کیا تعویذپہننا شرک ہے

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

">کیا تعویذپہننا شرک ہے؟

………مولانا محمد اسحاق﷾
ہر انسان کے ذمہ کچھ دنیا کی ذمہ داریاں ہیں اور کچھ آخرت کی اس لیے ہم جو کام موت سے پہلے کی زندگی کیلیے کرتے ہیں ان کاموں کو دنیا کے کام کہا جاتا ہے اور جو کام موت کے بعد آخرت کی زندگی کیلیے کرتے ہیں ان کو دین کا کام کہا جاتا ہے۔
مثلاً ہم ارکان اسلام پر عمل کرتے ہیں تاکہ آخرت کا گھر آباد ہو جائے اس لیے ان کو دین کا کام اور ان کے احکام کو دینی احکام کہا جاتا ہے۔ دینی احکام کا مآخذ قرآن و سنت اجماع و قیاس ہیں۔ ہم روز مرہ کے جتنے دنیاوی کام کرتے ہیں مثلاً کھیتی باڑی ، تجارت ، سیر وسیاحت ، کھیل کود وغیرہ تو صحت و تندرستی سے کرتے ہیں یا کبھی ہمیں بیماری بھی گھیر لیتی ہے اس کے لیے ہم دوائی لیتے ہیں یا دم تعویذ وغیرہ کراتے ہیں ان سب امور کا نفع یا نقصان موت سے پہلے والی زندگی کے لیے ہے۔ اور یہ سب دنیاوی کام ہیں دوائی ، دم اور تعویذ وغیرہ طریق علاج ہیں۔ جس طرح بخار کی دوا کے لیے اس کا نسخہ ، وزن ، ترکیب استعمال اور پرہیز کا دلائل اربعہ میں مکمل تفصیلات کا مذکور ہونا ضروری نہیں اس طرح بخار کے دم اور تعویذ کا بھی قرآن پاک میں مذکور ہونا ضروری نہیں۔ جس طرح بعض بیماریوں کی دواؤں کا ذکر بعض احادیث میں ہے لیکن بہت ساری دواؤں کا ذکر احادیث میں نہیں ملتا اس طرح بعض دم و تعویذ احادیث میں مذکور ہیں بعض مذکور نہیں۔
باقی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی شخص اس نیت اور غرض کے لیے تعویذ نہیں پہن لیتا کہ پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزر جائے۔ نہ اس لیے تعویذ پہنتا ہے کہ منکر نکیر کے سوالات کا جواب آسان ہو جائے اور نہ ہی دوزخ سے بچنے کا تعویذ مانگتا ہے۔ جب دوا اور دم دنیوی طریقہ علاج ہیں تو دنیاوی امور کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تابیر نخل کے قصہ کے ضمن میں یہ قاعدہ ارشاد فرمایا ہے کہ
انتم اعلم بامر دنیاکم۔
) صحیح مسلم ج 1 ص 264(
کہ تم لوگ اپنے دنیاوی امور کو اپنے تجربات کی بنیاد پر بہتر سمجھتے ہو۔
اس حدیث مبارک میں ثابت ہو گیا کہ دنیاوی امور کی مکمل تفصیلات کا ادلہ اربعہ میں مذکور ہونا ضروری نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کتاب وسنت کی صحیح تفسیر و تشریح اسلاف اور خدائی انعام یافتہ طبقات کامتوارث عمل ہے ہر وہ تفسیر و تشریح جو اللہ تعالی کے انعام یافتہ بندوں کی تشریح و عمل کے خلاف ہو وہ قابل تردید ہے۔
دم اور تعویذ وغیرہ کا جواز قرآن و سنت سے ثابت ہے۔
1: قرآن پاک میں ہے
و ننزل من القرآن ما ھوشفاء ورحمۃللمومنین۔
)سورۃ بنی اسرائیل (
اور ہم نے قرآن نازل کیا جو کہ مومنین کے لیے سراپا شفا اور رحمت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہترین دوا قرآن ہے۔
) سنن ابن ماجہ (
دم کرنا اورتعویذات لکھ کر استعمال کرانا امت کے تواتر سے ثابت ہے
1: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تعویذات لکھا کرتے تھے۔
)مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 75 ابوداود ج 2 ص 543(
2: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بچے کی پیدائش کے لیے دو آیات قرآنی لکھ کر دیتے تھے کہ ان کو دھو کر مریضہ کو پلا دو
)مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60(
