حقانیتِ کلام اللہ

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حقانیتِ کلام اللہ
……مولانا شفیق الرحمٰن گلگتی﷾
اللہ تعالیٰ نے چار بڑی آسمانی کتابیں اور متعدد صحائف وقت کے نبیوں پر نازل فرما ئے اور جس نبی کے دور میں جو بھی آسما نی کتاب اتاری جاتی وہ کتا ب اسی وقت کے نبی کے امتیوں کے ساتھ خا ص ہو تی اور جب دوسر ا نبی آتا تو پہلے وا لی کتا ب کے احکا ما ت پر عمل نہیں کیا جا تا۔ بلکہ اس نئے نبی پر جو کتاب نا زل فرما ئی جا تی اسی پر عمل پیرا ہونا ضروری تھایہ سلسلہ چلتا رہا۔ تورات ، زبور اور انجیل کے بعد ایک ایسی کتاب نازل ہوئی جسے کتاب اللہ کا شرف حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ کلام اللہ ہونے کا بھی اعجاز حاصل تھا ، یعنی قرآن کریم۔
زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ قرآن کریم کے نزول کے وقت سابقہ آسما نی کتابوں میں سے کو ئی کتا ب اپنی اصلی صو رت میں مو جو د نہیں تھی۔ کتب سماویہ کو طمع پرست یہود و نصاریٰ کے مذہبی پیشوائوں نے تحریف کی بھینٹ چڑھاڈالا۔ ان میں درج احکامات خداوندی کو اپنی خواہشات کے مطابق تبدیل کر دیا لیکن قرآن مجید کے نزول کے وقت ہی اللہ ذوالجلال کی طرف سے حفاظتی حصار ساتھ ہی نازل ہوا۔ چنانچہ ارشاد ہوا :انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔سابقہ آسما نی کتا بیں بھی اگرچہ ہماری طرف سے نازل شدہ تھیں لیکن ہم نے ان کی حفاظت کی از خود ذمہ داری نہیں لی تھی۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آخری رسول ہیں ان کی نبوت و رسالت نے قیامت کی صبح تک باقی رہنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہونا۔ ضرورت تھی کہ اس پر نازل ہونے والی کتاب بھی قیامت کی صبح تک باقی رہے۔
سابقہ آسمانی کتب وقت وقت کے نبی کے امتیوں کے ساتھ خا ص تھیں جبکہ قرآن مجید تما م انسانیت کے لیے ہد ایت کا ذریعہ بن کرنازل ہوا ہے یہ ہر زاویے سے کامل، مکمل بلکہ اکمل کتاب ہے۔ شک و ریب سے بالاتر ہے ، تحریف و تبدیلی سے منزہ اور پاک ہے۔ کفار و مشرکین کی سازشوں کی بھینٹ نہیں چڑھ سکتی۔ اس کو مٹانے والے خود صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔ اس کے بے ادب ، گستاخ اور اس کی توہین کرنے والے خدائی قہر کی ہمیشہ لپیٹ میں رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ با ت کہ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جو منکرین کو اپنے ناپاک منصوبوں میں عاجز کر دیتی ہے۔ کفا رِ مکہ نے کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ آپ ﷺ نے خود بنائی ہوئی ہے پھر اللہ نے خود ہی قرآن کا دفاع کر تے ہوئے ان کفارِمکہ کو بتدریج چیلنچ پر چیلنج دیے۔ اگر تم کہتے ہو تو تم بھی اس کی مثال پیش کرو۔
دیگر انبیاء کے معجزات وقتی اور عارضی تھے جبکہ حضور ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآنِ مجید ہے جو قیا مت تک باقی رہے گا۔ جب کفارِ مکہ نے قرآن کی حقا نیت کو مجرو ح کرنے کیلئے کہا کہ اس کی کو ئی حقانیت نہیں یہ اللہ کا کلا م ہو ہی نہیں سکتا یہ تو حضورﷺ نے خود اپنی طرف سے بنائی ہوئی با تیں ہیں تو پھر اللہ تعا لی ٰ نے اعلا ن کر دیا کہ اگر یہ میرا کلا م نہیں کسی بشر کا کلا م ہے یا پہلے آبا ؤاجد اد کے قصے ہیں تو اس جیسا کلام پیش کر کے دکھا ؤ۔
