آپ بیتی……شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 

<

آپ بیتی……شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ ﷫
یہ آپ بیتی مولانا سعید الحق جدون کی کتاب
’’مولاناشیرعلی شاہ مدنی کی درس گاہ میں‘‘سے ماخوذہے۔
میری ابتدائی تعلیم روایتی انداز میں میرے گھر میں ہوئی۔ میرے والد ماجد مولانا قدرت شاہ صاحب سے میں نے ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ پھر انہوں نے مجھے شیخ الحدیث مولانا عبدالحق صاحب رحمہ اللہ کے قائم کردہ مدرسہ انجمن تعلیم القرآن میں داخل کروایا۔ جہاں مولانا قاضی حبیب الرحمن صاحب‘ فاضل دیوبند سے نحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں‘مولانا سیدبادشاہ گل صاحب بانی جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک سے بدیع المیزان اور ترکیب کافیہ اور حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ؒ صاحب رحمہ اللہ سے تحریر سنبٹ پڑھی۔
۴۷۔۱۹۴۶ء میں جب ہندوستان کی سیاست نے پلٹا کھایا او رانگریز بھاگنے پر مجبور ہوئے تو ہندوستان ہندوستانیوں کے لئے رہ گیا اور مسلمانوں نے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔ چنانچہ ان کا مطالبہ منظور ہوا۔اس مطالبے او رتجویز کے مطابق ہندوستان تقسیم ہوا۔پاکستان عالم وجود میں آیا۔
تقسیم سے آبادی کی تبدیلی کا واقعہ پیش آیا۔ جس کے نتیجے میں مسلم آبادی نے ہندوستان چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کی اور ہندو بھارت کی طرف روانہ ہوئے۔اسی اثناء میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے۔ کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے‘ جس کے نتیجے میں دو فرقوں میں ناخوشگوار حالات پیدا ہوئے۔
تقسیم ہند کے وقت ہم شیخ الحدیث مولانا عبد الحق رحمہ اللہ سے کافیہ پڑھ رہے تھے۔ اکوڑہ خٹک کے ہندو اور سکھ باشندوں کو ہندوستان پہنچانے کے لیے سرکاری طور پر بندوبست کیا گیا۔ یہاں ان کے گھروں پر لوگوں نے ہلہ بول دیا۔اور ان کے گھروں اور دکانوں سے سامان لوٹ کر اپنے گھروں کو لے جارہے تھے۔
شیخ الحدیث مولانا عبد الحق نوراللہ مرقدہ نے جب یہ حالت دیکھی،تو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْنَ پڑھ کر رونے لگے اور فرمایا کہ یہ لوگ انتہائی ظلم کررہے ہیں‘‘۔حضرت توایک دور اندیش انسان تھے۔ ان کی نگاہیں مسلمانان ہند کی طرف متوجہ تھیں کہ یہاں پاکستان میں لوگ ان ہندو اور سکھوں پر ظلم وستم کرتے ہیں،تو وہاں ہندوستا ن میں وہ لوگ اس کے بدلے میں مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہاں ہندوستان میں مسلمان ہندوؤں اور سکھوں کے ظلم وتشدد کا نشانہ بنے۔ مسلمانوں کی عورتوں پر سکھوں نے قبضہ کیا۔جن میں سے بہت سی عورتیں آج بھی اس ملک کی آزادی کی خاطر سکھوں اور ہندوؤں کی ملکیت میں ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد یہاں کے مسلمان دیوبند کے مدارس سے کٹ گئے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق ؒ چونکہ دارالعلوم دیوبند میں مدرس تھے اس لئے ان کو بھی دوبارہ وہاں جانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ چنانچہ یہاں شدت سے محسوس کیا جانے لگا کہ پاکستان میں ایسے مدارس ہوں جس سے یہ کمی پوری ہوسکے جو تقسیم ہند سے واقع ہوئی ہے۔ اسی احساس نے ۱۹۴۸ء میں انجمن تعلیم القرآن کو دارالعلوم حقانیہ کے سانچے میں ڈال دیا۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒ نے دیوبند کی تدریس کی بجائے یہاں درس حدیث شروع کیا۔ ظاہر بات تھی کہ طلبا پاکستان او رافغانستان سے ہندوستان نہیں جاسکتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اکوڑہ خٹک کا رخ کیا او ربہت جلد یہاں کافی تعداد ہوگئی۔ آج الحمدللہ اکوڑہ خٹک میں دورہ حدیث کے طلبہ کی تعداد چودہ پندرہ سو ہوا کرتی ہے۔ دنیا کے کسی مدرسہ میں دورہ حدیث کے طلباء کی اتنی کثیر تعداد نہیں ہے‘ موجودہ وقت میں یہ خصوصیت صرف دارالعلوم حقانیہ کو حاصل ہے کہ یہ حضرت شیخ صاحب کے اخلاص کی برکت اوردعاؤں کا ثمر ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒ نے جب یہاں دورہ حدیث شروع کیا تو فنون کی تکمیل کے بعد میں نے یہاں دورہ حدیث میں داخلہ لیا۔ دورہ حدیث میں بخاری شریف‘ ترمذی اور سنن ابی داؤد شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ؒ سے اور باقی کتابیں حضرت مولانا عبدالغفور سواتی رحمہ اللہ سے پڑھیں‘ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒ اپنی تدریسی ‘ تبلیغی ‘ سیاسی اور جہادی خدمات کی وجہ سے معروف ہیں۔ لیکن شیخ الحدیث مولانا عبدالغفور صاحب بھی علمی دنیا میں علم وعمل کے مینار نور تھے ‘ ایسی علمی شخصیات اورپاک دل و پاکباز لوگوں کے لئے فلک برسوں ترستا ہے۔ تب اس طرح کے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ اورایسے لوگ علامہ اقبال کے اس شعر کے اصل مصداق ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے
 
نوری پہ روتی ہے
 
بڑی مشکل سے ہوتا
 
ہے چمن میں دیدہ ور

پیدا

دورہ حدیث کے کچھ اسباق جامعہ اشرفیہ میں :
اس وقت جامعہ اشرفیہ لاہور میں علم و عمل کے بڑے بڑے جبال علم و معرفت تھے۔ چنانچہ میں وہاں گیا اور بخاری شریف کی کتاب الایمان ‘ کتاب العلم اور سنن ترمذی کی کتاب الطہارۃ شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی ؒ سے پڑھی۔ شیخ الحدیث مولاناادریس کاندھلوی ؒ کے سامنے میں نے بخاری شریف کی عبارت پڑھی تو حضرت کاندھلوی ؒ نے حکم صادر فرمایا کہ آج کے بعد مستقل عبارت مولوی شیر علی شاہ پڑھیں گے۔ چنانچہ اس کے بعد میں خود عبارت پڑھتا تھا۔
اور ابو داؤد کا کچھ حصہ زبدۃ العارفین حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب بانی دارالعلو م اشرفیہ سے پڑھا۔مفتی صاحب ایک ممتاز عالم دین اور کہنہ مشق مدرس تھے اور روزانہ اپنے درس میں طلباء کی توجہ تقویٰ اور اعمال صالحہ کی طرف مبذول فرمایا کرتے تھے۔ آپ حضرت کاندھلوی ؒ کے درس بخاری شریف اور درس ترمذی شریف میں تین تین گھنٹے دیوارکو ٹیک لگائے ہوئے جلوہ افروز ہوتے تھے۔
دورۂ تفسیر:
۱۳۷۸ھ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒ نے مجھے اور مولانا سمیع الحق صاحب کو شیخ التفسیر حضرت مولانا حمد علی لاہوری ؒ کی خدمت میں تفسیر کے لئے جانے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ حسب حکم ہم حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے ہاں گئے حضرت لاہوری ؒ ایک عظیم مفسر اور ولی کامل تھے۔ علوم القرآن کے امام تھے۔ انہوں نے جو درس دیا‘ میں وہ درس قلم بند کرتا رہا۔ کیونکہ جاتے وقت حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ؒ نے تاکید فرمائی تھی کہ حضرت لاہوری ؒ کے جملہ ارشادات و فرمودات حرف بحرف لکھ دیا کریں۔ الحمدللہ بندہ نے تقریباً ۹۰ فیصددرس قرآن کو ضبط کرلیا تھا۔ درس سے فارغ ہوتے ہی بندہ مسجد کے صحن میں پٹھان طلباء کو حضرت ؒ کا تمام درس پشتو زبان میں پڑھاتاتھا۔ کبھی کبھار حضرت ؒ اپنی درسگاہ سے اپنے کمرے تشریف لے جاتے تو ہمارے قریب کھڑے ہوجاتے تھے‘ ہم جب حضرت ؒ کو دیکھتے تو ادب و احترام کی وجہ سے کھڑے ہوجاتے‘ حضرت فرماتے کہ بیٹھ جاؤ میں تمہارا درس پشتو میں سنتا ہوں۔ حضرت لاہوریؒ پٹھان طلباپر حد درجہ مہربان تھے‘ فرماتے تھے: کہ یہ مجاہد ہیں زبدۃ القرآن کے نام سے حضرت ؒ کے وہی درسی افادات اور امالی سے ایک حصہ بندہ نے کتابی شکل میں طبع کیا ہے۔
