امور دین میں افراط و تفریط

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
امور دین میں افراط و تفریط
مولانا محب اللہ جان﷾
یہ دینی معاملات میں فکری ونظریاتی گمراہی کے شکار ہونے کا ایک بنیادی، اصلی اور تاریخی سبب ہے۔تاریخ انسانیت میں جب بھی کوئی دینی معالات میں فکری گمراہی کا شکار ہوا ہے تو وہ گمراہی کے اس تاریخی سبب کو اختیار کرنے سے ہی ہوا ہے۔ اسلامی تاریخ میں بھی جتنے فرقے پیدا ہوئے اور اہل سنت والجماعت کے نظریے سے معتزل ہوئے ان کی فکری گمراہی کا یہ سبب بھی کسی سے مخفی نہیں۔ اس فکری اور تاریخی گمراہی کے دو پہلو ہیں :
۱۔ امور دین میں کمی کرنا یعنی الحاد کا شکار ہونا۔
۲۔ امور دین میں اضافہ کرنا یعنی بدعات کا شکار ہونا
ماقبل اقوام کی گمراہی میں بھی یہ دو اسباب شامل تھے اوراس دور کے باطل فرقوں کی گمراہی میں بھی یہی دونوں اسباب شامل ہیں مشت نمونہ خرور کے طور پر چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
۱۔ یہود کی مغضوبیت اور نصاریٰ کی ضلالت کی اصل وجہ
قرآن مقدس میں سب سے پہلے جس قوم کو مغضوب کہا گیا وہ یہود ہے اور سب سے پہلے جنہیں گمراہ قوم کا لقب دیا وہ عیسائی قوم ہے۔ یہود کو محض یہود ہونے اور نصاریٰ کو محض نصاریٰ ہونے کے مغضوب اور ضال نہیں کہا گیا کیونکہ دونوں کے پاس صحیح آسمانی کتابیں (تورات ،انجیل)دونوں کے پاس سچے پیغمبر(موسیٰ وعیسیٰ) موجود تھے۔یہود کی مغضوبیت کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دینی معاملات میں کمی افراط اور الحاد سے کام لیتے تھے۔ دینی معاملات میں کمی کا شکار ہونا یہ یہود کی اس فکری گمراہی کا سبب بنی جس کا نتیجہ غضب خدا وندی کی صورت میں ظاہر ہوا۔
یہود کی دینی معاملات میں کمی کرنے کی مثال:
دین چونکہ دو راستوں سے ملا ہے۔
۱۔ کتاب اللہ (قوانین)
۲۔ رجال اللہ(انبیاءکرام(
یہود قوم نے قوانین میں بھی کمی کی جسے قرآن نے یوں بیان کیا
یحرفون الکلم عن مواضعہ.اوریکتبون الکتاب بایدیہم ثم یقولون ہذا من عنداللہ
اوررجال اللہ (دینی شخصیات)کی قدرومنزلت میں بھی کمی کرتے تھے یعنی دینی شخصیات کی گستاخی ،بے اکرامی ،توہین،کرنے پر یہ قوم بدنام تھی جیسے قرآن نے بیان کیا ہے
:قتلہم الانبیاءبغیر حق۔
۲۔ نصاریٰ کے گمراہ ہونے کی اصل وجہ
اسی طرح عیسائیت کے گمراہ ہونے کی اصل وجہ دینی معاملات میں اضافہ ،بدعات اور تفریط سے کام لینا ہے۔کتاب اللہ یعنی قوانین میں بھی اضافہ کرتے تھے جسے قرآن نے بیان کیاورھبانیة ابتدعوھا ما کتبناہا علیہماوردینی شخصیات کے احترام اور اکرام میں بھی اضافہ کرتے تھے
وقالت النصاریٰ مسیح ابن اللہ۔اتخذوا اخبارہم ورہبانہم اربابا من دون اللہ.
