وتر کے مسائل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
وتر کے مسائل
……متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن ﷾
بدقسمتی کہیے! بعض لوگوں نے گویا قسم اٹھا رکھی ہے کہ اہل السنت والجماعت کی مخالفت ہر حال کرنی ہی کرنی ہے۔ چنانچہ عقائد ہوں یا مسائل۔ انہوں نے الگ سے اپنی راہ نکالی ہے ، بالخصوص نماز کے اہم مسائل میں امت میں انتشار اور افتراق اس طبقے کی خاص پہچان ہے۔ رمضان میں تراویح اور تہجد کو ایک کہنا ، رکعات تراویح میں آٹھ پر ضد کرنا اور نماز وترمیں چند درج ذیل مقامات پر اختلاف کرنا۔
1: وتر کا حکم
2: تعداد رکعات وتر
3: کیفیت وتر)دو تشہد ایک سلام کے ساتھ (
4: الفاظ قنوت
5: قنوت قبل الرکوع
6: رفع الیدین عند القنوت
اس لیے ہم نے ضروری سمجھا کہ تراویح کے ساتھ ساتھ وتر کے بھی ان مقامات کی نشاندہی کردی جائے جہاں یہ لوگ امت سے اختلاف کرتے ہیں مزید یہ کہ اہل السنت والجماعت کا مؤقف اور دلائل آپ کی خدمت میں پیش کر دیں۔ چنانچہ مفصل اور مدلل بحث ملاحظہ فرمائیے۔
نوٹ : تعداد رکعات وتر پر ان کے پیش کردہ دلائل کا الگ سے جائزہ لیا گیا ہے جو اس مضمون کے متصل بعد آ رہا ہے۔
1وتر کا حکم:
وتر واجب ہیں۔ فرض نہیں اور وجوب وتر پر احادیث صحیحہ ،مرفوعہ، آثار صحابہ اور آثار تابعین موجود ہیں۔
احادیث مرفوعہ اور وجوب وتر:
1: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم يَقُولُ « الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا۔
)سنن ابی داود ج1ص208 باب فمن لم یوتر (
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن بریدہ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں میں نے آپ علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا نماز وتر حق ہے جس نے وتر نہ پڑھے وہ ہم سے نہیں (یہ ارشاد تین بار فرمایا)
فائدہ : امام حاکم رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
)فتح القدیر ج1ص371 نصب الرایہ ج2ص112(
2: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : الْوِتْرُ حَقٌّ ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا.
)مستدرک حاکم ج1ص609 ، مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص197(
3: عَنْ أَبِى أَيُّوبَ الأَنْصَارِىِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم- « الْوِتْرُ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ.
)ابو داود ج1ص208(
4: عن عبد الله عن النبي قال الوتر واجب على كل مسلم
[مسند بزار ج5ص67 رقم الحدیث 1637(
ترجمہ: نماز وتر ہر مسلمان پر حق ہے۔
5: عن أبي أيوب عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : الوتر حق واجب
)دار قطنی ص283 باب الوتر (
6: عَنْ أَبِى سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- :« مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِهِ أَوْ نَسِيَهُ فَلْيُصَلِّهِ إِذَا أَصْبَحَ أَوْ ذَكَرَهُ.
)مستدرک حاکم ج1ص604 رقم 1168(
ترجمہ : حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایسا شخص جو وتر ادا کرنا بھول جائے یا اس وقت سو جائے جب یاد آجائے یا جاگ ہو جائے تو وہ وتر ادا کرے۔
7: عن خارجه بن حذافة أنه قال : خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إن الله أمدكم بصلاة هي خير لكم من حمر النعم الوتر جعله الله لكم فيما بين صلاة العشاء إلى أن يطلع الفجر.
) جامع الترمذی باب الوتر (
ترجمہ: حضرت خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ علیہ السلام ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ تم پر ایک ایسی نماز کا حکم کیا ہے جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے اور یہ وتر ہے جس کا وقت عشاء اور فجر کے درمیان ہے۔
8: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَوْتِرُوا قَبْلَ أَنْ تُصْبِحُوا
)صحیح مسلم ج1ص285(
ترجمہ: آپ علیہ السلام نے فرمایا صبح سے پہلے وتر ادا کرو۔
9: عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَوْتِرُوا يَا أَهْلُ اَلْقُرْآنَ.
