تذکرۃ المحدثین

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تذکرۃ المحدثین:
…… مفتی شبیر احمد حنفی ﷾
امام سلیمان بن مہران الاعمش ﷫(3)
تنبیہہ:
مذکورہ واقعہ سے جہاں امام اعمش اور امام ابو حنیفہ رحمہما للہ کا باہمی تعلق معلوم ہوتا ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بے شک فنِ حدیث میں امام اعمش کے شاگرد ہیں لیکن فنِ فقہ میں اپنے استاذ گرامی سے فائق نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعمش نے سائل کو آپ کی طرف متوجہ فرمایا۔ عصرِ حاضر میں بعض الناس نے (جن کو امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نامعلوم کیا عداوت ہے کہ ان کی شان تفقہ اور مقبولیت عامہ کو دیکھ کر جل بھن جاتے ہیں اور جہاں سے آپ کی عظمت کا کوئی پہلو نکل رہا ہواسے محو کرنا اور اس میں کیڑے نکالنا اپنا فرضِ منصبی سمجھنے لگتے ہیں) مذکورہ مکالمہ سے احناف (کثر اللہ سوادہم) پر یہ بات تھونپنے کی کوشش کی ہے کہ :
1: احناف اس واقعہ سے امام اعمش کا مرتبہ گراتے ہیں اور انہیں صرف ایک محدث مانتے ہیں اور فقیہ نہیں مانتے۔
2: امام اعمش نے سوال مذکور کا جواب دینے کی جو فرمائش امام صاحب سے کی وہ ان کی صلاحیت کا امتحان لینے کی غرض سے تھی نہ اس لئے کہ آپ غیر فقیہ تھے۔
3: شاگرد استاد سے زیادہ بڑا عالم کیسے ہو سکتا ہے؟
4: اس واقعہ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگ امام اعمش سے مسائل پوچھنے کے لئے آتے تھے۔ اگر آپ غیر فقیہ ہوتے تو لوگوں کا کسی غیر فقیہ سے فقہی مسائل پوچھنے کے لئے آنا کیا معنی رکھتا ہے؟
عرض ہے کہ :
1: احناف امام اعمش کا مرتبہ بالکل نہیں گراتے بلکہ ان کی شان محدثانہ کے نہ صرف قائل بلکہ ان کی عظمت کے گن گاتے ہیں۔
(دیکھیے الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیۃ للقرشی: ص617 وغیرہ)
باقی یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آپ کا اصل میدان فنِ حدیث تھا اور آپ وقت کے مایہ ناز محدث تھے۔ فقہ سے آپ کا شغف تھوڑا بہت رہا تو ہے لیکن شانِ تفقہ، مجتہدانہ صلاحیت، دقائق فقہ سے شناسائی اور استنباطِ مسائل کا جو ملکہ امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل تھا وہ آپ کو حاصل نہ تھا۔ یہ بات واضح رہے کہ ایک شخص ایک فن کا امام ہو اور دوسرے فن میں اسے ایسا درجہ حاصل نہ ہو تو یہ چیز اس کے مرتبہ کے گرنے کی دلیل ہرگز نہیں۔ نامعلوم بعض الناس کو کیا سوجھی کہ اسے قدر و منزلت کے گرنے کی بنیاد ٹھہرانے پر مصر ہیں۔
2: رہی یہ بات کہ سائل کے سوالات کے جوابات خود دینے کے بجائے امام ابوحنیفہ سے کیوں دلوائے اس کی وجہ خود اس واقعہ میں موجود ہے، آپ فرماتے ہیں۔
نَحْنُ الصَّيَادِلَةُ وَأَنْتُمُ الأَطِبَّاءُ
.کہ ہم پنساری ہیں اورتم اطباء ہو۔
مطلب یہ کہ فقہ کے میدان میں آپ کی حیثیت طبیب اور ہماری پنسار کی سی ہے۔ اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا نکلتا ہے کہ آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ پر شانِ فقاہت کا غلبہ ہے اور مجھ پر شانِ تحدیث کا اثر نمایاں ہے۔ تو امام ابوحنیفہ کے فقہی تفوق کااقرار جب اس واقعہ میں خود موجود ہے تو کسی کے کچھ کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟!
