ایصالِ ثواب

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
ایصالِ ثواب
……مولانا عبدالغفار اٹکی﷾
اللہ تعالی نے بندہ مومن کے لیے بڑی آسانیاں پیدا فرمائی ہیں چنانچہ آخرت تو ہے ہی مومن کے لیے کہ آخرت میں ہی اللہ تعالی کی صفت رحیم کے تحت رحمت خاصہ کا ظہور ہوگاجس کی وجہ سے جنت مومن کامقدر بنے گی باقی دنیا ہو یا برزخ ان دونوں جہانو ں میں مومن کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ دنیا میں نیکی کرتے تب بھی ثواب ملتا ہے اور برزخ میں جاکر اگر چہ خود نیکی نہیں کر سکتاتاہم اگر کوئی اس کے لیے نیکی کر تو اس کا ثواب بھی ملتا ہے پہلی بات میں تو اتفاق ہے کہ دنیا میں مومن جونیکی کر ے اس کا ثواب ملتا ہے۔
لیکن دوسری بات میں غیر مقلدین نےبے تکی سی تقسیم کر دی ہے کہ تلاوت ِقرآن کے علاوہ دیگر نیکیو ں کاثواب تو میت کو پہنچتا ہے لیکن تلاوت کاثواب نہیں ملتا۔ تلاوت ِقرآن کا ایصا ل ِ ثواب ناجائزاور غلط ہے۔
چنانچہ تفسیر احسن البیان میں ہے۔ )وان لیس للانسان الاماسعیٰ( اس آیت سے ان علماءکا استدلال صحیح ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن خوانی کاثواب میت کو نہیں ملتا۔
) تفسیر احسن البیا ن ص691 (
اسی طرح فتاویٰ اصحاب الحد یث میں ہے :
صحیح موقف یہی ہے کہ قرآن پڑھنے کا میت کو ثو اب نہیں پہنچتا۔
)فتاویٰ اصحاب الحدیث ج1 ص(157
جبکہ اہل السنت والجماعت کاموقف یہ ہےکہ دیگر عبادات کی طرح تلاوت قرآن کریم کاایصال ِثواب درست بھی ہے اور میت کو ثواب پہنچتا بھی ہے۔
اہل السنت والجماعت کے یوں تو بکثرت دلائل اس موضوع پر موجود ہیں اور علماء کرام نے اپنی گرانقدر تصنیفات بھی امت کے سپرد کی ہیں۔ ذیل میں ہم اہل السنت والجماعت کے دلائل ذکر کر تے ہیں۔
حدیث نمبر1 :
علاءبن اللجلاج کہتے ہیں کہ میر ے والد نے مجھے وصیت کر تے ہوئے کہا کہ جب میں مر جا ؤں تو میر ے لیے لحد بنا نااو ر جس وقت مجھے لحد میں رکھ دو تو بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ کہنا پھر مجھ پر مٹی ڈالنا اور پھر اس کےبعد سر کی جانب سورۃ بقر ہ کاابتدائی اور آخری حصہ تلاوت کرنا کیونکہ میں نےرسول اللہ صلی اللہ کو ایسےارشاد فرماتے ہوئےسناہے۔
)رواہ الطبرانی بسند صحیح ،المعجم الکبیر ج 8 ص219(
حدیث نمبر 2:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ جب کوئی مسلمان مر جائے تو اس کواپنےپاس روک کے نہ رکھو بلکہ جلدی سے اسے اس کی قبرتک پہنچا دو اورپھر اس کے سر ہانے کھڑے ہو کر سورۃ الفاتحہ اور پاؤں کی طرف کھڑے ہو کر سورۃالبقرہ کا آخری رکو ع پڑھناچاہیے۔
)رواہ الطبرانی بسند صحیح،المعجم الکبیر ج6 ص255(
حدیث نمبر3:
حضرت شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں انصا ر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مردے کے پاس سورۃ بقرہ کی تلاوت کر تے تھے۔
)مصنف ابن ابی شیبۃ، ج7 ص113 (
مذکورہ بالااحادیث میں مطلقاًتلاوت کاحکم نہیں دیا گیا بلکہ قبر کے پاس کھڑے ہو کر تلاوت کر نے کی تاکید کی گئی جس سے معلو م ہو تا ہے کہ شریعت ِمطھرہ کامقصود محض تلاوت کروانانہیں بلکہ تلاوت کے ذریعے مردے کو فائدہ پہنچانا بھی ہے
حدیث نمبر 4:
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جو شخص قبرستان سے گزرے اور گیارہ مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھ کر اس کاثواب)قبرستان کے اہل ایمان(مردوں کو بخش دے تو اللہ تعالی اس کو مردوں کی تعداد کے برابر ثواب عطاء کر تے ہیں۔
) کنزالعمال ج15 ص276 (
حدیث نمبر 5:
حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان نقل کرتے ہیں کہ جس نے قبرستا ن میں داخل ہو نے کے بعد سورۃ فاتحہ ،سورۃ اخلاص اور سورہ تکاثر پڑ ھ کر کہا کہ میں اپنے تمام پڑھے ہوئے کا ثواب اس قبر ستان کے اہل ایمان مردوں اور عورتوں کو ایصا ل ثواب کر تا ہو ں تو وہ سارے مردے اللہ تعالی کے ہاں اس کے لیے سفارشی بنیں گے۔