حافظ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی ؒ کے ہاں دورہ تفسیر:
اس کے بعد بندہ امام الاولیاء شیخ المفسرین والمحدثین حضرت مولانا عبداللہ درخواستی ؒ کی خدمت اقدس میں دورہ تفسیر پڑھنے کے لئے حاضر ہوا۔ حضرت درخواستی ؒ چونکہ حافظ الحدیث تھے وہ تفسیر القرآن بالقرآن اور تفسیر القرآن بالحدیث پرزیادہ توجہ فرمایا کرتے تھے اور آیات سے متعدد مسائل کا استنباط فرمایا کرتے تھے۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلے کا پروگرام :
میں معمولاً شیخ الحدیث مولاناعبدالحقؒ کے نام آئے ہوئے مکاتیب کے جوابات تحریر کرتاتھا۔ میرے اس سفر مدینہ طیبہ کا ذریعہ لاہور کے حکیم آفتا ب احمد قرشی مرحوم بنے تھے‘ جو شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی کے فرزند تھے۔ اور مولانا سمیع الحق سے ان کا بڑا تعلق تھا۔ انہوں نے مولانا سمیع الحق کو پیشکش کی کہ آپ مجھے اپنے ادارے سے دو مستعد افراد کے نام دے دیں جنہیں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ بھیجا جائے۔میں ایک عرصہ سے مدینہ جانے اور وہاں کسی طرح اقامت کا درد دل میں لئے تھا۔ اس سے قبل میں خشکی اور بحری راہوں کی خاک چھانتے ہوئے اردن کے شہر عقبہ ‘ ایلہ وغیرہ سے ہوتے ہوئے مدینہ منورہ کی زیارت کرچکا تھا۔ مگر وہاں داخلہ اور قیام کی کوششوں میں کامیاب نہ ہوسکا۔
مولانا سمیع الحق کو یہ آفر ہوئی تو ایک دن مولاناسمیع الحق نے مجھے بتایا کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ والوں نے معلمین کے دوماہی شارٹ کورس کے لئے دومدرسین کے نام حقانیہ سے طلب کئے ہیں۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میرا نام بھی اس میں بھیجاجائے۔ کچھ دنوں بعدرمضان ۱۹۷۲ء ؁ کی بات ہے کہ میں دفتراہتمام آیاتوحضرت شیخ الحدیثؒ ، ناظم صاحب مولاناسلطان محمودؒ کے ساتھ ڈاک ملاحظہ کرنے کے لئے تشریف فرماتھے۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ حضرت نے جامعہ اسلامیہ سے آئے ہوئے خط کو ایک سائیڈ پررکھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ حضرت ؒ چاہتے ہیں کہ میری نظروں میں نہ آئے۔
حضرت ایک تو طویل تدریسی زندگی کے بعد اس عمر میں میری طالب علمی کو دیگر اہم خدمات کے مقابلے میں مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ او ردوسرا وہ نہیں چاہتے تھے کہ دارالعلوم حقانیہ کے کسی بھی کام میں خلل پڑجائے۔ وہ فرماتے تھے کہ اللہ نے چاہا تو مدینہ منورہ حج اور زیارات کے مواقع ملتے رہیں گے۔ شاید مولاناسمیع الحق نے میری بات حضرت شیخ الحدیثؒ کوپہنچائی تھی میں حاضرہوا تو مختلف مکاتیب کے جوابات تحریر کئے۔ درآخرمیں نے خود حضرت سے عرض کیا کہ جی وہ جامعہ اسلامیہ والوں کوبھی کوئی جواب دیناہوگا ا س پر انہوں نے ناظم صاحب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ہاں وہ خط نکالووہ خط جب میں نے پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ خط ہمیں بیس دنوں میں لاہور سے جامعہ اسلامیہ کے مستشارثقافی کے دفترسے پہنچا۔
