ورلڈ کپ 2015 اور معروضی حالات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کرکٹ ورلڈ کپ 2015 اور معروضی حالات
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اِن دنوں دنیا بھر میں بالخصوص جنوبی ایشیاء میں کرکٹ ورلڈ کپ کا جنون اپنے عروج پر ہے۔ نوجوان نسل کا پسندیدہ یہ کھیل شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس کے کھلاڑیوں اور شائقین کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان کے عوام بھی اس کے دلدادہ ہیں۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن ہمیں معروضی حالات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں حالیہ دہشت زدی ، بدامنی اور خوف و ہراس کی جو کیفیت پائی جا رہی ہے اس سے پاکستان کا ہر فرد سہما ہوا ہے۔ اقتصادی و معاشی بحران نے جینا دوبھر کردیا ہے ، مہنگائی اور بیروزگاری کے دوپاٹوں میں مسلسل ہم پسے چلے جا رہے ہیں۔ کرپشن کا عفریت ہم سب کو اپنے منہ میں لیے” جگالی“ کر رہا ہے۔ اہلیانِ پاکستان ناانصافی اورظلم کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ مغربی کلچر ہمارے معاشرے میں ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے ، اغیار کی رسوم و رواج نے ہماری تہذیب کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر دیا ہے۔
ایمانی اور روحانی ترقیات تو کجا؛ ہم مادی ترقیات کی دوڑ میں بھی بہت پیچھے رہ چکے ہیں ، تعلیمی صورتحال پر بات کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ، کاروباری دنیا میں ہمارا گراف جس قدر نیچے آیا ہے کسی پر مخفی نہیں۔
وطن عزیز میں مظالم کی خونیں داستانیں روز رقم ہورہی ہیں ، پھول جیسے بچوں اور نازک کلیوں کو دن دیہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ، بہنوں کی عزتوں کی بولیاں لگتی ہیں ، ان کی عفت وپاکدامنی کی بے داغ چادر کو تار تار کیا جاتا ہے ڈکیت اور چور ہمارے سرکاری اداروں کو نہیں بخشتے ، ناداری و افلاس کا اژدھا ہمارے گھروں میں گھسا بیٹھا ہے۔ خون مسلم کی ہولی کھیلی جاتی ہے ، عدم ِاستحکام کی دلدل ہم سب کو نگلے جا رہی ہے اور ایک ہم ہیں کہ بحیثیت قوم خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔
تلخ حقائق سے نظریں چرانے سے کام نہیں بننے والا ، مستیوں میں خَرمَست ہونے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے ، من حیث القوم ہمیں ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہو گا ، تعلیمی اداروں کو اپنا نظام تعلیم مزید بہتر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایسی پالیسیاں مرتب کرنا ہوں کہ مستقبل کے معمارانِ قوم کا وقت ضائع نہ ہو۔ انہیں اپنے روشن مستقبل کے لیے دن رات ایک کرنا ہوگا۔ کیا ظلم ہے کہ امتحانات سر پر ہیں اور ہمارے بچوں کے سروں پر کرکٹ ورلڈ کپ کا جنون سوار ہے۔ جن آنکھوں نے اقوام عالم پر چھا جانے کے خواب دیکھنے تھے اب ان آنکھوں سے میچ کا خمارہی نہیں اتر رہا۔
افسوس!ورلڈ کپ کی آڑ میں اربوں کا جوا لگایا جاتا ہے ، ہار جیت کے فیصلوں کے لیے حرام امور کا کھلم کھلا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ اکثر شائقین جس اہتمام سے کرکٹ دیکھنے کا بندوبست کرتے ہیں ناچ گانا ، موسیقی ، موج مستی، شراب و کباب کا ”فل ماحول“کیا یہ عذاب الہٰی کو اپنے اوپر ٹوٹ جانے کی دعوت نہیں تو پھر اور کیا ہے ؟
ہم حریف ملک سے ٹاکرے کے وقت اپنی فتح اور ان کی شکست کی دعائیں مانگتے ہیں،تعجب ہوتا ہے کہ بعض سادہ لوح تو اخلاص کے ساتھ نوافل کی نذر مانتے ہیں، آیت کریمہ کے وظائف کی تکمیل میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ اے کاش !اپنی تہذیب اور کلچر کو ہم یاد رکھتے ، اپنی شناخت اور پہچان کو باقی رکھتے۔ دہشت گردی اور بدامنی سے ملک کی حفاظت کے لیے دعائیں مانگتےتو آج حالات بدل جاتے۔
افسوس صدا فسوس!اے اہلیان وطن !ہماری عبادات ، نمازیں ،تلاوت قرآن ، ہماری دینی سرگرمیاں ، ہمارا گھریلو نظام زندگی ، ہمارا کاروبار ، ہماری زراعت ہماری معیشت ، ہماری تعلیم اور ہماری سیاست کو سب کرکٹ کھیل نے کھیل بنا کر رکھ دیا۔ ہم خود کو دھوکہ دے رہے ہیں ، ہم غلط کو صحیح کہہ رہے ہیں ، ہم جان بوجھ کر اپنا مستقبل برباد کر رہے ہیں ، اپنے وقت کو کھیل تماشے کی نذر کر کے کل کو ہم خود بھی کھیل تماشا بن جائیں گے۔
وہ قومیں جو کامیابیوں کے افق پر طلوع ہوتی ہیں ان کے معیار زندگی بھی الگ ہوتے ہیں۔ جنہوں نے دنیا میں اپنا نام پیدا کرنا ہوتا ہے ان کے سروں پر سارے عالم پر چھا جانے کی دھن سوار ہوتی ہے۔ نہ کہ ہماری طرح کسی کھیل کا نشہ ان پر سوار ہوتا ہے۔
ہمیں اپنے دوغلے رویے پر نظر دوڑانا ہو گی ، ہمیں اپنی دورخی چھوڑنی ہوگی ، اپنے تمدن کو جلا بخشنی ہو گی ، اپنی تہذیب کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا ، اپنے کلچر کو رواج دینا ہوگا ، اپنے معیار زندگی کو پھر سے نکھارنا ہو گا۔ ہمیں ایمانی ، روحانی اور مادی ہر میدان میں آگے جانا ہوگا۔ اپنی تعلیمی حالت کو بہتر بنانا ہوگا ، اپنی صفوں میں اتحاد لانا ہو گا ، وطن عزیز سے بدامنی ، دہشت گردی ، ظلم و ستم ، جور وجفا ، نا انصافی ، کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
اس لیے ہمیں اپنی ترجیحات پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے، خواہ مخواہ اپنے وقت کو ضائع مت کریں ،اپنے ملک اور قوم کی خدمت کریں اپنے کاموں پر توجہ دیں ، کھیل کود میں نہ اپنی زندگی برباد کریں اور نہ اپنے بچوں کی۔ دعا گو