)جامع ترمذی ص60، سنن ابو داود ج1ص207 (
ترجمہ: آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے قرآن کو ماننے والو وتر ادا کرو۔
فائدہ: مذکورہ بالا روایات کی روشنی میں وتر چھوڑنے والے پر وعید اور سختی،مزید یہ کہ جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں اور امر کے صیغوں سے امت کو اس کا حکم دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وتر واجب ہیں۔ نیز وتر کی قضاء کا لازم ہونا بھی وجوبِ وتر کی مستقل دلیل ہے۔
فائدہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ قضاء وتر کی حدیث کے تحت تحریر فرماتے ہیں :اس حدیث سے واضح ہوا کہ نماز وتر کی قضاء واجب اور ضروری ہے اور وجوب قضاء وجوب ادا کی فرع ہے۔
) اوجز المسالک ج1ص432(
آثار صحابہ اور وجوبِ وتر:
1: عَنْ أَبِي مَرْيَمَ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَلِيٍّ ، فَقَالَ : إِنِّي نِمْتُ وَنَسِيتُ الْوِتْرَ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ : إِذَا اسْتَيْقَظْتَ وَذَكَرْتَ ، فَصَلِّ.
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص192 باب من قال یوتر وان اصبح وعلیہ قضاءہ(
ترجمہ : ایک شخص حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے پاس آیا اور آکر عرض کی کہ اے امیر المومنین اگر میں سو جاؤں اور وتر ادا کرنا بھول جائوں یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے )تو میں کیا کروں؟( آپ نے فرمایا جب تو جاگ جائے اور یاد آجائے تو اسے ادا کرو۔
2: عَنْ وَبَرَةَ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ أَصْبَحَ ، وَلَمْ يُوتِرْ ؟ قَالَ : أَرَأَيْتَ لَوْ نِمْتَ عَنِ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، أَلَيْسَ كُنْتَ تُصَلِّي ؟ . كَأَنَّهُ يَقُولُ : يُوتِرُ.
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص191 رقم الحدیث4(
ترجمہ : حضرت وبرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کہ جو وتر ادا کیے بغیر صبح کردے۔ آپ نے فرمایا : تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تو نماز فجر کے وقت سو جائے اور سورج طلوع ہو جائے تو کیا تیری نماز معاف ہو جائے گی ؟ گویا انہوں نے یوں کہا کہ قضاء شدہ وتر وں کو ادا کرو۔
3: عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، قَالَ : الْوِتْرُ حَقٌّ ، أَوْ وَاجِبٌ۔
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص197 رقم الحدیث3 باب من قال الوتر واجب(
ترجمہ : حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر حق ہے یا یوں فرمایا کہ وتر واجب ہیں۔
آثار تابعین اور وجوب وتر:
1: عن مجاہد قال واجب الوتر ولم یکتب۔
)مصنف عبدالرزاق ج1ص388 رقم 4595،96 باب وجوب الوتر(
ترجمہ: حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتےہیں، وتر واجب ہیں فرض نہیں۔
2: عن طاوس قال الوتر واجب یعاد الیہ اذا نسی۔
ترجمہ : امام طاؤس فرماتے ہیں کہ وتر واجب ہیں ، اگر یہ) پڑھنا (بھول جائیں تو یاد آنے پر اس کو ضرور پڑھا جائے۔
) مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث4598(
اقوال فقہاء اور وجوب وتر:

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ : قال ابو حنیفۃ ھو واجب۔ وتر واجب ہیں۔
)اوجز المسالک ج2ص441(

امام دار الہجرۃ امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ:
من ترکہ ادب وکان جرجۃ فی شہادتہ۔
جو شخص وتر چھوڑ دے اس سے تادیبی کارروائی کی جائے۔ اور اس کی گواہی بھی مجروح ہے۔ )اور یہ واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوسکتا ہے ( )اوجز المسالک ج2ص442(

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ:
من ترک الوتر عمدا فھو رجل سوء ولا ینبغی ان تقبل لہ شہادۃ۔
)المغنی لابن قدامہ الحنبلی ج2ص359 فصل الوتر غیر واجب(
ترجمہ : وتر کو جان بوجھ کر چھوڑنے والا برا آدمی ہے اور یہ اس قابل نہیں کہ اس کی گواہی کو معتبر مانا جائے۔

