کم علمی اورجہالت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
کم علمی اورجہالت
………مولانا محب اللہ جان ﷾
دین کی اہم اہم تعلیمات اوراسلامی عقائدونظریات کے علم سے لاعلم ہونا بھی انسان کی فکری گمراہی کاایک اہم ،بنیادی اورتاریخی سبب ہے ،ہمیشہ سے شیطانی قوتوں نے انسانی جہالت سے بھرپور فائدہ اٹھاکر اسے جادہ حق سے ہٹانے کی بھر پور کوششیں کیں،انسان کو جاہل پاکرا سے گمراہ کرنا شیطانی قوتوں کیلئے سب سے آسان ذریعہ ہے بنسبت اس شخص کے گمراہ کرنے کے کہ جس کے پاس شریعت کا علم ہے۔ آج بھی مسلمانوں میں جتنے لوگ فکری گمراہی کا شکارہورہے ہیں ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہیں جو دین کی مکمل تعلیمات اوربعض اہم اہم حقائق سے لاعلم ہیں ،جب انہیں تصویرکاایک ہی رخ دکھایا جاتاہے توکم علمی کی وجہ سے وہ بس اسی پر اکتفاکرتے ہوئے دوسری تمام ترتعلیمات کاانکار کرلیتے ہیں اوریہی کم علمی ان کی فکری گمراہی کاسبب بنکرحق کی دریافت میں عظیم رکاوٹ بن جاتی ہے۔
جس طرح جہالت انسان کی فکری گمراہی کابنیادی اورحقیقی سبب ہے اس طرح تاریخی سبب بھی جسے قرآن مقدس بہت ہی احسن انداز میں بیان فرمایا:قرآن مقدس نے نصاری کے لئے ضالین کا لفظ استعمال کیا کیونکہ گمراہ اس کو کہتے ہیں جسے صحیح را ستہ کا علم نہ ہواورنصاری کی خصلت تھی کہ وہ لاعلمی کی وجہ سے دین کے قوانین اور دینی شخصیات کی قدرومنزلت میں انتہائی غلو کا شکار ہوچکے تھے اسے صاف معلوم ہوتاہے کہ قرآن مقدس نے نصاری کی ضلالت میں جہالت اور لاعلمی ہی کو بنیادی وتاریخی سبب قرار دیاہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان بسااوقات علم کی وجہ سے بھی گمراہ ہوجاتاہے جیسے یہود علم رکھنے کے باوجود گمراہ ہوئے اور اس دور میں بھی اسکی مثالیں ملتی ہیں مگر یہ ہزاروں میں کوئی ایک ہوتاہے مگر انسانوں کی اکثریت کم علمی اورجہالت ہی کی وجہ سے فتنہ انگیزوں کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے۔
ایک اہم نکتہ:
بعض اکابر رحمہم اللہ فرماتے ہیں امت میں جو عالم بگڑے گا اس میں یہود کی مشابہت ہو گی کیونکہ یہود بھی باوجود علم کے گمراہ ہوئے تھے اور جو شخص علم کے باوجود بگڑ گیا وہ غضب خداوندی کا مستحق ٹھہرتا ہے اس لیے یہود کے لیے مغضوب علیہم کا اعلان کیا اورجو عابد( لاعلم) بگڑے گا اس میں نصاریٰ کی مشابہت ہوگی۔
اس وقت اس موضوع پر سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ انسان اکثر لاعملی ہی کی وجہ سے فکری گمراہی کا شکار ہوجاتاہے مگر مشت نمونہ خرورکے طورپر چندمثالیں پیش خدمت ہیں۔
)
احقرکاان فرقوں سے متعلق جتنے بھی افرادسے ملاقات ہوئی سب کا یہی حال ہے ان کو اپنے مزعومہ نظریات کے متعلق دلائل تویاد کرائے جاتے ہیں اوردوسرے رخ کا سرے سے ہی منکر بنادیاجاتاہے۔ اور اس کا اس طریقے سے انکار کرتے ہیں جیسا کہ یہ اسلام کا حصہ ہی نہیں اب اس پر دومثالیں بھی پیش خدمت ہیں :
)2( منکرین فقہ جب کسی کو ’’رفع الیدین ‘‘کی حدیث دکھاتےیا بتلاتے ہیں تو ترک والی حدیث سے انہیں لاعلم رکھاجاتاہے یہی وجہ ہے جب اس کو ترک والی حدیث کے متعلق آگاہ کیا جاتاہے تووہ اس کو حدیث ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے۔
)3( منکرین دم وتعویذکا بھی یہی حال ہے جوصرف ان چنداحادیث پر اکتفاکرتے ہیں جوان کے نظریات کے مطابق ہو گوکہ وہ منسوخ ہوں یاان کا منشاکچھ اور ہو۔ دم ،تعویز،اورشفاء بالقرآن والسنۃ کے متعلق تمام تر احادیث اور روایات سے انہیں مکمل طورپر لاعلم رکھاجاتاہے۔
)4( اسی طرح جن لوگوں کو عقیدہ شفاعت کے صحیح تصور اور جائز صورتوں کا علم نہیں وہ منکرین حدیث کے خود ساختہ دلائل سے متاثر ہو کر اس عقیدے کے منکر ہو جاتے ہیں۔
