فکری گمراہی کا چھٹا سبب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
فکری گمراہی کا چھٹا سبب
………مولانا محب اللہ جان ﷾
اسلام اور اجتہاد:
دین کا ادنی سا فہم رکھنے والا کوئی شخص بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام نے نہ صرف یہ کہ اجتہاد کی اجازت دی بلکہ اس کی کمال حوصلہ افزائی بھی کی ہے حتی کہ اسلام نے قرآن وحدیث کے بعد اجتہاد کواسلامی قانون کا سرچشمہ قرار دے دیاہاں البتہ اسلام نے اپنے مزاج کے مطابق اس اہم اور نازک شعبہ کو شتر بے مہار بھی نہیں چھوڑا کہ جو جب اٹھے اور جیسے چاہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی تعلیمات میں رائے زنی شروع کرلے بلکہ اسلام نے اجتہاد کے شعبہ کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے حدودوقیود بھی متعین کیے ہیں اوراجتہاد کی ضرورت اس کا محل اس کی شرائط کی بھی تعیین کی ہیں۔ نام نہاد ان محققین کی فہم ناقص کا قصور ہے کہ وہ اجتہاد کی ان اسلامی تعلیمات اوران حدودوقیودات کاادراک نا کرسکے یا انکی محققانہ نظر ان پہلوؤں کو نہ دیکھ سکی۔ منکرین حدیث یا دیگر جدت پسندجواسلامی لبادہ میں ملبوس اسلامی تعلیمات کو اجتہاد کے نام پر مشق ستم بنا رہے ہیں جو خود بھی گمراہ دوسروں کوں بھی گمراہ کررہے ہیں ان کی اس فکری گمراہی کی سب سے بنیادی وجہ اجتہادکی حقیقت شناسی سے محرومی اوراس اصطلاح کی حقیقی پہلوں سے عدم واقفیت ہے جوآزادانہ اجتہاد کی کشتی پر سوارگمراہی کی طرف رواں دواں ہیں۔
یہاں آزادانہ اجتہاد کی اصطلاح اس لئے استعمال کی تاکہ بالعموم یہ مسئلہ سب کو سمجھ آجائے وگرنہ اسے آزادانہ اجتہاد کا نام دینا بھی غلط ہے یہ تو محض خواہش پرستی،اباحت پسندی یااعجاب باالرائے ہے جسے یہ لوگ اجتہاد کا نام دے کر امت میں پھوٹ ڈال رہے ہیں۔
آزادانہ اجتہاد:
تحقیق اور ریسرچ میں آزادانہ اجتہاد فکری گمراہی کا ایک اہم اور بنیادی سبب ہے۔نام نہاد یہ محققین (ہویٰ پرست)اسلامی تعلیما ت میں کی ہوئی اپنی تحریفات وتلبیسات کو تحقیق یا اجتہادکا نام دیکر امت کویہ بات کسی طرح باورکرانے کی کوشش کر تے ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ کبھی بھی کسی صورت میں بند نہیں ہوا اور انہیں اجتہاد کا حق حاصل ہے لہٰذا یہ لیجئے ہماری مجتہدفیہ تحریفات وتلبیسات۔
اسلامی اجتہاد کے متعلق انکی اس غلط فہمی یاان کی اس جسارت نے انہیں اسلامی تعلیما ت میں تحریفات اورکتروبیونت کا اس قدر شکار بنایا ہواہے کہ الامان ولحفیظ
سب سے پہلے یہاں اجتہاد کے متعلق چند اہم اور ضروری گذارشات پیش کی جا تی ہیں تا کہ اس مسئلہ کی اصل اور اسکی حقیقی نوعیت بھی ہمارے سامنے آجائے۔
اجتہاد کادروازہ:
اجتہاد قرآن وحدیث کے بعداسلامی قانون کاایک اہم ترین سرچشمہ ہے رسول اکرمﷺ نے بنفس نفیس اس کا دروازہ کھولا اوربے شمار مواقع پر اجتھاد کراسکے نشیب وفراز سے امت کو آگاہ کیا،چنانچہ امام سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ہمارے نزدیک سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کو جب کوئی ابتلاءپیش آتا جس میں وحی نہ نا زل ہوتی توآپ وحی کا انتظار کرتے تھے جب انتظار کی مدت گزر جا تی تو رائے و اجتہاد سے حکم ظاہر فرماتے تھے اگر اس کے خلاف وحی نہ آتی تو یہ برقراررکھنے کی دلیل ہوتی تھی“۔