امام حسن بصری رحمہ اللہ:

اجمع المسلمون علی ان الوتر حق واجب۔
)اوجز المسالک ج2ص444(
ترجمہ : اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر واجب ہیں۔
اس کے علاوہ امام ابراہیم النخعی ، امام سعید ابن المسیب ، امام شافعی رحمہ اللہ کے استاذ یوسف بن خالد رحمہ اللہ ،امام سحنون ، امام ابو عبید بن عبداللہ بن مسعود ، امام ضحاک رحمہ اللہ اور امام اصبغ رحمہم اللہ وغیرہ یہ تمام اس بات کے قائل ہیں کہ وتر واجب ہیں۔
)اوجز المسالک ج2ص443(
اس بات پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے کہ نماز وتر کا ترک کرنا جائز نہیں یہ بھی اس کے وجوب کی دلیل ہے۔
2:تعداد رکعات وتر:
وتر تین رکعات ہیں۔ اس پر احادیث صحیحہ مرفوعہ، آثار صحابہ و تابعین اور اقوال فقہاء موجود ہیں۔
احادیث مرفوعہ اورتعداد رکعات وتر:
1: عن عائشة رضی اللہ عنہاكيف كانت صلاة رسول الله {صلى الله عليه وسلم} في رمضان قالت ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة يصلي أربعاً فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ثم يصلي أربع ركعات لا تسأل عن حسنهن وطولهن ثم يصلي ثلاثاً۔
)صحیح بخاری ج1ص154 باب قیام النبی باللیل فی رمضان(
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا آپ علیہ السلام کی نماز رمضان میں کیسی ہوتی تھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا آپ علیہ السلام رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے پہلے چار رکعات پڑھتے نہ پوچھو کہ کتنی عمدہ اور لمبی ہوتی تھیں، اس کے بعد پھر چار رکعات پڑھتے تھے کچھ نہ پوچھو کتنی عمدہ اور لمبی ہوتی تھی، پھر تین رکعات وتر پڑھتے تھے۔
اس روایت کا خلاصہ یہی ہے کہ تین رکعات وتر تھیں، اور ایک سلام کے ساتھ تھیں۔
2: امام نسائی نے باب قائم فرمایا ہے باب کیف الوتر بثلاث۔
)سنن نسائی ج1ص248(
اور اس کے تحت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع روایت لائے:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان لا یسلم فی رکعتی الوتر۔
ترجمہ: آپ علیہ السلام وتر کی دو رکعات پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔
اس سے واضح ہوا کہ امام نسائی کے ہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا بخاری و مسلم والی حدیث میں نماز وتر تین رکعات ایک سلام کے ساتھ مراد ہے۔
3: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تیسری مرفوع روایت ہے: ثم اوتر بثلاث لا یفصل بینہن (آپ علیہ السلام نے تین رکعت وتر پڑھے ان میں سلام سے فصل نہیں کیا) یعنی دوسری رکعت پر سلام نہیں پھیرا۔
)مسند امام احمد ج6ص156(
4: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چوتھی مرفوع حدیث ہے:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم الا فی آخرہن
)مستدرک حاکم ص 608(
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھتے تھے اور آخر میں سلام پھیرتے تھے۔
5: عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ۔
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر تین رکعات پڑھتے تھے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ پڑھتے دوسری میں قل یا ایہا الکافرون اور تیسری رکعت میں قل ہو اللہ احد پڑھتے تھے۔
6: عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقرء فی الاولیٰ من الوتر بفاتحۃ الکتاب وسبح اسم ربک الاعلیٰ وفی الثانیۃ قل یا ایہا الکافرون وفی الثالثۃ قل ہو اللہ احد۔
)جامع الترمذی باب ما یقرء فی الوتر (
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آپ علیہ السلام وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ اور سبح اسم ربک الاعلیٰ دوسری رکعت میں قل یا ایہا الکافرون اور تیسری رکعت میں قل ہو اللہ احد پڑھتے تھے۔
7: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ.