3: ایسا ممکن ہے کہ شاگرد کسی فن میں استاذ سے فائق تر ہو بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ بعض مرتبہ شاگرد اسی فن میں استاذ سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے کئی شیوخ حدیث ہیں لیکن جو جلالتِ شان فنِ حدیث میں امام بخاری کو حاصل ہے وہ آپ کے کئی اساتذہ حدیث کو بھی حاصل نہ ہو گی، نیز آپ کی کتاب صحیح البخاری کو جو شہرت ملی ہے وہ خاص آپ ہی کا حصہ ہے۔ مزید یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ شاگرد کا فائق ہونا اور فن کی بلندی کو چھونا یہ استاذ ہی کی شان و شوکت شمار ہوتا ہے۔ نامعلوم بعض الناس اسے استاذ کی کم مرتبی کس طرح گردانتے ہیں۔ لیجیے ہم دو واقعات پیش کرتے ہیں جن سے خوب واضح ہو گا کہ امام اعمش کے ہاں امام ابو حنیفہ کا کیا مرتبہ ہے؟!
واقعہ نمبر1: محمد بن عبید الطنافسی کہتے ہیں کہ امام اعمش ایک بار حج کے ارادے سے نکلے، جب مقام ”حیرہ“ پر پہنچے تو علی بن مسہر سے فرمایا:اذهب إلى ابى حنيفة حتى يكتب لنا المناسك۔ابو حنیفہ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ ہمیں مناسک حج لکھ کر دیں۔
(الانتقاء لابن عبد البر: ص195- و اسنادہ صحیح)
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ اس واقعہ کے تحت رقمطراز ہیں:
و مع ہذا قد اخذ عنہ•
(ص195 حاشیہ)
استاذ ہونے کے باوجود امام اعمش نے امام ابو حنیفہ سے عملی استفادہ کیا ہے۔
واقعہ نمبر2: عبد اللہ بن نمیر کا بیان ہے کہ ایک بار امام اعمش سے کسی نے کوئی مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا:
انما يحسن الجواب فى هذا ومثله النعمان بن ثابت الخزاز اراه بورك له فى علمه•
(الانتقاء: ص196 – واسنادہ جید)
ان جیسے مسائل کا بہترین جواب نعمان بن ثابت خزار جیسے آدمی ہی دے سکتے ہیں، میرا خیال یہی ہے کہ اس کے علم میں برکت ڈالی گئی ہے۔
4: محدث جب مجلسِ حدیث منعقد کرتا ہے تو اس میں سائل کا آ جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس پر اعتراض کا مدار رکھا جائے۔ چونکہ شیخ اور استاذِ حدیث وسط مجلس میں ہوتے تھے اور پوری جماعت میں نمایاں ہوتے تھے تو آنے والے سائل لا محالہ اسی کی طرف ہی رخ کرتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے کے بعد بعض الناس کے اعتراض کا وزن بالکل ہلکا پڑ جاتا ہے۔
ظرافت طبعی:
امام اعمش کو جہاں علم و عمل کی دولت عطا ہوئی تھی وہاں ظرافت طبع کابھی خاص حصہ ملا تھا۔ آپ بلا شبہ اپنے زمانے کے سید المحدثین تھے لیکن اس کے باوجود تکلف و تصنع سے کوسوں دور رہتے تھے خصوصاً اپنے تلامذہ کے ساتھ انتہائی بے تکلف اور دوستانہ تعلق رکھتے تھے۔ ظرافت طبعی کے واقعات آپ کی زندگی کا حصہ رہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے چند ایک پیش خدمت ہیں۔
1: آپ کےشاگرد ابو بکر بن عیاش کا بیان ہے کہ اگر ہم کسی سے حدیث سن کر امام اعمش کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ پوچھتے: کہاں سے آئے ہو؟ ہم اس کا نام لیتے تو فرماتے: ”طبل مخرق“ کہ وہ تو پھٹہ ہوا ڈول ہے، کبھی فرماتے: ”طیر طیار“ وہ تو اڑنے والا پرندہ ہے۔
(سیر اعلام النبلاء: ج5 ص451)
اس طرح کے مزاحیہ جملوں سے محفل کو کشتِ زعفران بنائے رکھتے۔ ان جملوں سےکسی کی تحقیر و تضحیک مقصود نہ ہوتی بلکہ شخص مذکور کے ایک خاص وصف یا خصلت کی طرف اشارہ کرنا مقصد ہوتا۔
2: آپ کے شاگردوں کا بیان ہے: ایک دفعہ ہم طلبہ نے باہمی مشورہ کیا کہ آج استاذ ہمیں کھانےکے لیے جو چیز بھی عنایت فرمائیں اسے ختم کیے بغیر نہیں چھوڑیں گے، پھر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے حسبِ عادت گوشت سے ہماری خاطر مدارت کی۔ ہم سارا گوشت کھا گئے۔ پھر آپ گھر سے ایک بڑے برتن میں ثرید لے آئے، ہم نے اسے بھی کھا لیا۔ پھر چھوٹے سے مشکیزہ میں دودھ لے آئے ہم اسے بھی ختم کر گئے۔ پھر فرمانے لگے: اللہ تعالیٰ ہی تمہارا فیصلہ کرے! (یعنی تمہارا پیٹ خدا ہی بھرے) تم نے آج ایک بوڑھے (یعنی اعمش) اور اس کی بوڑھی (یعنی اعمش کی بیوی) کو رات کی روٹی تک سے محروم کر دیا۔ پھر اعمش گھر گئے، چارہ لائے اور یہ مزاحیہ جملہ بولا:
فهذا قوت شاتی فکلوہ.
یہ بکری کا چارہ ہی رہ گیا ہے، اب اسے بھی کھا لو۔
(سیر اعلام النبلاء: ج5 ص446 و 451)
3: امام اعمش کی اپنے گھر والوں سے کچھ تلخ کلامی ہو گئی جس کے نتیجہ میں اعمش ناراض ہو گئے، کچھ دوستوں نے گھر والوں سے ان کی صلح کروانا چاہی۔ چنانچہ وہ ان کے گھر گئے، اعمش کی بیوی کو مخاطب کر کے کہنے لگے:
اے ام محمد! اللہ تجھ پر رحم کرے، تمہیں ابو محمد کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا چاہیے جو سن رسیدہ محدث ہیں اور:
لا يُزهدنك فيه عمش عينه، ودقة ساقيه، وضعف ركبتيه، ونتن بطنه، وبخر فمه، وجمود كفه!
ان کی کمزور نظر، پتلی پنڈلیوں، ضعیف و ناتواں گھٹنوں، بدبو دار ناک، تلخ لہجہ اور خشک ہتھیلیوں (یعنی فقر کی حالت) پر پریشان نہیں ہونا چاہیے (بلکہ صبر کرنا چاہیے اور دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے)
اعمش نے جب یہ گفتگو سنی تو کہا:
قم، قبحك الله، فقد أريتها من عيوبي ما لم تكن تعرفه.
خدا تجھے غارت کرے! تم نے ان سے میری ان خامیوں کا بھی ذکر کر دیا جو ابھی تک اس کی نظر سے پوشیدہ تھیں۔
(الفقہاء والاعراب: ص75)
4: امام اعمش کے بارے میں جریر کہتے ہیں کہ ہم ایک دن اعمش سے ملنے کے لیے چلے تو ان کو ایک خلیج کے کنارے بیٹھے دیکھا جو بارش کے پانی سے پیدا ہوئی تھی، ہم اس کے دوسرے کنارے پر بیٹھ گئے کہ ایک سیاہ فام شخص آیا، جب اس نے امام اعمش کے خستہ و بوسیدہ لباس کو دیکھا تو ان کو حقیر سمجھ کر ان سے بگار لینے کے لیے کہا: اے غلام اٹھ! مجھے اس خلیج سے پار کر دے اور ان کا ہاتھ کھینچ کر کھڑا کر لیا اور ان پر سوار ہو گیا اور یہ کلمات یعنی سواری کی دعا پڑھنے لگا (جوسواری پر سوار ہونے کے وقت مسنون ہیں)
سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ•
اعمش اس کو لادے ہوئے چل دیے، یہاں تک کہ جب خلیج کے بیچ میں پہنچ گئے تو اسے زمین پر دے مارا اور کہنے لگے: اب پڑھ!رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ•(یہ دعا منزل مقصود پر پہنچ کر پڑھی جاتی ہے) پھر اسے اس گندے کیچڑ میں ہاتھ پاؤں مارتا چھوڑ کر چلے آئے۔
(سیر اعلام النبلاء: ج5 ص447)
عبادت و ریاضت:
امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ (ت198ھ) جب بھی امام اعمش کا ذکر کرتے تو فرماتے:
كان من النساك، وكان محافظا على الصلاة في الجماعة، وعلى الصف الأول•
(حلیۃ الاولیاء: ج5ص58 ، وتاریخ بغداد: ج7 ص119)
کہ امام اعمش عباد گزاروں اور زاہد لوگوں میں سے تھے۔ آپ ہمیشہ جماعت کے ساتھ صف اول میں نماز کا اہتمام کرتے تھے۔
امام وکیع بن الجراح رحمہ اللہ (ت197 ھ) فرماتے ہیں:
كان الأعمش قريبا من سبعين سنة لم تفته التكبيرة الأولى•
(حلیۃ الاولیاء: ج5 ص57)
کہ امام اعمش کی عمر ستر سال کے قریب تھی، اس عمر میں بھی آپ کی تکبیر اولیٰ تک فوت نہیں ہوئی۔
