تذکرۃ المحدثین

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرۃ المحدثین:
……مفتی شبیر احمد حنفی ﷾
امام سلیمان بن مہران الاعمش﷫
دیگر علوم اسلامیہ میں جلالتِ شان:
امام اعمش کو اللہ تعالیٰ نے خوب علم سے نوازا تھا۔ علمِ حدیث میں تو امامت مسلمّ تھی ہی ساتھ ساتھ دیگر اسلامی علوم میں بھی اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ ذیل میں مختلف میادین علم میں آپ کی شان و شوکت کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے:
[۱]: علوم قرآنی
قرآن کے ساتھ آپ کو عشق و محبت کا وافر حصہ عطا ہوا تھا، علوم قرآنی میں آپ ”رأس العلم“ تصور کیے جاتےتھے۔ خود فرماتے ہیں:
لولا القرآن لكنت بقالا•
(المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان: 2/636)
اگر قرآن نہ ہوتا تو میں ایک سبزی فروش ہوتا۔
آپ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت کے ماہر گردانے جاتے تھے اور کوفہ کے بڑے قاریوں میں سے ایک تھے۔ امام ابو اسحاق السبیعی (ت129 ھ) کا بیان ہے:
ما بالكوفة منذ كذا وكذا سنة أقرأ من رجلين في بني أسد عاصم والأعمش، أحدهما لقراءة عبد الله، والآخر لقراءة زيد•
(تاریخ بغداد: ج7 ص118)
کہ کئی سال بیت چکے کہ کوفہ میں بنی اسد کے دو آدمیوں سے بڑا کوئی قاری نہیں آیا؛ ان میں سے ایک قاری عاصم اور دوسرے امام اعمش ہیں۔ ایک (امام اعمش)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت میں مہارت کی وجہ سے مشہور ہیں اور دوسرے (عاصم) زیدکی قراءت میں مہارت کی وجہ سے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک آپ کی سندِ قراءت یوں ہے:
امام اعمش نے علم قراءت یحیی بن وثاب سے لیا، یحیی بن وثاب نے عبید بن نضیلہ الخزاعی سے، عبید بن نضیلہ نے علقمہ سے اور علقمہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قراءت کا علم لیا۔
(الطبقات الکبری: ج6 ص331)
علامہ ابن سعد (ت230ھ) قرآن میں آپ کی مہارت کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
كان الأعمش صاحب قرآن وفرائض وعلم بالحديث. وقرأ عليه طلحة بن مصرف القرآن. وكان يقرئ الناس ثم ترك ذاك في آخر عمره. وكان يقرأ القرآن في كل شعبان على الناس في كل يوم شيئاً معلوماً حين كبر وضعف. ويحضرون مصاحفهم فيعارضونها ويصلحونها على قراءته.
(الطبقات الکبری: ج6ص331)
ترجمہ: امام اعمش قرآن، علم فرائض اور علم حدیث کے بہت بڑے عالم تھے۔ طلحہ بن مصرف نے آپ سے قرآن کی قراءت سیکھی ہے۔ آپ لوگوں کو قرآن کی قراءت کا مستقل درس دیتے تھے لیکن آخر عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ پھر بھی آپ ہر شعبان میں ہر روز لوگوں کو قرآن میں سے کچھ نہ کچھ ضرور سناتے۔ لوگ ان کے پاس اپنے اپنے مصاحف لاتے، ان کے سامنے پیش کرتے اور ان کی تصحیح کراتے اور علم قراءت سیکھتے۔
[۲]:علم فرائض:
علم الفرائض (علم میراث) میں بھی آپ کی مہارت مسلم تھی۔ اس پر دو شہادتیں پیش کی جاتی ہیں:
(1): امام سفیان بن عیینہ (ت198 ھ) نے فرمایا:
”اعمش نے اپنے ہمعصروں کو چار چیزوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے: پہلی کہ وہ ان میں قرآن کی قراءت کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے، دوسری کہ وہ ان میں حدیث کے سب سے بڑے حافظ تھے، اور تیسری کہ وہ فرائض کو ان میں سب سے زیادہ جانتے تھے۔“راوی (یعنی سہل بن حلیمہ) کہتے ہیں کہ چوتھی چیز جو انہوں نے کہی تھی میں بھول گیا ہوں۔
(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 1879)
(2): علامہ ابن سعد (ت230ھ) بھی آپ کو فرائض کا ماہر گردانتے تھے۔
(الطبقات الکبری: ج6ص331)
[۳]: علم الفقہ:
علم فقہ سے بھی آپ کو مناسبت تھی۔ امام ابن جریر الطبری روایت کرتے ہیں کہ عیسی بن موسی نے امام ابن ابی لیلی سے کہا:
اجمع الفقهاء• (فقہاء کو جمع کرو)
فجمعهم فجاء الأعمش في جبة فرو، وقد ربط وسطه بشريط، فأبطئوا، فقام الأعمش فقال: إن أردتم أن تعطونا شيئا وإلا فخلوا سبيلنا•
انہوں نے انہیں جمع کیا تو امام اعمش کھال کا بنا جبہ پہنے ہوئے تشریف لائے جس کے درمیان میں کمربند باندھ رکھا تھا اور آ کے فرمایا: اگر تم نے ہمیں یہاں کچھ دینے کے لئے بلایا ہے تو دو ورنہ ہمارا راستہ خالی کرو۔
عیسیٰ بن موسیٰ نے کہا:
يا ابن أبي ليلىٰ قلت لك تأتي بالفقهاء تجيء بهذا؟!
