علماء دیوبند کی خدمات ِ سلوک و احسان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 2:
…… مولانا عنایت اللہ عینی﷾
علماء دیوبند کی خدمات ِ سلوک و احسان
2: علامہ محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ:
انہی بزرگوں میں اہل حق کے سردار، ذوالفضائل،صاحب التکوین، جامع المعقولات والمنقولات ،قاسم العلوم والخیرات ،امام الہدیٰ، حجۃ الاسلام علامہ محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ (م1297ھ) ہیں۔
آپ قصبہ نانوتہ میں شعبان یا رمضان 1248ھ کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مولانا مملوک علی صاحب رحمہ اللہ سے حاصل کر کے دورہ حدیث شریف حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلوی سے کیا۔ آپ سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز تھے (اکابر علماء دیوبند ص22 از اکبر شاہ بخاری) حضرت سید الطائفہ آپ سے بے حد محبت کرتے تھے اور آپ کی دینی علوم پر مکمل دسترس کو دیکھ کر فرمایا کہ مولوی قاسم میری زبان ہے۔(بیس بڑے مسلمان) بلکہ حضرت حاجی صاحب نے اپنی کتب فیصلہ ہفت مسئلہ،ضیاء القلوب اور مکتوبات امدادیہ وغیرہ میں حجۃ الاسلام علامہ قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اور امام ربانی مفتی رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔
بلکہ ایک جگہ تو حضرت نانوتوی کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا کہ ایسے لوگ کبھی پہلے زمانے میں ہوا کرتے تھے اب مدتوں سے نہیں ہوئے۔(اکابر علماء دیوبند ص22) آپ کا سب سے بڑا کارنامہ دار العلوم دیوبند کا قیام ہے ، جس کا فیض اس وقت پورے عالم میں پھیلا ہوا ہے ،کرہ ارضی پر کوئی خطہ ایسا نہیں جو دارالعلوم دیو بند کے علوم و معارف سے بے بہرہ ہو۔
تصانیف: علامہ نانوتوی رحمہ اللہ نے تقریبا ستر کتب تحریر فرمائی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ ان میں آبِ حیات ،اجوبہ اربعین، توثیق الکلام، تقریر دل پذیر، حجۃ الاسلام، قصائدقاسمیہ، انتصار الاسلام ،مباحثہ شاہ جہان پور ،قبلہ نما، تصفیۃ العقائد اور تحذیر الناس مشہور ہیں۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:اگر مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کردیا جائے اور نام نہ بتایا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ یہ کتابیں امام رازی رحمہ اللہ اور امام غزالی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی ہیں۔
آپ نے بروز جمعرات جمادی الاولیٰ 1297ھ کو وفات پائی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ کےحالات زندگی پر بے شمار کتابیں موجود ہیں جن میں سوانح عمری از مولانا یعقوب نانوتوی رحمہ اللہ ، انوار قاسمی از پروفیسر نور الحسن شیرکوٹی رحمہ اللہ، سوانح قاسمی از مناظر احسن گیلانی (م1375ھ) وغیرہ مشہور ہیں۔
3: مفتی رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ:
انہی اقطاب میں اپنے وقت کے قطب الارشاد، امام ربانی، مصلح الامۃ مفتی رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ (م1323ھ) ہیں۔
آپ اپنے زمانے میں فقہ و حدیث کے ساتھ ساتھ علم تصوف کے بھی امام تھے، آپ کی ولادت باسعادت بروز شنبہ ذی القعدہ 1244ھ میں گنگوہ میں ہوئی (اکابر علماء دیوبند ص27) آپ نے حجۃ الاسلام امام نانوتوی رحمہ اللہ کے ساتھ حضرت مملوک علی رحمہ اللہ سے ابتدائی کتب پڑھ کر دورہ حدیث شریف حضرت شاہ عبدالغنی رحمہ اللہ سے کیا۔
آپ رحمہ اللہ حضرت سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ سے بیعت ہوئے اور چالیس دن کے مختصر عرصہ میں خلافت واجازت سے سرفراز ہوئے (بیس بڑے مسلمان) بعد ازاں آپ نے حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمہ اللہ کی خانقاہ کو اپنے فکر و ذکر سے آباد فرمایا اور خلق کثیر کو عشقِ خدا وندی کی آگ سے گرمایا، جن میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ (م1339ھ) الامام المحدث خلیل احمد سہارنپوری (م1346ھ) اور شیخ الاسلام حسین احمد مدنی رحمہ اللہ (م1377ھ) قابل ذکر ہیں۔
