تذکرۃ الفقہاء

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تذکرۃ الفقہاء:
……مولانا محمدعاطف معاویہ﷾
امام عبیداللہ بن عبداللہ الہذلی ﷫
نام ونسب:
جلیل القدر صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے نسب نامہ یوں ہے ابو عبد اللہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود الھذلی۔
)تذکرۃ الحفاظ ج1ص62(
علم وفضل کا گھرانہ :
آپ کے داد سیدنا عتبہ بن مسعود حضور علیہ السلا م کے جلیل القدر صحابی تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے مختلف حضرات کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عتبہ علم وفقہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کےپائے کے آدمی تھے مگر چونکہ ان کا انتقال ہو گیا اس لیے ان کی علمی وفقہی شہرت زیادہ نہ ہوئی اور آپ کے عملی مقام کی ہی وجہ تھی کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو کی بارش برس رہی تھی۔
)الاصابہ ج4ص440(
آپ کے والد سیدنا عبداللہ بن عتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے بھتیجے اور حضور علیہ السلام کے صغار صحابہ میں سے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ چھوٹے تھے آپ علیہ السلام ان پر کس قدر شفقت فرماتے اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے ایک مرتبہ ان کے صاحبزادے حضرت حمزہ نے پوچھا :
أى شىء تذكر من رسول الله - صلى الله عليه وسلم ؟ قال: أذكر أنه أخذنى وأنا خماسى أو سداسى، فأجلسنى فى حجره، ومسح رأسى بيده، ودعا لى ولذريتى من بعدى بالبركة"
)تہذیب الاسماء واللغات لامام النووی ج1ص392(
ابو جان آپ کو حضور علیہ السلام کی دنیوی زندگی سے متعلق کوئی واقعہ یا چیز یاد ہے آپ نے فرمایا ہاں بیٹا جب میری عمر پانچ چھ سال تھی تو آپ علیہ السلام نے ایک مرتبہ مجھے اپنی گود مبارک میں بٹھایا ازراہ شفقت میرے سر پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور زبان مبارک سے میرے لیے اور میرے بعد میری اولاد کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔
حضور علیہ السلام کی دعا کی ہی برکت تھی آپ کے فرزند ارجمند حضرت عبیداللہ وقت کے جلیل القدر فقیہہ عالم ، عابد اور آسمان زہد کے ایسے ستارے گزرے ہیں کہ علمی دنیا میں ہمیشہ ان کا نام زندہ رہے گا۔ الحاصل آپ کے دادا اور والد دنوں وقت کے امام صحابہ کے معتمد اور حضور علیہ السلام کی شفقت ومحبت سے مالامال تھے۔
حصول علم:
آپ نے جس معاشرہ اور دور میں آنکھ کھولی وہ صحابہ کرام اور امت کے بہترین افراد کا زمانہ تھا جس کا آپ نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اپنے والد سیدنا عبداللہ ، سیدہ عائشہ صدیقہ ، سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا ابن عباس، سیدنا ابو سعید خدری ، سیدنا عبداللہ بن عمر سیدنا عثمان بن حنیف ، سیدنا نعمان بن بشیر، سیدنا عبدالرحمٰن بن عبدالقاری رضی اللہ عنہم اجمعین و غیرہم جیسے کبارصحابہ سے علم حاصل کیا۔
)تہذیب التہذیب ج4ص324(
علمی وفقہی مقام:
آپ کو تمام دینی علوم میں مہارت نامہ حاصل تھی اور خصوصاً علم حدیث اور فقہ میں آپ کا مقام بے مثال تھا جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حدیث میں ائمہ صحاح نے آپ کی روایات کو اپنی کتب میں نقل کیا اور فقہ میں یہ مقام تھا کہ مدینہ منورہ کے و ہ حضرات جنہیں فقہاءسبعہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ان میں آپ بھی شامل ہیں آپ علم حدیث وفقہ کے اتنے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے کہ بڑے بڑے اساطین علم اور وقت کے راہنما وپیشوا آپ کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ چند ایک کی آراء درج ذیل ہیں:
علمی مقام ائمہ دین کی نظرمیں:
