مجھے دعائیں دینے،انہوں نے اتنی دعائیں دیں کہ دیرہونے کی وجہ سے ہونے پریشانی بھی ختم ہو گئی،میں نے باباجی کوسلام کرکے بائیک آگے بڑھادی،کافی دیر ہوچکی تھی گھروالے بھی پریشان ہوں گے،میں بائیک کچھ تیزکردی۔
چندمیل ہی فاصلہ طے کیاتھاکہ مجھے لگا جیسے کافی سارے لوگ کھڑے ہیں،قریب پہنچنے پرپتہ چلاکہ ابھی تھوڑی دیرپہلے ایکسیڈنٹ ہواہے،میں نے دورسے دیکھاایک نوجوان ساسڑک پرپڑاہواتھا،کافی ساری سڑک خون آلودہوچکی تھی،میں نے ذراآگے ہوکردیکھاتومیرے اوسان خطاہوگئے یہ تووہی نوجوان تھاجوابھی تھوڑی دیرپہلے مجھ سے مقابلہ کرکے گاڑی دوڑارہاتھا،اف یاخدایہ کیابنا؟میں یہ منظردیکھ کرششدررہ گیا،نوجوان تھا،خون بڑاجوش مارتاہے نا،لاکھ سمجھاؤپرسمجھتے ہی نہیں، اتنی دھندمیں جب اتنی تیزموٹرسائیکل چلائی جائے توانجام یہی ہوتاہے،میں ابھی سوچ ہی رہاتھاکہ ایک بوڑھے باباجی کے تبصرہ کی آوازمیرے کانوں میں پڑی،وہ بھی شایداسی گاڑی میں سوارتھے۔
ایک آدمی سے میں نے صورت حال پوچھی تواس نے بتایاجناب کیاپوچھتے ہو ہم یہاں گاڑی کی انتظارمیں کھڑے تھے یہ نوجوان اتنی تیزموٹرسائیکل دوڑاتا ہوا ہمارے قریب سے گزراکہ ہم دہل کررہ گئے،مگرچندگزدورسے آتی اس گاڑی سے جا ٹکرایا،گاڑی کی طرف اس نے اشارہ کرتے کہا،انجام اس کاسامنے ہے،کوئی لوگ کانوں کوہاتھ لگارہے تھے،اتنے میں ایمبولینس کی آوازآئی اورلوگ راستہ بنانے لگے ایک آدمی نے اس پرایک کپڑاڈال دیا،انہوں نے جلدہی اس کی لاش کو اٹھاکرگاڑی میں ڈالا،اس کی بائیک سائیڈپرپڑی ہوئی تھی،جوبالکل مڑچکی تھی ایسے لگتا تھاجیسے کسی نے اس بائیک کو پکڑکرموڑ دیا ہو۔
اس بائیک کی حالت سے ہی ٹکرکی شدت کا اندازہ لگایاجاسکتاتھا،میں یہ سوچنے لگاکہ اللہ تعالی نے مجھے اس بزرگ کے ساتھ کی گئی نیکی کا صلہ کتنی جلدی دے دیاہے،اگرمیں اس بزرگ کیلئے واپس نہ جاتااوراس نوجوان کے ساتھ ہی گاڑی دوڑاتا رہتاتواس سے آگے سوچ کرہی جسم میں جھرجھری سی آگئی اور میں نے استغفار کے ساتھ اللہ تعالی کاشکراداکرتے ہوئے اپنی بائیک آگے بڑھادی۔