فکری گمراہی کا ساتواں سبب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
فکری گمراہی کا ساتواں سبب
………مولانا محب اللہ جان ﷾
قطعیات واصول دین کو تحقیق کا میدا ن بنانا :
اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے کہ جس نے تحقیق کی صرف اجازت ہی نہیں دی بلکہ اس کی کمال حوصلہ افزائی بھی کی ہے اور پھر اسی پر اکتفاءنہیں کیا بلکہ تحقیقات کے اصول وقواعد بھی مقرر کیے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے تحقیق کے مقاصد،اس کے ذرائع اور اہداف بھی متعین فرمائے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تحقیق کے ان تمام تر مقاصد ،ذرائع،اہداف اور پھر مقامات تحقیق سے واقفیت ایک محقق کے لیے ضروری اور بنیادی شرط قرار دی۔یہاں اولاً تحقیق کے مقاصد پر کچھ گفتگو کرتے ہیں اور پھر اپنی اصل بات کی طرف آتے ہیں:تحقیق کے مقاصد کو ہم بالترتیب ذکر کیے دیتے ہیں۔
نمبر 1: اللہ کی رضا:
سب سے پہلا اور بنیادی مقصد نیت کی درستگی کے ساتھ اللہ کی رضا ہونا چاہیے ،مسلمان محقق کے لیے یہ سب سے پہلی شرط ہے کہ اس کی نیت خالص ہو اور وہ یہ کام صرف اور صرف اللہ کریم کی رضا جوئی کے لیے کرنا چاہتا ہواورظاہر بات ہے کہ اللہ کریم کی رضا جوئی تب ہی حاصل ہو گی جب تحقیق کا یہ کام اس کے اصول وضوابط کی رعایت رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔لہٰذا تحقیق کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ تحقیق کے متعلق ان دونوں قسم کے امور کو معلوم کیا جائے کہ کن کن امور میں اسلام نے تحقیق کی اجازت دی ہے اورکن کن معاملات میں تحقیق کرنے سے منع کیا ہے۔یہاں اسی مضمون کے حوالے سے ایک اہم بات ضروری سمجھی جاتی ہے۔
وحدت عقائد اوروحدت ارکان ، اسلام کی امتیازی خوبی:
وحدت عقائد اور وحدت ارکان اسلام کے محاسن اور امتیازی خوبیوں میں سے ہیں یعنی اسلام کے آغاز سے آج تک اس کے ارکان اور عقائد میں کسی قسم کی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ عقائد وارکان اور دیگر مسلمات دین میں اسلام کسی قسم کی تحقیق واجتہاد کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی مسلمان محققین اور دیگر ائمہ اجتہاد نے عقائد وارکان کو اجتہاد وتحقیق کا میدان بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام محققین،فقہاء،ائمہ متکلمین ضروریات وقطعیات دین کے منکر کو کافر سمجھتے ہیں اوراس میں تاویل کو انکار کے مترادف مانتے ہیں ان کا جوں کا توں ماننا ہر مسلمان پر فرض سمجھتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہرمحقق اپنی تحقیق میں حق تک پہنچ جائے اور ہر مجتہد اپنے اجتہادمیں صواب کوپالے تو یوں اسلامی عقائدجوکہ اسلام کی بنیادیں ہیں اس میں اختلاف واقع ہوجائیگااور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا کے مذاہب میں اسلا م ہی وہ واحد مذہب ہے کہ جوایک مضبوط بنیا دوں پر استوار ہے اور اسی وجہ سے امت میں موجود اتفاق واتحاد کی کرن نظر آتی ہے کہ توحید، رسالت ، آخرت سمیت دیگر مسلمات دین میں تمام اہل حق متفق ہے اگر چہ فروعی مسائل میں اختلاف ہی کیوں نہ ہوجبکہ اس کے مقابلہ میں دیگرمذاہب کے بنیادی عقائد ونظریات میں زبردست قسم کی تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں ، مثلاعیسائیت کا عقیدہ تثلیث ہی دیکھ لیں جس میں پادریوں کہ درمیان زبردست اختلاف پایاجاتاہے اوریہی اختلافی چیزیں آج عیسائیت کی بنیاد بنی ہوئی ہیں۔اسی لیے اسلام نے عقائد ونظریات اور ہر وہ مسئلہ وعقیدہ جو قرآن وسنت سے قطعی وبدیہی طور پر ثابت ہے یا احادیث متواترہ سے ان کا ثبوت ملتا ہے اسلام ان میں تحقیق ،اجتہاد اوراختلاف کی اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق وریسرچ کے میدان میں جن کج فہموں نے عقائد ومسلمات دین کو اپنی تحقیق وریسرچ کا میدان بنایا انہوں نے امت مسلمہ میں زبردست قسم کا انتشار کھڑا کر دیا۔تحقیق وریسرچ کے نام پر گمراہ ہونے والوں کی فکری گمراہی کا یہ سبب بھی کسی سے مخفی نہیں ہو سکتا۔
نمبر2:نفع رسانی :
یعنی خلوق خدا کو اپنی تحقیق کے ذریعہ نفع پہنچانا۔لہٰذا ایسی تحقیق کہ جس کے ذریعہ مسلمانوں میں انتشار پھیل جائے اور ان کی جمعیت کو نقصان پہنچ جائے اسلام میں ایسی تحقیق کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں۔ تو انسان جب اصول دین کو تحقیق کا میدان بناتا ہے تو تحقیق کا پہلا مقصد (اللہ تعالی کی رضا)بھی فوت ہوجاتاہے کیونکہ ایسی تحقیق کہ جس کی وجہ سے مسلمان انتشار کا شکار ہو اللہ تعالی کی نا راضگی کا سبب بن جا تا ہے اسی طرح عقائد کوتحقیق کا میدان بنانے سے تحقیق کا دوسرا مقصدبھی فوت ہوجاتاہے کیونکہ اس قسم کی تحقیقات تو مخلوق کو نفع سے زیادہ نقصان ہوگا۔
نمبر 3: حق کی دریافت:
تحقیق کا ایک مقصد جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ حق کی تلاش اور اس کی دریافت ہے۔ جب عقیدہ قرآن و سنت سے قطعی ویقینی طور پر ثابت ہو گیا تو اب اس پر مزید تحقیق کی کیا ضرورت ہے؟