عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر5:
……الشیخ محمد نواز الحذیفی ﷾
عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ
چوتھی وجہ:مختصر کو طویل کرناہے:
ترجمہ کی صورت میں خطبۂ جمعہ لمبا ہوجائے گا، حالانکہ اس کا مختصر ہونا ضروری نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ خطبۂ جمعہ مختصر ہو اگر عربی کے ساتھ اس کا غیر عربی میں ترجمہ بھی کیا گیا تو لامحالہ خطبۂ جمعہ لمبا ہوجائے گا جو کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی ہے۔
خطبۂ جمعہ کے مختصر ہونے کے سلسلے میں کچھ احادیث ملاحظہ فرمائیں:
حدیث نمبر1:
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّى مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَتْ صَلاَتُهُ قَصْدًا وَخُطْبَتُهُ قَصْدًا.
)صحیح مسلم ج1ص284 جامع الترمذی ج1ص113 سنن الدارمی ج1ص440(
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی متوسط ہوتی تھی اور خطبہ بھی متوسط ہوتا تھا۔
حدیث نمبر2:
عَنْ وَاصِلِ بْنِ حَيَّانَ قَالَ قَالَ أَبُو وَائِلٍ: خَطَبَنَا عَمَّارٌ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَوْجَزَ وَ أَبْلَغَ، فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا: يَا أَبَا الْيَقْظَانِ لَقَدْ أَبْلَغْتَ وَأَوْجَزْتَ فَلَوْ كُنْتَ تَنَفَّسْتَ فَقَالَ: إِنِّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِنَّ طُولَ صَلاَةِ الرَّجُلِ وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ، فَأَطِيلُوا الصَّلاَةَ وَأَقْصِرُوا الْخُطَبَةَ، وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا۔
)صحیح مسلم ج1ص286 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی (
حضرت واصل بن حیان سے روایت ہے کہ حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ہمارے سامنے خطبہ پڑھا۔ آپ نے اسے مختصر کیا اور کمال کو پہنچایا پس جب وہ منبر سے نیچے اترے تو ہم نے کہا: اے ابو الیقظان آپ نے خطبہ کمال کو پہنچایا اور مختصر کیا، کاش آپ ذرا دراز کردیتے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کی نماز کی درازی اور خطبہ کا اختصار اس کی عقل مندی اور فہم کی دلیل ہے، تم نماز کو دراز کیا کرو اور خطبہ کو مختصر کیا کرو اور بعض بیان تو جادو ہوتے ہیں۔
حدیث نمبر3:
عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عُقَيْلٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ الذِّكْرَ وَيُقِلُّ اللَّغْوَ وَيُطِيلُ الصَّلَاةَ وَيُقَصِّرُ الْخُطْبَةَ۔
)نسائی ج1ص166 مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ لاہور (
حضرت حسین بن واقد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے حدیث بیان کی یحییٰ بن عقیل نے انہوں نے کہا میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذکر کثرت سے کیا کرتے تھے اور فضول کام بالکل نہ کرتے تھے اور نماز لمبی کرتے تھے اور خطبہ مختصر دیتے تھے۔
حدیث نمبر4:
عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِإِقْصَارِ الْخُطَبِ.
)سنن ابی داؤد ج1ص165 ،سنن کبریٰ للبیہقی ج3ص208(
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبوں کو مختصر کرنے کا حکم دیا ہے۔
حدیث نمبر5:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : أَطِيلُوا هَذِهِ الصَّلاَةَ ، وَأَقْصِرُوا هَذِهِ الْخُطْبَةَ يَعْنِى صَلاَةَ الْجُمُعَةِ.
)سنن کبری للبیہقی ج3ص208 باب مایستحب من القصد فی الکلام وترک التطویل (
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس جمعہ کی نماز کو لمبا کرو اور خطبہ کو مختصر کرو۔
حدیث نمبر6:
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ السُّوَائِىِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- لاَ يُطِيلُ الْمَوْعِظَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِنَّمَا هُنَّ كَلِمَاتٌ يَسِيرَاتٌ.