)شرح الصدور ص311 باب فی قراۃالقرآن للمیت اوعلی القبر (
حدیث نمبر 6:
حضرت انس رضی اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان نقل کرتے ہیں کہ جو شخص قبرستا ن میں داخل ہو کر سورہ یٰس پڑھے تو اللہ تعالیٰ قبر ستان والوں سے عذاب کی تخفیف فرما تے ہیں اور اس پڑھنے والےکو مردوں کی مقدار کے برابر نیکیاں عطا کرتے ہیں۔
) شرح الصدور33(
حدیث نمبر 7:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبر وں سے ہو اجن کے مردوں کوعذاب ہو رہاتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذاب کی وجہ بیان کرنے کے بعد ایک تر ٹہنی دوحصوں میں چیر کر ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ پھر صحابہ کرام کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں شاید اس وقت تک ان کے عذاب میں تخفیف رہے۔
) صحیح بخاری ص318 (
ٹہنیوں کے خشک نہ ہو نے تک عذاب میں تخفیف ہونے کی بابت علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ امام خطابی کے حوالے سے لکھتے ہیں: س کی وجہ اھل علم کے نزدیک یہ ہے کہ تمام اشیا ء جب تک اپنی اصلی خلقت پر تر وتازہ رہتی ہیں وہ تسبیح کرتی رہتی ہیں یہا ں تک کہ ان کی تری خشک ہو جائے۔جب ایک بے جان چیز کا یہ حال ہے کہ اس کی تسبیح کی وجہ سے مردے کو اتنافائدہ ہوتاہے کہ اس کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے تو اشرف المخلوقات انسان پھر وہ بھی مومن اشرف الکلام قرآن کریم کے پڑھنے سے مردے کو کتنافائدہ ہوگا اس بات کو سمجھنا کسی بھی عقل مند کے لیے مشکل نہیں ہے :چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فاذا خفف عنھما بتسبح الجر ید فکیف بقراءۃالقر آن ) ایضاً(
جب ٹہنی کی تسبیح کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو تی ہے تومومن کی تلاوت قرآن کریم کاکیاعالم ہو گا؟؟
باقی رہا کہ اللہ کے نبی کے علاوہ کوئی اور شخص اگر قبر پرسبز ٹہنی گاڑے تو اس کا کیا حکم ہے۔ ان شاء اللہ کبھی کسی اور مقام پر تفصیل سے عرض کر دیں گے۔
ایصال ثواب کا مسئلہ ائمہ مجتہدین کے ہاں بھی مسلم ہے۔
مسلک احناف :
فتاوی ٰعالمگیری میں ہے : اس بات میں اصل اور قاعدہ یہ ہے کہ انسان اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو دے سکتا ہے ) مثلاً نماز ،روزہ ،صد قہ ،حج ، قراۃقرآن ،ذکر واذکار ،انبیاءعلیھم السلام ،شھداء اولیا ء اور صالحین کی قبروں کی زیارت …… اور ان کے علاوہ دیگر جتنے بھی نیکیوں کے کام ہیں سب کاثواب دوسروں کو بخشا جاسکتا ہے۔
)فتاویٰ عالمگیر ی ج 1 ص283 (
مسلک مالکیہ :
علامہ قرطبی المالکی رحمہ اللہ) م 681ھ ( لکھتے ہیں : میت تک قرات قران کا ثو اب پہنچتا ہے۔
)التذکرۃ فی احوال المو تی وامو رالاآخرۃ ص173 (
مسلک شافعیہ :
علامہ جلال الدین سیوطی شافعی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام زعفرا نی رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے قبر کے پا س قرات کے متعلق سوال کیا تو امام شافعی نے فرمایا لا باس بہ اس میں کو ئی حرج نہیں۔
)شرح الصدور ص311 فی قرأۃالقرآن للمیت او علی االقبر(
اسی طرح امام نووی ) م 676ھ( فرماتے ہیں: مستحب یہ ہے کہ بعد ازدفن قبر کے پاس کچھ دیر کھڑے رہیں میت کے لیے دعاء اور استغفار کر یں۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس کو صراحۃ ً بیان کیا ہے اور اس پرتمام شوافع کااتفاق ہے۔ شوافع کایہ بھی کہنا ہے کہ قبر کے پاس قرآن کریم کی تلاوت بھی کی جائے کہ یہ مستحب ہے اور اگرمکمل قرآن ختم کریں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
)المجوع شرح المہذب ج6ص296 باب حمل الجنازۃ (