احکامِ عقیقہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
قسط نمبر 2:
………مفتی محمد یوسف ﷾
احکامِ عقیقہ
عقیقہ کی حیثیت :
عقیقہ کرنا ایک مستحب عمل ہے اسے فرض ، واجب سمجھنا اور ضروری خیال کرنا درست نہیں۔
محدث کبیر علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وانما اخذ اصحابنا الحنفیۃ فی ذالک بقول الجمہور وقالوا باستحباب العقیقۃ۔
)اعلاء السنن ج 17 ص 114 باب العقیقہ (
ترجمہ : عقیقہ کے بارے میں ہمارے علماء احناف رحمہم اللہ نے جمہور حضرات کے موقف کو اختیار کیا ہے اور جمہور عقیقہ کے مستحب ہونے کے قائل ہیں۔
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ بھی عقیقہ کے مستحب ہونے کےقائل ہیں۔
)فیض الباری شرح صحیح بخاری ج 4 ص 337 کتاب العقیقہ (
عقیقہ کرنے کا صحیح طریقہ:
پیدائش کے ساتویں دن بچے کا نام رکھا جائے سر منڈایا جائے بالوں کے ہم وزن سونا یا چاندی صدقہ کیا جائے ، اور اس کے ساتھ ساتھ عقیقہ کا جانور ذبح کیا جائے۔ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہو سکے تو چودھویں دن ورنہ اکیسویں دن کیا جائے۔ اس کے بعد بھی اگر کرنا ہو تو تب بھی پیدائش سے ساتویں دن کی رعایت کر لی جائے۔ مثلاً سات ہفتے ، سات مہینے ، یا سات سال کا حساب لگایا جائے تاہم اتنا ضرور یاد رہے کہ سات والے عدد کی رعایت رکھنا بہتر ہے ، لازمی نہیں۔
عقیقہ کے چند مسائل :
1: جن جانوروں کی قربانی جائز ہے ان کا عقیقہ کرنا بھی جائز ہے۔ جیسے بکرا ، بکری ، بھیڑ ، دنبہ، گائے ، بھینس اور اونٹ وغیرہ۔
کچھ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ بڑے جانوروں سے عقیقہ کرنا صحیح نہیں ان کا یہ کہنا ہرگز قابل عمل نہیں مذہب حنفی سمیت باقی تینوں مذاہب )مذہب مالکی ، مذہب شافعی اور مذہب حنبلی (میں بھی اس بات پر متفق ہیں کہ چھوٹے جانوروں کی طرح بڑ ے جانوروں کا عقیقہ کرنا جائز ہے۔
فقہ حنفی :
محدث کبیر علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وفی قولہ من لہ غلام فلیعق عنہ من الابل او البقر او الغنم۔ دلیل علی جواز العقیقۃ ببقرۃ کاملۃ او ببدنۃ کذلک۔
) اعلاء السنن ج 17 ص 117(
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جس آدمی کا لڑکا پیدا ہو تو وہ اونٹ یا گائے یا بکری سے اس کا عقیقہ کرے یہ ارشاد مبارک ایک پوری گائے یا ایک پورا اونٹ سے عقیقہ کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔
فقہ مالکی :
شرح مختصر الخلیل میں ہے :
قال ابن رشد۔۔۔۔ ان البقر تجزئ ایضا فی ذالک وھو الاظہر قیاسا علی الضحایا۔
) مواہب الخلیل ج 3 ص 255 (
ترجمہ : علامہ ابن رشد فرماتے ہیں کہ عقیقے میں گائے بھی کفایت کرتی ہے اور یہی بات ظاہر تر ہے ، قربانیوں پر قیاس کرتے ہوئے۔
فقہ شافعی :
امام نووی رحمہ اللہ المجموع شرح المہذب میں فرماتے ہیں :
المجزئ فی العقیقۃ ھو المجزئ فی الاضحیۃ فلاتجزئ دون الجذعۃ من الضان او الثنیۃ من المعز والابل والبقر ھذا ھوالصحیح المشہور۔
ترجمہ : عقیقے میں بھی وہی جانور کفایت کرے گا جو قربانی میں کفایت کرتا ہے اس لیے جذعہ سے کم عمر کا دنبہ اور ثنی )دوندا(سے کم عمر کی بکری اونٹ اور گائے جائز نہیں۔ یہی صحیح اور مشہور روایت ہے اور جمہور نے اس کو قطعیت کے ساتھ لیا ہے۔
فقہ حنبلی:
الروض المربع میں ہے :
وحکمھا فیھا یجزی و یستحب و یکرہ کالاضحیۃ الا انہ لا یجزئ فیھا شرک فی دم ، فلا تجزئ بدنۃ ولا بقرۃ الا کاملۃ۔
)الروض المربع بحوالہ اوجز المسالک ج 9 ص 265(
ترجمہ : عقیقے میں کون کون سے جانور جائز ہیں ؟ اور کیا کیا امور مستحب ہیں ؟ اور کیا کیا چیزیں مکروہ ہیں ؟ ان تمام امور میں عقیقے کا حکم قربانی کی طرح ہے البتہ اس عقیقے کے جانور میں شراکت جائز نہیں اس لیے اگر عقیقے میں بڑا جانور ذبح کیا جائے تو پورا جانور ایک ہی )بچہ (کی طرف سے ذبح کرنا ہوگا۔