)سنن ابی داود ج1ص165، سنن کبریٰ للبیہقی ج3ص208(
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ لمبا نہ ہوتا تھا، وہ تو چندکلمات ہوتے تھے۔
مذکورہ روایات سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم اور حکم یہ ہے کہ خطبۂ جمعہ نماز سے مختصر ہو ترجمہ کرنے کی صورت میں خطبہ نماز سے لمبا ہو جائے گا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے ناجائز ہے۔
پانچویں وجہ:
خطبۂ جمعہ امور تعبدیہ میں سے ہے اور امور تعبدیہ میں مصالح سے تغیر نہیں ہوتا۔شریعت کے بعض احکام محض بندگی ظاہر کرنے کے لیے ہیں ان میں شریعت کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جاتا ہے، اپنی عقل سے کوئی مصلحت سوچ کر اس میں تبدیلی نہیں کی جاتی جیسا کہ تیمم کا معاملہ ہے مٹی سے تیمم کی صورت میں بظاہر چہرہ صاف ہونے کی بجائے مزید مٹی آلود ہوجاتا ہے، کوئی اگر اپنی عقل سے یہ سوچ کر تیمم کو صحیح نہ سمجھے تو یہ اس کی عقل کا قصور ہے، کیونکہ تیمم شریعت کا حکم ہے اور شریعت کے احکام میں اپنی عقل سے کوئی وجہ سوچ کر تبدیلی نہیں کی جاسکتی اسی طرح خطبۂ جمعہ کا معاملہ ہے یہ بھی شریعت کا حکم ہے اپنی عقل سے کوئی مصلحت دیکھ کر اس میں تبدیلی درست نہ ہوگی۔
چھٹی وجہ:
خطبۂ جمعہ شعائر اسلام میں سے ہے اور شعائر اسلام میں تبدیلی جائز نہیں:
اسلامی شعائر وہ ہیں جن کو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین ،ائمہ اسلام اور اسلاف نے اختیار فرمایا ہے اور تقریبا تیرہ سو سال سے شرقاً اور غرباً، شمالاًاورجنوباً تمام امت نے اختیار کیا، ان میں تبدیلی شریعت اسلام میں تبدیلی کے مترادف ہے اسی لیے اسلاف نے اس میں تبدیلی کو ناجائز فرمایا ہے، جیسا کہ اذان اور اقامت شعائر اسلام میں سے ہیں ان کا مقصد لوگوں کو نماز کی طرف متوجہ کرنا ہے کوئی کہنے والا اگر کہے کہ اذان کا مقصد تو لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دینا ہے لہٰذا عربی میں کیا پتہ کہ موذّن کیا کہہ رہا ہے ؟ اردو میں اگر لوگوں کو نماز کا کہا جائے تو لوگوں کو زیادہ سمجھ آئے گی اس لیے اذان اردو میں کہہ لینا بہتر ہوگا، تو علماء اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی کیونکہ یہ شعائر اسلام میں سے ہے، اور شعائر اسلام میں تبدیلی جائز نہیں ہوتی، اسی طرح خطبۂ جمعہ بھی شعائر اسلام میں سے ہے اس میں بھی تبدیلی درست نہ ہوگی، یہی بات اردو خطبہ کے جواز کے قائل حضرات کے ممدوح علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے فرمائی ہے:
فتحت الامصار الشاسعۃ والدیار الواسعۃ واسلم اکثر الحبش والروم والعجم وغیرہم من الاعاجم وحضروا مجالس الجمع والاعیاد وغیرہا من شعائر الاسلام وقد کان اکثرہم لایعرفون اللغۃ العربیۃ ومع ذالک لم یخطب لہم احد منہم بغیر العربیۃ۔
)رسالہ آکام النفائس ملحقہ مجموعہ رسائل الکھنوی ج4ص47 (
بڑے بڑے شہر اور علاقے فتح ہوئے اور اکثر حبشی رومی اور کئی طرح کے عجمی مسلمان ہوئے وہ جمعہ اور عیدوں اور ان کے علاوہ شعائر اسلام کی مجالس میں شریک ہوئے اور ان میں سے اکثر عربی زبان نہ جانتے تھے، اس کے باوجود ان میں سے کسی کے لیے غیر عربی میں خطبہ نہیں دیا گیا۔