آپ کی بہت سی کرامات و مناقب ہیں جن کو آپ کے خلیفہ مولانا عاشق الہٰی میرٹھی رحمہ اللہ نے تذکرۃ الرشید میں تفصیل سے تحریر کر دیا ہے۔
آپ کی وفات 9 جمادی الثانی 1323ھ کو گنگوہ میں ہوئی
(تذکرۃ الرشید از عاشق الہی میرٹھی واکابر علماء دیوبند ص32)
تصانیف: رد الطغیان، اوثق العریٰ ،سبیل الرشاد ،ہدایۃ الشیعہ وغیرہ جو تالیفات رشیدیہ میں شامل ہیں، ان کے علاوہ مکتوبات رشیدیہ اور امداد السلوک قابل ذکر ہیں۔
4: حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ:
انہی مقدس ہستیوں میں مجدد وقت ،غوث الزمان، تصوف کا بادشاہ، قدوۃ السالکین ،عارف باللہ سیدنا و مولانا حکیم الامت مجدد الملۃ امام محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ م1362ھ ہیں۔
آپ کی ولادت باسعادت 5ربیع الثانی 1280ھ کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم تھانہ بھون ہی میں حضرت شیخ فتح محمد رحمہ اللہ سے حاصل کی پھر ذی القعدہ 1295ھ میں دیوبند تشریف لائے۔ 1301ھ میں فارغ التحصیل ہوئے۔
(اکابر علماء دیوبند ص60)
آپ حضرت سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ سے بیعت و خلافت یافتہ ہیں اور ان کی خانقاہ امدادیہ کو اپنی روحانی قوت سے آباد فرمانے والے ہیں ، آپ اپنے زمانے میں اہل حق کے پیشوا اور ہر فن کے امام تسلیم کیے گئے ہیں، خصوصاً علم تصوف میں آپ کا کوئی ثانی نہیں، آپ نےمتحدہ برصغیر میں اپنی علمی و عملی کوششوں سے نہ صرف علم تصوف کو روشناس کرایا بلکہ ایسے علماء کی ایک جماعت تیار کی جن کے دم سے آج دنیا کے مختلف گوشوں میں عشق خداوندی و اتباع و محبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنیں پھیل گئیں۔
تقریباً ہر فن پر آپ کی شاہکار تصانیف موجود ہیں، آپ نے سب سے زیادہ کتابیں علم تصوف پر لکھی ہیں، جن میں کئی کتابیں کئی ضخیم جلدوں میں ہیں، جیسے کلید مثنوی اور ملفوظات حکیم الامت وغیرہ۔
آپ کا قول ہے کہ تصوف قرآن وحدیث کا نچوڑ ہے(التشرف) چنانچہ آپ نے علم تصوف کا قرآن پاک سے استنباط کر کے مسائل السلوک من کلام ملک الملوک تالیف فرمائی اور احادیث مبارکہ سے اس کا استنباط کر کے التشرف بمعرفۃ احادیث التصوف تالیف فرمائی، ساتھ ہی عقلی دلائل سے علم تصوف کا اثبات کر کے التکشف عن مہمات التصوف لکھی، علم تصوف پر جتنا کام آپ نے فرمایا ہے شاید کسی نے اتنا کیا ہو۔ ان کے علاوہ آپ کے اور بھی تجدیدی کارنامے مشہور ہیں جو تفصیلا اشرف السوانح، سیرت اشرف، مآثر حکیم الامت، بیس بڑے مسلمان ،اکابر علماء دیوبند رحمہم اللہ میں مذکور ہیں۔
آپ کی وفات حسرت آیات 16رجب 1362ھ کو تھانہ بھون میں ہوئی،انا للہ وانا الیہ راجعون۔
5: شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ :
انہی صوفیاء کرام میں ہر دلعزیز شخصیت ،قائد العلماء ،شیخ العرب والعجم ، شیخ الاسلام والمسلمین مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ (م1377ھ) ہیں۔
آپ رحمہ اللہ کی ولادت باسعادت 19شوال 1296ھ کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم والد صاحب کی نگرانی میں حاصل کی بعد میں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے زیر نگرانی ساڑھے چھ سال میں تقریباً 17 فنون پر مشتمل درس نظامی کی 67 کتب ختم کر لیں۔
( اکابر علماء دیوبند ص112)
آپ قطب ربانی مفتی رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ سے مجاز بیعت و خلافت تھے، مدینہ منورہ میں اپنے دادا پیر حضرت سیدالطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کی نگرانی میں مقامات طریقت طے کرتے رہے۔ بقول حضرت امام احمدعلی لاہوری آپ اپنے زمانے کے امام الاولیاء تھے
(اکابر علماء دیوبند ص116)