اے ابن ابی لیلیٰ! میں نے تمہیں فقہاء کو لانے کے لئے کہا تھا اور تم ان کو لے کر آئے ہو؟ تو امام ابن ابی لیلی نے جواب دیا:
هذا سيدنا هذا الأعمش•
(تاریخ بغداد: ج7 ص118)
یہ ہمارے سردار ہیں، یہ اعمش ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ فقہ سے بھی آپ کو خاصہ شغف رہا جبھی تو امام ابن ابی لیلیٰ جو فقیہ ہیں انہوں نے آپ کو سردار کہا، لیکن بایں ہمہ دقائق فقہ اور استنباط ِ مسائل میں جو کمال آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مانتے تھے وہ صرف امام ابو حنیفہ ہی کا حصہ تھا۔ (مزید تفصیل ”امام اعمش اور امام ابو حنیفہ“ کے تحت آ رہی ہے)
شرفِ تابعیت:
امام اعمش کے دیگر فضائل میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ آپ صحابی رسول سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی زیارت سے مشرف ہوئے ہیں۔ کئی محدثین نے اس کی تصریح کی ہے جن میں امام بخاری، امام ابن حبان، حافظ ابو حفص عمر بن شاہین، خطیب بغدادی، علامہ ذہبی وغیرہ شامل ہیں۔
(التاریخ الکبیر: ج4 ص37، الثقات لابن حبان: ج4 ص302، الجرح و التعدیل: ج4 ص146، تاريخ أسماء الثقات: ج1 ص14، تاریخ بغداد:ج7 ص117، تذکرۃ الحفاظ: ج1 ص116)
”علمِ حدیث میں خدمات“ کے عنوان کے تحت واضح کر دیا گیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے آپ کی روایت کو جمہور محدثین نے مرسلاً قرار دیا ہے البتہ رؤیت پر اتفاق کیا ہے۔ اس لیے جمہور ائمہ محدثین کے مسلک کہ ”محض رؤیتِ صحابی سے تابعیت کا شرف حاصل ہو جاتا ہے، صحبت اور روایتِ حدیث شرط نہیں“ کے مطابق آپ تابعی قرار پاتے ہیں۔
(جمہور کے موقف کے لیے ملاحظہ ہو؛التقیید والایضاح: ص300، شرح نخبۃ الفکر: ص134، اقامۃ الحجۃ لعبد الحئی: ص29)
امام اعمش اور امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ:
امام اعمش امام ابو حنیفہ کے شیوخ میں سے تھے۔
(عقود الجمان: ص73)
استاذ و شاگرد حدیث و فقہ کا حسین امتزاج ہوا کرتے تھے۔ استاذ و شیخ ہونے کے باوجود امام اعمش امام ابو حنیفہ کے جس طرح قدر دان تھے اور آپ کے مقام علم کو تسلیم کرتے تھے ذیل کے واقعہ سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
حافظ حدیث ابوعمر ابن عبدالبر مالکی (ت463ھ) اپنی کتاب ”جامع بیان العلم“ میں فرماتے ہیں کہ امام عبيد الله بن عمرو کا بیان ہے کہ میں امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں تھا:
فجاءه رجل فسأله عن مسألة، فلم يجبه فيها، ونظر فإذا أبو حنيفة فقال: يا نعمان قل فيها. قال: القول فيها كذا. قال: من أين؟ قال: من حيث حدثتناه. قال: فقال الأعمش: نحن الصيادلة وأنتم الأطباء
(جامع بيان العلم وفضلہ: تحت رقم الحديث: 1195- اسنادہ حسن)
تو ان کی مجلس میں ایک شخص آیا اور امام اعمش سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔دیکھا کہ امام ابوحنیفہ تشریف رکھتے ہیں، فرمایا کہ: کہئے نعمان! کیا ہے جواب؟ امام ابو حنیفہؒ نے فوراً جواب دے دیا۔ امام اعمش نے مسئلہ کی دلیل دریافت کی تو ابو حنیفہؒ نے فرمایا : آپ ہی نے تو مجھے فلاں حدیث اپنی سند سے بیان کی تھی، اسی سے یہ مسئلہ اس طرح نکلتاہے الخ۔ امام اعمش یہ دیکھ کر فرمانے لگے:
نَحْنُ الصَّيَادِلَةُ وَأَنْتُمُ الْأَطِبَّاءُ
.کہ ہم پنساری ہیں اورتم اطباء ہو۔
نیز امام ابن عدی نے بھی اس واقعہ کو اپنی سند سے روایت کیا ہے۔
(الکامل لابن عدی:ج 8ص238- واسنادہ صحیح)
(جاری ہے……)