مفتی اعظم پاکستان حضرت اقدس مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ خطبۂ جمعہ کا مقصود اصلی صرف وعظ و تذکیر نہیں بلکہ ذکر اللہ اور ایک عبادت ہے اور ایک جماعت فقہاء کی اسی وجہ سے اس کو دو رکعتوں کا قائم مقام کہتی ہے تو اب یہ سوال سرے سے منقطع ہوگیا کہ جب مخاطب عربی عبارت کو سمجھتے ہی نہیں تو عربی میں خطبہ پڑھنے سے کیا فائدہ؟
کیونکہ اگر یہ سوال خطبہ پر عائد ہوگا تو پھر صرف خطبہ پرنہ رہے گا بلکہ نماز اور قرات قرآن اور اذان واقامت اور تکبیرات نماز وغیرہ سب پر یہی سوال عائد ہوجائے گا بلکہ قرات قرآن پر بہ نسبت خطبہ کے زیادہ چسپاں ہوتا ہے کیونکہ قرآن مجید کی غرض و غایت تو اول سے آخر تک ہدایت ہی ہدایت ہے اور وہ تبلیغ احکام الہٰی کے لیے نازل ہوا ہے اور پھر اذان و اقامت اور تکبیرات جن کا مقصد محض لوگوں کو جمع کرنا یا کسی خاص عمل کا اعلان کرنا ہے یہاں بھی یہ سوال بہ نسبت خطبہ کے زیادہ وضاحت کے ساتھ عائد ہوگا کہ حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ کو جانتا ہے نماز کو چلو، نماز کو چلو کی آواز دینی چاہیے یا کم از کم ترجمہ کردینا چاہیے۔
اگر یہ شبہ کیا جائے کہ اذان تو کلمات مقررہ میں ایک اصطلاح سی ہوگئی ہے باوجود معانی نہ سمجھنے کے بھی مقصد اعلان حاصل ہے، تو صحیح نہیں کیونکہ نفس اعلان اور اصطلاح کے لیے تو چند کلمات تکبیر وشہادتین بھی کافی تھے، ان سے اعلان کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے تو پھر سے سارے باقی الفاظ کا کہنا ہی فضول ہوگا۔ لیکن غالبا کوئی سمجھ دار مسلمان اس کو تجویز نہ کرے گا کہ نماز مع قرات و تکبیرات کے اور اسی طرح تمام شعائر اسلام اذان و اقامت وغیرہ کو اردو یا دوسری ملکی زبانوں میں پڑھا جایا کرے بلکہ جانتے ہیں، کہ قرآن مجید کی اصلی غرض اگرچہ تبلیغ احکام ہی ہے، لیکن نماز میں اس کے پڑھنے کی غرض اصلی یہ نہیں بلکہ وہاں صرف اداء عبادت اور ذکر اللہ مقصود ہے اور نماز میں اسی حیثیت سے قرات قرآن کی جاتی ہے تبلیغ و وعظ مقصد نہیں ہوتا اور اگر حاصل ہوجائے تو وہ ضمنا ہے۔
ٹھیک اسی طرح خطبۂ جمعہ کو سمجھنا چاہیے کہ اس کا مقصد اصلی ذکر و عبادت ہے اور وعظ و پند جو اس میں ہے، تبعا ہی حاصل ہوجائے تو بہتر ہے، ورنہ کوئی حرج نہیں، اس لیے قرات قرآن اور تکبیرات واذان وغیرہ کی طرح خطبۂ جمعہ کو بھی خالص عربی میں پڑھنا چاہیے دوسری زبان میں پڑھنا یا عربی میں پڑھ کر ترجمہ کرنا خلاف سنت بلکہ بدعت و ناجائز ہے اور نماز تو اس طرح ادا ہی نہ ہوگی۔
)جواہر الفقہ ج1 ص357، 358(
عقلاء کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ ہر قوم کی زبان اور لغت کو طرز معاشرت اور اخلاق اور عقل و دین میں نہایت قوی دخل ہے اور ہر لغت اور زبان کے کچھ اثرات مخصوصہ ہیں کہ جب کسی قوم اور کسی ملک میں وہ زبان پھیلتی ہے تو وہ اثرات بھی ساتھ ساتھ عالمگیر ہوجاتے ہیں، ہندوستان کی موجودہ حالت کو اب سے پچاس برس پہلے کی حالت کے ساتھ اگر موازنہ کیا جائے تو اس کی تصدیق آنکھوں کے سامنے آجائے گی کہ جس وقت تک ہندوستان میں انگریزی زبان کی یہ کثرت نہ تھی، اس دہریت و تفریح اور آزادی و بے قیدی کی بھی یہ کثرت نہ تھی، سرکاری اسکولوں کے ذریعہ ملک میں اس زبان کو عام کیا گیا تو ایسا ہوگیا کہ گویا ہندوستان کے طرز معاشرت اور اخلاق و تدین سب ہی پر ڈاکہ ڈال دیا۔
زبان کی اشاعت و عموم کے ساتھ ہی ساتھ انگریزی معاشرت یورپین خیالات یورپین آزادی و دہریت وباء کی طرح پھیل گئی اور جس وقت مسلمانوں کی قسمت میں ترقی لکھی تھی تو ان کے لیے بھی عربی زبان کی اشاعت نے وہی کام کیا تھا جو آج غیروں کی زبان کررہی ہے بلکہ اگر تاریخ دیکھی جائے تو بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ عربی زبان نے تمام دنیا کو ایسا مفتوح کیا تھا کہ کوئی خطہ بھی اس کے حلقہ اثر سے خارج نہ رہا تھا۔ اور تقریباً ایک ہزار سال کامل تمام عالم پر ایسی حکومت کی دنیا کی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے یقینا ًعاجز ہے۔
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں عرب و عجم کی زبان پر مفصل کلا م کرتے ہوئے فرمایا ہے:
واعلم ان اعتیاد اللغۃ موثر فی العقل والخلق والدین تاثیرا قویا بینا۔
سمجھ لو کہ کسی خاص زبان کی عادت ڈال لینا عقل اور اخلاق اور دین میں بہت بڑی قوی تاثیر رکھتا ہے جو بالکل ظاہر ہے یہی وجہ ہے کہ ہر بادشاہ اپنی قومی زبان کو اپنی مملکت میں رائج کرنے کے لیے طرح طرح کی کوشش کرتا ہے۔
ہندوستان میں زبان انگریزی کی ترویج اور اس کا سیاسی مقصد:
یورپین اقوام جو آزادی و حریت کی بہت دعویدار ہیں اور مساوات کا دم بھرتی ہیں جس وقت ہندوستان پر قبضہ کرتی ہیں تو ہزاروں طرح کی کوشش کر کے اور کروڑوں روپیہ خرچ کر کے اپنی خاص قومی زبان کو ہندوستان کی معاشرت کا جزو اعظم بنادیتی ہیں ہندوستان میں اب اگرچہ مجموعی حیثیت سے مردم شماری پر نظر ڈالی جائے کل ہندوستانی قلمر و میں شاید پانچ فیصد اشخاص بھی انگریزی جاننے والے نہ نکلیں گے لیکن اس کے باوجود حکومت کی طرف سے جو پرزہ کاغذ چلتا ہے تو انگریزی زبان کے سکہ کے ساتھ چلتا ہے ڈاکخانہ کے تمام کاغذات ریلوے کے ٹکٹ بلٹیاں اور تمام کاغذات تمام عدالتوں کے عام کاغذات جو خاص طور سے ہندوستانیوں ہی کی اطلاع و کاروبار کے لیے جاری کیے جاتے ہیں وہ سب انگریزی زبان میں لکھے جاتے ہیں خلق اللہ اس غیر زبان کی وجہ سے پریشان ہوتی ہے اور اصحاب معاملہ کو محض اس زبان کی دقت کی وجہ سے دو گنا خرچ ترجمانی وغیرہ میں برداشت کرنا پڑتا ہے، مگر حکومت اس کی پرواہ نہیں کرتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا اس پر مجبور ہوگئی کہ انگریزی زبان حاصل کرے اس کے بغیر زندگی بسر کرنا مشکل ہوگیا۔
کوئی پوچھے کہ اس میں کوئی اہل ملک کی مصلحت تھی ؟ہرگز نہیں، محض سیاسی اور وہ یہ کہ اپنے حلقہ اثر کو وسیع کرنا اور طرز معاشرت و تمدن اور اپنی نام نہاد تہذیب کو دنیا میں رواج دینا ہمارے روشن خیال برادر جو علماء سے یہ سوال پیش کرتے ہیں کہ عربی زبان میں خطبہ پڑھنے سے کیا فائدہ؟ کبھی اس طرف بھی نظر عنایت متوجہ فرمائی ہے کہ انگریزی میں ڈاک اور ریل کے ٹکٹ اور ریل کی بلٹی وغیرہ چھاپنے سے کیا فائدہ؟ سفر کرنے والے عموما انگریزی دان نہیں، اگر وہ حکومت کی اس گہری چال پر نظر ڈالتے تو انہیں خطبہ کی عربی ہونے کی حکمت خود بخود معلوم ہوجاتی۔
عربی زبان کی بعض خصوصیات:
اس کے بعد اس پر غور کیجیے کہ یہی وہ بات ہے جس کو یورپ سے بہت پہلے مسلمانوں نے سمجھا اور چونکہ یہ ایک فطری اور طبعی طریقہ اسلامی شعائر کی اشاعت کاتھا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طرز عمل سے اس کو اتنا مؤکد کردیا کہ تمام عمر اس کے خلاف کی ایک نظیر بھی ظاہر نہیں ہوئی۔ اسی کا یہ نتیجہ ہوا کہ تھوڑے ہی عرصے میں عربی زبان نے تمام عالم کو فتح کرلیا اور اس طرح فتح کیا کہ دنیا کی تاریخ میں ا س کی نظیر نہیں ملتی۔ کیوں کہ تاریخ اقوام پر نظر ڈالنے والوں سے پوشیدہ نہیں کہ جس وقت عربی زبان ممالک عجم میں مسلمانوں کی فاتحانہ مداخلت کے ساتھ داخل ہوئی تو بغیر کسی ایسے ناجائز جبروتشدد کے جو آج ہم پر روا رکھا جاتا ہے، عربی زبان کی جاذبانہ محبوبیت سے اس طرح لوگوں کے قلوب میں جگہ لی کہ تھوڑی ہی مدت میں بہت سے ممالک عجم کی اپنی اصلی زبانیں بالکل متروک ہو کر عربی زبان ہی ملکی زبان ہوگئی۔
مصر اور شام میں اسلام سے پہلے رومی زبان رائج تھی مسلمانوں کے داخل ہوتے ہی عربی زبان نے ملکی زبان کی جگہ لے لی، اسی طرح عراق اور خراسان کی وطنی زبان فارسی تھی کچھ عرصہ کے بعد متروک ہوکر عربی رائج ہوگئی، چنانچہ عراق کا ایک بہت بڑا حصہ آج تک عربی زبان کا پابند ہے جس کو عراق عرب ہی کے نام سے موسوم کرتے ہیں، البتہ خراسان میں انقلابات وحوادث کی بناء پر پھر فارسیت غالب ہوگئی، ممالک مغربی یورپ وغیرہ میں بربری زبان رائج تھی وہاں بھی عربی زبان نے اپنا سکہ جمالیا،
(صرح بہ ابن تیمیہ فی اقتضاء الصراط المستقیم)
اگر چہ آج مدت مدیدہ کے بعد اب عربی وہاں باقی نہیں رہی لیکن عربی لغت کے بہت سے آثار آج بھی انگریزی اور جرمنی اور فرانسیسی زبان میں موجود ہیں جیسا کہ انگریز مؤرخوں اور بعض منصف مصنفین نے اس کا اقرار کیا ہے۔ نماز اور اذان اور خطبہ وغیرہ کو خالص عربی زبان میں رکھنا اسلام کا ایک اہم مذہبی اور سیاسی مقصد ہے۔
الغرض شعائر اسلامیہ نماز، اذان، تکبیرا، اور خطبے جو مشاہد عامہ میں پڑھے جاتے ہیں ان کو عربی زبان میں کرنے کا سیاسی مقصد ہی یہ تھا کہ جب لوگ نہ سمجھیں گے اور ہر وقت اس سے سابقہ پڑے گا تو خواہ مخواہ عربی زبان سیکھنے کی طرف توجہ ہوگی جو کہ قرآن و حدیث اور علوم شرعیہ کی ترجمان زبان ہے اور جس کا سیکھنا مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے چنانچہ یہی ہوا، اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ زبان کا اثر اخلاق و عادات اور معاشرت معاملات پر بہت گہرا ہوتا ہے عربی زبان کے بھی آثار مخصوصہ اس کے ساتھ ساتھ ہی عالمگیر ہوگئے۔ الغرض ان شعائر اسلامیہ کو عربی زبان میں رکھنے کی حکمت ایک سیاسی غرض ہے اور خطبۂ جمعہ میں خصوصیت سے سیاست کا بھی مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
) جواہر الفقہ ج1ص359 تا363(
مفتی صاحب نے یہ مقالہ پاکستان بننے سے پہلے تحریر فرمایا تھا، اس وقت انگریز کی وجہ سے ہندوستان میں انگریزی زبان کی یہ اہمیت تھی، تو آج اس زبان کی اہمیت انگریزی نظام کی وجہ سے پہلے سے کہیں زیادہ لوگوں کے دلوں میں راسخ ہو چکی ہے اسلام بھی یہی چاہتا ہے جہاں یہ جائے تو اس کی قومی زبان عربی بھی ساتھ جائے۔
………)جاری ہے (