امت محمدیہ ﷺکو خطاب:
یہود چونکہ دین میں کمی(افراط)کرنے اور عیسائی دین میں اضافہ (تفریط)کرنے کی وجہ سے مغضوب اور ضال ٹھہرے تھے اس لیے اللہ رب العزت نے اس امت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا وکذالک جعلناکم امة وسطا”اور اس طرح ہم نے تمہیں درمیانی امت بنایا“
نکتہ: یہ امت اس اعتبار سے درمیانی نہیں کہ درمیان میں آئی ہے دنیا میں ا ٓنے کے اعتبار سے تو سب سے آخری ہے قرآن نے اس امت کو امت وسط اس اعتبار سے کہا کہ یہ دینی معاملات میں نہ یہود کی طرح کمی کرے گی اور نہ نصاریٰ کی طرح اضافہ ، بلکہ جتنا حکم ملے گا اس پر اتنا ہی عمل کرے گی۔ چونکہ دین میں افراط وتفریط دو تاریخی گمراہیوں کا تذکرہ جس کا نتیجہ سور ة الفاتحہ میں بیان فرمایا کہ دین میں کمی اور افراط والی گمراہی جس فرد،معاشرہ اور قوم میں آئے گی تو اس کا نتیجہ غضب خدا وندی کی صورت میں ظاہر ہوگا اور دین میں تفریط اور اضافہ والی گمراہی جس فرد اور جس قوم میں آئے گی اس کا نتیجہ ضلالت اور گمراہی کی صورت میں ہوگا۔ ان گمراہیوں کے عواقب ونتائج کو سورة الفاتحہ میں بیان کرنے کے بعد پورے قرآن مقدس میں ان کی عملی صورتوں کو بیان کیا ہے اورامت مسلمہ کو جا بجا ان دو تاریخی اقوام یہود ونصاریٰ کی ان دو تاریخی گمراہیوں افراط وتفریط کی روش پر چلنے سے سختی سے منع فرمایاہے۔
اس امت کی خصوصیت تو یہی تھی کہ یہ دینی معاملات میں اعتدال پر ہی رہے گی ،اپنے دینی معاملات میں یہود ونصاریٰ کی روش سے بچے گی نہ ہی دین میں کمی کرے گی اور نہ ہی اضافہ لیکن نبی ﷺ کی پیشن گوئی کے مطابق کہ میری امت کے کچھ طبقات دینی معاملات میں یہود ونصاریٰ کی روش کو اختیار کریں گے اوران کی مشابہت اختیار کریں گے۔ اس حدیث مبارک کی تشریح وتوضیح میں بہت وسعت ہے کہ اس سے مراد ظاہری مشابہت ہے کہ امت مسلمہ کے کچھ طبقات یہود ونصاریٰ کے ساتھ اپنی دنیاوی،ظاہری معاملات میں مشابہت اختیار کریں گے یا باطنی اور دین کے اعتبار سے مشابہت کریں گے۔
یہ دونوں باتیں صادق آتی ہیں آج مسلمانوں نے اپنی دنیا و ظاہری اعتبار سے ثقافت،لباس ،رہن سہن ،حلیہ ان جیسا بنا کر ان کی مشابہت واتباع کر لی ہے اور دوسری بات بھی صادق آتی ہے کہ آج مسلمانوں کے بہت سے طبقات یا تو یہود کی روش پر چل کر دین میں کمی کرتے ہیں اور کبھی نصاریٰ کی طرح دین میں اضافہ کرتے ہیں اسی لیے فرمایا تھا میری امت یہود ونصاریٰ کے نقش قدم پر چلے گی اور جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں جتنے بھی فرقے پیدا ہوئے وہ ان ہی دونوں تاریخی گمراہیوں میں سے کسی ایک کے ارتکاب سے گمراہ ہوئے۔ ایک فرقہ نے دین کی تشریحات واحکامات یا دینی شخصیات کے احترام میں یہود کی طرح کمی کی اور ایک فرقے نے اس کے مقابلے میں نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے دینی احکامات میں بھی اضافہ کیا اوردینی شخصیات کے احترام میں بہت غلو کیا جبکہ اہل سنت والجماعت کا طبقہ ہمیشہ سے ان فرقوں کے درمیان توسط ،اعتدال کے حقیقی اسلامی نظریے پر سختی سے کاربند رہا۔