ان دنوں پنجاب میں سیلاب آئے تھے شاید اسی وجہ سے وہ خط لیٹ پہنچا۔میں نے خط پڑھ کرعرض کیا کہ جی اس کے لئے تو میں اورمولاناانوارالحق صاحب موزوں رہیں گے۔ اس پر مولاناصاحب نے غصیلے لہجے میں کہا کہ ہاں تم تو ہرجگہ کے لئے تیاربیٹھے ہو۔اورفرمایا ادھرمولانامفتی فریدصاحب بھی حج کے لئے گئے ہیں اورتم بھی جاؤتوطلباء کوچھٹی دے دو۔میں نے ڈرتے ہوئے عرض کیا کہ جی دومہینے ہی کی توبات ہے اس بہانے ہم دونوں حج اور عمرہ اداکرلیں گے۔ مولاناصاحب کچھ توقف کے بعد مان گئے۔ اورکہا کہ خط کاجواب لکھو۔ میں نے حضرت سے کہا کہ جی یہ خط کافی لیٹ ہوچکا ہے۔ جواب کے بجائے فون پر بات کرنی چاہئے۔ مولاناصاحب نے اس بات کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ میری طرف سے فون ملاکر بات کرو۔
اُس زمانے میں ڈائریکٹ ڈائلنگ کی سہولت نہ تھی۔ ایکسچینج کے توسط سے نمبرملائے جاتے تھے۔ میں نے اکوڑہ ایکسچینج ملاتے ہوئے لائن مین امیرعلی قریشی مرحوم سے کہا کہ لاہور کا یہ نمبرملائیے تو اس نے ادھر سے جواب دیتے ہوئے کہا باچاجی آپ کو پتہ نہیں کہ سیلاب آئے ہیں لائنیں خراب ہیں۔میں نے اسے کہا کہ قریشی صاحب مدینہ منورہ کاکام ہے اگرہوگیا توتمہارے لئے وہاں جاکردعا کریں گے۔ اس پر لائن مین نے کہا کہ اچھا یہ بات ہے تو کراچی کے لائن سے آپ کو ملادیتاہوں۔
حضرت شیخ الحدیث ؒ نے فرمایا کہ باتیں میری طرف سے کریں۔ اس طرح ٹیلی فون مل گیا میں نے بجائے اردو کے عربی میں مدیرمکتب کے بارے میں کہاکہ أَبْغِی الشَّیْخَ خَالِدَالحَمَداَن ، تو وہاں متعلقہ شخص نے مدیرمکتب کو فون تھمایا۔ جب اسے پتہ چلا کہ جامعہ حقانیہ کا مدیر بول رہا ہے تو اس نے بڑی توجہ اورمحبت کے ساتھ سلام اوردعا کی۔اور فرمانے لگے
کَیْفَ حَالُکَ یَا مَعَالِی الشَّیْخِ
میں نے کہا
کہ أَلْحَمْدُلِلّٰہ نَحْنُ بِخَیْرٍ وسَلَامَۃٍ نَسْأَلُ اللّٰہَ صِحَّتَکُمْ وَسَلَامَتَکُمْ
پھراس نے خود ہی کہاکہ ابھی تک آپ کی طرف سے دونام نہیں آئے۔ میں نے ان کو دو نام دئیے ایک اپنا نام او ردوسرا مولانا انوار الحق صاحب کا نام۔ انہوں نے کہا کہ اُن کے جملہ سندات اور ضروری کاغذات حکومت کے مستند ادارے سے اٹسٹیڈ ہونے چاہئیں۔
چنانچہ ٹیلی فون پر بات کرنے کے بعد میں نے اپنے اور مولانا انوارالحق کے اسناد اٹھائے اورنوشہرہ میں اودتھ کمشنر سے اٹیسٹ کروائے۔ واپس آکر مولاناانوارالحق سے کل لاہورجانے کا پروگرام طے کرناچاہا تو اس نے بتایا کہ میں کل ہی تولاہور سے آیا ہوں لہذابہتریہ ہے کہ آپ میرے اسناد بھی ساتھ لے جاکرجمع کروادیں ‘ انہوں نے مجھے اپنا بریف کیس بھی دیا کہ اس میں اسناد رکھئے اس طرح محفوظ رہیں گے۔
اُس زمانے میں ہماری غربت کا یہ عالم تھا کہ میرے پاس بریف کیس تک نہ تھا۔ اگلے دن میں لاہور پہنچا وہاں اسی دن مدیرمکتب شیخ خالد الحمدان نے ہمارا انٹرویو اور امتحان لیا۔ میراانٹرویولینے کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ کا سلیکشن تو ہوگیا آپ کادوسراساتھی کدھرہے اورکیوں نہیں آیا میں نے ان سے کہا کہ وہ مدرسہ کے کام میں مصروف تھے اس لئے نہ آسکے۔ اس پرا نہوں نے پوچھا کہ اس کی عربی کیسی ہے تومیں نے جواب میں کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ اچھابولتا ہے۔ اب انہوں نے مطمئن ہوکرمولاناانوارالحق کی سلیکشن بھی کروادی۔ اورمجھے بتایا کہ آپ لوگ دوتین دن تک لاہور ہی میں رہیں اس دوران آپ لوگوں کے جانے کے انتظامات ویزہ اور ٹکٹوں وغیرہ کابندوبست ہوجائے گاآپ کویہی سے کراچی بھیجاجائے گا۔
اس پرمیں نے مدیرمکتب سے کہا کہ میں نے تفسیرشروع کررکھی ہے جتنے دنوں تک ہمارے جانے کا پروگرام تشکیل پاتاہے اتنے دن تک میں تفسیرپڑھالوں گا۔ اس دوران ہمارے مدرسے کا نمائندہ روزانہ آپ کے دفترسے رابطہ میں رہے گا۔سوانہوں نے اجازت دے دی۔ بعدمیں میں نے اپنے کسی شاگرد کی ڈیوٹی لگائی ‘ جو ان دنوں وہیں تھا کہلوایا کہ اس دفتر سے رابطہ میں رہیں۔ میں نے واپس آکردوتین نئے جوڑے سلوائے۔ مولاناانوارالحق کو بھی میں نے تیاری کرنے کا کہا۔
