مشن نبوت بطریق نبوت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مشن نبوت بطریق نبوت
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اقوام عالم کا یہ شروع سے دستور چلا آ رہا ہے کہ جب اپنے نظریات سے دوسرے لوگوں کو وابستہ کرنے کی ”اجتماعی محنت“ کرتے ہیں تو ایک” تحریک“ وجود میں آ جاتی ہے۔
دنیا بھر میں بے شماردینی، مذہبی ، سیاسی اور قوموں کے حقوق کے لیے غیر سیاسی تحریکیں اٹھیں ہیں۔ تاریخ کا بہت بڑا ذخیرہ ان کی کاوشوں اور کارناموں سے اَٹا پڑا ہے۔
کسی بھی تحریک کی افادیت ، وسعت ،جامعیت اور دائرہ عمل کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے نصب العین ، اغراض و مقاصد اورکارناموں پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔
ہم مسلمان اللہ کے سچے ،آخری اور عالمگیر نبی کے امتی ہیں۔ آپ کی ختم نبوت کے صدقے” مشن نبوت“ کو ”طریق نبوت“ پر تاقیامت سارے عالم میں پھیلانا اور بچانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
لیکن ہر کسی کی ذمہ داری کا حلقہ محدود ہے۔ جہاں تک اس امت کے علماء کی ذمہ داری کا سوال ہے۔ تو یہ بات واضح ہے کہ علماء کرام کا طبقہ انبیاء کرام کا وارث ہے۔ اس ناتے ان پر ذمہ داریاں بھی اسی حساب سے عائد ہوتی ہیں۔
اس لیے علماء کرام کی ذمہ داری کا حلقہ چند افراد اور مخصوص علاقوں تک محدود نہیں بلکہ سارا عالَم ہے۔ ایک عالِم کے دل و دماغ میں جب تک سارے عالَم کی ذمہ داری کا احساس بیدار نہیں ہوتا اس وقت تک فکری طور پر ایک عام انسان ا ور اس وارثِ نبی میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
وراثتِ نبوی میں ہمیں جہاں”مشن نبوت“ ملا ہے وہاں ”طریق نبوت“ بھی نصیب ہوا ہے۔
مشن نبوت کے تین اہم اجزاء ہیں۔
نمبر1: مخلوق خدا کے عقائد و نظریات کو کفر، شرک ، ارتداد، الحاد ، زندقہ وغیرہ الغرض باطل کی آمیزش سے بالکل پاک و صاف کرنا۔
نمبر2: مخلوق خدا کے اعمال کو رسوم و رواج ، خرافات و بدعات الغرض انسانی و شیطانی وساوس و فریب کاریوں سے پاک و صاف کرنا۔
نمبر3: مخلوق خدا کو عمدہ اور اعلی اخلاقیات کی تعلیم دینا جس میں فرق مراتب کے ساتھ انسانیت کی تعظیم اور تمام معاشرتی اقدار کو حسن سلوک سے آراستہ کیا گیا ہو۔
گویا یوں کہا جا سکتا ہے کہ مشن نبوت کا خلاصہ عقائد و نظریات ، اعمال صالحہ اور عمدہ اخلاقیات میں منحصر ہے۔ ان سب کی اہمیت اور قدر و منزلت سر آنکھوں پر۔ لیکن ان میں جو درجہ عقائد و نظریات کا ہے وہ باقی اجزاء کا بھی نہیں۔
مشن نبوت کی اشاعت اور تحفظ میں طریق نبوت کو ملحوظ رکھنا لازمی عنصر ہے ورنہ مزاج نبوت کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کے فوائد تو کجا، نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔ جس کے ماضی میں تلخ تجربات سے امت بارہا دوچار ہو چکی ہے۔
طریق نبوت بھی مجموعی طور پر تین اجزاء پر مشتمل ہے۔
نمبر1: فکر ….یعنی سارے عالم میں مذہب اسلام پھیل جائے۔ جس کی بدولت لوگوں کو دنیا و آخرت کی ساری کامیابیاں نصیب ہوں۔
نمبر 2: مسلسل سنجیدہ محنت …مستقل مزاجی سے آزمائشی حالات ، اعصاب شکن واقعات اور جان گسل مراحل کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا۔
نمبر3: رجوع الی اللہ ….یعنی فکر و محنت کے بعد نتائج کے حصول کے لیے اللہ کے حضور دل سے دعائیں مانگنا ، تلاوت ، ذکر اذکار اورواجبی و نفلی عبادات میں ہرگز غفلت نہ برتی جائے۔
یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ دورِ حاضر میں تمام دینی تحریکات جس نیک نیتی سے دین کی اشاعت و تحفظ کی محنت میں مصروف عمل ہیں ان سب کا سرچشمہ” مدارسِ اسلامیہ“ ہیں۔
انہی مدارس سے دینی تحریکات ، ادارے ، جماعتیں اور افراد جنم لیتے ہیں۔ بلکہ اگر بنظرِ انصاف دیکھا جائے تو خود مدرسہ بہت بڑی” تحریک“ ہے۔ جو عقائد ونظریات اور اعمال و اخلاق کی تربیت گاہ ہے۔
یوں تو اللہ اپنے دین کا محافظ ہے لیکن درجہ اسباب میں مدارس اسلام کے قلعے ہیں۔
اس لیے مدارس اسلامیہ میں زیر تعلیم و تعلم علماء و طلبا ء اور دیگر تمام دینی تحریکات سے وابستہ قائدین و کارکنان ”احیائے دین“ اور” بقاء اسلام “کے لیے مشن نبوت بطریق نبوت کے اصول پر سختی سے کاربند رہیں۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
آمین بجاہ النبی الکریم۔
محتاج دعا
محمد الیاس گھمن