عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ

قسط نمبر 4:
……الشیخ محمد نواز الحذیفی ﷾
عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ
خیر القرون سے خطبہ جمعہ کے ذکر ہونے کا ثبوت:
صحابہ کرام رضی ا للہ عنہم اجمعین اور تابعین کرام رحمہم اللہ کے بہترین دور میں بھی خطبۂ جمعہ اور نماز جمعہ پر ذکر اللہ کا اطلاق ہوتا تھا، اس سلسلے میں کچھ تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
1: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خطبۂ جمعہ کے وقت دیر سے پہنچے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت خطبۂ جمعہ ارشاد فرمارہے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دیر سے آنے پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطبہ اور نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دیر سے آنے کا عذر پیش فرمایا۔ اس روایت میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں: حتی یفرغ من الذکر.یعنی جب خطبہ اور نماز سے فارغ ہوئے پوری روایت یوں ہے:
عبد الرزاق عن بن جريج قال أخبرني عمرو بن دينار أن عكرمة مولى بن عباس أخبره أن عثمان جاء وعمر يخطب يوم الجمعة فانتحى عمر ناحية الرجل يجلس حتى يفرغ من الذكر فقال عثمان يا أمير المؤمنين ما هو إلا أن سمعت الاولى فتوضأت وخرجت فقال عمر لقد علمت ما هو بالوضوء۔
)مصنف عبدالرزاق باب الغسل یوم الجمعۃ ج3ص195، 196 (
اس روایت سے بھی ثابت ہوا کہ خطبہ کی حقیقت ذکر ہے۔
2: حضرت عطاء تابعی رحمہ اللہ سے کسی نے مسئلہ پوچھا کہ میں نے خطبۂ جمعہ کا بہت تھوڑا سا حصہ پایا امام اس وقت خطبہ کے آخر میں ناپ تول میں کمی سے منع کررہا تھا، اور پورا تولنے کاحکم دے رہا تھا کیا میں ظہر کی چار رکعت پڑھوں یا جمعہ کی دو رکعت تو انہوں نے فرمایا:
قد امر اللہ بذالک فذالک من الذکر فاقصر۔
اللہ تعالی نے اس خطبہ کا جو حکم دیا اس کی حیثیت ذکر کی ہے لہٰذا تو دو رکعت پڑھ لے۔ روایت کے اصل الفاظ یہ ہیں:
عبد الرزاق عن بن جريج قال قال إنسان لعطاء لم أدرك الخطبة الا وهو في المكيال والميزان قال قد امر الله بذلك فذلك من الذكر فاقصر۔
)مصنف عبدالرزاق باب من فاتتہ الخطبۃ ج3ص238 (
اس روایت سے تو خطبہ کی حیثیت بالکل واضح ہوگئی کہ اس کی حقیقت ذکر اللہ ہے وعظ و نصیحت محض اس کے تابع اجزاء میں سے ایک جز ہے۔
3: خطبۂ جمعہ کے دوران اگر ضرورت کی وجہ سے امام کوئی ضروری بات کرنا چاہے تو کرسکتا ہے لیکن از خود مقتدیوں کے لیے خطبۂ جمعہ کے دوران آپس میں گفتگو کرنا جائز نہیں ہے، امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے اپنی المصنف میں اس پر مستقل یہ باب قائم کیا ہے:
باب یکلم الامام علی المنبر یوم الجمعۃ فی غیر الذکر۔
اس عبارت سے جس طرح یہ ثابت ہے کہ امام منبر پر خطبۂجمعہ کے دوران بوقت ضرورت بقدر ضرورت بات کرسکتا ہے اسی طرح یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ خطبۂ جمعہ کی حقیقت ذکر اللہ ہے نہ کہ وعظ و نصیحت۔ اس لیے کہ ضرورت کی بات کے علاوہ امام منبرپر جو خطبہ دے گا اس پر ذکر کا اطلاق ہوا ہے۔
)مصنف عبدالرزاق ج3 ص215 (
باب مذکورتحت امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے یہ روایت بھی ذکر فرمائی ہے:
حضرت ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خطبۂ جمعہ میں ذکر اللہ کے سوا کسی اور چیز کے خلط کرنے سے بچتے تھے؟ انہوں نے فرمایا : جی ہاں۔
روایت ملاحظہ ہو:
عبد الرزاق عن بن جريج قال قلت لعطاء أكانوا يتوقون أن يخلطوا الخطبة بشيء الا بذكر الله تعالى قال نعم قلت أكانوا يتشهدون في الخطب يوم الجمعة قال نعم قلت فلما سمينا الحامدين قال نقول الحمد لله رب العالمين قلت والاستسقاء أو الاستشفاء قال لا بأس