)سنن نسائی باب الوتر (
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپ علیہ السلام کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ وہ رات تہجد کی آٹھ رکعات پڑھتے پھر تین رکعت وتر پڑھتے اور فجر کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے۔
8: عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : وتر الليل ثلاث كوتر النهار صلاة المغرب۔
)سنن دار قطنی ص285 الوتر ثلاث کثلاث المغرب(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا رات کے وتر دن کے وتر یعنی نماز مغر ب کی طرح ہیں۔
9: عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوتر ثلاث کثلاث المغرب .
)المعجم الاوسط للطبرانی ج5ص32رقم الحدیث 7170(
ترجمہ: وتر کی تین رکعات ہیں جیسے مغرب کی تین رکعات ہیں۔
10: عن عبداللہ قال ارسلت امی لیلۃلتبیت عند النبی منتظر کیف یوتر فباتت عند النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصلی ما شاء اللہ ان یصلی حتی اذا کان آخر اللیل واراد الوتر۔۔۔۔ الخ
)الاستیعاب لابن عبدالبر ص934 رقم 742(
ترجمہ: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ کو بھیجا کہ آپ علیہ السلام کے گھر رات گزاریں اور دیکھیں آپ علیہ السلام وتر کس طرح پڑھتے ہیں چنانچہ انہوں نے آپ علیہ السلام کے ہاں رات گزاری پس آپ علیہ السلام نے رات میں جتنا اللہ کو منظور ہوا نماز پڑھی جب رات کا آخری حصہ ہوا آپ علیہ السلام نے وتر پڑھنے کا ارادہ کیا تو پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون پڑھی پھر قعدہ کیا۔ پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو گئے اور تیسری رکعت میں سورۃاخلاصپڑھی یہاں تک کہ جب اس سے فارغ ہوئے تو تکبیر کہی دعائے قنوت پڑھی اور جو اللہ کو منظور تھا دعائیں کی اورتکبیر کہی رکوع کیا۔
آثار صحابہ اور تعداد رکعات وتر:
1: عن ابراہیم النخعی عن عمر بن الخطاب انہ قال ما احب انی ترکت الوتر بثلاث ان لی حمر النعم۔
) موطا امام محمد ص149(
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں تین وتر چھوڑنے کو بالکل تیار نہیں اگرچہ اس کے بدلے مجھے سرخ اونٹ بھی پیش کیے جائیں۔
2: عن عبدالملک بن عمیر قال کان ابن مسعود یوتر بثلاث۔
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص199 رقم الحدیث5 باب فی الوتر ما یقرء فیہ (
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ تین رکعات وتر پڑھتے تھے۔
3: عن علقمۃ قال اخبرنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اہون ما یکون الوتر ثلاث رکعات۔
) موطا امام محمد ص150 باب السلام فی الوتر (
ترجمہ: حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہمیں بتایا کہ وتر کی کم سے کم رکعات تین ہیں۔
4: عن زاذان ان علیا کان یوتر بثلاث۔
)مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص512(
ترجمہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔
5: عن حمید عن انس رضی اللہ عنہ قال الوتر ثلاث رکعات و کان یوتر بثلاث رکعات۔
) سنن طحاوی ج1ص206 باب الوتر (
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وتر تین رکعات ہیں اور وہ تین رکعات وتر پڑھتے تھے۔
آثار تابعین اور تعداد رکعات وتر:
1: عن سعید بن جبیر انہ کان یوتر بثلاث۔
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص194 رقم الحدیث18(
ترجمہ : حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ تین رکعات وتر پڑھتے تھے۔
2: عن علقمہ قال الوتر ثلاث۔
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص194 رقم 13(
ترحمہ: علقمہ فرماتے ہیں کہ وتر تین ہیں۔
3: حضرت ابوبکر صدیق کے پوتے قاسم بن محمد بن ابو بکر فرماتے ہیں:
وراینا اناسا منذ ادرکنا یوترون بثلاث۔
)صحیح بخاری ج1ص135 باب ما جاء فی الوتر (