اب یہی کم علمی ،لاعلمی ان کیلئے فکری گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہے اوراس کم علمی کی وجہ سے وہ ان تمام تر احادیث کا انکار کرلیتے ہیں جن سے دم وتعویذ کے متعلق امور کا پتہ چلتا ہے۔ اوراسی طرح بہت سے مسلمان مسلمہ عقائد ونظریات کے منکر ہو کر ان کی گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس وقت جتنے بھی مسلمان ان ہویٰ پرست فرقوں کے باطل نظریات سے متاثر اور مرعوب ہورہے ہیں ان سب کا یہی حال ہے کہ انہیں تصویرکاایک ہی رخ دکھاکر اپنا ہمنوا بنالیا جاتاہے۔ جبکہ لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے وہ دوسرے رخ کے مکمل منکر اور باطل نظریات کا خوب شکارہوجاتے ہیں اوروہ بہت سی قرآن وسنت کی تعلیمات کے منکر ہونے کے باوجود خودکو ہدایت یافتہ تصورکرتے ہیں اورانہیں اپنی گمراہی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے فکری گمراہی کا شکار ہوجانا ایک فطری حقیقت بھی ہے جسے قرآن مقدس نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے مثلاشیطان نے بھی کہا تھا
:ولاغوینھم اجمعین ،الا عبادک منھم المخلصین۔
میں تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا مگران میں جو مخلص بندے ہیں(وہ گمراہی سے بچے رہیں گے) یعنی بصیرت اور فہم رکھنے والے ،ہدایت اور گمراہی کے اسرار ورموز جاننے والے اورشیطانوں کی چالوں کوسمجھنے والے اس کی گمراہی اوردھوکہ دھی کے جال میں نہیں پھنس سکیں گے۔ قرآن مجید میں اس حقیقت کوبیان کرنے کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ میں بھی یہی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ انسان اکثراپنی کم علمی کی وجہ سے ہی فکری بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے اور جس کے پاس شریعت کاصحیح اور مکمل علم ہوتا ہے شیطانی قوتیں اسے گمراہ کرنے میں اکثر کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں :حدیث مبارک: علم دین جاننے والا نجات پائےگا۔
عن عمررضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ:سیصیب امتی فی آخرالزمان بلاء شدید لا ینجو منہ الارجل عرف دین اللہ وصدق بہ۔
ترجمہ: ”سیدناعمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ میری امت کو اخیرزمانہ میں سخت مصیبت کاسامنا ہوگا اس میں صرف وہ شخص نجات پائے گا جس نے اللہ تعالیٰ کے دین کو ٹھیک ٹھیک پہچانا۔‘‘
فائدہ: یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ دین کے متعلق صحیح معلومات (علم) رکھنے والاہی ان مصائب اور فتنوں سے نجات پاسکے گا اورجس کے پاس ادھوری معلومات ،یاجودین کی معلومات اورعلم سے جاہل ہوگا وہ شخص اپنی لاعلمی کی وجہ سے ان باطل فرقوں کے خود ساختہ دلائل سے اس قدر متاثرہوگا کہ ان کے باطل افکار کو ہی حق سمجھ کر تسلیم کرلے گا اوریوں وہ ان کے فریب کا مکمل شکار ہوکر راہ حق کو کھو بیٹھے گا۔
قرآن وسنت کی ان تعلیمات اوردور حاضر کو سامنے رکھ فکری گمراہی سے بچنے کے لیے کر تین ہی باتیں سمجھ آتی ہیں:
)1( انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دین کی مکمل تعلیمات کا علم حاصل کرے، بالخصوص اسلام کے عقائد ونظریات سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرے تاکہ لاعلمی کی وجہ سے کوئی اسے صحیح عقیدہ ونظریہ سے منحرف نہ کرسکے۔
)2( اگرانسان کے پاس خود علم نہیں تو کم ازکم اہل علم سے تعلق رکھے اگروہ خود جاہل ہے تواہل علم پراعتماد رکھے نہ کہ خود ہی اپنی عقل اورناقص فہم کو اپنا راہنما بنائے اگرانسان نابینا ہو مگر بیناکی صحبت اختیار کرے گا تونقصان سے بچ سکے گا۔
)3( جن فطری ذرائع سے ہم تک دین کا علم پہنچا ہے انہی کو اپنے دین فہمی کیلیے استعمال کیا جائے اوردین فہمی کے حوالے سے انہی پراعتماد کیا جائے مثلاً منبر و محراب،خانقاہ ومدرسہ،علماء وفقہاء نہ کہ دجالی میڈیا کواپنی دین فہمی کا ذریعہ بنایا جائے۔