(اجتہادلشیخ تقی امینی)
مسلمانوں کا متفقہ نظریہ ہے کہ اجتہاد کا در وازہ کلیۃً بند نہیں اور نہ ہی آیندہ ہوگا اس لیے کہ مرور ایام کے ساتھ نت نئے مسائل کا ابھرنا ایک فطری عمل ہے اور یہ زندگی جو رواں دواں ہے اپنے جلو میں بہت سے نئے مسائل کو لاتی ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ نت نئے مسائل کے حل کے لئے نموپذیرزندگی اورترقی پذیرمعاشرے کےلئے اورامت مسلمہ کو کج روی اور گمراہی سے بچانے کےلئے اسلام کی جامعیت اور عالمگیریت کے پیش نظراجتہاد کو باقی اورقابل عمل سمجھاجائے۔
علمائے امت پر یہ بہتان ہے کہ وہ اجتہاد کے قائل نہیں ،علماءصرف یہ کہتے ہے کہ بغیر اہلیت کے کسی شخص کو اجتہاد کے منصب عظمی پر فائز کرنادین کے ساتھ بہت بڑی بددیانتی اورعظیم خیانت ہے۔
اجتہاد کامحل:
اجتہاد کا محل کیا ہے کن کن مسائل میں اجتہاد کی اجازت ہے اور کن میں ممانعت،یہ اور اس قسم کے مسائل کو سمجھنے کیلئے حدیث ملاحظہ فرمائیے:”آنحضرت ﷺنے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کویمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو دریافت فرمایا کہ معاذ! جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ پیش ہوگا تو فیصلہ کیسے کرو گے؟عرض کیا :اللہ تعالی کی کتاب سے فیصلہ کروں گا ،فرمایا: اگراس کا حکم کتاب اللہ میں تمہیں نہ ملے؟عرض کیا :اس صورت میں سنت رسولﷺ سے فیصلہ کروں گا ، فرمایا:اگراس کا حکم تمہیں سنت رسولﷺ میں میں بھی نہ ملے؟عرض کیا اس صورت میں اجتہاد کی پوری قوت استعمال کروں گااورحکم الٰہی کی دریافت میں ذرا کوتاہی نہیں کروں گا،یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا:”اس اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہےکہ جس نے رسول اللہﷺ کے قاصد کورسول اللہﷺ کے پسندیدہ طریقہ کی توفیق عطافرمائی“۔مشکوة
اس روایت سے مندرجہ ذیل امور کا پتہ چلتا ہے:

نئے مسائل کی دریافت کے لیے اجتہادکے عمل کو بروے کار لانے کی خود شارعﷺ نے اجازت دی ہے۔

اجتہاد ان مسائل میں ہوگا جن کا حکم قرآن وسنت میں صراحتا موجود نہ ہو۔

شہید اسلام حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ فرماتے ہیں:
اس سے ظاہر ہےکہ اجتہاد کی ضرورت صرف اس موقع پر پیش آتی ہے جس کا صریح علم نہ تو کتاب اللہ میں موجود ہو نہ آنحضرت ﷺکی سنت ثابتہ میں اور نہ صحابہ کرام اورخیرالقرون کے دور میں اس پرکوئی اتفاقی فیصلہ ،اجماع ہوا ہو،ورنہ اگر کسی مسئلہ کا حل خود کتاب اللہ میں موجود ہو یا آنحضرت ﷺاس کا صا ف صاف حکم امت کو بتلا چکے ہوں یا صحابہ کرام جو قرآن حکیم کے اولین مخاطب اورآپ ﷺسے براہ راست قرآن و سنت اوردین شریعت کا فہم حا صل کر نے وا لے تھے ، اس بارے میں کوئی متفقہ فیصلہ کر چکے ہوں توایسے موقع پر اجتہاد صرف ایک لایعنی فعل ہی نہیں بلکہ ایک نا روا جرأت بھی ہے،کتاب وسنت اور اجماع امت کے مقابلہ میں اجتہاد کرنے کا معنی تویہ ہو ں گے کہ اس مجتہد کو نہ توخدا کی کتاب پر اعتماد ہے نہ اس کے نبی اور نہ ہی اس کے خیال میں صحابہ کرام کا مجموعی علم ہی کوئی وزن رکھتا ہے۔
