فکری گمراہی کاآٹھواں سبب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
فکری گمراہی کاآٹھواں سبب
………مولانا محب اللہ جان ﷾
عقائد اسلام میں تحقیق کی ضرورت؟
اگر اسلام نے اجتہاد وتحقیق کی اجازت دی ہے تو اس کے مقامات بھی متعین کیے ہیں اور وہ ہیں جدید مسائل یا نصوص متعارضہ۔ ظاہر بات ہے کہ حالات تغیر پذیر ہیں ،نت نئے مسائل کا ابھرنا ایک فطری عمل ہے جن کے حل کے لیے تحقیق واجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی طرح نصوص متعارضہ میں جمع تطبیق اور کسی دلیل کی بنیاد پر حدیث کی ایک جہت کو لینے اور دوسری کو لینے کے لیے بھی تحقیق کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر عقائد ومسلمات دین میں تحقیق کی کیا ضرورت ہوتی ہے؟ موجودہ دور کی فکری گمراہی سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ مقامات اجتہاد وتحقیق میں تو علم ودلیل کی بنیاد پر تحقیق کی جائے مگر عقائد اسلام کو اپنی تحقیقات کا میدان بنانے سے پرہیز کیا جائے۔
مغربی افکار ونظریات سے مرعوبیت:
تحقیق وریسرچ کے میدان میں نام نہاد محققین کی فکری گمراہی کے اسباب میں ”مغربی افکارونظریات سے مرعوبیت“کا سبب بھی کسی صاحب مطالعہ سے مخفی نہیں ہو سکتا۔درحقیقت مسلمان کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ ”دین اسلام“کے ہوتے ہوئے دنیا کے کسی بھی نظام ونظریہ سے متاثر ومرعوب نہ ہو۔ لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جومسلمان یورپی مملک میں چلے جاتے ہیں یا جو طلبہ مغربی تعلیم گاہوں میں علم حاصل کرنے جاتے ہیں تو وہ انہی کے افکارونظریات کے حدی خوان بن کر لوٹتے ہیں اور ان کے دل ودماغ پر مغربی طرز زندگی اورمغربی افکارونظریات کی چھاپ اچھی طرح جمی ہوئی ہوتی ہے۔اورپھر انہیں بھی دنیا اورمسلمانوں کے لیے موزوں نظام مغرب ہی کا خود ساختہ نظام نظر آتا ہے۔
وہ پھر دین اسلام کو ترقی اورخواہشات کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے لگ جاتے ہیں، وہ اپنے مذہب کے ساتھ بھی برائے نام تعلق رکھتے ہیں ،اوردین کی ہر چیز کا دین مغرب اور دین طاغوت کے ساتھ موازنہ کرتے رہتے ہیں اوردین کی ہر چیز کو مغرب کی عطاءکردہ عینک کے ذریعے دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر اگر انہیں دین کا کوئی مسئلہ مغربی افکارونظریات سے متصادم نظر آئے تو دین کے اس مسئلہ کا انکار کر دیتے ہیں۔ یا پھر دونوں میں تطبیق کے لیے تاویلات فاسدہ کا سہارالینا شروع کر لیتے ہیں یا پھر دین کے کسی مسئلہ کی حقانیت پرمغربی طرز استدلال کو پیش کر کے اس انوکھے کام پر پھولے سے نہیں سماتے۔
پھر اس کو اسلام اور مسلمانوں پر احسان عظیم سمجھتے ہیں۔ اہل مغرب کا عطاءکردہ کوئی بھی نظریہ ہو،چاہے وہ عقل پرستی کی صورت میں ہو یا تاریخ پرستی، نیچریت پسندی یا سائنس سے مرعوبیت ہو یہ نام ونہاد محققین ان مغربی نظریات کا زبردست شکار ہوجاتے ہیں۔
الغرض کہ گذشتہ کچھ عرصہ میں ان نام نہاد محققین کی جتنی بھی تحقیقات سامنے آئیں ان میں ان کی فکری گمراہی کا یہ سبب کسی بھی صاحب مطالعہ سے محفی نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے دین اسلام کی ہر چیز کا اہل مغرب کی طرف سے درآمدہ ان مذکورہ بالا نظریات کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ موازنہ پیش کیا۔
اولاً تو تطبیق کی کوشش کی اور پھر انکار کا بازار گرم کیا۔ حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیئے تھا کہ اہل مغرب کے تمام تر افکارونظریات یا ان کی تحقیقات ومعلومات کی ابتداءوانتہاءمحض عقل ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ وحی الہی ہے اور جہاں عقل کی انتہاءہوتی ہے وہیں سے وحی الہی کاآغاز ہوتا ہے۔ تو جب وحی کا آغاز ہی عقل کی انتہاءپر ہے تو پھر علوم وحی کا موازنہ عقلی تخیلات کے ساتھ کرنا کتنی بڑی حماقت اور جہالت ہے۔ یہاں تویہی کہا جا سکتا ہے کہ
چہ نسبت خاک را باعالم پاک
اورسچی بات یہ ہے کہ ان مغربی افکارونظریات کو وحی الہی کے سامنے ذرہ کی بھی حیثیت حاصل نہیں۔
فکری گمراہی کی تازہ مثال:
ابھی کچھ عرصہ قبل اٹامک انجینئر محترم سلطان بشیر صاحب نے دین کی خدمت کے جذبے میں قرآن حکیم کی سائنسی تفسیر کے نام پرایک تفسیر لکھی۔ جس میں انہوں نے مذہب کی حقانیت کے لیے سائنس ہی کو بلند ترین معیار ودلیل قرار دے دیا اورسینکڑوں جگہوں پر ایسی ایسی جسارتیں کیں کہ ان میں اور دیگر جدت پسند اوراسلام کے نئے ایڈیشن کے حدی خوانوں اور احادیث پر مغربی افکارونظریات کے ذریعے ہاتھ صاف کرنے والوں میں فرق کرنا مشکل ہوگیا۔بالخصوص جب سائنس دان اور نبی کو” ایک ہی منزل کا راہی“ قرار دے دیا۔
یہ عجیب فلسفہ ہے کہ ایک انسان قرآن حکیم کی سائنسی تفسیر لکھنے نکلا ہے۔ مگر انہوں نے نہ جانے یہ کہہ کر کہ ”موت کا دروازہ تو موت تک کے لیے کھلا ہے“مرتد کی اسلامی اور شرعی سزا کاانکار کر دیا؟اب سوال یہ ہے کہ سائنس کا ارتداد کی سزا سے کیا تعلق ہے ؟یا ارتداد کی شرعی سزا مان لینے سے سائنس دانی پر کیا فرق پڑتا ہے ؟
اسی طرح سائنس کے نام پر لکھی جانے والی اس تفسیر میں انہوں نے جابجا تحریفات وتلبیسات سے ڈٹ کر کام لیا ہے۔حتیٰ کہ

جہاد اقدامی

ارتداد کی شرعی سزا

فرشتوں کے وجود اورشیطان کے خارجی وجود کا انکار

وحدت ادیان کا فلسفہ

آپ ﷺ پر جادو کے اثر کا انکار

پھر جگہ جگہ معجزات کے اعجاز کو سائنسی نقطہ نظر سے ختم کرنے کی کوشش کی۔
یہ اور اس قسم کے دیگر گمراہ کن افکار ونظریات جو اس کتاب میں انہوں نے شامل کیے ہیں ان تمام تر مسائل میں انہوں نے مسلک حقہ سے سرے مو انحراف کیا ہواہے اور جمہور کی راہ سے اعتزال اختیار کر کے اپنے پیش رو منکرین حدیث کی پیروی کا صحیح حق ادا کیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان مسائل کو اہل سنت والجماعت کے مسلک حقہ کے مطابق مان لینے سے ان کی سائنس دانی کیونکر متاثر ہو سکتی تھی۔
سائنس محض مشاہدہ وتخمینہ پرکھڑی ہے جس کی تحقیقات بدلتی رہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے سائنس دان ایک نکتہ نظر پر کبھی بھی متفق نظر نہیں آتے تو پھر ایسی تحقیقات کو وحی الہٰی کی تصدیق وتقویت کے لیے استعمال کرنا کتنی بڑی حماقت وجہالت ہے۔
سائنس اور اس کی تحقیقات کے ہم قطعاً مخالف نہیں بلکہ سائنس پرستی کے مخالف ہیں،اوراسی طرح سائنس کی ناقص تحقیقات کو دین اسلام کی حقانیت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کرنے کے مخالف ہیں۔ اسلامی تعلیمات کا سائنسی تحقیقات کے ساتھ موازنہ کرنا اور تقابل کی مذموم جسارتیں ایک مسلمان محقق کو قطعاً زیب نہیں دیتیں۔جیسا کہ منکرین حدیث اور دیگر جدت پسندوں نے سینکڑوں جگہوں پر سائنس کی تحقیقات اور پیغمبر ﷺ کی صحیح احادیث میں تضاد دکھا کر انکار حدیث کا جو بازارگرم کیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ زمانہ کے رائج افکارو نظریات سے مرعوب ہو نا شیوۂِ مسلمانی نہیں ہے اورسائنس سے اس حد درجہ متاثر ہونا کہ سائنس ہی کی عینک سے دین کی ہر چیز کو دیکھنا شروع کر لیں،سائنس کو اپنے اوپر سوار کر لیں اوراسلام کی حقانیت کے لئے سائنس کی تحقیقات کو اکبر الدلیل بنانایہی مرعوبیت فکری گمراہی کا بنیادی سبب بن جاتی ہے۔
مسلمان حالات سے متغیر نہیں ہوتا بلکہ حالات کو متغیر کرتاہے،وہ زمانے کو اپنے اوپر سوار نہیں کرتا بلکہ زمانے پر سوار ہوتا ہے وہ حالات کے مطابق نہیں چلتا بلکہ حالات کو اپنے مطابق کر لیتا ہے۔ وہ زمانہ کے افکار کو قبول کرنے کے بجائے اپنے افکار سے زمانہ کو رنگتا ہے۔ زمانہ کے افکار بدلتے رہتے ہیں ،حالات تغیرپذیر ہیں بدلتے رہتے ہیں ،بدلتے رہیں گے ،ان عارضی حالات سے متاثر ہو کر دین سے دلبرداشتہ ہونااوران کی ظاہری چمک سے متاثر ہونا ایمان ویقین کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ ہمیں اپنے دین ،اس کے عقائد ونظریات اور اس کی تمام تر تعلیمات پر کامل اور مکمل یقین ہونا چاہیے۔ یہی فکری گمراہی سے بچنے کا واحد حل ہے۔
کیا ہوا آج بدلا ہے زمانے نے

تجھے

مرد تو وہ ہوتا ہے جو زمانے

کو بدل دیتا ہے