حیا……پاکیزہ معاشرے کی اساس

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">حیا……پاکیزہ معاشرے کی اساس!!

……مفتی محمد مبشر بدر
قدرت نے انسان کو بنا کر یونہی بیکار نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسے ایک کامیاب اور پرسکون زندگی جینے کے لیے جس طرح کچھ اصول اور رولز بتادیئے ہیں جن کے تحت وہ خوشگوار اور پر امن زندگی گزار سکتا ہے اور ان اصولوں کے ساتھ اس کی زندگی کی راحت جوڑ دی ہے جن سے انحراف کرکے وہ کہیں اطمینان نہیں پاسکتا، اسی طرح خدا نے انسانوں کو بے شمار فطری خوبیوں سے نوازا ہے جن میں سے ایک اہم خوبی شرم و حیا ہے، جو اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی پر پاکیزہ معاشرے کی اساس اور بنیاد ہے۔جن قوموں اور معاشروں سے شرم و حیا رخصت ہو جاتی ہے وہ پستی اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے جاتے ہیں ، وہ خود اور ان کی نسلیں تباہی اور بربادی سے دوچار ہوجاتی ہیں۔
چنانچہ مشکوٰۃ شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص اپنے بھائی کو سمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم و حیانہ کیا کرو، آپ ﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:’’اس کو چھوڑ دو کیوں کہ حیا ایمان کا جزء ہے۔‘‘
ایک مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’حیا ایمان کا حصہ ہے ، ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفا (زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ ‘‘
شریعت کی اصطلاح میں حیا وہ صفت ہے جس کے ذریعے انسان بے ہودہ ، قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے رک جاتا ہے۔ شریعت میں حیا کا بہت اہم مقام ہے ، اسے اپنانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ نوجوان اسے اپنا کر معاشرے کو پرامن بنانے میں اہم کردار ادا کریں اور منکرات و فواحش کے قریب جانے سے روکا گیا ہےتاکہ انارکی اور فساد کی جڑیں مضبوط نہ ہونے پائیں۔
اسی شرم و حیا سے خاندانی اور ازدواجی زندگی پرسکون اور کامیاب رہتی ہے۔ حیا طبعی خواہشات پورا کرنے کے لیے ہرفردکو اپنے رفیق ِ سفر تک محدود رکھتی ہے اسے اِدھر اُدھر منہ مارنے سے روکتی ہے، حیا سے خاندانی تعلقات ٹوٹنے سے بچ جاتے ہیں ، ازدواجی تعلقات مضبوط رہتے ہیں اور اگر جنسی بے راہ روی عام ہو کر معاشرے اور ماحول میں رائج ہوجائے تو نوجوان گھر بسانے کے متعلق سوچیں گے بھی نہیں۔
جب خواہشات پوری ہورہی ہیں تو بیوی کی ذمہ داریاں اپنے سر لینے کی کیا ضرورت ، اسی جنسی بے راہ روی سے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، معاشرے میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے، زندگیوں میں یاس و ناامیدی در آتی ہے ، کوئی کسی کا سہارا بننے کو تیار نہیں ہوتا ، بس اپنا مطلب نکال کر سب اپنی راہ چل پڑتے ہیں جس سے مایوس ہوکر بہت سے لوگ خودکشی پر مجبور ہوکر اپنی جانیں تک گنوا دیتے ہیں۔
دوسری طرف عفت و پاکدامنی گھروں کو مضبوط بنادیتی ہے۔ انسان کو معزز اور معتبر بنا دیتی ہے۔ وہ افراد جو ہوا و ہوس اور جنسی خواہشات میں مگن ہوجاتے ہیں لوگوں کے نزدیک قابل وثوق نہیں رہتے۔حدیثِ مبارک میں ہے:’’ حیا خیر ہی کی موجب ہوتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ حیا سراسر خیر ہے۔ گو انسان جس قدر باحیا بنے گا اتنی ہی خیر اس میں بڑھتی جائے گی۔ ‘‘