)مصنف عبدالرزاق ج3ص216(
ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی خطبۂ جمعہ کو ذکر اللہ سمجھتے تھے۔
4: حضرت عطاء رحمہ اللہ سے ہی جمعہ کے خطبہ کے دوران لوگوں کے امام سے کلام کے درست نہ ہونے کی وضاحت پر مشتمل ایک اور روایت ہے اس میں بھی خطبۂ جمعہ کے لیے ذکر کا اطلاق ہوا ہے۔
پوری روایت ملاحظہ فرمائیں:
عبد الرزاق عن بن جريج قال قلت لعطاء كلام الناس الامير وهو يخطب يخصه بحديث أو يسأله عن شيء من الذكر قال أكره ذلك قال قلت فكلام الناس الامام وهو على المنبر يثنون عليه قال وأكرهه إنما الجمعة ذكر۔
)مصنف عبدالرزاق ج3ص216، 217 (
اس روایت میں انما الجمعۃ ذکر(جمعہ کے خطبہ اور نماز کی حیثیت صرف ذکر ہے) کے الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ خطبۂ جمعہ کی حیثیت ذکر اللہ کی ہے نہ کہ وعظ و نصیحت کی۔
5: امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے اپنی المصنف میں یہ باب نقل کیا ہے :باب استقبال الناس۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ امام جب خطبۂ جمعہ کے لیے مسجد میں آئے تو اس کا استقبال کرنا چاہیے، اس سلسلے میں مروی ایک روایت میں بھی خطبۂ جمعہ کے لیے ذکر کے الفاظ ہیں۔
پوری روایت کے الفاظ یہ ہیں:
عبد الرزاق عن بن جريج قال قلت لعطاء استقبال الناس الامام يوم الجمعة والقاص بمكة وغيرها يدعون البيت قال نعم ثم أخبرني حينئذ عمن أخبره عن يعلى بن أمية أنه جاء عبيد بن عمير يقص ها هنا وأشار إلى ناحية بني مخزوم وسنان بن يعلى أو سعيد بن يعلى مستقبل البيت فدعاه يعلى فقال ما حملك على ما صنعت استقبل الذكر فقال حينئذ عباد بن أبي عباد هو سنان بن يعلى۔
)مصنف عبدالرزاق ج3ص217(
اس روایت میں استقبل الذکر کے الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ خطبۂ جمعہ کی حقیقت ذکر اللہ ہے۔ مذکورہ تمام روایا ت سے ثابت ہوا کہ خطبۂ جمعہ کی حقیقت خیر القرون میں بھی ذکر اللہ ہی سمجھی جاتی تھی۔ الحمدللہ
مقامی زبان میں ترجمہ ناجائز ہونے کی وجوہات
پہلی وجہ:اصلی حالت پر نہ رہنا:
جب قرآن کریم ،احادیث مبارکہ اورخیر القرون کی شہادتوں سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ خطبۂ جمعہ کی حقیقت ذکر اللہ ہے۔ ذکر اللہ میں اصل الفاظ وہ ہیں جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے صادر ہوئے ہیں اور وہ عربی زبان میں ہیں اس لیے ضروری ہے کہ خطبۂ جمعہ عربی زبان میں دیا جائے۔
دوسری وجہ: اجماع کے خلاف ہے :
یہ چیز نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مواظبت اور اجماع کے خلاف ہے۔عربی خطبۂ جمعہ پر نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے ہمیشگی فرمائی ہے، باوجود اس کے کہ ان کے مخاطب عجمی بھی تھے، اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے مفتی اعظم پاکستان حضرت اقدس مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
عمل اور مواظبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی باوجودیکہ جس طرح آج تبلیغ احکام اور ان کی تعمیم و اشاعت کی حاجت ہے اس وقت اس سے زیادہ تھی، کیونکہ اب تو کتب و رسائل ہر قوم کی زبان میں ہزار رہا موجود ہیں اور اس وقت سلسلہ تصنیف بالکل نہ تھا،نیز یہ بھی نہ تھا کہ حضور صلی ا للہ علیہ و سلم کے مخاطب ہمیشہ اہل عرب ہی ہوں بلکہ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ روم و فارس اور مختلف بلاد عجم کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس خطبہ میں شریک ہوتے تھے، اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ مادری زبان عربی ہونے کے دوسری زبان میں خطبہ نہ دیتے تھے، تو اگر مقصود خطبہ و وعظ و تبلیغ یہی تھا اور تبلیغ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہر ہے کہ تمام اقوام عالم عرب و عجم کے لیے عام ہے تو عجمیوں کی رعایت سے ایسا کیا جاسکتا ہے کہ کسی صحابی کو حکم فرمادیتے تو خطبہ کے بعد ہی اس کا ترجمہ عجم کی زبان میں سنادیتے جیسا کہ بعض وفود وغیرہ سے مکالمہ کے وقت ترجمان سے کام لیا جاتا تھا۔ لیکن تمام عمر نبوی میں اس قسم کا ایک واقعہ بھی مروی نہیں، آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک سیل رواں کی صورت میں بلاد عجم میں داخل ہوئے اور دنیا کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا جہاں اسلام کا کلمہ نہیں پہنچا دیا اور شعائر اسلام نماز اور جمعہ اعیاد قائم نہیں کردیے، ان حضرات کے خطبے تاریخ کی کتابوں میں آج بھی بالفاظہا مذکور و مدون ہیں ان میں سے کسی ایک نےبھی کبھی بلاد عجم میں داخل ہونے کے بعد اپنے مخاطبین کی ملکی زبان میں خطبہ نہیں دیا، حالانکہ وہ ابتداء فتح اور اسلامی تعلیمات کی اشاعت کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا، جب کہ تمام لوگ تبلیغ احکام کے لیے آج سے کہیں زیادہ محتاج تھے، یہاں یہ شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ان کو عجمی زبان سے واقفیت نہ تھی کیونکہ بہت سے صحابہ کرام کے متعلق ان کی سوانح و تذکروں میں تصریح ہے کہ وہ فارسی یا رومی یا حبشی وغیرہ زبانیں جانتے اور ان میں بخوبی تقریر کرتے تھے، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے متعلق ثابت ہے کہ وہ بہت سی مختلف زبانیں جانتے تھے اسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تو خود فارس کے رہنے والے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ حبشہ کے اور حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ روم کے باشندے تھے اسی طرح بہت سے حضرات صحابہ ہیں جن کی مادری زبانیں عربی کے علاوہ دوسری تھیں۔
اس کے علاوہ اگر معانی خطبہ کو عجمیوں کے علم میں لانا بوقت خطبہ ہی ضروری سمجھا جاتا اور خطبہ کا مقصد صرف تبلیغ ہی ہوتی تو جو سوال آج کیا جاتا ہے کہ خطبہ عربی میں پڑھنے کے بعد اس کا ترجمہ اردو یا دوسری ملکی زبانوں میں کردیا جائے، یہ کیا اس وقت ممکن نہ تھا؟ جیسا کہ دوسری ملکی اور سیاسی ضرورتوں کے لیے ہر صوبہ میں عمال حکومت اپنے پاس ترجمان رکھتے تھے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک مستقل ترجمان انہیں ضرورتوں کے لیے اپنے پاس ملازم رکھا ہوا تھا۔
)رواہ البخاری فی الوفود (
لیکن اس کے باوجود بھی نہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ منقول ہے کہ آپ نے عربی خطبہ کا ترجمہ ترجمان کے ذریعہ ملکی زبان میں کرایا ہو اور نہ کسی دوسرے صحابی سے، اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ خطبہ کے لیے سنت یہی ہے کہ صرف عربی زبان میں پڑھا جاوے اور بوقت خطبہ کوئی ترجمہ وغیرہ اس کا نہ کیا جائے۔
)جواہر الفقہ ص353، 354 ناشر مکتبہ دار العلوم کراچی (
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ خطبۂ جمعہ کے عربی ہونے پر امت کا تعامل کی تصریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: چوں خطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وخلفاء را ملاحظہ کردیم تنقیح آں وجود چند چیز است حمد و شہادتین و صلوٰۃ بر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وامر بتقوی وتلاوت وقرآن پاک ودعائے مسلمین ومسلمات وعربی بودن خطبہ و عربی بودن نیز بجہت عمل مستمرہ مسلمین در مشارق و مغارب باوجود آں کہ در بساری از اقالیم مخاطبان عجمی بودند۔