کچھ دنوں کے بعدہماراشیڈول اس طرح مرتب ہوا کہ براستہ کراچی سعودی ائیرلائن سے ہمیں جانا ہے۔ مولاناانوارالحق کو شیڈول سے آگاہی دی‘ توانہوں نے بعض ذاتی گھریلو اور مدرسے کی ذمہ داریوں کی بنیادپرنہ جانے کافیصلہ کیا۔ میں پروگرام کے مطابق لاہوردفترپہنچاتوانہوں نے مجھ سے دوسرے ساتھی کے بارے میں پوچھا میں نے ان سے بہانہ کیاکہ وہ بیمار ہے اس پر انہوں نے کہا کہ وہ توہماراطالب علم ہے ان کو لاؤتاکہ اس کا علاج کروائیں۔ آخر میں نے انہیں کھل کر واضح طورپربتایاکہ وہ نہیں جاسکتے۔ اب انہوں نے متبادل مانگامیں نے دارالعلوم حقانیہ کے فاضل مولانا عبدالقہار کا نام پیش کیاجوانہوں نے قبول کیا تاہم اس کے پاس پاسپورٹ نہ تھااوروہ مقررہ مدت کے اندرپاسپورٹ نہ پیش کرسکا۔
ہمارے ایک دوسرے ساتھی سیداصغرعلی شاہ صاحب نے بھی مجھ سے کافی اصرار کیا کہ میرا نام متبادل طورپردیاجائے لیکن میں نے انہیں سمجھایا کہ متبادل کے لئے حقانیہ کا فارغ التحصیل اور حاملِ سند ہونا شرط ہے۔بہرصورت اسطرح دوسری سیٹ ضائع ہوگئی۔
مدینہ منورہ کی روانگی :
مجھے رمضان کے آخری عشرے میں کراچی بھیجاگیا جہاں دو تین دن میں اپنے ایک مخلص دوست حضرت مولانا عبداللہ کاکاخیل مرحوم کے ساتھ مقیم رہا۔ عیدکے ایام قریب تھے ‘ مجھے اس نے عید پاکستان میں گزارنے کا مشورہ دیا لیکن میں نے اسے کہا کہ جیسے بھی ہو میں پاکستان سے نکل کر مدینہ منورہ پہنچنا چاہتاہوں۔ میرا شوق اورجذبہ بڑے عروج پرتھااس لئے کہ اس سے قبل میں بری راستے سے حرمین شریف بڑے مصائب اورتکالیف کاٹ کرپہنچاتھا۔ کراچی میں سعودی ائیرلائن والوں نے مجھے براستہ ریاض ٹکٹ دیا۔
ریاض سے آگے جدہ مجھے دو دن بعد جانا تھا۔ کراچی سے جب میں جہاز میں سوار ہوا تو میرے ساتھ والی سیٹ پرایک عرب بیٹھاتھا۔جس نے میرے ساتھ گفتگوکی اورمیرے سفر کی نوعیت کے بارے میں پوچھا۔ میں نے اسے اپنے جانے کا مقصد بیان کیا تووہ بہت خوش ہوا۔ پھراس نے مجھ سے پوچھاکہ کراچی میں اس نے ایک مولوی صاحب کے پیچھے نماز پڑھی۔ وہ بڑازبردست مقرر تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ مولانااحتشام الحق تھانویؒ تھے۔اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ وہ وزارت پٹرولیم میں آفیسرہے۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ میراٹکٹ ریاض کا ہے۔ ریاض سے قبل جہاز دمام میں اترے گا۔ آپ اگرمیراٹکٹ ریاض کے بجائے جدہ کردیں تونہایت مشکوررہوں گا۔ اس نے کہاکہ ’’اَبشِر‘‘ یہ کون سی مشکل بات ہے۔
دمام ائیرپورٹ پراترکراس نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کاکہااس کے استقبال کے لئے کافی افسران اورخدام آئے تھے۔ وہ مجھے سعودی ائیرلائن کے دفترلے گئے۔ جہاں معلوم ہوا کہ دمام سے جدہ کیلئے دوگھنٹے کے بعد فلائٹ ہے۔ اس نے اپنے اثررسوخ سے میری فلائٹ بجائے ریاض کے جدہ کردی۔ میں نے دمام کے ایئرپورٹ کی مسجد میں غسل کرکے احرام پہنا‘ اور دو رکعت نماز پڑھ کر عمرہ کی نیت کی۔ اور ذکر واذکارمیں مصروف رہا ‘ اذان فجر کے وقت جدہ پہنچا اس وقت جدہ کا پرانا ایئرپورٹ جدہ کے قریب تھا۔ ایئرپورٹ کے متعلقہ امور سے فارغ ہوکر باہر نکلا تو لوگ فجر کی نماز ادا کرچکے تھے۔میں نے بھی ایک جگہ جائے نماز بچھا کر نماز پڑھی۔ پھر مکہ معظمہ پہنچ کر مناسک عمرہ ادا کئے اور عازم مدینہ ہوا۔زیارت سے فراغت پر جامعہ پہنچا۔
جامعہ اسلامیہ کے کلیۃ الشریعۃ میں داخلہ :