ترجمہ: جب سے ہم بالغ ہوئے اور ہوش سنبھالا ہے ہم لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ تین رکعت وتر پڑھتے ہیں )تابعی صحابہ کرام اور تابعین کا عمل نقل کررہا ہے(
4: عن مکحول انہ کان یوتر بثلاث
۔ )مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص194 رقم18(
ترجمہ : امام مکحول رحمہ اللہ بھی تین رکعات وتر پڑھتے تھے۔
5: حضرت حسن بصری فرماتے ہیں:
اجمع المسلمون علی ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخرھن۔
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص294 نصب الرایہ ج1ص122(
ترجمہ: اہل اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ نماز وتر تین رکعات ہیں ان کی صرف آخری رکعات میں سلام ہے۔
اقوال فقہاء اورتعداد رکعات وتر:
1: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ۔
قال بوجوب الوتر ثلاث رکعات۔
)تفسیر کبیر للرازی ج25ص105 سورۃ روم تحت آیت فسبحان اللہ حین تمسون (
ترجمہ : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ تین رکعات وتر واجب ہیں۔
2: امام مالک بن انس رحمہ اللہ۔
ادنی الوتر ثلاث۔
)موطا امام املک ص110 باب الامر بالوتر(
ترجمہ: وتر تین رکعات سے کم نہیں ہے۔
3: امام سفیان ثوری رحمہ اللہ۔ انہ لا یصح الوتر رکعۃ واحدۃ۔
)فقہ سفیان ثوری ص565 (
ترجمہ: علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری میں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ایک رکعت وتر صحیح نہیں ہے۔
3:کیفیت ِوتر:
وتر کی کیفیت یہ ہے کہ دو تشہد اور ایک سلام سے ادا کیا جائے۔اس پر احادیث صحیحہ مرفوعہ ، آثار صحابہ و اجماع امت موجود ہیں۔
نوٹ : احادیث میں نماز وتر کو مغرب کی طرح اد اکرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا نماز وتر دو قعدوں اور ایک سلام سے ادا کی جائے گی فرق اتنا ہے کہ وتر کی تینوں رکعتوں میں قراءۃ فاتحہ اورسورۃ ہوگی تیسری رکعت میں قنوت وتر اور رفع الیدین ہوگا۔
احادیث مرفوعہ اور کیفیتِ وتر:
1: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت ہے:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث یقرء فی الاولیٰ بسبح اسم ربک الاعلیٰ وفی الرکعۃ الثانیۃ بقل یا ایہا الکافرون وفی الثالثۃ بقل ہو اللہ احد ولا یسلم الا فی آخرہن۔
) سنن نسائی ج1ص248(
ترجمہ: آپ علیہ السلام تین رکعات وتر پڑھتے تھے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں قل یا ایہا الکافرون اور تیسری رکعت میں قل ہو اللہ احد پڑھتے تھے اور صرف آخری رکعت میں سلام پھیرتے تھے۔
2: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع روایت:
ثم اوتر بثلاث لا یفصل فیہن۔
)مسند احمد ج6ص156 رقم 25101(
ترجمہ: آپ علیہ السلام تین رکعت وتر ایک سلام سے پڑھتے تھے۔
3: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع حدیث ہے:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم الا فی آخرہن۔
)مستدرک حاکم ج 1 ص 608(
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھتے تھے اور آخر میں سلام پھیرتے تھے۔
نوٹ : اس کے بعد امام حاکم فرماتے ہیں:
وھذا وتر امیر المومنین عمر بن خطاب وعنہ اخذہ اہل المدینہ۔
یہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وتر ہیں اور ان سے اہل مدینہ نے یہی عمل لیا ہے۔
6: عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لا فصل فی الوتر۔
) جامع المسانید ج1ص402(
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں آپ علیہ السلام نے فرمایا وتر میں (سلام کا)فاصلہ نہیں ہے۔
7: عن عائشۃرضی اللہ عنہا قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لا یسلم فی الرکعتین الاولیین من الوتر۔
)مستدرک حاکم ج1ص607 کتاب الوتر رقم 1108(
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے۔