آپ کے علمی مقام اور نرمی کی وجہ سے سیدنا عبداللہ بن عباس کی بہت عزت کرتے تھے۔
)الطبقات الکبریٰ ج5ص250(
امام ابن شہاب زہری جنہوں نے حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان جیسے کئی دیگر علم کے سمندروں سے علم حاصل کیا آپ کے علم کے متعلق فرماتے ہیں:
سمعت من العلم شيئاً كثيراً فظننت أني قد اكتفيت حتى لقيت عبيد الله فإذا كأني ليس في يدي شيء۔
)وفیات الاعیان المعروف تاریخ ابن خلکان ج3ص115(
کئی حضرات سے بہت زیادہ علم حاصل کرنے کے بعد میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کہ اب مزید علم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں میرا علم مکمل ہوگیا لیکن جب عبیداللہ کی مجلس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا اور ان کے علمی نکات سنے تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے پا س تو کچھ بھی علم نہیں۔
اس سے ملتی جلتی بات حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی نقل کی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ میرے اساتذہ میں عبیداللہ کو یہ مقام حاصل ہے کہ میں جب بھی ان کی مجلس میں بیٹھا انہوں نے نئے دلائل کی بارش کی ہے۔
)تہذیب التہذیب ج4ص324(
امام زہری رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں:
أدركت من قريش أربعة بحور سعيد بن المسيب وعروة بن الزبير وأبا سلمة بن عبد الرحمن وعبيد الله بن عبد الله بن عتبة۔
)الطبقات الکبریٰ ج2ص382(
قریش کے وہ چار حضرات جو علم کے سمندر تھے ان میں حضرت عبیداللہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔
امام ابو جعفر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
كان مقدما في العلم والمعرفة بالاحكام والحلال والحرام۔
) تہذیب التہذیب ج4ص325(
آپ رفعت علم ، معرفت احکام اور حلال وحرام کے جاننے میں سب سے آگے تھے۔
حضرت امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الإمام التابعى، أحد فقهاء المدينة السبعة۔۔۔۔ واتفقوا على جلالته وإمامته وعظم منزلته۔
)تہذیب الاسماء ج1ص443،442(
آپ مشہور تابعی وقت کے امام اور مدینہ کے سات فقہاء میں سے ایک ہیں اہل علم آپ کی جلالت ، امامت اور علو مرتبہ پرمتفق ہیں۔
امام ذھبی رحمہ اللہ نے جب آپ کا تذکرہ کیا تو
الفقیہ اور احدالفقہاء السبعۃ
جیسے الفاظ میں آپ کے مدح فرمائی۔
)تذکرۃ الحفاظ ج1ص62(
امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں:
كان أحد الفقهاء العشرة ثم السبعة الذين يدور عليهم الفتوى وكان عالما فاضلا مقدما في الفقه تقيا شاعرا محسنا لم يكن بعد الصحابة إلى يومنا فيما علمت فقيه اشعر منه ولا شاعرا افقه منه۔
)تہذیب التہذیب ج4ص325(
مدینہ منورہ کے پہلے دس فقہاء اور بعد میں وہ سات فقہاء جن کا فتویٰ مدینہ میں چلتا تھا اور انہیں پر فتویٰ کا دارومدار تھا۔ حضرت عبید اللہ کا شمار بھی ان میں ہوتا ہے آپ وقت کے بہترین عالم علم فقہ میں بلند مقام کے حامل نیک متقی اور اعلیٰ درجہ کے شاعر بھی تھے۔ میری معلومات کے مطابق صحابہ کرام کے بعد آپ وقت کے سب سے بڑے شاعر بھی تھے اور سب سے بڑے فقہیہ بھی یعنی دونوں علوم کا حسین امتزاج آپ ہی تھے۔
آپ کی وفات اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کی حسرت:
کتب اسماء و تاریخ کے مطابق حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ آپ کی دنیاوی حیات میں آپ کا بے حد ادب واحترام کرتے تھے اور جب 98ھ میں آپ کا انتقال ہوا تو وفات کے بعد عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا:
اگر امام عبید اللہ آج دنیا میں موجود ہوتے تومیں س ان کی ہدایات پر عمل کرتا اور ان کی رائے ومشورہ سے سرِمو بھی انحراف نہ کرتا۔
)تہذیب التہذیب ج3ص325(