مَیں پاکستان سے جانے والے ساتھیوں میں سے جامعہ اسلامیہ پہنچنے والا پہلا فردتھا۔ وہاں پہنچ کر مدیر القبول والتَّسْجِیْلِ نے مجھے کہا کہ تمہاری عمر مقررکردہ حد سے متجاوزہے۔ اور میرے کاغذات پراس نے لکھا
سِنُّہٗ قَدْتَجَاوَزَ مِنَ السِّنِّ المُحَدَّدِ للالتحاق
اس پر میں نے رئیس الجامعہ معالی الشیخ عبدالعزیز بن باز سے رابطہ کیا تو اس نے میری درخواست پر
لکھا یُسَامَحُ بِأَمْثَالِ ھٰؤلاءِ
اس کے بعد جب میں مدیرداخلہ کے پاس گیا تو اس نے مجھے لغت عربی میں داخل کرانا چاہا۔ میں نے اس کے ساتھ اس بات پر تکرار کیاکہ ہم توالحمدللہ عربی پر اتناعبوررکھتے ہیں کہ اپنے بلاد میں طلباء کوپڑھاتے ہیں۔
اس دوران ہماری یہ باتیں وہاں قریب بیٹھے جامعہ اسلامیہ کے استاد شیخ مجذوب جوشام کارہناوالاعالم اورشاعر تھا سن رہاتھا۔ اس نے ہمارے بیچ آکرمدیر کو سمجھایا کہ یہ طالب علم صحیح کہہ رہا ہے ‘ اس کی باتوں سے تمہیں عربی میں اس کی مہارت معلوم نہیں ہورہی ؟ اس طرح مجھے کلیۃ الشریعہ میں داخلہ مل گیا۔ اوربعدمیں میری وجہ سے دیگرپاکستان سے آنے والے آٹھ افراد کو بھی کلیۃ الشریعہ میں داخلہ دلوایا گیا۔ ہمارے ساتھیوں میں صرف ایک طالب علم مولوی بشیر احمد صاحب جوآج کل اسلام آباد سے ’’نداء الاسلام‘‘ نامی رسالہ نکالتاہے نے کلیہ الدعوۃ واصول الدین میں داخلہ لیا۔
اس زمانہ میں جامعہ اسلامیہ میں کلیۃ شرعیۃ اور کلیہ الدعوہ واصول الدین دو کلیات ہوتے تھے۔اس کے علاوہ دیگرکلیات نہ تھے۔کلیۃ الشریعہ میں چار برس تک پڑھنے کے بعد اس کی تکمیل ہوئی۔ توپھر جامعہ والوں نے ہمیں واپس بھیجناچاہا۔
ماجستیر میں داخلہ :
اس دوران جامعہ میں ماجستیرشروع ہوا۔ اس کے داخلے کے لے نوٹس بورڈ پرشیڈول جاری ہوا۔اس زمانے میں مولانامصطفی حسن صاحب ؒ جو دارالعلوم حقانیہ کے اساتذہ میں سے تھے وہ بھی وہیں پڑھتے تھے۔میں نے انہیں کہاکہ کیوں نہ ہم بھی ماجستیر میں داخلے کیلئے اپنے نام بھیجیں۔لیکن اس نے میری بات کو رَد کرتے ہوئے کہا کہ ماجستیر میں صرف سعودیوں کوداخلہ دیاجاتا ہے۔ میں نے کہا کہ درخواست دینے میں کیاحرج ہے۔لیکن باوجود اس کے وہ نہ مانا۔میں نے اپنی طرف سے درخواست لکھ کر جمع کی۔ ایک ہفتے بعد اعلان ہوا کہ ماجستیرمیں داخلے کے لئے شفوی امتحان فلاں تاریخ کوہوگا۔ مقررہ دن پرمیراامتحان بھی لیاگیا۔
میرے ممتحن نے مجھ سے پوچھاکہ آپ نے تفسیر میں کیا پڑھا ہے؟ اس کامطلب جامعہ کے کلیۃ الشریعہ میں پڑھنے کے اعتبارسے تھامیں اس کامطلب نہ سمجھ سکا۔ میں نے اسے جواباً کہا تفسیرجلالین اورتفسیربیضاوی ہے۔ وہ اس جواب پربڑاخوش ہوا۔اس نے مجھ سے سوال کیا کہ
وَیَدْرَوؤعَنْھَاالعَذَاب
کاکیامعنی ہے۔میں نے جواب میں یدفع عنھاالعذاب کہا۔ اورمزیدوضاحت کے لئے حدیث بیان کی کہ
اِدْرَءُ وا الحُدُوْدَ مَااسْتَطَعْتُم
پھراس نے دوسرا سوال کیاکہ
رَبَّنَااٰتِنَافِی الدُّنْیَاحَسَنَۃً
امرکاصیغہ ہے اورامرکامعنی ہے
قَوْلُ القَائِلِ لِلْمُخَاطَبِ عَلَی سَبِیْلِ اْلِاسْتِعْلَاءِ اِفْعَلْ ٰ،
یہاں توانسان اللہ سے کم تر،عاجزومخلوق ہے۔ توپھرامرکامعنی کس طرح صحیح ہوگا۔ میں نے اسے جواب دیا کہ امرکے سولہ معانی ہیں۔ بہرصورت اس طرح میراامتحان مکمل ہوا۔ بعدمیں مولانامصطفیٰ حسن نے مجھ سے امتحان کے بارے میں پوچھامیں نے اسے ساری صورتحال سے آگاہی دی۔کچھ دنوں بعد ماجستیرکے داخلے میں کامیاب طلباء کی فہرست آویزاں ہوئی پاکستان سے گئے ہوئے ہمارے ۹؍افراد کی جماعت میں سے صرف میرا داخلہ ہوا۔ ماجستیرمیں ہماراوظیفہ بھی بڑھ گیا۔ہم ماجستیرمیں پڑھ رہے تھے کہ اس دوران جامعہ میں دکتورا بھی شروع ہو گیا۔ جب ہم نے ماجستیرکی تکمیل کی تومیں نے دیکھا کہ جامعہ اسلامیہ کے غیرملکی طلباء کے کاؤنٹرپرمیراپاسپورٹ رکھا ہوا ہے۔