۱۔ ایک فرقہ اٹھا جس نے صفات متشابہات کو مان کر اتنا غلوکیا کہ اللہ رب العزت کو انسان اور مخلوقات کے مشابہ قرار دے دےا اور یہ فرقہ مجسمہ یا مشبہ کہلایا اور اس دور میں بھی اس کے کچھ پیروکار موجود ہیں جیسے نام ونہاد اہل حدیث کیونکہ یہ بھی تجسیم کے قائل ہیں۔اس کے مقابلے میں دوسرا فرقہ اٹھا اس نے یہود کی روش اختیار کرتے ہوئے ان صفات کا یا تو سرے سے انکار کر دیا جیسے فرقہ معطلہ یا ایسی تاویالات کیں جوانکار کی بمنزلہ تھیں جیسے فرقہ مؤلہ۔ جبکہ اہل سنت والجماعت کا مؤقف افراط وتفریط(تجسیم،تعطیل،تاویل) کے ان نظریات کے درمیان اعتدال پر مبنی تھا۔ جو ان صفات کو مانتے بھی تھے ،معطلہ اور مؤلہ کی طرح انکار اور تاویل نہیں کرتے تھے اورمان کر غلو بھی نہیں کرتے تھے کہ مشبہ اور مجسمہ کی طرح اللہ کے لیے یا تو جسم کے قائل ہوجائیں یا ذات باری تعالیٰ کو مشابہ قرار دیں چنانچہ وہ اسی نظریے پر کاربند رہے۔
لیس کمثلہ شی وہو السمیع البصیر۔
۲۔ اسی طرح ایک فرقہ اٹھا جس نے یہود کی روش اختیار کرتے ہوئے تقدیر کا سرے سے ہی انکار کر دیا جیسے قدریہ۔ دوسرا فرقہ اس کے مقابلے میں اٹھا جس نے نصاریٰ کی روش کو اختیار کرتے ہوئے تقدیر کو مان کر اتنا غلو کیا کہ انسان کے تمام تر اختیار کا کلی طور پرانکار کر دیا یہ جبریہ کہلایا۔ان دونوں نظریات کے درمیان اہل سنت والجماعت کا مؤقف اعتدال پر مبنی تھا جو نہ تو انسان کو پوری طرح قادر مانتے تھے اور نہ ہی بالکل مجبور محض۔
الغرض کہ ان دو نظریات کے حامل مختلف فرقے یوں آگے بڑھتے رہے تاآنکہ17ویں صدی عیسوی میں باقاعدہ یہود ونصاریٰ کی ملی بھگت سازشوں سے امت مسلمہ میں انتشار وافتراق پیدا کرنے کے لیے اور ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے مختلف فرقے کھڑے کیے۔ چنانچہ گزشتہ چند صدیوں سے امت مسلمہ میں جتنی بھی گمراہیاں اور جتنے بھی فتنے اور فرقے متعارف کرائے گئے ان کو فکری گمراہی کے حوالے سے ان ہی دونوں تاریخی گمراہیوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ یہود کی روش اختیار کر کے دین کے قوانین میں کمی او ردینی شخصیات کے احترام میں کمی کر کے غضب خدا وندی کے مستحق ہونے والے فرقے۔
چنانچہ حدیث کا انکار ،تقدیر کا انکار ،عذاب قبر کا انکار،وسیلہ کا انکار،ایصال ثواب کا انکار ،حیات انبیاءکرام کا انکار،ختم نبوت کا انکار،جہاد کا انکار،اسلامی حدود وتعزیرات کا انکار کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ انکار خواہ حکم کے صراحتا ہو یا تشریحات میں تبدیلی کی صورت میں۔ اسی طرح ان فرقوں نے دینی شخصیات کے احترام میں بھی کمی کی،سلف صالحین ،اکابرین امت کے دینی فہم اور علمی ذوق پر عدم اعتماد انسان کو خطاءکا پتلاقرار دے کر سلف صالحین کی ساری دینی خدمات پر پانی پھیرنا ان فرقوں کا مشن ہے،صحابہ کرام کی گستاخی وبے اکرامی کرنا ،انبیاءکرام کے لئے نازیبا کلمات کہنا اور ان کی طرف کبائر معاصی کو منسوب کرنا ،اولیاءاللہ کے ولایت وکرامات ،کشف والہام کا انکار کرنا یہ وہ فرقے ہیں جنہوں نے ہر اعتبار سے دین میں کمی کی ماضی میں یہی کام یہود نے کیا تو ان پر خدا کا غضب نازل ہوا اور ان فرقوں نے بھی نبی کریم ﷺ کے پیشن گوئی کے مطابق یہود کی مشابہت اختیار کیا۔
نکتہ: یہ راقم الحروف کی رائے ہے کہ جس طرح دین میں الحاد وکمی کا سہرا قرآن نے یہود کے سر پہ رکھا ہے تو آج بھی امت مسلمہ کے نظریات وعقائد کو خراب کرنے کے لیے جو ملحدین و زنادقہ دجل وتلبیسات سے کام لے رہے ہیں اور دین میں کمی و الحاد کی گمراہی میں مسلمانوں کو مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں بھی یہود کی پشت پناہی حاصل ہے۔
۲۔ نصاریٰ کی روش اختیار کر کے گمراہ دین میں اضافہ کرنے والے فرقے۔
چنانچہ دوسری طرف امت مسلمہ میں وہ فرقے بھی وجود میں آئے جنہوں نے نصاریٰ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قوانین اسلام میں اضافہ اور روحانی شخصیات کے ادب و احترام میں حد درجہ غلو واضافہ شروع کر دیا جس نے تصوف اور پیری مریدی کے نام پر بدعات ورسومات اور شرکیہ افعال امت مسلمہ کے سادہ لوح مسلمانوں میں متعارف کروائے۔