تاریخ شاہد ہے کہ خدائی چیلنج کو صدیاں بیت گئیں آج تک کوئی بھی اس جیسا کلام نہیں لا سکا اور قیامت کی صبح تک قرآن کریم جیسا کلام کوئی نہیں لا سکتا۔ اللہ کریم نے سو رۃ بنی اسرائیل میں چیلنج کیا ہے : اگرتمام جن و انس مل کربھی چاہیں کہ اس جیسا قرآن بنا لائیں تو نہیں لا سکتے۔ اس کے بعد سورۃ توبہ میں اللہ نے اعلا ن فرمایا تم مکمل قر آن کریم نہیں لا سکتے تو تم اس جیسی دس سو رتیں ہی لاؤ۔جب وہ اس سے بھی عاجز آگئے تو اللہ نے اعلا ن کر دیا اگر اس قرآن کے بارے میں ذرا شک بھی ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتا را ہے تو اس جیسی ایک سو ر ۃ بنا لاؤ۔
قرآن کریم کے اعجازی وجوہات تو کافی ہیں ان میں سر فہرست ، عدمِ اختلاف،قوت تاثیر ،تعلیم و ہدایت ، حفظ و بقاء ، قوت دلائل اور فصاحت و بلاغت ہیں۔الغرض مقصود یہ ہے کہ قرآن مجید صرف فصاحت و بلا غت ہی کے لحاظ سے نہیں بلکہ اپنی تمام حیثیتو ں کے لحاظ سے عقلی انسانی کو عاجز کرنے والی مکمل کتاب ہے۔
صحیح مسلم میں ہے:انیس قبیلہ غِفار کے شا عر تھے انہوں نے جب آنحضرت ﷺ کا چرچا سنا تو چھپ کر مکہ آئے اور آپ ﷺ کی زبان ِمبارک سے کلام ِربانی کی کچھ آیتیں سن کر واپس چلے گئے۔ ان کے بھائی نے پوچھا تم نے کیسا پایا؟ انہوں نے جواب دیا کہ قریش کہتے ہیں کہ وہ شاعر ہیں ،کاہن ہیں۔ میں نے کاہنوں کا کلام بھی سنا ہے وہ کلام جومحمد سے سنا ایسا نہیں جو کاہنوں کا ہے یہ کا ہنوں کی بولی نہیں اور شاعروں کی بولی بھی نہیں ہم نے ایک ایک وزن کو دیکھ لیا مگر وہ کلام الہٰی ہی ہے۔
مسند ابی یعلیٰ او ر سیرت ابن اسحاق میں حدیث منقول ہے : حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ابوجہل اورقریش کے دیگرسردار جمع ہو کر مشورہ کرنے لگے کہ محمدجوکلام سنا تے ہیں اس کی حقیقت کو جاننے کیلئے کسی ایسے آدمی کی تلاش کریں جو شعر جانتا ہو۔قریش کے سردار عتبہ بن ربیعہ نے کہامیں جا دو کہانت سب کچھ جا نتاہوں۔ اگر آپ کہیں تو میں خود جا کردیکھوں۔ چنانچہ آستانہ نبویﷺ میں آکرصلح کی کچھ شرائط پیش کیں آنحضرت ﷺنے اس کے جوا ب میں سورہ فصلت پڑھنی شروع کی کچھ ہی آیتیں پڑھی تھیں کہ اس نے آپ ﷺ کے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا کہ قرابت کاواسطہ بس کرو۔ و اپس آئے اور تین دن تک گھر سے باہرنہ آئے۔ ابو جہل نے جا کر کہاکہ اے عتبہ !محمد کے ہاں کھانا کھاکر پھسل گئے ہو۔ عتبہ نے کہا تم جانتے ہو کہ میں سب سے زیادہ دولت مند ہوں مجھ کو دولت کی طمع دامن گیر نہیں ہو سکتی لیکن محمد ﷺ نے میرے جواب میں ایسا کلام پیش کیاوہاں نہ شعر تھا،نہ کہانت تھی ،نہ جادو تھا میں نے ایسا کلا م کبھی نہیں سنا انہوں نے جو کلام پڑھا اس میں عذاب الٰہی کی دھمکی تھی ڈر کی وجہ سے قرابت کا واسطہ دےکر چپ کرایا۔
اسی طرح جب نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے جب سورہ مریم کی تلاوت کی تو اس پر رقت طاری ہو گی اور اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے پھر کہا:اللہ کی قسم! یہ کلام او ر انجیل ایک ہی چراغ کے پر تو ہیں۔
) مسند احمد ج 1 ص202،مستد رک حاکم ج2 ص310(
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کادل ایک سورۃ کی چند آیتیں سن کر موم ہو گیا۔ حضرت جبیر بن مطعم اسیر انِ بدر کو چھڑانے آئے تھے اور آپ ﷺسے سورۃ طور کی چند آیات سن کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔
(صحیح بخاری تحت تفسیر سورہ طور )
حضرت طفیل بن عمر و رضی اللہ عنہ کے کانوں میں اتفاقیہ قرآن کی چند آیات پہنچیں تو مسلما ن ہو گئے۔
(مسنداحمدج1 ص 318)
قرآن کی حقانیت کا ثبو ت اس سے بھی ملتا ہے کہ تقریباً ساڑھے چودہ سو برس گزرگئے کہ کوہ ِصفا ء کی چٹان پر کھڑے ہو کر ایک امی نے دنیا سے یہ غیر متزلزل چیلنج کیا کہ وہ اس کا جو اب پیش کریں مگر صدیاں بیت گئیں اس کا جواب نہیں ملا۔