صحیح حدیث قرآن کے خلاف نظر آئے تو

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
صحیح حدیث قرآن کے خلاف نظر آئے تو…؟؟
……محمد شعیب حیدری﷾
آج کل اکثر مسلمان بھائی اس بات کو لئے پریشان ہوتے ہیں کہ فلاں حدیث قرآن کی فلاں آیت کے خلاف ہے، اب کیا کیا جائے قرآن کو مانیں یا حدیث کواور ان مسلمان بھائیوں کو اتنی بھی توفیق نہیں ہوتی کہ کسی صحیح العقیدہ عالم سے یہ مسئلہ پوچھ لیں تاکہ غلط فہمی دور ہوجائے۔ لیکن اس کے برعکس ہر انسان اپنی عقل کے مطابق فیصلہ سنا دیتا ہے کہ جب کوئی حدیث قرآن کے خلاف جائے تو اس حدیث کو چھوڑ دیا جائے گا قرآن کی بات ہی مانی جائے گی، اور اسی طرح سے وہ مختلف گمراہ لوگوں کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں دور حاضر کے متجددین اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں جو مختلف ناموں سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے تو ان تمام لوگوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ کیا نبی ﷺ کی کوئی بات قرآن کے خلاف ہو بھی سکتی ہے یا نہیں؟ قرآن تو ہمارے پیارے نبی ﷺ پر نازل ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ آنحضرت ﷺ اس کی وضاحت کرکہ لوگوں کو سمجھائیں، جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :
ترجمہ:”اور ہم نے تیری طرف قرآن نازل کیا تاکہ لوگوں کے لئے واضح کردے۔“
)سورة النحل۔ 44(
تو کیاآنحضرتﷺنے قرآن کی وضاحت کرنے کے بجائے قرآن کے خلاف ہی تعلیمات دیں (معاذ اللہ) ہمارے پیارے نبی ﷺ تو وہ ہستی ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ترجمہ: ”اور نہ آپ (ﷺ) اپنی خواہش نفسانی سے باتیں بناتے ہیں۔ ان کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے“۔
)سورة النجم۔3،4(
ہمار ے پیارے نبی ﷺ تو وحی کے سوِا بات بھی نہیں کرتے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک وحی یعنی قرآن دوسری وحی یعنی حدیث کے خلاف ہو؟ہاں یہ ممکن ہے کہ ظاہری طرح سے ہمیں تعارض لگے کیونکہ ہمارا علم بہت ہی تھوڑا ہے ایسی حالت میں ہمیں اپنی کم علمی کا اعتراف کرنا چاہئے نا کہ حدیث رسول ﷺ کو جھوٹی حدیث کہہ کر اسے چھوڑ دینا چاہئے۔ اگر صرف تھوڑے سے ظاہری تعارض کی ہی بنا پر حدیثِ رسول ﷺ کو چھوڑ دینا ہے تو ایسے ظاہری اختلاف تو قرآن پاک میں بھی بعض مقامات پر موجود ہیں، پھر کیا ہم فقط اس اختلاف کی وجہ سے قرآن کی آیات کو بھی چھوڑ دیں؟ جس کی بعض مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:ترجمہ:”پھر جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس سے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے۔“
)سورة المومن۔68(
ایک اور جگہ فرمایا:
ترجمہ:” اور جس دن وہ کہے گا کہ ہوجا تو وہ ہو جائے گا“۔
)سورة الانعام۔73(
ایک اور جگہ فرمایا:
ترجمہ:”جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرماتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے“۔
)سورة البقرہ۔117(
اللہ تعالیٰ نے یہ بات قرآن پاک میں مختلف مقامات پر فرمائی ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کوئی کام کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو اسے کہتے ہیں کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اسی قرآن پاک میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ترجمہ: ”وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کوچھ دن میں پیدا کیا۔“
)سورة الحدید۔ 4(
اب کیا ان آیات میں ظاہری طرح سے اختلاف نہیں ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو کام کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو فقط اتنا ہی فرماتے ہیں کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے، لیکن پھر دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا تو اس کا کیا مطلب ہوا؟ میں امید کرتا ہوں کم کہا زیادہ سمجھا کے اصول کے تحت آپ لوگ میری بات سمجھ گئے ہونگے کیونکہ میں مزید ایسا کوئی جملہ نہیں لکھنا چاہتا کہیں ایسا نا ہوکہ میں بے ادبی کر بیٹھوں۔