حیا کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے لہٰذا باحیا انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگار عالم کے ہاں بھی مقبول ہوتا ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کا ثبوت ملتاہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے آئیں تو ان کی چال وڈھال میں بڑی شائستگی اور میانہ روی تھی اللہ رب العزت کو یہ شرمیلا پن اتنا اچھا لگا کہ سورة القصص میں اس کا تذکرہ فرمایا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ترجمہ : ’’اور آئی ان کے پاس ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی۔ ‘‘
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب باحیا انسان کی رفتاروگفتار اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے تو اس کا کردار کتنا مقبول اور محبوب ہو یہی وجہ ہے کہ حدیث میں حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ ارشاد مبارک ہے :حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔(مشکوٰۃ)حرام نگاہ صحیح فیصلے کی قوت ِقلب کو سلب کر دیتی ہے۔ اکثر جنسی انحرافات کی ابتدا دیکھنے سے ہوتی ہے۔ یہ اثرات عورت کا مرد اور مرد کا عورت کو دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے قرآن نے اس سے منع کردیا ہے۔
چنانچہ فرمایا:’’مومنین سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کریں کہ یہی زیادہ پاکیزہ بات ہے۔ بے شک اللہ ان کے کاموں سے خوب واقف ہے اور مومنات سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہوں کونیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں مگر جو ظاہر ہو اور اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبانوں پر رکھیں اور اپنی زینت کو اپنے شوہر، باپ دادا۔۔۔اور وہ بچے جو عورتوں کی شرمگاہوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ان سب کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں اور اپنے پاؤں پٹخ کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے۔‘‘
(سورۂ نور(
گویا نظر کو حیا میں خاصا دخل ہے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ لعنت برسائے دیکھنے والے اور دیکھنے کا موقع دینے والے پر۔ (مشکوٰۃ)ایک اور مقام پر فرمایا:’’غیر محرم کی طرف دیکھنا شیطان کا ایک زہریلا تیر ے جو میرے خوف سے اسے ترک کردے گا میں اسے ایمان میں بدل دوں گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت سے دوری اور اس کے قہر و غصے کی پھٹکار ہے۔‘‘ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’ تم اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو ورنہ اللہ تمہاری شکلوں کو تبدیل کردے گا۔
(ترغیب و ترہیب(
لہٰذا جو شخص حیا جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں محروم القسمت بن جاتا ہے ایسے انسان سے خیر کی توقع رکھنا بھی فضول ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ترجمہ : جب شرم وحیا ء نہ رہے تو پھر جو مرضی کر۔ ایک اور حدیث میں ہے جس میں آقا علیہ السلام نے فرمایا ’’: بے شک حیا اور پاکدامنی ایمان کا حصہ ہیں جب زندگی پاکدامن نہ رہی تو ایمان کہاں بچا؟۔‘‘ایک مقام پر آقا علیہ السلام نے فرمایا:’’حیا اور ایمان دو جڑوے بھائیوں کی طرح ہیں جب ایک زندگی سے نکل جائے تو دوسرا بھی نکل جائے گا۔‘‘
(ترغیب و ترہیب)
یعنی اگر حیا نہ رہے تو ایمان بھی نہ رہا اور ایمان نہ رہا تو حیا نہ رہی۔ ایک اور مقام پر آقا علیہ السلام نے انتہائی اہم اور خطرے کی بات ارشاد فرمائی : ’’جب اللہ تعالی کسی بندے کی ہلاکت کا ارادہ کرتاہے تو اس سے حیا کھینچ لیتا ہے۔‘‘
(ابنِ ماجہ(