بلکہ طبرانی شریف میں اس حدیث کے بعض الفاظ یوں بھی ملتے ہیں کہ کچھ پانی اس کے پیٹ اور منہ پر چھڑک دو۔
3: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اس کی قائل تھیں کہ پانی میں تعویذ ڈال کر وہ پانی مریض پر چھڑکا جائے۔
) مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص60 (
4: حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ قرآنی آیات کو لکھ کر ڈرنے والے مریض کو پلائی جائیں۔
) مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 74(
5: حضرت سعید بن مسیب کے ہاں چمڑے میں مڑھ کر تعویذ پہننا جائز ہے۔
) مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 74(
6: حجاج بن اسود کہتے ہیں میں نے مکہ مکرمہ کے مفتی حضرت عطاء سے اس بارے میں پوچھا تو وہ فرمانے لگے ہم نے تو نہیں سنا کہ کوئی اس کام کو مکروہ کہتا ہو۔ ہاں تمہارے بعض عراقی مکروہ کہتے ہیں۔
) مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60(
7: امام باقر رحمہ اللہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ قران کریم کی آیات چمڑے پر لکھ کر لٹکایا جائے۔
) مصنف ابن ابی شیبہ ج 12 ص 74(
8: خود غیر مقلد علماء میں سے محترم داؤد غزنوی، سید ابو بکر غزنوی ، نواب صدیق حسن خان ، مفتی ابوالبرکات احمد ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، عبدالرحمان مبارکپوری، حکیم صادق سیالکوٹی، ، میاں نذیر حسین دہلوی سمیت غزنوی ، لکھوی ، گیلانی ، قلعوی اور روپڑی خاندان کے نامی گرامی حضرات تعویزات و عملیات کے نہ صرف جواز کے قائل تھے بلکہ خود بھی بڑے عامل تھے۔ چنانچہ سید نذیر حسین دہلوی سے سوال ہوا کہ گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب میں فرماتے ہیں:تعویذ نوشتہ در گلو انداختن مضائقہ ندارد۔ مگر اشہر و اصح جواز است۔
) فتاویٰ نذیریہ ج3 ص 298(
لکھے ہوئے تعویذ کو گلے میں لٹکانا درست ہے کوئی حرج کی بات نہیں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ جائز ہے۔
اس فتویٰ کی تائید غیر مقلدین کے محدث مولانا عبدالرحمان مبارکپوی لکھتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بالغ لڑکوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے کلمات یاد کراتے تھے اور نابالغ لڑکوں کے لیے ان کلمات کو ایک کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔ )ابوداود ترمذی(مزید لکھتے ہیں کہ شراح حدیث اس روایت کے تحت لکھتے ہیں کہ جس تعویذ میں اللہ کا نام لکھا ہوا ہو یا قرآن کی کوئی آیت یا کوئی دعا ماثورہ لکھی ہوئی ہو ایسے تعویذ کا کا بالغ لڑکوں کے گلے میں لٹکانا درست ہے۔
) فتاویٰ نذیریہ ج 3 ص 299(
تمیمہ والی حدیث کا صحیح مطلب:
منکرین تعویذ غیر مقلدین جو حدیث پیش کرتے ہیں اس میں تمیمہ سے منع کیا گیا ہے یہ زمانہ جاہلیت میں دعا اور دوا کے علاوہ نقصان سے بچنے کا ایک مزعومہ طریقہ تھا۔ تمیمہ در حقیقت ایک منکا ہوتا تھا جس کو مریض کے گلے میں لٹکایا جاتا تھا اور وہ لوگ تمیمہ کو نقصان سے بچنے کے لیے مستقل موثر بالذات اور علت تامہ قرار دیتے تھے۔ جو کہ شرک کے ضمن میں آتا ہے اس لیے اسلام نے اس سے منع کر دیا۔ تعویذات کو تمیمہ قرار دے کر تمیمہ کا حکم لگانا درست نہیں۔ یہ حدیث پاک کی ایسی غلط تشریح ہے جو مزاج نبوت اور اسلاف کی تعبیرات سے میل نہیں کھاتی۔ اس لیے اس تشریح کا سرے سے کوئی اعتبار ہی نہیں۔
معلوم ہوا کہ دم ، جھاڑ ، تعویذ کو شرک کہنا کم علمی اور جہالت ہے۔