آپ نے تصوف میں اعلیٰ مقام حاصل کیا تھا، جس کا اندازہ آپ کے خلفاء کرام سے ہوتا ہے جو خود پیکر علم و تقویٰ تھے، جن کے اخلاص و سلوک سے علم تصوف کی کرنیں پورے عالم میں پھیل رہی ہیں، آپ ایک متاثر کن شخصیت تھے، آپ کے ان مٹ اثرات دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں، سلسلہ تصوف میں آپ کی سند پر فخر کیا جاتا ہے۔
تصانیف: الشہاب الثاقب ،فتاویٰ شیخ الاسلام، مکتوبات شیخ الاسلام ودیگر مشہور ہیں، آپ کے تفصیلی حالات نقش حیات ،حیات شیخ الاسلام، چراغ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ میں مذکور ہیں۔
آپ کی وفات 13جمادی الاولیٰ 1377ھ بروز جمعرات ہوئی۔
6: امام الاولیاء مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ :
انہی پاکیزہ سیرت بندگانِ خدا میں امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری (م1383ھ) ہیں۔
آپ کی ولادت 2رمضان المبارک 1304ھ کو گوجرانوالہ میں ہوئی۔ آپ 1927ء کو دینی علوم سے فارغ التحصیل ہوئے، آپ کی تربیت امام انقلاب علامہ عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ (م1363ھ) نے فرمائی اور انہوں نے آپ کو اپنے پیر طریقت مولانا غلام محمد دین پوری رحمہ اللہ کے سپرد فرمایا(اکابر علماء دیوبند ص247) جن کے سایہ عاطفت میں آپ نے حسن خوبی سے مقامات طریقت و سیر سلوک کو طے کر کے تصوف میں اعلیٰ مقام حاصل کیا، آپ سلسلہ عالیہ قاریہ مبارکہ میں ذکر و فکر کی تلقین کراتے تھے، آپ کی وجہ سے سلسلہ قادریہ مبارکہ کو ملک میں عروج ملا اور ملک و بیرون ملک آپ رحمہ اللہ کے خلفاء پھیل گئے، جو دلوں پر محنت اور ان میں تزکیہ کا بیج بورہے ہیں۔
آپ کو کشف الصدور والقبور حاصل تھا اور یہ بات متواتر ہوگئی تھی خود آپ کے زمانہ ہی میں، اللہ پاک نے آپ کو قوت باطنی میں وہ اعلیٰ مقام عطاء فرمایا تھا جس کی نظر آپ کے ہم عصروں میں اتنی نہیں تھی، آپ کی خانقاہ آج تک ذکر وفکر سے آباد ہے، آپ رحمہ اللہ سے مخالفین بھی انتہائی متاثر تھے۔
تصانیف: رسوم الاسلامیہ،اصلی حنفیت، ضرورۃ القرآن وغیرہ۔
آپ کی وفات 17 رمضان 1383ھ کو ہوئی
(اکابر علماء دیوبند ص251)
جب آپ کو دفن کیا گیا تو آپ کی قبر سے عرصہ دراز تک خوشبو پھوٹتی رہی۔
7: برکۃ العصر شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ :
انہی کاملین میں اپنے وقت کے برکۃ العصر، شیخ الحدیث، عارف باللہ شیخ المشائخ سید الصوفیہ حضرت مولانا محمد زکریا کاندہلوی رحمہ اللہ (م1402ھ) ہیں۔
آپ کی ولادت 11رمضان المبارک 1315ھ کو کاندھلہ میں ہوئی۔ اول تا آخر تمام تعلیم مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں حاصل کی اور 1344ھ میں فارغ ہوئے آپ کو حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ (1346ھ) ومولانا عبدالقادر رائے پوری سے خلافت حاصل ہے۔
آپ اپنے وقت کے امام الصوفیہ تھے، تصوف کے نشیب و فراز سے بخوبی واقف تھے، آپ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ فقیہ و صوفی بھی تھے، بلکہ آپ پر تصوف کا بہت غلبہ تھا، جس کا اندازہ آپ کی ہر کتاب کے مطالعہ سے ہوتا ہے، آپ کے خلفاء مشرق و مغرب میں پھیل گئے اور آپ کے فیوض کو اللہ کریم نے قبولیت عامہ سے سرفراز فرمایا۔
تصانیف: الکنز المتواری شرح صحیح بخاری، اوجز المسالک شرح موطا الامام مالک، اختلاف الائمہ، لامع الدراری ،تقریر بخاری، الاعتدال فی مراتب الرجال وغیرہ اور علم تصوف میں فضائل اعمال ،اکابر کا سلوک و احسان ، مکتوبات کتاب العشق ،آب بیتی وغیرہ ان کے علاوہ بھی کئی کتب تالیف فرمائی ہیں۔
آپ کی وفات 1402ھ مدینہ منورہ میں ہوئی اور جنت البقیع میں ہزاروں صحابہ کرام کے بیچ میں مدفون ہوئے۔
حقیقت یہ ہے کہ علماء دیوبند نے جہاں ظاہری علوم و فنون سے اسلام کی تجدید کی اور پورےعالم میں دین کے احیاء ، اشاعت اور تحفظ کا بیڑا اٹھایا وہاں پر تصفیہ قلوب اور تزکیہ نفوس کی مبارک محنت سے امت مرحومہ کونئی زندگی بخشی۔