میں نے جب واپسی کاتصورکیا توغم اورخفگی کی کوئی حد نہ رہی۔ شیخ عبداللہ العقلا اس زمانے میں وکیل شؤن الحرمین تھے اس کے ساتھ میری شناسائی اورربط وتعلق اس وجہ سے کافی پُرانی تھی کہ میں دوران حج وعمرہ حرم شریف میں پاکستان وہندوستان سے آئے ہوئے حجاج کومناسک حج بیان کرتاتھا۔ میں اوردیگرماجستیرمکمل کرنے والے غیرملکی طلباء جن کے بارے میں خروج کا فیصلہ ہواتھا ‘ اس کے پاس گئے اورانہیں اپنی خواہش سے آگاہ کیا کہ ہم یہاں سے دکتورا کرنے کے خواہش مند ہیں۔
ہمارے بلاد میں اس ترتیب سے اسباق اوردکتورا نہیں ہوتے۔ انہوں نے جامعہ اسلامیہ کے رئیس سے ہماری سفارش کی جوانہوں نے قبول کی۔ اورہمیں دکتورا کے داخلہ امتحان میں بٹھایاگیا۔ جن آٹھ غیرملکی طلباء کی سفارش وکیل شؤن حرمین نے کی تھی ان میں چارکامیاب ہوئے جن میں ایک میں بھی تھا۔ اس طرح چارسال دکتورا میں لگے۔
دکتورا کے رسالہ تفسیر حسن بصری کا مناقشہ:
جب میں نے دکتوراکارسالہ تفسیرحسن بصریؒ مکمل کیا توجامعہ نے میرے مناقشے کیلئے دکتورربیع ہادی مدخلی کومقررکیا۔ موصوف کو میں پاکستان کے دورے پر آنے کے موقع پر حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کی حیات میں دارالعلوم حقانیہ بھی لایاتھا۔میں نے اپنارسالہ اس کے پاس جمع کیا۔
جامعہ کا دستوریہ تھا کہ جب رسالے کی تکمیل ہوجاتی توطالب علم پروظیفہ بھی بندکر دیاجاتا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد رمضان کے مہینے میں حرم شریف میں میرے فضیلۃ الشیخ دکتور عبدالعزیز عثمان مشرف نے مجھے اطلاع دی کہ دکتورربیع ہادی مدخلی نے آپ کے رسالے کے مناقشے سے انکار کیا۔ میں اس پر بڑاخفا ہوا کہ اتناعرصہ میرارسالہ عبث روکاگیااگرانکارکرناہی تھاتوابتداء سے کردیتے۔میں اسی وقت حاجی انعام اللہ آف شبقدر مقیم مدینہ کوساتھ لے کر ان کی مسجد جوبیرعثمان کے قریب تھی گیا۔عصر کی نماز میں نے اس کی امامت میں پڑھی۔ میں نمازکے بعد اس کے گھرگیا۔ملاقات کے بعد میں نے اس سے اپنے رسالہ کے بارے میں پوچھا تواس نے کہاکہ فِیْ صَالِحِکَ أَنْ لاَّأُنَاقِشَ رِسَالَتَکَ،ّ (آپکی بہتری اسی میں ہے کہ آپکے مقالے کا مناقش میں نہ بنوں)مجھے بڑی حیرت ہوئی اور اسے کہاکہ آپ مجھے یہ لکھ کر دے۔ اس نے رئیس جامعہ کے نام لکھ کردیا إِنِیْ لَا أُنَاقِشُ رِسَالَۃَ الشَّیْخ شِیْرَعَلَی شَاہ وَإِنِّیْ مُسْتَعِدُّ لأَیِّ رِسَالَۃٍ أُخْرٰیٰ،(میں شیخ شیر علی شاہ کے مقالے کا مناقشہ نہیں کرتا اور اس کے علاوہ کسی بھی مقالے کے مناقشے کیلئے تیار ہوں) میں صبح رئیس کے پاس یہ تحریر لے کے گیاتووہ مجھ پر الٹاغصہ ہوکربرسا اس نے کہا کہ تم بار بار اس کے گھرجاتے ہو اس لئے اس نے تمہارے رسالہ کے مناقشہ سے انکارکیا۔ میں نے اسے بتایاکہ واللہ میں دودفعہ کے علاوہ اس کے گھرگیاہی نہیں ہوں۔ پہلی دفعہ رسالہ جمع کرنے کیلئے اورآخری دفعہ کل رسالہ واپس لینے کیلئے۔
رئیس نے مجھے کہاکہ اگلے جلسے میں ہم آپ کارسالہ کسی دوسرے استاد کو دیں گے۔ پھرمیرے رسالہ کا مناقش حماد سلامیٰ بحیری مقررکئے گئے ‘جومصرکے رہنے والے تھے۔ اس نے مجھے بتایاکہ پہلے میری آنکھوں کاآپریشن ہوگا اس کے بعد جب ٹھیک ہوجاؤں گا توپھرتمہارے رسالے کو دیکھوں گا۔ اس کے بعدمناقشہ ہوگا۔