ایسی مثال اور جگہ ملتی ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ترجمہ:”وہی توہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لئے پیداکیں،پھرآسمان کی طرف متوجہ ہواتو ان کو ٹھیک سات آسمان بنا دیا۔“
)سورة البقرہ۔29(
یہی بات سورةنازعات میں اس کے اُلٹ بیان ہوئی ہے، وہاں ہے:
ترجمہ:” بھلا تمہارا بناناآسان ہے یا آسمان کا؟اسی(اللہ) نے اس کو بنایا۔ اس کی چھت کو اونچا کیا، اور پھر اسے برابرکردیااور اسی نے رات کو تاریک بنایا اور (دن کو) دھوپ نکالی اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا۔“
)سورة نازعات۔27 تا 30(
اب یہاں پر تمام لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ سورة البقرہ کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا ،اور سورة النازعات میں فرمایا کہ پہلے آسمان کو بنایا پھر زمین کو۔ کیا یہ اختلاف نہیں ہے؟اس کے علاوہ روزِ قیامت کے متعلق قرآن نے ایک مقام پر فرمایا:
ترجمہ:”پھر وہ ایک روز جس کی مقدار ہزار برس ہوگی۔“
)سورة السجدہ۔5(
جبکہ دوسرے مقام پر فرمایا:
ترجمہ:”اس روز جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہوگی“۔
)سورة المعارج۔4(
اب سورة السجدہ کی آیت بتاتی ہے کہ روزِ قیامت کی مقدار ہزار برس ہوگی، جبکہ سورة المعارج میں پچاس ہزار سال کا ذکر ہے، لیکن آج تک اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا کیونکہ وہ وحیِ الٰہی ہے تو حدیث پر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے کیا گذشتہ سطور میں پیش کی جانے والی سورة النجم کی آیت کی روشنی میں حدیثِ رسول ﷺ وحی الٰہی نہیں ہے؟
جب کسی کے ذہن میں انکار سما جائے تو وہ اس طرح کے سینکڑوں بے وقوفانہ اعتراضات قرآنِ کریم پر بھی کر سکتا ہے، مثلا اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ :جب تک مسلمان اپنے دین پر قائم ہیں، یہود و نصاریٰ ان کے دوست نہیں ہو سکتے، یہ دونوں قومیں شروع سے ہی اسلام کی سخت دشمن ہیں، یعنی اسلام دشمنی میں دونوں متحد ہیں، جیسا کہ قرآن کریم نے بھی بیان کیا ہے :
ترجمہ:”اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہونگے اور نہ نصاریٰ، یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی اختیار کرلو۔“
)سورة البقرہ۔ 120(
لیکن اس کے برعکس سورة المائدہ میں ہے:
ترجمہ:”(اے پیغمبر ﷺ !) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور محبت کرنے والے ان لوگوں کو پائیں گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لئے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے۔“
)سورة المائدہ۔82(
اب ایک آیت میں آگیا کہ نصاریٰ لوگ مسلمانوں کے دشمن ہیں اور دوسری میں ہے کہ نصاریٰ مسلمانوں سے سب زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ نصاریٰ دشمن ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں سے محبت رکھتے ہوں؟ تو اب کیا اس اعتراض کی وجہ سے قرآنِ کریم کی صحت پر شک کیا جائے گا؟ یا اس کی صحت کا دعویٰ باطل ہوجائے گا؟ جو جواب ہم لوگ قرآن کے بارے میں دیتے ہیں وہی جواب ہم احادیث کے بارے میں کیوں نہیں دیتے؟ احادیثِ رسول ﷺ سے اتنی دشمنی کیوں ہے ہمیں؟ کیا اب بھی احادیثِ رسول ﷺ کے وحی الہی ہونے میں کوئی شک باقی ہے کیا؟اگر ہم لوگ یہاں پر قرآنِ کریم میں جمع و تطبیق کی کوئی صورت نکالیں گے تو حدیث میں ایسا کیوں نہیں کرتے؟ کہ وہ بھی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی ہے؟ نبی کریم ﷺ تو دینی معاملات میں اپنی خواہشات سے بولتے ہی نہ تھے۔
