عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط نمبر 3:
……الشیخ محمد نواز الحذیفی ﷾
عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ
احادیث مبارکہ سے خطبہ جمعہ کے ذکر ہونے کا ثبوت:
حدیث چونکہ قرآن کریم کی تفسیر ہے اس لیے اس موقع پر احادیث مبارکہ سے استفادہ بھی مذکورہ مسئلہ کو سمجھنے میں نہایت مفید ثابت ہوگا، کیونکہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خطبہ جمعہ پر ذکر کا اطلاق فرمایاہے۔ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
حدیث نمبر1:
عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:إذا كان يوم الجمعة وقفت الملائكة على باب المسجد يكتبون الأول فالأول ومثل المهجركمثل الذي يهدي بدنة ً ثم كالذي يهدي بقرة ثم كبشاً ثم دجاجة ثم بيضة وإذا خرج الإمام طووا صحفهم يستمعون الذكر۔
)بخاری شریف ج1ص127 قدیمی کتب خانہ کراچی باب الاستماع الی الخطبۃ (
حدیث مذکور کا ترجمہ غیر مقلد عالم مولوی وحید الزمان سے ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ لکھتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے کیا کرتے ہیں (جامع) مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر (نمازیوں کے نام) لکھتے ہیں، جو پہلے آتا ہے اس کو پہلے جو بعد آتا ہے اس کو بعد اور جو کوئی سویرے جاتا ہے اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو اونٹ قربانی کرے پھر ایسے کی جو گائے قربانی کرے پھر ایسے شخص کی جو مینڈھا پھر ایسے کی جو مرغی پھر ایسے کی جو انڈا پھر جب امام (خطبہ کے لیے) نکلتا ہے تو وہ اپنی بہیاں لپیٹ لیتے ہیں اور خطبہ کان لگا کر سکتے ہیں۔
پھر اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کے اس حدیث کو لانے کی غرض بیان کرتے ہوئے وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں: امام بخاری نے اس سے یہ نکالا ہے کہ نمازیوں کو بھی خطبہ کان لگا کر سننا چاہیے، کیوں کہ فرشتے بھی کان لگاکر سنتے ہیں۔
)تیسیر الباری شرح صحیح بخاری ج1ص569 ناشر امجد اکیڈمی لاہور (
معلوم ہوا کہ حدیث مذکور میں الذکر سے مراد خطبہ جمعہ ہے، اسی وجہ سے اس کو خاموشی سے سننا واجب ہے۔
حدیث نمبر2:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتْ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ۔
)صحیح بخاری ج1ص121 باب فضل الجمعۃ (
غیر مقلد عالم مولوی عبدالستار حماد نے اس حدیث کا یوں ترجمہ کیا ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح اہتمام سے غسل کرے، پھر نماز کے لیے جائے تو ایسا ہے جیسا کہ ایک اونٹ صدقہ کیا، جو دوسری گھڑی میں جائے تو اس نے گویا گائے کی قربانی دی، جو تیسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے سینگ دار مینڈھا صدقہ کیا، جو چوتھی گھڑی میں چلے تو اس نے گویا ایک مرغی صدقہ دی، اور جو پانچویں گھڑی میں جائے تو اس نے گویا ایک انڈہ اللہ کی راہ میں صدقہ کیا۔ پھر جب امام خطبہ پڑھنے کیلیےجاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے کے لیے مسجد میں حاضر ہوجاتے ہیں۔
موصوف فوائد کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: جمعہ کے دن جلدی آنے کی فضیلت عام لوگوں کے لیے ہے۔ امام کو چاہیے کہ وہ خطبہ کے وقت مسجد میں آئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا عمل تھا۔
)عون الباری ج2ص15بحوالہ مختصر صحیح بخاری مترجم ج 1 ص329 (
ثابت ہوا کہ غیر مقلد علماء بھی اس حدیث میں ذکر سے مراد خطبہ لیتے ہیں۔
حدیث نمبر3:
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ نَبِىَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ احْضُرُوا الذِّكْرَ وَادْنُوا مِنَ الإِمَامِ فَإِنَّ الرَّجُلَ لاَ يَزَالُ يَتَبَاعَدُ حَتَّى يُؤَخَّرَ فِى الْجَنَّةِ وَإِنْ دَخَلَهَا.
)سنن ابی داؤد ج1ص165 ناشر مکتبہ رحمانیہ لاہور (
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خطبہ کے وقت حاضر ہوا کرو اور امام سے قریب ہو کر بیٹھا کرو اس لیے کہ آدمی کے مسلسل دور رہنے سے وہ جنت میں پیچھے رہ جاتا ہے اگر چہ آخر کار اس میں داخل ہوگا۔
نیز یہ روایت سنن کبریٰ بیہقی میں بھی موجود ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس پر یوں باب قائم کیا ہے:” باب الدنو من الامام عند الخطبۃ “خطبہ کے وقت امام کے قریب بیٹھنے کا باب۔
)سنن کبریٰ للبیہقی ج3ص238 ناشر ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان (
اس کے علاوہ خطبہ سننے کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی کہ خطبہ جمعہ کے وقت مقتدی حضرات اپنے چہروں کا رخ امام کی طرف پھیرلیں، امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کی وضاحت میں جو روایات ذکر کی ہیں ان کے شروع میں یہ باب قائم کیا ہے:
باب یحول الناس وجوہہم الی الامام ویسمعون الذکر۔
)سنن کبریٰ للبیہقی ج3ص198(
ثابت ہوا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی ذکر سے مراد خطبہ جمعہ لیتے ہیں۔
حدیث نمبر4:
ثنا أنس بن مالك : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يقوم يوم الجمعة فيسند ظهره إلى جذع منصوب في المسجد فيخطب فجاء رومي فقال : ألا نصنع لك شيئا تقعد و كأنك قائم ؟ فصنع له منبرا له درجتان و يقعد على الثالثة فلما قعد نبي الله صلى الله عليه و سلم على المنبر خار الجذع خوار الثور حتى ارتج المسجد بخواره حزنا على رسول الله صلى الله عليه و سلم فنزل رسول الله صلى الله عليه و سلم من المنبر فالتزمه و هو يخور فلما التزمه رسول الله صلى الله عليه و سلم سكت ثم قال : و الذي نفسي بيده لو لم التزمه ما زال هكذا حتى تقوم الساعة حزنا على رسول الله صلى الله عليه و سلم فأمر به رسول الله صلى الله عليه و سلم فدفن يعني الجذع . و في خبر جابر فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن هذا بكى لما فقد من الذكر
. )صحیح ابن خزیمہ مترجم ج3ص281، 282 (
غیر مقلد عالم مولوی محمد ادریس سلفی صاحب اس حدیث کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ حدیث روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن (خطبہ کے لیے) کھڑے ہوتے تو مسجد میں نصب شدہ (درخت کے) تنے سے ٹیک لگالیتے اور پھر خطبہ ارشاد فرماتے تھے، چنانچہ ایک رومی شخص آیا اور کہنے لگا کیا ہم آپ کے لیے ایسی چیز نہ بنادیں جس پر آپ بیٹھ سکیں اور کھڑے ہو سکیں (اس طرح بیٹھ سکیں گویا کہ آپ لوگوں کو کھڑے نظر آئیں) پس اس شخص نے آپ کے لیے منبر بنادیا جس کی دو سیڑھیاں تھیں اور تیسری سیڑھی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوتے تھے، سو جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے تو تنے نے بیل کی طرح آواز نکالنا شروع کردی یہاں تک کہ مسجد میں اس کے رونے کی آواز سے گونج پیدا ہوگئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کی وجہ سے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر کر اس کے پاس تشریف لائے اور اسے چمٹا لیا وہ برابر رورہا تھا، اور آواز نکال رہا تھا، پس جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے چمٹ گئے تو وہ خاموش ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا اس ذات پاک کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں اس تنے سے نہ چمٹتا تو قیامت تک یہ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق میں روتا رہتا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے کر اس تنے کو دفن کروادیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں اس طرح ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تنا ذکر الہی کے مفقود ہوجانے کی وجہ سے رویا اور یہی وجہ اس کے مغموم ہونے کا باعث بنی۔ غور فرمائیں! نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے وقت درخت کے تنے سے ٹیک لگاتے تھے، اس وقت درخت کا تنا بھی خطبہ جمعہ میں موجود ذکر سے تسکین پاتا تھا لیکن جب منبر کے بننے کے بعد نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا تو درخت کا تنا خطبہ جمعہ میں موجود ذکر سے محروم ہوگیا اس پر اس نے رونا شروع کیا۔ یہ بھی دلیل ہے اس بات کی کہ خطبہ جمعہ کی حقیقت ذکر اللہ ہے۔ اور بخاری شریف میں یہ الفاظ مروی ہیں:
بکت علی ماکانت تسمع من الذکر۔
)صحیح بخاری باب النجار (
تنے کے رونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ پہلے ذکر سنا کرتا تھا، بہرحال ثابت ہوا کہ خطبہ جمعہ کی حقیقت اور اس سے مقصود ذکر اللہ ہے۔ ………) جاری ہے(