8: عن عبداللہ قال ارسلت امی لیلۃلتبیت عند النبی منتظر کیف یوتر فباتت عند النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصلی ما شاء اللہ ان یصلی حتی اذا کان آخر اللیل واراد الوتر۔۔۔۔ الخ
)الاستیعاب لابن عبدالبر ص934 رقم 742(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ کو بھیجا کہ آپ علیہ السلام کے گھر رات گزاریں اور دیکھیں آپ علیہ السلام وتر کس طرح پڑھتے ہیں چنانچہ انہوں نے آپ علیہ السلام کے ہاں رات گزاری پس آپ علیہ السلام نے رات میں جتنا اللہ کو منظور ہوا نماز پڑھی جب رات کا آخری حصہ ہوا آپ علیہ السلام نے وتر پڑھنے کا ارادہ کیا تو پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں قل یا ایہا الکافرون پڑھی پھر قعدہ کیا۔ پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو گئے اور تیسری رکعت میں)سورۃ ( قل ھوا للہ احد پڑھی یہاں تک کہ جب اس سے فارغ ہوئے تو تکبیر کہی دعائے قنوت پڑھی اور جو اللہ کو منظور تھا دعائیں کی اورتکبیر کہی رکوع کیا۔
آثار صحابہ اور کیفیت وتر:
1: عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلوۃ المغرب وتر النہار فاوتروا صلاۃ اللیل۔
)مصنف عبدالرزاق ج2ص401 (
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا مغرب کی نماز دن کے وتر ہیں تو رات کے وتر بھی پڑھا کرو۔
نوٹ : یعنی جیسے مغرب کی نماز دو تشہد ایک سلام کے ساتھ ہے ایسے ہی وتر کی نماز بھی دو تشہد اور ایک سلام سے ہوگی۔
2: عن عقبۃ بن مسلم قال سالت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما عن الوتر فقال اتعرف وتر النہار قلت نعم صلوٰۃ المغرب قال صدقت او احسنت۔
)طحاوی ج1ص197 باب الوتر (
ترجمہ: حضرت عقبہ بن مسلم فرماتے ہیں میں نے وتر کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا۔ تو انہوں نے فرمایا کیا دن کے وتر جانتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں !مغرب کی نماز۔ انہوں نے فرمایا تو نے سچ کہا یا احسنت فرمایا، تو نے اچھا کہا۔
اجماعِ امت اورکیفیت وتر:
1: عن الحسن قال اجمع المسلمون علی ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخرہن .
) مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص194 رقم 177(
ترجمہ: اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعات ہیں ان کی صرف آخری رکعت میں سلام ہے۔
2: قد اجمعوا ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخرہن۔
)طحاوی ج1ص207 باب الوتر (
ترجمہ : اس بات پر اجماع کیا ہے کہ وتر تین رکعات ایک سلام کے ساتھ ہیں۔
وتر کی دوسری رکعت میں تشہد:
1: عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یستفتح الصلوۃ بالتکبیر والقراۃ بالحمدللہ رب العالمین۔۔ وکان یقول فی کل رکعتین التحیۃ۔۔ الحدیث۔
)مسلم ج1ص194 باب مایجمع صفۃ الصلاۃ (
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر سے نماز شروع کرتے جبکہ قرأت کو الحمد للہ رب العالمین سے اور آپ علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہر دو رکعت میں التحیات (تشہد) ہے۔
2: عن عبداللہ قال کنا لاندری مانقول فی کل رکعتین غیر ان نسبح و نکبر و نحمد ربنا وان محمدا علم فواتح الخیر وخواتمہ فقال اذا قعدتم فی کل رکعتین فقولوا التحیات للہ۔۔۔ الخ۔
)سنن النسائی ج1ص174 کیف التشہد الاول (
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ جب دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھیں تو کیا کریں بجز اس کے کہ تسبیح کہیں تکبیر کہیں، اپنے پروردگار کی تعریف کریں اور یہ کہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سراپا بھلائی کی باتیں سکھلائی گئیں ہیں، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا جب تم دو رکعت پڑھ کر بیٹھو تو یوں کہو التحیات للہ (آخر تشہد تک)
3: عن الفضل بن عباس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصلوٰۃ مثنیٰ مثنیٰ تشہد فی کل رکعتین۔