آپ بتائیں کہ کیا قرآنِ کریم پر اس بے وقوفانہ اعتراض سے اس کتابِ ذی شان کی صحت میں ذرا برابر بھی کوئی شبہ پیدا ہوتا ہے؟ یقینا ہر مسلمان کا جواب نفی میں ہوگا۔ پھر خود ہی غور کر لیں کہ احادیث پر اس طرح کے اعتراضات کیا حیثیت رکھتے ہیں؟اس کے علاوہ اگر کوئی منکرِ قرآن ایک اور طرح کا اعتراض قرآنِ کریم پر کر دے اور کہہ دے:
”سورة القصص 15 میں ذکر ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے سامنے دو آدمی لڑ رہے تھے۔ ایک ان کی قوم کا تھا اور دوسرے کا تعلق ان کے دشمنوں سے تھا۔ آپ علیہ السلام کی قوم کے آدمی نے موسیٰ علیہ السلام سے مددکی درخواست کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دشمنوں کے آدمی کو مکا مار کر اس کا کام تمام کر دیا۔ پھر اس کام پر نادم ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کی۔“
قرآن کریم کی اس آیت میں موسیٰ علیہ السلام نے یہ تحقیق نہیں کی کہ قصور کس کا ہے اور حق پر کون ہے، بلکہ محض تعصب کی بنیاد پر اسے قتل کردیا۔ یہ کام تو عصر حاضر کے کسی منصف مزاج کافر سے بھی ممکن نہیں، موسیٰ علیہ السلام کا تو ذکر ہی کیا۔
اس وجہ سے میں اس آیت کو باطل سمجھتا ہوں اور اس میں جو قصہ مذکور ہے، وہ قطعا بے اصل ہے“۔
(نقل کفر کفر نباشد(
تو حدیث کا انکار کرنے والوں کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ کیا اس اعتراض سے قرآنِ کریم کی صحت پر کوئی حرف آئے گا؟
قرآن و حدیث کی نصوص میں تعارض کے اسباب:
٭ قرآن و حدیث کی نصوص میں عام و خاص، مطلق و مقید اور استَثناء کا مسئلہ ہوتا ہے، دیکھنے والے کے ذہن میں یہ بات آ جاتی ہے کہ یہ تعارض اور ٹکراؤ ہے، جبکہ درحقیقت یہ تعارض نہیں ہوتا۔
٭ قرآن کا حکم عام ہوتا ہے، حدیث اس میں تخصیص کر رہی ہوتی ہے یا قرآن کے عام حکم سے حدیث ایک چیز کو مستَثنیٰ قرار دے رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن کے اطلاق کی حدیث تقیید بھی کردیتی ہے۔
٭ قرآن و حدیث کے درمیان تعارض کا ایک سبب لغتِ عرب سے ناواقفیت اور جہالت ہے، قرآن و حدیث عربی زبان میں نازل ہوئے ہیں جو عربی زبان سے ناواقف ہوگا وہ قرآن و حدیث میں اختلاف کرلے گا۔
٭ ایک روایت کو ایک راوی پورا بیان کردیتا ہے، دوسرا مختصر بیان کرتا ہے، تیسرا راوی روایت کا بعض حصہ بیان کرتا ہے، بعض بیان نہیں کرتا، دیکھنے والا کسی ایک راوی کے الفاظ کو قرآن کے مخالف کہہ دیتا ہے۔ حالانکہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ یہ واقعہ فلاں راوی نے مختصر بیان کیا ہے اور کسی اور راوی نے یہ مکمل واقعہ بیان کیا ہے تو قرآن و حدیث کی نصوص کا اختلاف و تعارض رفع ہوجاتا ہے۔
٭ ایک سبب یہ بھی ہے کہ ایک راوی نبی اکرمﷺسے کسی چیز کے متعلق سوال کا جواب نقل کرتا ہے، لیکن سوال ذکر نہیں کرتا، جبکہ اس سوال سے ہی اس جواب کی حقیقت واضع ہوتی ہے، اس سے بھی قرآن و حدیث کا ظاہری تعارض دور ہوتا ہے۔
٭ ناسخ و منسوخ سے عدم واقفیت بھی قرآن و حدیث میں تعارض کا باعث ہے، آیت ناسخ اور حدیث منسوخ، یا بسا اوقات حدیث ناسخ اور آیت منسوخ ہوتی ہے، جب یہ معلوم ہوجائے تو قرآن و حدیث کا ظاہری تعارض رفع ہوجاتا ہے۔
تفصیل کیلئے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الرسالۃملاحظہ فرمائیں۔
امام شافعی فرماتے ہیں: ”ہم نے نبی کریم ﷺ سے کوئی متعارض و مختلف چیز نہیں دیکھی، (اگر کوئی ظاہری طور پر متعارض محسوس ہوئی) اور ہم نے اس کو کھول کر دیکھا تو اس کے لئے تعارض کے ختم ہونے کی کوئی صورت مل ہی گئی۔“
)الرسالۃ۔ ص:173(
نیز فرماتے ہیں:”یہ بھی جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام مختلف و متعارض نہیں ہوتے،بلکہ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔“
)الرسالۃ۔ ص۔173(
علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”قرآنِ کریم اور نبی کریم ﷺ کے اقوال و افعال میں کوئی تعارض نہیں، اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے :وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے، بلکہ وہ تو وحی ہوتی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔“
)الاحکام۔ج 2 ص 204 (
قرآن و حدیث کے مابین بظاہر تعارض کی مثال:
٭ فرمان باری تعالیٰ ہے:
”تم پر مردار حرام کردیا گیا ہے۔“
(سورة المائدۃ۔3(
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:”ایک بکری مرگئی، رسول اللہ ﷺ نے اس کے مالکان سے فرمایا، تم نے اس کی کھال کیوں نہیں اتار لی کہ پھر اسے دباغت دے کر اس سے فائدہ اٹھاتے۔“
)سنن الترمذی باب ما جاءفی جلود ا لمیتۃ اذا دبغت۔ رقم الحدیث۔ 1727 (
قرآن کا حکم مردار کے جمیع افراد کو شامل ہے، حدیث نے اس کو کھانے کے ساتھ خاص کر دیا، یعنی ایسا حلال جانور جو مردار ہو جائے، وہ کھایا نہیں جا سکتا ، کھانے کے معاملہ میں وہ حرام ہے، لیکن اس کے چمڑے کو دباغت(رنگ) دے کر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اب کوئی یہ اعتراض بھی تو کر سکتا ہے کہ مردار کو قرآن نے تو حرام کہا ہے تو اس کی چمڑی بھی تو حرام ہوئی نہ؟ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
٭ فرمان باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:”اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں حکم دیتا ہے۔“
)سورة النساء۔ 11(
اس آیت کی تفسیر میں رسول کریم ﷺ اورکبار صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے مروی ہے کہ اس آیت میں اولاد کی وراثت کے لئے وصیت کرنے کاحکم ہے۔
یہ آیت عام ہے، اس کی تخصیص اس حدیثِ نبوی ﷺ کے ساتھ کر دی گئی ہے:
ترجمہ:”مسلمان کافر کا، اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔“
)صحیح بخاری۔ کتاب الفرائض۔باب لا یرث المسلم (
اب کوئی شخص اس حدیث پر بھی اعتراض کر سکتا ہے کہ قرآن میں تو سب کو وارث بنانے کی وصیت کا حکم دیا گیا ہے لیکن حدیث اس قرآنی آیت کے خلاف کہہ رہی ہے کہ مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔
٭ فرمان باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:”اے ایمان والو! جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو خدا کی یاد (یعنی نماز) کے لئے جلدی کرو اور (خرید و ) فروخت ترک کر دو۔“
)سورة الجمعہ۔ 9(
اس آیت میں لفظیا ایھا الذین اٰمنوا: یعنی اے ایمان والوتمام مومنوں کے لئے ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا وغیرہ۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس آیت میں لفظ اے ایمان والو ہے ایمان والیاں تو نہیں اس لئے یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہے تو یہ اس کی جہالت ہوگی کیونکہ اسی طرح اور کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے یہی لفظ فرمایا ہے تمام مرد و عورتوں کے لئے، مثال کے طور پر:
ترجمہ:”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو۔“
(سورة الانفال۔24(
اس کے علاوہ ایک اور جگہ فرمایا:
ترجمہ:”اے ایمان والو! اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جو کتاب اس نے اپنے پیغمبر (آخر الزمان ) پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان لے آؤ۔“
)سورة النساء۔ 136(
نیزدیکھئے:سورةالبقرہ183،سورةالحجرات1،2،6۔سورةالمائدۃ1،2،6،8وغیرہ) ان تمام آیات میں بھی لفظ (یا ایھا الذین اٰمنوا: یعنی اے ایمان والو) استعمال ہوا ہے یعنی ثابت ہوا کہ جہاں بھی یہ لفظ ہوگا وہاں مخاطب سب مومن ہونگے چاہے وہ مرد ہو یا عورت بچہ ہو یا بوڑھا وغیرہ۔
اب جو آیت ہم نے پیش کی ہے سورة الجمعۃ والی اس میں ہے کہ اے ایمان والو جب جمعہ کیا اذان دی جائے تو نماز کی طرف آؤ۔ لیکن عورتوں پر تو جمعہ فرض ہی نہیں ہے پھر انہیں یہ حکم کیوں دیا گیا ہے؟ تو ظاہر سی بات ہے کوئی ایسی اختلاف نکالنے والی سوچ والا بندہ تو یہی سوچے گا نا کہ یہ بھی قرآن و حدیث میں اختلاف آگیا ہے، اب یا تو قرآن کو غلط کہیں (معاذ اللہ) یا پھر یہ کہیں کہ عورتوں پر بھی جمعہ کی نماز فرض ہے؟