امام عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی رحمہ اللہ (ت211 ھ) فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض اصحاب نے ہمیں بتایا کہ ایک دفعہ امام اعمش رات کو نیند سے اٹھ کر قضائے حاجت کے لئے گئے تو آپ کو پانی میسر نہ ہوا۔ آپ نے اپنے ہاتھ دیوار پر مارے اور تیمم کیاپھر جا کر سو گئے۔ آپ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
أخاف أن أموت على غير وضوء•
(حلیۃ الاولیاء: ج5ص57)
کہ مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں بغیر وضوء کی حالت میں مجھے موت نہ آ جائے۔
امام ابو نعیم الاصبہانی رحمہ اللہ (ت430 ھ) فرماتے ہیں:
سلیمان الاعمش... الإمام المقرئ، الراوي المفتي، كان كثير العمل، قصير الأمل، من ربه راهبا ناسكا، ومع عباده لاعبا ضاحكا •
(حلیہ الاولیاء: ج5 ص54)
کہ سلیمان الاعمش بہت بڑے امام، قاری، راوی اور مفتی تھے۔ آپ بہت زیادہ عبادت کرتے اور بہت کم خواہشات کے مالک تھے، عابد اور زاہد بن کر رہتے اور اپنی عبادات کے باوجود آپ ہنسی مذاق بھی کیا کرتے تھے۔
وفات حسرت آیات:
علم و عمل کا یہ آفتاب 148ہجری کوفہ میں غروب ہو گیا۔ امام ذہبی فرماتے ہیں:
مات الأعمش في ربيع الأول، سنة ثمان وأربعين ومائة، بالكوفة•
(سیر اعلام النبلاء:ج5 ص450)
جس دن آپ کی وفات ہوئی اس دن عبد الله بن داؤد الخریبی نے کہا:
اعمش کو جس دن فوت ہونا تھا فوت ہو گئے لیکن اپنے بعدخود سے زیادہ عبادت گزار کسی کو نہ چھوڑا۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص119)
اقوال زریں:
1: منصور بن ابو الاسود کہتے ہیں کہ میں نے امام اعمش سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:
ﯘوَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَﯗ
[الأنعام:129]
کا مطلب پوچھا کہ اس میں مفسرین کی کیا رائے ہے، تو آپ نے فرمایا:
يقولون: إذا فسد الناس أمر عليهم شرارهم.
جب لوگ بگڑ جائیں تو ان پر حکمران بھی شریر قسم کے مسلط کر دیے جاتے ہیں۔
(حلیہ الاولیاء: ج5 ص59)
2: حمید بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نےامام اعمش کو یہ کہتے ہوئے سنا: موتیوں کو خنزیروں کے پاؤں تلے مت روندو۔
(حلیۃ الاولیاء: ج5 ص60)
3: عثام بن علی روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام اعمش کو کہتے سنا: ”جب تم کسی عالم کو دیکھو کہ وہ قرآن کریم نہیں پڑھتا اور حدیث نہیں لکھتا تو اس سے دور رہو وہ شیخ القمر ہے۔“ ابو صالح کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر (راوی) سے پوچھا: شیخ القمر کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”شیخ القمر اُن دہریہ لوگوں کو کہتے ہیں جو چاندنی رات میں جمع ہو کر تاریخی واقعات میں بڑی دون کی لیتے ہیں اور مسائل دینیہ میں ان کی جہالت کا یہ حال ہوتا ہے کہ اچھی طرح وضوء کرنا بھی نہیں جانتے۔“
(شرف اصحاب الحدیث للخطیب: 1/67، والمحدث الفاصل: ص 306)