اس طبقہ نے سنت راستہ کو مسخ کرتے ہوئے ایک تو بدعات کو رواج دیا ،ہر چیز کی حقیقی صورت مسخ کر ڈالی ،آذان کی صورت مسخ کر ڈالی،ایصال ثواب کی شکل بگاڑ دی،وسیلہ کی ناجائز صورتوں کو جائز صورتوں کے ساتھ خلط ملط کر دیا ،اسی طرح دینی شخصیات کے احترام میں بھی بہت حد تک غلو کیا ،عیسائیت کی طرح انبیاءکرام کو ”مختار کل“ہر جگہ ان کا حاضر ناظر ہونا ،اولیاءاللہ کے لیے ان افعال کو بجا لانا جو اللہ کے لیے خاص تھے ،مثلاً دعا مانگنا ،سجدہ کرنا،اسی طرح دیگر تعظیمی امور کو بجا لانا ....تو اس طبقہ نے یہ سب امور اپنی دینی شخصیات کے لیے شروع کر دیے۔
نکتہ: راقم الحروف کی رائے ہے اوراس پر کچھ شواہد بھی ملے ہیں کہ اس قسم کے بدعات ورسومات کے مظاہر کے ساتھ نصاریٰ بیرون ممالک سے خفیہ اور اعلانیہ طور پر تعاون بھی کرتے ہیں۔ کراچی کے ایک سابق پادری نے خود احقر سے اس کے بہت سے واقعات بھی بیان کیے ہیں ،جن کا یہ مضمون متحمل نہیں۔
دین کے معاملات میں افراط وتفریط کا شکار ہونا یہ بھی فکری گمراہی کااصل ،تاریخی اور ابدی سبب ہے ،تاریخ میں اس افراط وتفریط کے سبب یہود ونصاریٰ گمراہ ہوئے اوراب اس امت کے بہت سے طبقات بھی اس روش کو اختیار کیے ہوئے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ آپ اس دور کے جتنے بھی گمراہ لوگوں کے نظریات کا جائزہ لیں گے تو ان میں قدر مشترک کے طور پر ان ہی دو گمراہیوں میں سے ایک گمراہی پائی جاتی ہو گی نام خواہ اس کا کچھ بھی ہو۔ اعتدال،درمیانہ روش دین کا بھی حسن ہے اور دنیا کا بھی اورانسانی فطرت بھی اعتدال پر ہی ڈھالی گئی ہے اور شریعت مطہرہ کے احکامات کے مزاج میں بھی اسی کی روح پھونکی گئی ہے لہذا افراط وتفریط سے بچنا دین،دنیا ، فطرت اور شریعت کا تقاضاہے۔جبکہ اس کے خلاف چلنا ان سب کی مخالفت ہے۔
قرآن کو چیلنج
1977 میں جناب گیری میلر (Gary Miller) جو ٹورنٹو یونیورسٹی میں ماہر علمِ ریاضی اور منطق کے لیکچرار ہیں اور کینیڈا کے ایک سرگرم مبلغ ہیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عیسائیت کی عظیم خدمت کرنے کے لئے قرآن ِ مجید کی سائنسی اور تاریخی غلطیوں کو دنیا کے سامنے لائیں گے، جو اس کے مبلغ پیرو کاروں کی مدد کرے تاکہ مسلمانوں کو عیسایئت کی طرف لایا جا سکے۔
تاہم نتیجہ اس کے بالکل برعکس تھا میلر کی دستاویز جائز تھیں اور تشریح اور ملاحظات مثبت تھے۔ مسلمانوں سے بھی اچھے جو وہ قرآنِ مجید کے متعلق دے سکتے تھے۔ اس نے قرآنِ مجید کو بالکل ایسا ہی لیا جیسا ہونا چاہیئے تھا اور ان کا نتیجہ یہ تھا:
”یہ قرآنِ مجید کسی انسان کا کام نہیں۔“
پروفیسر گیری میلر کے لئے بڑا مسئلہ قرآنِ مجید کی بہت سی آیات کی بناوٹ تھی جو اسے چیلنج کر رہی تھیں للکار رہی تھیں مثلاً:
أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا۔
بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے۔
)سورۃالنساء ، 82(
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ۔
اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔
)سورۃالبقرۃ، 23(
اگرچہ پروفیسر میلر شروع شروع میں للکار رہا تھا اور چیلنج کر رہا تھا، مگر بعد میں اس کا یہ رویہ حیرت انگیز طور پر تبدیل ہو گیا اور پھر اس نے بیان کیا کہ اس کو قرآن سے کیا ملا؟
مندرجہ ذیل کچھ نکات ہیں جو پروفیسر میلر کے لیکچر”حیرت انگیز قرآن“ میں بیان کئے ہیں:
یہاں کوئی مصنف (لکھنے والا) ایسا نہیں ملے گا جو ایک کتاب لکھے اور پھر سب کو للکارے اور چیلنج کرے کہ یہ کتاب غلطیوں (اغلاط) سے پاک ہے۔ قرآن کا معاملہ کچھ دوسرا ہے، یہ پڑھنے والے کو کہتا ہے کہ اس میں غلطیاں نہیں ہیں۔ اور پھر تمام لوگوں کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر تم کہتے ہو کہ اس میں غلطیاں ہیں اور تم اپنی اس بات پر سچے ہو تو یہ غلطیاں تلاش کر کے دکھا دو یا تم سمجھتے ہو کہ یہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کا کلام ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دو۔
قرآن مقدس، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ (ذاتی زندگی) کے سخت لمحات کا ذکر نہیں کرتا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیق حیات اور محبوب بیوی حضرت خدیجہ ؓاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی وفات۔
نہایت ہی عجیب طرح سے اور عجیب طور پر وہ آیات مبارکہ جو کچھ ناکامیوں پر بطور رائے (تبصرہ) نازل کی گئیں وہ بھی کامیابی کا اعلان کرتی ہیں اور وہ آیات جو کامیابی، فتح اور کامرانی کے وقت نازل ہوئیں ان میں بھی غرور و تکبر کے خلاف تنبیہ کی گئی ہیں۔
جب کوئی اپنی ذاتی زندگی (سوانح حیات/آپ بیتی) لکھتا ہے تو اپنی کامیابیوں (فتوحات) کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اپنی ناکامیوں اور شکست کے متعلق دلائل دینے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ قرآن مجید نے اس کے برعکس کیا جو یکساں اور منطقی ہے۔ یہ ایک خاص اور مقررہ وقت کی تاریخ نہیں ہے، بلکہ ایک تحریر ہے جو اللہ (معبود) اور اللہ کے ماننے والوں، عبادت کرنے والوں کے درمیان عام قسم کے قوانین اور تعلق کو پیدا کرتی ہے، وضع کرتی ہے۔
میلر نے ایک دوسری خاص آیت کے متعلق بھی بات کی :
قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ.
کہہ دو کہ میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ پھر غور کرو۔ تمہارے رفیق کو جنون نہیں وہ تم کو عذاب سخت (کے آنے) سے پہلے صرف ڈرانے والے ہیں۔
) سورۃسبا، 46(
اس نے ان تجربات کی طرف اشارہ کیا جو ایک محقق ”اجتماعی بحث و مباحثہ کے اثرات “ پر ٹورنٹو یونیورسٹی میں کر چکا تھا۔
محقق نے مختلف مقررین (تقریر اور بحث کرنے والوں) کو مختلف بحث و مباحثہ میں اکھٹا کیا اور ان کے نتائج میں موازنہ کیا، اس نے یہ دریافت کیا کہ بحث و مباحثہ کی زیادہ تر طاقت اور کامیابی تب ملی جب مقرر تعداد میں 2 تھے، جبکہ طاقت اور کامیابی اس وقت کم تھی جب مقررین کی تعداد کم تھی۔
قرآن مجید میں ایک سورۃ حضرت مریم علیہ السلام کے نام پر بھی ہے۔ اس سورۃ میں جس طرح ان کی تعریف اور مدح کی گئی ہے اس طرح تو انجیل مقدس میں بھی نہیں کی گئی، بلکہ کوئی بھی سورۃ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام سے موجود نہیں۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اسم گرامی قرآنِ مجید میں 25 مرتبہ، جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک صرف 5 مرتبہ دہرایا گیا ہے۔
کچھ تنقید کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں (نعوذ باللہ) کہ جو کچھ قرآن میں لکھا ہے وہ سب آسیب، بھوت اور شیطان 'نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھاتے تھے' ہدایات دیا کرتے تھے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جبکہ قرآن مجید میں کچھ آیات ایسی بھی ہیں جیسے:
وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ.