تقریباًڈیڑھ سال اسی میں گزرا۔ اس کامناقشہ بھی ہراعتبارسے سخت اورمشکل تھا۔سارامناقشہ کیسٹوں میں محفوظ ہے۔ ہرہربات کی وہ جڑ ڈھونڈتا اور اعتراضات کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس میں بھی کامیابی سے نوازا۔ اور میں پہلی پوزیشن کے ساتھ کامیاب ہوا۔ جبکہ دکتورعمر یوسف کمال جس نے تفسیرحسن بصری کا پہلا حصہ مکمل کیا ہے جو آج کل حرم مدینہ منورہ میں مؤذن ہے اس نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔
دکتورا کی تکمیل کے بعد تدریسی سلسلہ :
دکتوراکی تکمیل کے بعد شیخ احمدزہرانی جو شؤن الدعوہ کے مدیر تھے ‘ نے ہماری تعیناتی وزارت عدل میں کروادی۔ وہاں ہماراکام ترجمانی کرناتھا۔ اس ملازمت میں ہمیں مشاہرہ بھی کافی ملتا۔ لیکن میں مطمئن نہ تھا۔ اس لئے کہ یہ ساری علمی تگ ودوہم نے ترجمان بننے کیلئے تونہ کی تھی۔ اسی وجہ سے ہمیں کئی دن تک نیند بھی نہیں آئی۔ آخر شیخ زہرانی کے پاس ہم دوبارہ گئے توانہوں نے کہا کہ اگرآپ یہاں پرخوش نہیں توپھرآپ کو پاکستان کے کسی دینی مدرسے میں تدریس کیلئے بطورمبعوث بھیجاجائے گا۔میں اس پر بڑاخوش ہوا۔
میں نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے دارالعلوم حقانیہ بھیجا جائے۔ لیکن انہوں نے بتایا کہ ہم اسی طرح آپ کو نہیں بھیج سکتے ؂ لَاَنُرْسِلُ مَبْعُوْثَنَااِلَّابِالطَّلَبَ( ہم کسی کے طلب کیے بغیر اپنے مبعوث نہیں بھیجتے)ہمارے پاس پاکستان کی فائل ہے اس کومنگواکر دیکھتے ہیں کہ کن کن مدارس نے ہم سے اساتذہ طلب کئے ہیں۔ فائل منگوائی گئی تو اس میں پاکستان کے دومدارس دارالعلوم کراچی اورجامعہ ابی بکر کراچی کی طرف سے طلب آئی تھی۔ انہوں نے مجھے ان دو میں سے کوئی ایک منتخب کرنے کااختیار دیا۔ میں نے دارالعلوم کراچی کوترجیح دی۔ اس طرح مجھے پاکستان میں تعینات کرکے بھیجاگیا۔یہاں جب واپس آیا تو شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالحق (رحمۃ اللہ علیہ رحمۃً واسعۃً) کو خبرہوئی تووہ بڑے خفا اورناراض ہوئے۔ بعد میں میں نے ان کوساری صورتحال تفصیل سے بتائی کہ میں احسان فراموش نہیں ہوں اگرمجھے معلوم ہوتا تومیں اپنی طرف سے خود حقانیہ کیلئے درخواست لکھ کرجمع کرتا۔ انہوں نے پھرمطمئن ہوکرفرمایا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ سے مانگوں گاکہ تمہیں حقانیہ لے آئے۔دارالعلوم کراچی میں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد شیخ احمدزہرانی پاکستان کے دورے پرکراچی آیا تواس نے میرے نام رقعہ بھیجا کہ فلاں جگہ آکر مجھ سے ملومیں ملاقات کیلئے اپنے ہمراہ حضرت مولانامفتی محمد زرولی خان کو بھی لے کرگیا۔اس نے شیخ زہرانی کو کافی تحفے تحائف دئیے اور ساتھ ہی اس سے درخواست کی کہ مجھے جامعہ احسن العلوم میں تعینات کرے۔ دارالعلوم کراچی میں کافی شیوخ ہیں ہمارامدرسہ احسن العلوم اس اعتبار سے یتیم ہے۔ انکی ہمارے ہاں کافی ضرورت ہے۔ شیخ زہرانی نے جاتے ہی میرا تبادلہ جامعہ احسن العلوم کراچی کردیا۔شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالحقؒ کے مرض وفات میں مولانامنصور الرحمان صاحب (جو شیخ الحدیث مولانا زرولی خان صاحب کے خصوصی رفقاء میں سے ہیں)ان کی عیادت کیلئے ہسپتال گئے توانہوں نے میرے بارے میں ان سے تفصیلی پوچھاکہ کون کون سی کتابیں پڑھاتاہے اورپھر اس مجلس میں فرمایا کہ ہم بھی اللہ سے مانگیں گے کہ شیرعلی شاہ حقانیہ واپس آئے ‘کچھ عرصہ بعد سعودی سفیر کے اثرورسوخ کواستعمال کرتے ہوئے مولاناجلال الدین حقانی نے منبع العلوم میرانشاہ میں میری تعیناتی کروائی۔ آخرکار شوال۱۴۱۷ھ میں حضرت مولاناسمیع الحق صاحب کی کوششوں سے دارالعلوم حقانیہ میری واپسی ہوئی۔یقینایہ حضرت شیخ الحدیثؒ کے منہ کا گفتہ تھاجوسچ بن کرسامنے آیا۔ قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید