عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 2:
……الشیخ محمد نواز الحذیفی ﷾
عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ
12: امام نسفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
(الی ذکر اللہ) ای الی الخطبۃ عند الجمہور وبہ استدل ابو حنیفۃ رحمہ اللہ علی ان الخطیب اذا اقتصر علی الحمدللہ جاز .
)تفسیر النسفی ج3 ص482(
آیت میں ذکر اللہ سے مراد خطبہ ہے جمہور حضرات کے ہاں اور اسی سے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے دلیل لی ہے کہ اگر خطیب الحمد للہ پر اکتفاء کرے جائز ہے۔
13: تفسیر الفواتح الالھٰیۃ والمفاتیح الغیبیۃ ج2 ص414 میں لکھا ہے:
فاسعوا مجیبین مسرعین الی سماع ذکر اللہ فی الخطبۃ۔
خطبہ میں ذکر اللہ کو سننے کے لیے فوراً دوڑے آؤ۔
14: تفسیرروح البیان ج9ص523 میں لکھا ہے:
فاسعوا الی ذکر اللہ قال الراغب السعی المشی وھو دون العدو ای امشو واقصدوا الی الخطبۃ والصلاۃ لاشتمال منہما علی ذکر اللہ وما کان من ذکر رسول اللہ والثناء علیہ وعلی خلفائہ الراشدین واتقیاء المومنین والموعظۃ والتذکیر فی حکم ذکر اللہ .
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد فاسعوا الی ذکر اللہ جلدی چلے آؤ اللہ کے ذکر کی طرف امام راغب نے فرمایا ہے فوراً چلے آنے سے مراد درمیانے انداز سے چل کر آنا ہے یعنی چلو اور ارادہ کرو خطبہ اور نماز کی طرف ان دونوں میں سے ہر ایک کے ذکر اللہ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اور خطبہ میں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور آپ کی تعریف ہوتی اور آپ کے خلفاء راشدین اور مومن متقیوں کا ذکر خیر ہوتا ہے اور جو وعظ و نصیحت ہوتا ہے وہ ذکر اللہ کے حکم میں ہے۔
15: امام ابو عبداللہ محمد بن یوسف الاندلسی الغرناطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وذکر اللہ ہنا الخطبۃ قالہ ابن المسیب وھی شرط فی انعقاد الجمعۃ عند الجمہور وقال الحسن ھی المستحبۃ والظاہر انہ یجزئ من ذکر اللہ تعالی ما یسمیٰ ذکرا قال ابوحنیفۃ رحمہ اللہ لو قال الحمد للہ او سبحان اللہ واقتصر علیہ جاز .
)البحر المحیط فی التفسیر ج10 ص176(
آیت میں یہاں ذکر اللہ سے مراد خطبہ ہے یہ بات حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے ارشاد فرمائی ہےاور وہ جمہور حضرات کے ہاں جمعہ کے انعقاد کے لیے شرط ہے اور امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ مستحب ہے اور ظاہر یہی ہے کہ وہ ایسے ذکر اللہ سے جس کو ذکر کہا جاسکے کافی ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر خطیب نے الحمدللہ یا سبحان اللہ کہا اور اسی پر اکتفاء کیا تو جائز ہے۔
نوٹ : جائز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کی شرط پوری ہوگئی اور نماز جمعہ ادا کرنا جائز ہوگیا ہے اگر چہ دوسرے مسنون اعمال کے چھوڑنے کی وجہ ان کی برکات اور ثواب سے محروم ہوگا۔
16: تفسیر ابو السعود میں لکھا ہے:
فاسعوا الی ذکر اللہ ای امشوا او اقصدوا الی الخطبۃ والصلاۃ .
)تفسیر ابو السعود ج8 ص249(
آیت میں اللہ کے ذکر کی طرف فورا چلے آنے سے مراد یہ ہے کہ چلو اور خطبہ اور نماز کا ارادہ کرو۔
17: علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
والمراد بذکر اللہ الخطبۃ والصلاۃ۔
)روح المعانی ج14 ص296(
اللہ کے ذکر سے مراد خطبہ اور نماز ہے۔
18: علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
(ذلک خیر لکم ان کنتم تعلمون) ای ترککم البیع واقبالکم الی ذکر اللہ والی الصلوٰۃ خیر لکم ای فی الدنیا والآخرۃ ان کنتم تعلمون۔
)تفسیر ابن کثیر ج8ص122(
اس کا ترجمہ غیر مقلد محمد جونا گڑھی صاحب نے یوں کہا ہے:
خرید و فروخت کو چھوڑ کر ذکر اللہ اور نماز کی طرف تمہارا آنا ہی تمہارے حق میں دین دنیا کی بہتری کا باعث ہے اگر تم میں علم ہو۔
) تفسیر ابن کثیر مترجم ج5ص356 ناشر مکتبہ قدوسیہ لاہور (
19: تفسیر القرانی میں لکھا ہے:
ومن ذکر اللہ فی صلوٰۃ الجمعۃ الخطبۃ۔
)التفسیر القرانی للقرانی ج14 ص952(
یعنی اس سے مراد وہ ذکر اللہ ہے جو کہ نماز اور خطبہ جمعہ میں ہوتا ہے۔
20: علامہ محمد الطاہر بن محمد التونسی المتوفیٰ 1393ھ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وفی حدیث الموطا فذا خرج الامام حضرت الملائکۃ یستمعون الذکر ولا شک ان الامام اذا خرج ابتداء الخطبۃ فکانت الخطبۃ من الذکر وفی ذلک تفسیرای اللفظ الذکر فی ھذہ الایۃ۔
)تفسیر التحریر والتنویر ج28 ص225، 226(
موطا کی حدیث میں آیا ہے کہ جب امام خطبہ کے لیے نکلتا ہے تو فرشتے ذکر کو حاضر ہوکر غور سے سنتے ہیں اور کوئی شک نہیں کہ امام جب نکلتا ہے تو خطبہ سے ابتداء کرتا ہے لہذا خطبہ بھی ذکر ہوا اور اس حدیث اور اس آیت میں مذکور لفظ ذکر کی تفسیر ہے۔
21: علامہ الطنطاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
والمراد بذکر اللہ الخطبۃ والصلاۃ جمیعا لاشتمالہما علیہ۔
)التفسیر الوسیط للطنطاوی ج14 ص388(
ذکر اللہ سے مراد خطبہ اور نماز دونوں ہیں اس لیے کہ یہ دونوں ذکر اللہ کو شامل ہوتے ہیں۔
22: علامہ محمد بن عمر نووی الجاوی الشافعی المتوفیٰ1316ھ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فاسعوا الی ذکر اللہ ای اذا نودی لوقت الصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاذہبوا الی الخطبۃ والصلاۃ .
) مراح لبید لکشف معنی القران المجید ج2ص527(
یعنی جب تم کو جمعہ کے دن نماز کے وقت پکارا جائے تو خطبہ اور نماز کی طرف چلے جاؤ۔
23: تفسیر غریب القرآن میں لکھا ہے
: فاسعوا الی ذکر اللہ فامضوا الی ذکر اللہ وصلاۃ وسماع الخطبۃ
۔
)تفسیر غریب القران للکواری ج62 ص9(
فاسعواالیٰ ذکر اللہ یعنی آؤ اللہ کے ذکر۔ نماز اور خطبہ کے سننے کی طرف۔
24: سعودی علماء کی کمیٹی نے ایک تفسیر؛ التفسیر المسیر کے نام سے تالیف کی ہے اس میں لکھا ہے:
یا ایھا الذین صدقوا اللہ ورسولہ وعملوا بشرعہ اذا نادی الموذن للصلاۃ فی یوم الجمعۃ فامضوا الی سماع الخطبۃ واداء الصلوٰۃ .
)التفسیر المسیر ج1ص554 ناشر وزارۃ الشئون الاسلامیہ والاوقاف والدعوۃ والارشاد (
اے وہ لوگو! جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق کی ہے اور ان کی شریعت پر عمل کیا ہے جب موذن جمعہ کی نماز اذان دے تو خطبہ کے سننے کے لیے اور نماز کو ادا کرنے کے لیے چلے آؤ۔
25: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
(یا ایھا الذین امنوا) بمحمد علیہ الصلوٰۃ والسلام والقران (اذا نودی للصلوٰۃ) اذا دعیتم الی الصلوٰۃ بالاذان (من یوم الجمعۃ فاسعوا) فامضوا (الی ذکر اللہ) الی خطبۃ الامام والصلاۃ معہ (وذروا البیع) اترکوا البیع بعد الاذان (ذالکم) الاستماع الی خطبۃ الامام والصلاۃ (خیر لکم) من الکسب والتجارۃ (ان کنتم) اذ کنتم (تعلمون) تصدقون بثواب اللہ .
) تنویر المقباس من تفسیر ابن العباس ص554(
اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اور قرآن پر جب تمہیں بلایا جائے نماز کی طرف اذان کے ذریعے جمعہ کے دن تو چلے آؤ اللہ کے ذکر یعنی امام کے خطبے اور اس کے ساتھ نماز کی طرف اور اذان کے بعد خرید و فروخت کو چھوڑ دو، یہ خطبہ کو توجہ سے سننا اور نماز بہتر ہے تمہارے لیے کمائی اور تجارت سے جس وقت کہ تم اللہ کے ثواب کو سچا سمجھو۔
مذکورہ تمام عبارات سے معلوم ہوا کہ مذکورہ آیت میں ذکر اللہ سے مراد جمہور مفسرین کے ہاں خطبہ جمعہ ہے اور بعض مفسرین نے اس سے مراد خطبہ جمعہ اور نماز جمعہ دونوں لیے ہیں، تو ثابت ہوا کہ خطبہ جمعہ کی حقیقیت اور اس سے مقصود ذکر اللہ ہے باقی چیزیں جو کہ خطبہ جمعہ میں پائی جاتی ہے وہ سب اس کے تابع ہیں اور خود غیر مقلد علماء سے بھی یہی منقول ہے کہ مذکورہ آیت میں ذکر اللہ سے مراد خطبہ اور نماز ہے، چنانچہ مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
والمراد من ذکر اللہ ھنا صلاۃ الجمعۃ وقیل موعظۃ الامام والاول اولیٰ وقال الجمہورالخطبۃ وبہ استدل ابو حنیفۃ علی ان الخطیب اذا اقتصرعلی الحمد للہ جاز .
) تفسیر فتح البیان فی مقاصد القران ج14ص139(
یہاں ذکر اللہ سے مراد نماز جمعہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امام کا خطبہ ہے اور پہلی بات زیادہ بہتر ہے اور جمہور حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد خطبہ ہے اور اسی سے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ خطیب جب الحمدللہ پر اکتفاء کرے تو جائز ہے۔
غیر مقلد عالم مولوی ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:
پس سنو جمعہ کے روز دوپہر کے وقت جب نماز کے لیے اذان دی جائے یعنی بذریعہ اذان تم کو بلایا جائے تو تم بلا تکلف اور بلا تاخر اللہ کے ذکر خطبہ اور نماز کی طرف چلا کرو اور سودا سلف اور دیگر کاروبار چھوڑ دیا کرو۔ دنیاوی طمع نہ کیا کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم اللہ احکام کی حکمت جانتے ہو۔
)تفسیر ثنائی ج4ص1517 ناشر متکبہ اصحاب الحدیث لاہور (
غیر مقلد عالم کی تصریح سے بھی معلوم ہوا کہ ذکر اللہ سے مراد خطبہ اور نماز دونوں ہیں، جمہور حضرات نے چونکہ اس سے مراد خطبہ لیا ہے اس لیے خطبہ مراد لینا زیادہ راجح ہے، اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ذکر کی تفسیر خطبہ سے خود نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی احادیث میں منقول ہے لہذا خطبہ کو مراد لینا اولیٰ ہے، باقی ساتھ نماز جمعہ کو مراد لینا بھی ہمارے خلاف نہیں، بلکہ یہ اس بات کی تائید ہے کہ جمعہ کا خطبہ غیر عربی میں جائز نہیں جس طرح کہ نماز کے دوران نماز کے الفاظ کا ترجمہ غیر عربی میں جائز نہیں، تفصیل انشاء اللہ آئندہ ذکر کی جائے گی۔
………) جاری ہے(