)مصفیٰ شرح موطا امام مالک ج1ص253 باب التشدید علی من ترک الجمعۃ بغیر عذر (
ترجمہ : جب ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبوں پر نظر ڈالی تو ان میں چند چیزوں کا ثبوت ملا جن میں حمد و ثنا اور کلمہ شہادت اور درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور تقویٰ کا حکم دینا اور کسی آیت کا پڑھنا اور تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرنا اور خطبہ کا عربی زبان میں ہونا، اور خاص عربی زبان میں خطبہ کا ہونا اس لیے ہے کہ تمام مسلمانوں کا مشرق و مغرب میں ہمیشہ یہی عمل رہا ہے باوجودیکہ بہت سے ممالک میں مخاطب لوگ عجمی تھے۔
لہذا غیر عربی میں خطبۂجمعہ یا اس کا ترجمہ عجمی زبان میں نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشگی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کے خلاف ہے، اور اس کی مخالفت جائز نہیں، چنانچہ غیر مقلد عالم صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں:
ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی دین اسلام سے خروج ہے، جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی گئی ہے، مومنین سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ مومنین موجود نہ تھا، کہ وہ مراد ہو، اس لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر وضلال ہی ہے، بعض علماء نے سبیل المومنین سے مراد اجماعِ امت لیا ہے یعنی اجماع امت سے انحراف بھی کفر ہے، اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علماء وفقہاء کا اتفاق یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق، یہ دونوں صورتیں اجماع کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے، تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے لیکن اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع واتفاق کے دعوے تو بہت سےمسائل میں کیے گئے لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں جن میں فی الواقع امت کے تمام علماء و فقہاء کا اتفاق ہو، تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں ان کا انکار بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے، اس لیے صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
)صحیح ترمذی للالبانی رقم1759،احسن البیان ص125 ص256، الحدیث شمارہ61 (
لہذا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مخالفت کی وجہ سے درست نہیں۔
تیسری وجہ: خلاف سنت ہے :
جس کام کو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باوجود کرسکنے کے نہ کیا ہو اس کا ترک سنت ہے اور اس کی مخالفت خلاف سنت ہے:
یہ وجہ اگر چہ دوسری وجہ سے ملتی جلتی ہے تاہم اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو الگ ذکر ذکر کرنا بھی ضروری ہے وہ یہ کہ جس کام کو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باوجود کرسکنے کے نہ کیا ہو حالانکہ اس دور میں اس کی ضرورت بھی تھی تو اس کو نہ کرنا اور چھوڑنا سنت ہے، نبی اقدس صلی ا للہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی ا للہ عنہم کے مخاطب حضرات میں بھی غیر عربی لوگ تھے، لیکن ان حضرات نے پھر بھی خطبۂجمعہ کو غیر عربی میں یاس اس کے ترجمہ غیر عربی میں نہ کیا اور نہ کروایا، جب انہوں نے اس کام کو نہ کیا تو اس کا نہ کرنا اور اس کو چھوڑنا سنت ہے اور اس کی مخالفت خلاف سنت اور بدعت ہے، اس اصول کو کئی حضرات نے ذکر فرمایا ہے، چند ایک کی عبارات پیش خدمت ہیں:
1: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کل عبادۃ لم یتعبدہا اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فلا تعبدوہا۔
)الاعتصام ج1ص113(
ہر وہ عبادت جس کو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہ کیا ہو سو تم بھی اس کو مت کرو۔
2: امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولہا فما لم یکن یومئذ دینا لا یکون الیوم دینا۔
)الشفاء للقاضی ج2ص88 (
اس امت کے بعد والے لوگوں کی ہرگز اصلاح نہ ہوسکے گی مگر صرف اس چیز سے کہ جس سے اس امت کے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی، چنانچہ جو چیز اس وقت دین نہ تھی وہ آج بھی دین نہ ہوگی۔
3: حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جس طرح پیروی کسی کام کے کرنے میں ہوتی ہے اسی طرح چھوڑنے میں بھی ہوتی ہے لہٰذا جس نے کسی ایسے کام میں ہمیشگی کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ بدعتی ہے۔
)مرقاۃشرح مشکاۃ ج1ص41 (
4: علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو نہ کرنا یعنی چھوڑنا ہمارے حق میں سنت ہے۔
)شرح قسطلانی ج7ص335(
5: علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جو قول و فعل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہ ہواسے اہل السنت والجماعت بدعت کہتے ہیں کیونکہ اگر وہ بھلائی کا کام ہوتا تو وہ ہم سے پہلے ضرور کر گذرتے کیونکہ وہ حضرات رضی اللہ عنہم بھلائی کی کسی بھی خصلت کی طرف پیش قدمی کیے بغیر نہیں رہے۔
)تفسیر ابن کثیر ج4ص156 (
6: ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ترک کے ثبوت کی دوسری قسم یہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہوتا تو یقینا نقل کیا جاتا جب کسی نے نقل نہیں کیا اور نہ ہی کسی مجمع میں بیان کیا گیا، تو معلوم ہوگیا کہ وہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔
)اعلام الموقعین ج1ص304 (
مذکورہ تمام عبارات سے معلوم ہوا کہ جس کام کو باوجود کرسکنے کے نہ کیا گیا تو وہ کام نہ کیا جائے گا، اور اس کا نہ کرنا سنت ہوگا اور اس کی مخالفت خلاف سنت اور بدعت ہوگی ، اور غیر عربی میں خطبۂ جمعہ یا عربی کے ساتھ اس کا غیر عربی میں ترجمہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہ کیا گیا حالانکہ جو ضرورت آج بیان کی جاتی ہے اس دور میں اس سے بڑھ کر موجود تھی، لہذا یہ عمل خلاف سنت اور بدعت ہوگا۔
اس پر ایک مثال اور ذکر کرنا مناسب ہوگی، وہ یہ کہ حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ نے بشر بن مروان کو منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو سخت لہجے میں ارشاد فرمایا:
قبح اللہ ہاتین الیدین لقد رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما یزید علی ان یقول ھکذا بیدہ واشار باصبعہ المسبحۃ۔
)صحیح مسلم ج1ص287 (
اللہ تعالی ان دونوں چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کا ناس کرے میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ کی انگلی سے زیادہ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔
غور فرمائیں! حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے نہ اٹھانے کو بطور دلیل پیش فرمایا یہ ا س بات پر واضح دلیل ہے کہ جس کام کو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود کرسکنے کے نہ کیا ہو تو اس کی مخالفت جائز نہیں۔
چوتھی وجہ:مختصر کو طویل کرناہے:
ترجمہ کی صورت میں خطبہ جمعہ لمبا ہوجائے گا، حالانکہ اس کا مختصر ہونا ضروری نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ خطبۂ جمعہ مختصر ہو اگر عربی کے ساتھ اس کا غیر عربی میں ترجمہ بھی کیا گیا تو لامحالہ خطبہ جمعہ لمبا ہوجائے گا جو کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی ہے۔
………)جاری ہے (
لوحِ