ایک نوبل انعام یافتہ مسلم لڑکی سے کسی صحافی نے پوچھا؛ آپ حجاب کیوں پہنتی ہیں جب کے آپ باشعور ہیں آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے؟ ’’اْس عظیم لڑکی نے جواب بھی لاجواب دیا ،’’ آغازِ کائنات میں انسان بالکل بے لباس تھا اور جب اْسے شعور آیا تو اس نے لباس پہننا شروع کیا ،آج میں جس مقام پر ہوں اور جو پہنتی ہوں وہ انسانی سوچ اور انسانی تہذیب کا اعلیٰ ترین مقام ہے، حجاب تحفظ و اعتماد کا احساس عطا کرتا ہے، یہ قدامت پسندی نہیں، اگر لوگ پرانے قوموں کی طرح پھر سے بے لباس ہو جائیں تو یہ قدامت پسندی ہے ، ‘‘
اس عورت سے خوبصورت کوئی نہیں اس دنیا میں جو صرف اور صرف اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے پردہ کرتی ہو‘‘ جس طرح اللہ نے شریعت مطہرہ میں حیا کا یک مقام اور اہم درجہ بیان فرمایا اور اسے اپنانے کا حکم فرمایا اسی طرح بے حیائی ، بے شرمی اور فحاشی سے سختی سے منع فرما دیا۔
چنانچہ پاکدامنی کو بہترین عبادت قرار دینے کے بعد اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے۔’’شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کاحکم دیتا ہے۔‘‘جب کہ اللہ تعالی بے حیائی سے روکتا ہے۔
چنانچہ فرمایا:’’ یقیناً اللہ عدل، نیکی، قرابتداروں کا حق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برے کاموں اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔‘‘ سورۂ اعراف میں فرماتا ہے:’’ کہہ دیجیے میرے پروردگار نے ہر قسم کی اعلانیہ اور پوشیدہ بے حیائی کو حرام قرار دیاہے۔فحش کی تعریف کرتے ہوئے امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ہر بری شے کو فحش کہتے ہیں چاہے اس کا تعلق فعل سے ہو یا قول سے‘‘
(مفردات راغب،ص ۳۷۴ (
ان تمام ارشادات کوسامنے رکھتے ہوئے ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیں کہ کس طرح ہمارے حیا و عفت والے معاشرے کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یورپ کے ننگے اور شرم و حیا سے عاری معاشرے میں ڈھالنے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں ، دن رات فلموں ، ڈراموں ، اخباروں ،حیا سوز لٹریچروں ،مغربی مخلوط تہواروں اور مخلوط طرزِ تعلیم کے ذریعے ہماری نوجوان نسلوں کومادر پدر آزاد معاشرے کی طرح آوارگی کا درس دیا جارہا ہے۔
اگر یہ سب کچھ ایسے چلتا رہا اور اس پر شرفاء اور نیک لوگ خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہےتو ایک دن ہم سب ننگِ دین و ننگِ ملت بن کر شرم و حیا سے عاری ہو جائیں گے اور اپنا وقار و تہذیب سے محروم ہوجائیں گے اور جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی اور فحاشی کا کلچر متعارف کرانا چاہتے اور مسلم معاشرے میں اسے رائج کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے بارے سورۂ نور کی اس آیت میں وعید ملاحظہ فرما سکتے ہیں:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیل جائے ان کے لیے دنیا وآخرت میں درد ناک عذاب ہے۔“
یعنی وہ تمام ذرائع اور وسائل جس سے فحاشی وعریانی اور بے حیائی کی اشاعت‘بے راہروی اور اخلاق باختگی کے دروازے کھلیں ممنوع‘حرام ہیں۔ یہ سوچنے اور خاموش بیٹھے رہنے کا وقت نہیں ،ہمیں حیا ،پاکدامنی اور عفت کے لیے اہم کردار ادا کرنا ہوگا ، اس کا سب سے پہلا اور مؤثر مرحلہ یہ ہے کہ ہم خود اپنی ذات سے شروع کرنا ہوگا اور خود کو حیا و پاکدامنی کے زیور ِ حسن سے آراستہ کرنا ہوگا ، تبھی ایک پاکیزہ اور پرامن معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