ملحوظہ: مذکورہ بالا فقہی حوالہ جات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ چاروں مذاہب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بھیڑ ، بکری کی طرح اونٹ اور گائے وغیرہ سے عقیقہ کرنا بھی جائز ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اکثر احکام میں عقیقہ اور قربانی کا حکم ایک جیسا ہے۔
2: جس طرح بڑے جانور میں قربانی کے سات حصے ہو سکتے ہیں اسی طرح بڑے جانور میں عقیقے کے بھی سات حصے ہو سکتے ہیں۔
3: قربانی کے جانور میں عقیقے کا حصہ رکھنا جائز ہے۔
4: لڑکی اور لڑکے کے عقیقے میں جانور کے نر اور مادہ ہونے کا فرق نہیں ہے لڑکے کے عقیقے میں بکری اور لڑکی کے عقیقے میں بکرا ذبح کیا جا سکتا ہے مگر فرق یہ ہے کہ لڑکے کیلیےدو بکرے افضل ہیں اور لڑکی کیلیے ایک۔ نیز اگر لڑکے کے عقیقہ کے لیے دوبکریوں کی وسعت نہ ہو تو ایک بکرے سے بھی عقیقہ کرنا درست اور جائز ہے۔
5: عقیقہ کی ادائیگی کے لیے جانور کو ذبح کرنا شرط ہے لہٰذابازار سے گوشت خرید کر رشتہ داروں یا دوست احباب کی دعوت طعام کر دینے سے عقیقہ شمار نہ ہو گا۔
6: ایک بڑا جانور خرید کر اس میں چند حصے عقیقہ اور باقی بعض حصے ولیمہ کی نیت سے رکھے جائیں تو شرعاً یہ درست ہے۔
7: عقیقہ کا گوشت ایک تہائی مساکین کو تقسیم کردینا افضل ہے باقی دو تہائی اقرباء و احباب کی ضیافت میں استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم اگر تمام گوشت بھی ضیافت میں استعمال کر دیا جائے تو عقیقہ ہو جائے گا اگرچہ ایسا کرنا بہتر و افضل نہیں ہے۔
8: اگرکوئی اپنے دعوت ولیمہ میں عقیقہ کا گوشت استعمال کرے تو شرعاً اس کی گنجائش موجود ہے مگر ہمارے معاشرے میں اکثر دستور یہ ہے کہ دعوت ولیمہ کے بعد نیوتہ دیا جاتا ہے جو کہ کھانے کا عوض اور بدلہ ہونے کے مشابہ ہے اس وجہ سے دعوت ولیمہ میں عقیقہ کا گوشت استعمال کرنے سے بچنا چاہیے کیونکہ مسنون یہ ہے کہ عقیقہ کا گوشت بغیر کسی عوض کے مفت میں کھلایا جائے۔ تاہم شادی کی ایسی تقریب جس میں نیوتہ وغیرہ لینے کا رواج نہ ہو اس میں عقیقہ کا گوشت کھلانے میں مضائقہ نہیں۔
9 : جس جانور کی قربانی جائز نہیں اس کا عقیقہ جائز نہیں جس کی قربانی درست ہے اس کا عقیقہ بھی درست ہے۔
10: عقیقہ کا گوشت خواہ کچا تقسیم کیا جائے ، پکا کر بانٹا جائے یا دعوت کر کے کھلایا جائے ، سب درست ہے۔
چند غلط فہمیاں:
1: عوام میں مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت بچے کے ماں باپ نہیں کھا سکتے یہ غلط بات ہے۔
2: عوام میں مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت بچے کے دادا دادی نہیں کھاسکتے۔ یہ غلط بات ہے۔
3: عوام میں مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت بچے کے نانا نانی نہیں کھاسکتے۔ یہ غلط بات ہے۔
4 : یہ جو رواج ہے کہ جس وقت بچہ کے سر پر استرا رکھا جائے اور حجام سر مونڈنا شروع کرے فوراً اسی وقت بکری ذبح ہو یہ محض فضول رسم ہے شریعت میں سب جائز ہے خواہ پہلے سر مونڈے پھر ذبح کرے یا پہلے ذبح کرے پھر سر مونڈے۔ یا کچھ وقت اور دنوں کے وقفے کے ساتھ عقیقہ کرے۔ عین سر مونڈنے کے وقت عقیقے کے جانور کو ذبح کرنا اور اس بات کو ضروری خیال کرنا درست نہیں۔
5 : جو جانورعقیقہ میں ذبح کیا جائے گوشت بناتے وقت اس کی ہڈیاں توڑی جا سکتی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہڈیاں توڑنا منع ہے۔ ان کی یہ بات بے اصل ہے
نوٹ: چند مسائل لکھ دیے ہیں اگر ان کے علاوہ کوئی مسئلہ پیش آئے تو مقامی علماء اور دارالافتاء سے رابطہ کریں۔