الاشباہ والنظائر

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ :
………مفتی محمد یوسف ﷾
الاشباہ والنظائر (4)
قارئین کرام!قواعد واصول فقہ کے حوالے سے یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ قواعد و ضوابط کسی ایک فقیہ و مجتہد کی ایجاد ہیں نہ ہی یہ چند افراد کے ذہن کی پیداوار ہیں۔ بعض مخصوص اشخاص کی کاوش کا نتیجہ ہیں اور نہ ہی کسی خاص علاقے یا نسل کے لوگوں کو ان کی تدوین کا اعزاز حاصل ہے۔
ان کی ترتیب ویسی نہیں جیسی دنیاوی قوانین کی ہوتی ہے کہ کسی متعین مجلس یا معتبر افراد نے خاص وقت، خاص طرز اور خاص شکل میں ان کو مدون کر دیا ہو۔
بلکہ ان کی ترتیب دنیاوی قوانین کی ترتیب سے یکسر مختلف ہے، ان کی بنیاد قرآن و سنت اور فقہاء کرام و مجتہدین عظام رحمہم اللہ کے وہ اجتہادات ہیں جو انہوں نے سالہا سال قرآن و سنت میں غور و فکر کرنے کے بعد کیے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ہر زمانے کے فقہاء اور ماہرین فن ان عبارتوں میں مزید غور و خوض کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مدون و مرتب کرنے کا اہتمام بھی کرتے رہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ان قواعد میں سے بیشتر ایسے ہیں جنہیں اپنی موجودہ شکل تک پہنچنے کے لیے کئی مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔
اس باب میں عموما ایسا ہوتا رہا ہے کہ ایک فقیہ نے کوئی قاعدہ دریافت کیا اور اس کو مخصوص عبادت کا جامہ پہنایا پھر ہر گزرتے دور میں اس فن سے وابستہ فقیہ نے اس کی نوک پلک درست کی اور اس میں مزید اختصار و جامعیت پیدا کی۔
یہاں تک کہ اس قاعدے کی وہ مخصوص شکل وجود میں آئی جسے اپنی خوبصورتی اختصار اور جامعیت کے لحاظ سے بے پناہ مقبولیت ملی۔ مثال کے طور پر ایک قاعدہ ہے ”القرار حجۃ قاصرۃ“یعنی اقرار ایک ناقص دلیل ہے، جس کا اثر اقرار کرنے والے کی ذات تک محدود رہتا ہے، اب ہمیں حتمی طور پر یہ بات معلوم نہیں کہ سب سے پہلے اس قاعدے کو دریافت کرنے کا اعزاز کس فقیہ و مجتہد کو ملا؟ یا کس فقیہ نے اس قدر جامع مگر نہایت آسان الفاظ میں اسے مرتب کیا؟ البتہ قرائن کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ قاعدے کا ابتدائی تصور امام ابو الحسن عبیداللہ الکرخی رحمہ اللہ نے پیش کیا ہے، چنانچہ موصوف لکھتے ہیں:
الاصل ان المرء یعامل فی حق نفسہ کما اقر بہ ولا یصدق علی ابطال حق الغیر ولا بالزام الغیر حقا۔
)اصول الکرخی(
ترجمہ: قاعدہ یہ ہے کہ انسان سے اس کے معاملے میں وہی برتاؤ کیا جائے گا جس کے بارے میں اس نے اقرار کیا ہے البتہ اس کے اقرار کی کسی ایسے معاملے میں تصدیق نہ کی جائے گی جس میں کسی دوسرے کے حق کو باطل کیا جارہا ہو یا کسی دوسرے کے ذمہ کوئی حق لگایا جارہا ہو۔
پہلے آپ امام کرخی رحمہ اللہ کی عبارت پر غور فرمائیں پھر یہ دیکھیں گے کہ کس طرح اس عبارت کا مفہوم الاقرار حجۃ قاصرۃ، جیسے نہایت مختصر مگر جامع الفاظ کی شکل میں سامنے آیا۔
لہذا یہ کہنا قطعاًبے جا نہیں کہ اس قاعدے کی ساخت اور موجودہ صورت کئی نسلوں کی کوشش اور بہت سے ماہرین فن کے غور و فکر کا نتیجہ ہے، اگر اس تقابلی مطالعہ کی کسوٹی پر دیگر قواعد کو پرکھا جائے تو ہمارے سامنے کئی ایک قواعد ایسے آتے ہیں جن کے بارے میں حتمی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی اصل عبارت ان کی موجودہ عبارت سے خاصی مختلف ہے اور اپنی موجودہ صورت تک پہنچنے کے لیے انہوں نے بہت سے مراحل طے کیے ہیں، ہاں البتہ کچھ قواعد واصول ایسے بھی ہیں جو یا تو براہ راست کسی آیت کریمہ یا حدیث نبوی سے لفظا یا معنا ماخوذ ہیں، یا کسی متعین مجتہد یا فقیہ کی طرف منسوب ہیں، مثال کے طور پر ایک قاعدہ ہے ”المشقۃ تجلب التیسیر“ کہ مشقت آسانی کو کھینچ لاتی ہے۔ اس قاعدہ کی بنیاد ایک آیت اور ایک حدیث ہے قرآن کریم میں ہے:
یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر۔
)سورۃ البقرہ آیت نمبر 185(
اور حدیث مبارک میں ہے:
ان الدین یسر .
)صحیح بخاری رقم الحدیث 39(
اس آیت اور حدیث کی روشنی میں مذکورہ قاعدہ معرض وجود میں آیا اسی طرح یہ قاعدہ ہے” الامور بمقاصدہا “کہ معاملات کا مدار ان کے مقاصد پر ہوتا ہے اس اصول کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
انما الاعمال بالنیات۔
)صحیح البخاری رقم الحدیث1 (
الاشباہ والنظائر بھی انہیں قواعد و اصول پر مشتمل ہے صاحب کتاب علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے کس قاعدے کے تحت کس طرز پر گفتگو کی ہے ان شاء اللہ آئندہ قسط میں اس طرح کے چند اصولوں پر بات ہوگی۔
………)جاری ہے(