٭ فرمان باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:”کہو کہ جو وحی مجھ پر نازل ہوئی ہے ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور اگر کوئی مجبور ہوجائے۔“
) الانعام۔ 145(
اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح بتا دیا کہ اے رسول ﷺ کہہ دو کہ جوباتیں مجھ پر وحی کے ذریعے سے نازل ہوئی ہیں ان میں ان ان باتوں کے علاوہ اور کوئی چیز جو کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا۔ اس کے برعکس کتا، گدھا وغیرہ جانوروں کو بھی رسول پاک ﷺ نے حدیث کے ذریعہ سے حرام بتلایا۔ اب کوئی اگر اعتراض کرے کہ قرآن تو کہتا ہے مجھ پر جو وحی ہوئی ہے ان میں ان چیزوں کے علاوہ اور کوئی کھانے کی چیز حرام نہیں ہے لیکن رسول پاک ﷺ نے فرمایا نہیں اور بھی کئی چیزیں حرام ہیں، اب یا تو وہ لوگ ایسے اختلاف کی وجہ سے احادیث کو چھوڑ دیتے ہیں وہ لوگ حدیث کو بھی وحی مان پر اس پر بھی ایمان لائیں، یا پھر کتا اور گدھا کھانا بھی شروع کریں کیونکہ قرآن تو کہتا ہے کہ ان چند چیزوں جن کا ذکر قرآن میں ہے ان کے علاوہ اور کوئی چیز بھی کھانے میں حرام نہیں ہے۔
٭ فرمان باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:”اور جب تم سفر کو جاؤ توتم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کہ پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذاءدیں گے بے شک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں۔“
)سورة النساء۔ 101(
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح حکم فرما دیا کہ جب تمہیں کسی سفر میں دشمن کا خوف ہو تو اس حالت میں نماز کو قصر یعنی کم کر سکتے ہو، لیکن اس کے برعکس رسول اللہ ﷺ نے عام سفر میں جس میں انہیں کسی کا کوئی خوف نہیں ہوتا تھا یعنی امن کی حالت میں بھی نماز کو قصر فرمایا کرتے تھے تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال آیا کہ قرآن نے صرف خوف کی حالت میں قصر کا حکم دیا ہے اب تو امن کی حالت ہے تو اب قصر کیونکر پڑھی جائے؟ روایت ملاحظہ فرمائیں:”یعلیٰ بن امیہ نے کہا میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ کچھ مضائقہ نہیں اگر قصر کرو تم نماز میں اگر خوف ہو تم کو کہ کافر لوگ ستائیں گے اور اب تو لوگ امن میں ہوگئے (یعنی اب قصر کی کیا ضرورت ہے؟) تو انہوں نے (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے) کہاکہ مجھےبھی یہی تعجب ہوا جیسے تم کو تعجب ہوا، تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کا پوچھا تو آپ ﷺنے فرمایا کہ یہ اللہ نے تم کو صدقہ دیا تواس کا صدقہ قبول کرو(یعنی بغیر خوف کے بھی سفر میں قصر کرو)“ )صحیح مسلم۔ کتاب صلاةِ المسافرین و قصرھا (
اب کوئی یہی اعتراض کر سکتا ہے کہ قرآن نے تو صرف خوف کی حالت میں قصر کی اجازت دی ہے لیکن آنحضرت ﷺ نے امن کی حالت میں بھی قصر کی اجازت دی ہے اور فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے صدقہ دیا ہے، اور اس صدقہ کا ذکر قرآن پاک میں کہیں نہیں ہے، اب یا تو یہ کہیں کہ یہ حدیث بھی قرآن کے خلاف ہے اور وہ تمام احادیث جن میں رسول پاکﷺنے امن کی حالت میں قصر کیا وہ بھی سب احادیث قرآن کے خلاف ہیں، یا پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بالکل یہ تمام احادیث قرآن کے ساتھ ظاہری طرح سے متعارض تو ہیں۔
لیکن حقیقی اختلاف نہیں ہے ان میں، کیونکہ قرآن اور احادیث دونوں ہی وحیِ الہی ہیں، اگر ظاہری تعارض ہو بھی جائے تب بھی ہم دونوں کو مانیں گے نا کہ ایک کو چھوڑ کر ایک کو مانیں گے، اگر ایک کو چھوڑ ہی دینا ہے تو ایسا تعارض تو قرآن پاک میں بھی کئی مقامات پر ہے تو کیا وہاں بھی ایک آیت کو چھوڑ کر ایک کو لے لیں؟