اور اس (قرآن) کو شیطان لے کر نازل نہیں ہوئے۔
) سورۃالشعراء ، 210(
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ.
اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو۔
)سورۃالنحل ، 98(
اگر آپ ان حالات کا سامنا کرتے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیقؓ غارِ حرا کے اندر، مشرکوں کے درمیان گھرے ہوئے تھے اور وہ انہیں دیکھ سکتے تھے، اگر وہ نیچے دیکھتے، انسانی ردِ عمل یہ ہو گا کہ پیچے سے خروج کا راستہ تلاش کیا جائے یا باہر جانے کا کوئی دوسرا متبادل راستہ یا خاموش رہا جائے تاکہ کوئی ان کی آواز نہ سن سکے ، تاہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر صدیق ؓسے فرمایا :
غمزدہ نہ ہو، فکر مت کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو اللہ اُن کا مددگار ہے (وہ وقت تم کو یاد ہوگا) جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا۔ (اس وقت) دو (ہی ایسے شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکرؓ تھے) اور دوسرے (خود رسول الله) جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کر دیا۔ اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے۔ اور اللہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔
) سورۃ التوبۃ 40(
یہ کسی دھوکہ باز یا دغا باز کی ذہنیت نہیں ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سوچ ہے۔ جن کو پتہ ہے وہ جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں گے۔
سورۃ المسد (سورۃ تبت) ابو لہب کی موت سے دس سال پہلے نازل کی گئی ، ابو لہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا۔ ابو لہب نے دس سال اس بیان میں گذارے کہ قرآن مجید غلط ہے۔ وہ ایمان نہیں لایا اور نہ ہی ایسا کرنے پر تیار تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے اتنے زیادہ پراعتماد ہو سکتے تھے جب تک ان کو یقین نہ ہوتا کہ قرآن مجید اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف ہی سے ہے۔
قرآن کریم کی اس آیت کو ملاحظہ کیجئے
:تِلْكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلاَ قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ۔
یہ (حالات) منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور اس سے پہلے نہ تم ہی ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم (ہی ان سے واقف تھی) تو صبر کرو کہ انجام پرہیزگاروں ہی کا (بھلا) ہے۔
) سورۃ ہود، 49(
میلر لکھتا ہے کہ
کسی بھی مقدس کتاب نے اس قسم کا انداز نہیں اپنایا کہ جس میں پڑھنے والے کو ایک خبر دی جار رہی ہو اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نئی خبر (اطلاع) ہے۔ یہ ایک بے نظیر (بےمثال ) چیلنج (للکار) ہے۔ کیا اگر مکہ کے لوگ مکر و فریب سے یہ کہہ دیتے کہ وہ تو یہ سب کچھ پہلے سے ہی جانتے تھے؟ کیا اگر کوئی اسکالر (عالم) یہ دریافت کرتا کہ یہ اطلاع (خبر) پہلے ہی سے جانی پہچانی تھی (افشا تھی) تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا۔
پروفیسر میلر کیتھولک انسائیکلو پیڈیا کے موجودہ عہد (زمانہ) کا ذکر کرتا ہے جو قرآن کے متعلق ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ باوجود اتنے زیادہ مطالعہ، نظریات اور قرآنی نزول کی صداقت پر حملوں کی کوشش اور بہت سے بہانے اور حجتیں جن کو منطقی طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ گرجا گھر (چرچ) کو اپنے آپ میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ ان نظریات کو اپنا سکے اور ابھی تک اس نے مسلمانوں کے نظریہ کی سچائی اور حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ قرآن مجید میں کوئی شک نہیں اور یہ آخری آسمانی کتاب ہے۔
بالآخر1978 میں پروفیسر میلر نے اسلام قبول کر ہی لیا اور اپنے آپ کو عبد الاحد کے نام سے پکارا۔