)جامع الترمذی ج1ص87 المعجم الکبیر ج8ص26(
ترجمہ: آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے رات کی نماز دو رکعت ہے اور ہر دو رکعتوں میں تشہد ہے۔
دعائے قنوت کے الفاظ :
نماز وتر میں دعائے قنوت کے الفاظ اللھم انا نستعینک احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں اور خصوصا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں خلفاء راشدین نے اس کو معمول بہا بنایا ہے اور جمہور امت نے بھی اسی کو معمول بنایا ہے۔
عن خالد بن ابی عمران قال بینما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدعوا علی مضر اذ جاءہ جبرائیل علیہ السلام فاومیٰ الیہ ان اسکت فسکت فقال یا محمد ان اللہ لم یبعثک سبابا ولا لعانا وانما بعثک رحمۃ ولم یبعثک لیس لک من الامر شیئ او یتوب علیہم الایۃ قال ثم علمہ ھذا القنوت اللھم انا نستعینک ونستغفرک۔۔۔۔۔۔ الخ
) سنن الکبری بیہقی ج2ص210 ، مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص518 (
ترجمہ: حضرت خالد بن ابی عمران کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ مضر کے لیے بد دعا کررہے تھے کہ اچانک حضرت جبرائیل علیہ السلام آئےا ور خاموش ہونے کا اشارہ کیا آپ علیہ السلام خاموش ہوگئے تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کو گالی دینے والا اور لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمت بنا کر بھیجا ہے عذاب بنا کر نہیں بھیجا آپ کے اختیار میں اس قسم کے امور نہیں ہیں اللہ چاہے تو ان کو عذاب دے یا ان کی توبہ قبول کرلے کیونکہ وہ ظالم ہیں پھر آپ کو یہ دعائے قنوت تعلیم فرمائی۔
یہی دعا قنوت معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کے متعدد آثار میں مفصل طور پر مروی ہےجن کے مجموعہ سے یہ مکمل دعا ثابت ہے، ان آثار کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص213تا215۔ مصنف عبدالرزاق ج3ص29تا31 (
فائدہ: اما م ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ؛ امام بخاری وامام مسلم کے شیخ اور استاذ ہیں اور امام عبدالرزاق رحمہ اللہ؛ امام احمد بن حنبل کے شیخ و استاد ہیں۔
قنوت قبل الرکوع:
وتر میں قنوت کا عمل تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے اور سال بھر کا معمول ہے جن روایات میں رکوع کے بعد قنوت کا ذکر ہے اس قنوت سے مراد قنوت نازلہ ہے۔
1: عن عاصم قال سألت انس بن مالک رضی اللہ عنہ عن القنوت فقال قد کان القنوت قلت قبل الرکوع او بعدہ؟ قال قبلہ قال فان فلانا اخبرنی عنک انک وقلت بعد الرکوع فقال کذب انما قنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد الرکوع شہرا۔
)صحیح بخاری ج1ص136 باب القنوت قبل الرکوع او بعدہ (
ترجمہ: حضرت عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز میں قنوت کے بارے میں پوچھا کہ وہ رکوع سے پہلے پڑھی جائے یا بعد میں؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا رکوع سے پہلے ہے۔ آپ علیہ السلام نے رکوع کے بعد صرف ایک مہینہ قنوت پڑھی تھی۔
2: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یوتر ویقنت قبل الرکوع۔
)سنن نسائی ج1ص248(
ترجمہ: آپ علیہ السلام وتر پڑھتے تھے اور رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔
3: عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یوتر بثلاث رکعات کان یقرء فی الاولیٰ ب۔ سبح اسم ربک الاعلیٰ وفی الثانیۃ ب۔قل یا ایہا الکافرون، وفی الثالثۃ ب۔قل ہو اللہ احد ویقنت قبل الرکوع۔
) سنن نسائی ص243،قیام اللیل للمروزی، باب کیف الوتر بثلاث ص248(
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے: آپ علیہ السلام تین رکعت وتر پڑھتے تھے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ دوسری میں قل یا ایہا الکافرون اور تیسری میں قل ہو اللہ احد پڑھتے تھے، اور قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔
4: عن علقمۃ ان ابن مسعود واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانوا یقنتون فی الوتر قبل الرکوع۔
)مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص521(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔
فائدہ : خود علماء غیر مقلدین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ قنوت وتر کا محل قبل الرکوع ہے اور جن روایات میں بعد الرکوع کا ذکر ہے ان سے مراد قنوت نازلہ ہے۔
1: چنانچہ مشہور غیر مقلد عالم مبشر ربانی لکھتے ہیں:
آپ علیہ السلام کے قول و فعل اور صحابہ کرام کے عمل سے وتر میں دعا قنوت رکوع سے قبل ثابت ہے اور اکثر روایات رکوع سے قبل ہی قنوت وتر پر دلالت کرتی ہیں۔۔ جو دعا ہنگامی حالات میں مسلمانوں کی خیر خواہی کفار و مشرکین اور دشمنان اسلام کے خلاف بد دعا کے طور پر کی جاتی ہے وہ رکوع کے بعد ہے جسے قنوت نازلہ کہا جاتا ہے، اور جو دعا رکوع سے قبل مانگی جاتی ہے وہ قنوت وتر ہے۔
)آپ کے مسائل اور ان کا حل ج1ص185 از مبشر ربانی (
2: غیر مقلد ین کہتے ہیں قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھنا راجح ہے جیسا کہ نسائی وغیرہ سے ثابت ہے جو لوگ رکوع کے بعد پڑھتے ہیں، وہ قنوت نازلہ پر قیاس کر کے ہی پڑھتے ہیں،، مؤلف کتاب کی ذکر کردہ روایات کا تعلق قنوت نازلہ ہی سے ہے۔
)تسہیل الوصول الی تخریج و تعلیق صلاۃ الرسول ص295(
3: بعض غیر مقلدین لکھتے ہیں وتر میں رکوع کے بعد قنوت کی تمام روایات ضعیف ہیں اور جو روایت صحیح ہے اس میں صراحت نہیں کہ آپ علیہ السلام کا رکوع کے بعد والا قنوت قنوت وتر تھا یا قنوت نازلہ لہذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وتر میں قنوت رکوع سے پہلے کیا جائے۔
)نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں ص236(
دعائے قنوت کے وقت رفع یدین:
وتر کی تیسری رکعت میں قرأت سے فارغ ہوکر تکبیر کہنا اور رفع یدین کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
1: عن ابی عثمان قال کان عمر یرفع یدیہ فی القنوت۔
)جزء رفع الیدین مترجم ص346(
ترجمہ: ابو عثمان کہتےہیں حضرت عمر قنوت کے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔
2: عن عبداللہ انہ کان یقرء فی آخر رکعۃ من الوتر قل ہو اللہ احد ثم یرفع یدیہ ویقنت قبل الرکعۃ۔
)جزء رفع الیدین مترجم ص346(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وتر کی آخری رکعت میں قل ہوا للہ احد پڑھتے تھے پھر رفع الیدین کرتے اور رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔
3: عن الاسود عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ انہ کان یرفع یدیہ فی قنوت الوتر۔
)مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص531(
ترجمہ: حضرت اسود رحمہ اللہ فرماتے ہیں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ وتر میں قنوت کے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔
فائدہ: خود غیر مقلدین کے علماء کرام بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے متعلق کوئی صحیح روایت نہیں ہے۔
1: صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا۔
)فتاویٰ علماء حدیث ج3ص206(
2: دعا قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے متعلق کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔
)نماز نبوی ص237(
3: بعض صحابہ کرام سے وتروں میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بارے میں ضعیف آثار بھی ملتے ہیں بہتر یہ ہے کہ قنوت وتر میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں۔
)حاشیہ صلوۃ الرسول ص297(
نوٹ : راقم نے نماز وتر اور دیگر اختلافی مسائل پر تفصیلی اور مدلل بحثیں فائلز کی صورت میں محفوظ کرا دی ہیں۔ درج ذیل نمبر پر رابطہ کر کے آپ منگوا بھی سکتے ہیں۔
مکتبہ اہل السنت والجماعت سرگودھا
03216353540