( تجدد پسندوں کے افکار)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: سوچنا چاہئے کہ اسلام میں اجتہاد کا مقصد کسی غیر منصوص واقعہ سے متعلق احکام الٰہی کا دریافت کر نا ہے یا حق تعالی کے منصوص احکام سے جان چھڑانا اور انہیں کسی نہ کسی حیلے بہانے ٹالنے کی کوشش کر نا ؟اگر اجتہاد کا مقصد واقعتا حکم الٰہی کو دریافت کر نا ہے تو جس صورت میں پہلے ہی اللہ ورسولﷺ کا صریح اور صاف حکم موجود ہے ،وہاں اجتہاد کرناکتنی غیر معتدل اور احمقانہ حرکت کہلائے گی؟اور اگر اجتہاد سے مقصد حکم خداوندی کو درمیان سے ہٹاکر اس کی جگہ ”فرمان قیصری“ کا نفاذ ہے تو ایسا اجتہاد ہماری بحث ہی سے خارج ہے اسلام میں ایسے اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں۔
معلوم ہوا کہ اجتہاد صرف ان مسائل میں ہوگا جہاں قرآن وسنت کا صاف اورصریح حکم موجود نہ ہویا اس پر صلف صالحین کا اجماع نہ ہوا ہو عصرحاضرکر گمراہ کن فتنوں کے فکری گمراہی کا یہ سبب بھی کسی سے مخفی نہیں کہ ان کے آزادانہ اجتہاد کے عمل جراحی کی زد میں اکثر وہ مسائل آتے ہیں جس کے متعلق قرآن وسنت کے صریح احکامات موجود ہوتے ہیں یاان پر سلف کا اجماع ہوتا ہے۔
شرائط اجتہاد:
بااتفاق علماءوفقہاءکے ہروہ شخص اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہے جومندرجہ ذیل علوم میں مہارت اور کچھ سے ضروری وا قفیت رکھتا ہو۔ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں”مجتہد وہ ہے جو ان علوم کا جامع اور ماہر ہو۔
1:کتاب اللہ کاوسیع علم:
چنانچہ مجتہد کے لیے قرآن حکیم کے علوم میں سے ناسخ ومنسوخ، مجمل، مفسر،عام وخاص،محکم ومتشَابہ کا جاننا ضروری ہے نیز یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ مکروہ ، حرام ،مباح ،مندوب اور واجب سے کیا مراد ہے۔
2:سنت رسول ﷺ کا وسیع علم :
چنانچہ سنت میں سے ان امور کاعلم بھی ضروری ہے اوراس کے علاوہ مجتہد کے لیے صحیح ،ضعیف ،مسند اور مرسل احادیث کی پہچان اور معرفت بھی ضروری ہے۔ یعنی وہ علوم قرآن میں مہارت کے ساتھ ساتھ علوم حدیث میں بھی گہری دسترس اور واقفیت رکھتا ہو(راقم الحروف)
3:علماءسلف نے جو کچھ لکھا ہے اس سے آگاہی:
وہ بخوبی جانتا ہو کہ علماءسلف نے کس مسئلہ میں اتفاق کیا ہے اور کس مسئلہ میں ان کی آراءمختلف ہیں۔
حکمت:
علماءسلف اور متقدمین کی آراءکا معلوم ہونا اس لیے ضروری ہے تا کہ اس کی کوئی رائے اور فیصلہ اسلاف کے رائے کے خلاف نہ ہو۔ کیونکہ اگر ایسا ہوا تووہ اسلاف کے اجماع کے خلاف ایک نئی رائے دینے کا مرتکب کہلائے گا۔”اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ اجماع کو جاننے کے ساتھ اسے مانتا بھی ہو۔اور سلف صالحین کے اجماعی مسائل اوران کی دین فہمی پر اعتماد بھی رکھتا ہو اور ان کی رائے کو اپنی ذاتی رائے پر ترجیح اور فوقیت بھی دیتا ہو۔“
4:عربی لغت میں مہارت:
عربی زبان میں اتنی مہارت حاصل کر لے کہ اس کے معانی اور مطالب کو بخوبی سمجھ سکے اور اس بات سے آگاہ ہو کہ سیاق وسباق کی مناسبت سے فلاں لفظ اور جملے کے فلاں مقام پر یہ معنیٰ ہے۔
حکمت:
عربی زبان پر دسترس اس لیے بھی ضروری ہے کہ شریعت عربی زبان میں نازل ہوئی ہے تا کہ وہ اس کے ذریعہ شارع کے مقصود کو سمجھ سکے۔
5:قیاس کے طریقہ کار کو جانتا ہو :
اس میں ضروری ہے کہ وہ ان اصولوں سے واقف بھی ہو۔ اس لیے فروعیات کو اصولیات سے ہی مستنبط کرنا اجتہاد کہلاتا ہے اور مجتہد کا یہی کام ہوتا ہے۔
6:طرق تطبیق سے واقف ہو :
یعنی مجتہد کے لیے حدیث کو قرآن کے ساتھ اور قرآن کوحدیث کے ساتھ تطبیق دینے کے طریقے بھی جانتا ہو۔اگر کہیں ظاہراً قرآن وحدیث میں تعارض نظر آئے تواس تعارض کے رفع کی صورت اورتطبیق کی صورت کیا ہوگی۔ اس لیے کہ قرآن حدیث کے اور حدیث قرآن کے مخالف نہیں ہو سکتا۔
7:وجوہ ترجیحات سے بھی واقف ہو :
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ کسی دو مسئلوں میں سے کسی ایک مسئلہ یا کسی ایک علت کو ترجیح دیتا ہے تو وہ ترجیح کس بنیاد پر ہوگی۔
8:احادیث کا علم :
احادیث سے مراد وہ احادیث ہیں جن کا احکامات سے تعلق ہے کیونکہ قصص واقعات ،وعظ ونصیحت پر مشتمل احادیث سے واقفیت اجتہاد کے لیے شرط نہیں۔
9:تقویٰ وصلاح:
اوپر ذکر کیے گئے علوم تو وہ تھے جن کا تعلق ظاہر سے تھا اب باطنی کمالات کا ہونا بھی ایک مجتہد کے لیے ضروری ہے۔ جس میں تقویٰ ،خشیت الہٰی ،احساس مسؤلیت ان چیزوں کا وہ پوری طرح احساس رکھتا ہو اور اسے اس کا اچھی طرح احساس ہو کہ اگر میں د ین میں ادنیٰ سی تحریف وتلبیس کا بھی مرتکب ہوا تو پھر اس کا انجام کیا ہوگا ؟؟
10:فطری استعداد:
فطری ذکاوت قوت حافظہ یہ سب چیزیں بھی مجتہد کے لیے ضروری ہیں۔(تلخیص از عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید)
اب نام نہاد اجتہاد کے علم برداروں سے صرف اتنی گزارش ہے کہ اگر وہ اپنے اس کام میں مخلص ہیں تو وہ کم از کم اپنے اندر اجتہاد کی مہارت اور قابلیت پیدا کریں اوراجتہاد کے محل کو متعین کریں اوراجتہاد کی شرائط پر پورا اتریں۔ وگرنہ بصورت دیگر وہ علماءامت کے فہم اور ان کے دینی ذوق پر اعتماد کریں۔ یہی فکری گمراہی سے بچنے کا واحد حل ہے۔
اس وقت امت مرحومہ کا سب سے بڑا المیہ اسلاف سے بد اعتمادی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے ان اجتہادات کو نظر انداز کیا جارہا ہے جوقرآن و سنت سے ماخوذ ہیں اور اصولوں پر مبنی ہیں اور ایسے اجتہادات اور تصورات کو عام کیا جا رہا ہے جس کی بنیاد قرآن وسنت کی بجائے عقل نارسا ہے اس لیے فکری تناؤ کی کیفیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اگراسلاف امت بالخصوص اس فن کے امام امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ کے اجتہادات پر اعتماد کر لیا جائے جو شرائط اور اصول و ضوابط کے موافق ہیں تو جھگڑے ختم ہو جائیں۔ ورنہ یونہی غلط فکری تصورات میں امت مزید تقسیم ہوتی چلی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلاف کو اللہ کریم نے جہاں استعداد اور قوتِ دلیل سے نوازا تھا وہاں ان کے اخلاص کا بھی یہ عالم تھا کہ ان کا فروعی اختلاف بھی دلائل پر مبنی ہوا کرتا تھا۔ جو آج کے دور میں ناپید ہےضرورت اس بات کی ہے کہ اسلاف کی تعلیمات اور پیروی سےامت کو وحدت کی لڑی میں پرودیا جا ئے۔